سورہ التغابن: آیت 6 - ذلك بأنه كانت تأتيهم رسلهم... - اردو

آیت 6 کی تفسیر, سورہ التغابن

ذَٰلِكَ بِأَنَّهُۥ كَانَت تَّأْتِيهِمْ رُسُلُهُم بِٱلْبَيِّنَٰتِ فَقَالُوٓا۟ أَبَشَرٌ يَهْدُونَنَا فَكَفَرُوا۟ وَتَوَلَّوا۟ ۚ وَّٱسْتَغْنَى ٱللَّهُ ۚ وَٱللَّهُ غَنِىٌّ حَمِيدٌ

اردو ترجمہ

اِس انجام کے مستحق وہ اس لیے ہوئے کہ اُن کے پاس اُن کے رسول کھلی کھلی دلیلیں اور نشانیاں لے کر آتے رہے، مگر اُنہوں نے کہا "کیا انسان ہمیں ہدایت دیں گے؟" اس طرح انہوں نے ماننے سے انکار کر دیا اور منہ پھیر لیا، تب اللہ بھی ان سے بے پروا ہو گیا اور اللہ تو ہے ہی بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thalika biannahu kanat tateehim rusuluhum bialbayyinati faqaloo abasharun yahdoonana fakafaroo watawallaw waistaghna Allahu waAllahu ghaniyyun hameedun

آیت 6 کی تفسیر

ذلک بانہ .................... یھدوننا (46 : 6) ” اس انجام کے مستحق وہ اس لئے ہوئے کہ ان کے پاس ان کے رسول کھلی کھلی دلیلیں اور نشانیاں لے کر آتے رہے ، مگر انہوں نے کہا ” کیا انسان ہمیں ہدایت دیں گے ؟ “ اور یہ وہی اعتراض تھا جو مشرکین مکہ نبی ﷺ پر کرتے تھے۔ یہ بہت ہی گرا پڑا اعتراض ہے اور خالص جہالت پر مبنی ہے۔ یہ لوگ منصب رسالت کو سمجھے ہی نہیں اور اس بات کو سمجھے ہی نہیں کہ رسول اور رسالت نے انسانوں کے سامنے اللہ کی شریعت اور نظام پیش کرنا ہوتا ہے ، لہٰذا ضروری ہے کہ اس نظام کو ایک بشر اپنے اوپرنافذ کرکے لوگوں کو دکھائے۔ یوں رسول کا بشر ہونا انوکھا نہیں بلکہ ضروری تھا۔ یہ رسول ہی ہوتا ہے جو اسلامی شریعت اور قانون پر عمل کرکے دکھاتا ہے ، اگر رسول اور لوگوں کی جنس ہی الگ ہو تو لوگ رسالت کی ایک عملی صورت سے محروم ہوجائیں گے اور ان کے لئے یہ ممکن ہی نہ ہوگا کہ اس کی اطاعت کریں۔ اپنی ذات ، اپنے اخلاق اور اپنی انداز معیشت میں۔ پھر ان کی یہ رائے خود انسان کی حقیقت سے جہالت پر مبنی ہے کہ اللہ نے انسان کو یہ صلاحیت عطا کی کہ وہ عالم علوی سے ہدایت اخذ کرنے کے قابل ہو ، اور اس کے لئے کسی فرشتے کو رسول بنانے کی ضرورت ہی نہ ہو۔ انسان کے اندر تو اللہ کی روح پھونکی ہوئی ہے اور انسان کی اسی روحانیت کی وجہ سے وہ اللہ سے براہ راست رسالت اخذ کرتا ہے۔ اور اس کے فرائض اللہ کی منشا کے مطابق ادا کرتا ہے۔ یہ انسانوں کے لئے ایک ایسا اعزاز ہے جس سے انکار کوئی جاہل ہی کرسکتا ہے جس کو انسان کے مقام و مرتبہ کا علم نہ ہو۔ اگر کوئی جاہل نہیں ہے تو پھر وہ متکبر اور مغرور ہے۔ اور اپنے کبرغرور کی وجہ سے رسول اللہ کی اطاعت نہیں کرتا۔ گویا یہ اعتراض کرنے والے یا جاہل ہیں یا متکبر اور مغرور ہے۔ اور اپنے کبروغرور کی وجہ سے رسول اللہ کی اطاعت نہیں کرتا۔ گویا یہ اعتراض کرنے والے یا جاہل ہیں یا متکبر ہیں اور نظر انداز کرنے کے قابل ہیں۔ ان کے نزدیک یہ تو جائز ہے کہ جنس انسان کے علاوہ کوئی جنس فرشتے وغیرہ آئیں تو ان کی رسالت کو تو یہ ماننے کے لئے تیار ہیں مگر اپنے میں سے ایک انسان کو یہ رسول ماننے کے لئے تیار نہیں۔

صرف یہی وجہ ہے جس کی بنا پر تاریخ میں لوگوں نے رسولوں کا انکار کیا ، حالانکہ ان کے ساتھ دلائل ومعجزات تھے ، اور اعلیٰ تعلیمات تھیں۔ اس جہالت اور کبر کی وجہ سے لوگوں نے کفر وشرک تو اختیار کیا مگر رسالتوں کا انکار کرتے رہے۔

واستغنی ................ حمید (46 : 6) ” تب اللہ بھی ان سے بےپرواہ ہوگیا اور اللہ تو ہے ہی بےنیاز اور اپنی ذات میں محمود “۔ اللہ ان کے ایمان اور ان کی اطاعت سے مستغنی ہوگیا۔ اللہ کو ان چیزوں کی ضرورت کیا ہے ۔ اللہ تو ان چیزوں کا اصلا محتاج ہی نہیں ہے ، وہ غنی ہے اور اپنی ذات ہی میں محمود ہے۔ یہ تو تھے وہ لوگ جنہوں نے کفر اور شرک پر اصرار کررہے ہی۔ کیا یہ بھی اسی انجام کو پہنچنے کے خواہش مند ہیں۔

تیسرا پیراگراف دوسرے پیراگراف کا تتمہ ہے کہ رسالت پر اعتراض کے ساتھ یہ لوگ بعث بعد الموت کے بھی منکر ہیں۔ یہ لوگ مکہ اور مدینہ کے مشرک تھے ، جن کے سامنے رسول اللہ کی دعوت پیش کی جارہی تھی۔ اس پیراگراف میں رسول اللہ کو ہدایت فرمائی جاتی ہے کہ آپ بطور تاکید مزید ان تک یہ بات پہنچا دیں کہ مزاح نہ سمجھو تم نے ایک دن اٹھنا ہے۔ پھر اس دن کا ایک منظر بھی پیش کیا جاتا ہے جس میں مکذبین اور مصدقین کا انجام بتایا جاتا ہے۔ آخر میں ان کو دعوت دی جاتی ہے کہ ایمان لاﺅ اور ہر معاملے میں رسول کی اطاعت کرو اور ہر معاملے کو اللہ کے سپرد کردو۔

آیت 6{ ذٰلِکَ بِاَنَّــہٗ کَانَتْ تَّــاْتِیْہِمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَـیِّنٰتِ } ”یہ اس لیے ہوا کہ ان کے پاس ان کے رسول آتے رہے واضح نشانیاں لے کر“ { فَقَالُوْٓا اَبَشَرٌ یَّہْدُوْنَـنَاز فَـکَفَرُوْا وَتَوَلَّـوْا } ”تو انہوں نے کہا کہ کیا انسان ہمیں ہدایت دیں گے ؟ پس انہوں نے کفر کیا اور رُخ پھیرلیا“ { وَّاسْتَغْنَی اللّٰہُ وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ۔ } ”اور اللہ نے بھی ان سے بےنیازی اختیار کی۔ اور اللہ تو ہے ہی بےنیاز ‘ ستودہ صفات۔“ یعنی ہر قوم کے لوگ صرف اس بنا پر اپنے رسول علیہ السلام کا انکار کرتے رہے کہ یہ تو ہماری طرح کا بشر ہے۔ یہ رسول کیسے ہوسکتا ہے ؟ ان کے اس رویے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بھی ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا کہ تم جدھر جانا چاہتے ہوچلے جائو۔ یہاں پر یہ نکتہ بھی سمجھ لینا ضروری ہے کہ جیسے رسالت کا انکار بربنائے بشریت کہ بشر رسول نہیں ہوسکتا غلط ہے ‘ ایسے ہی بشریت کا انکار بربنائے رسالت کہ رسول بشر نہیں ہوسکتا بھی غلط ہے۔ یہ دراصل ایک ہی سوچ کے دو رُخ ہیں۔ جیسے انسانی جسم کے اندر ایک بیماری کسی ایک عضو پر کینسر کی شکل میں حملہ کرتی ہے تو کسی دوسرے عضوپر اثر انداز ہونے کے لیے کسی اور روپ میں ظاہر ہوتی ہے۔ چناچہ اس نظریاتی بیماری کی ابتدائی صورت یہ سوچ تھی کہ ایک انسان یا بشر اللہ تعالیٰ کا رسول نہیں ہوسکتا۔ چناچہ ہر قوم نے اپنے رسول علیہ السلام پر بنیادی اعتراض یہی کیا کہ یہ تو بشر ہے ‘ یہ بالکل ہمارے جیسا ہے ‘ ہماری طرح کھاتا پیتا ہے اور ہماری طرح ہی چلتا پھرتا ہے۔ فلاں کا بیٹا ہے ‘ فلاں کا پوتا ہے ‘ ہمارے سامنے پلا بڑھا ہے۔ یہ رسول کیسے ہوسکتا ہے ؟ یعنی انہوں نے بشریت کی بنیاد پر رسول علیہ السلام کی رسالت کا انکار کردیا۔ بعد میں اس بیماری نے دوسری شکل اختیار کرلی۔ وہ یہ کہ جس کو رسول مان لیا پھر اسے بشر ماننا مشکل ہوگیا۔ کسی نے اپنے رسول کو خدا بنالیا تو کسی نے خدا کا بیٹا۔ صرف اس لیے کہ اسے بشر ماننا انہیں گوارا نہیں تھا۔ اسی وجہ سے قرآن مجید میں حضور ﷺ سے بار بار کہلوایا گیا : { قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ } الکہف : 110 کہ اے نبی ﷺ ! آپ ڈنکے کی چوٹ پر کہیے اور بار بار کہیے کہ میں تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں۔ ہاں مجھے یہ امتیاز حاصل ہے کہ مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے۔ لیکن قرآن مجید کے واضح اور تاکیدی احکام کے باوجود مذکورہ نظریات کے اثرات ہماری صفوں میں بھی در آئے ‘ بلکہ ہمارے ہاں تو یہ بھی ہوا کہ اس مسئلے کے تدارک کے نام پر کچھ لوگ دوسری انتہا پر چلے گئے۔ چناچہ اس حوالے سے اگر کسی نے ”بڑے بھائی“ کی مثال بیان کی یا اسی نوعیت کی کوئی دوسری دلیل پیش کی تو اس نے بھی حد ادب سے تجاوز کیا۔ ظاہر ہے جب فریقین ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کے لیے بحث و تکرار کریں گے تو نامناسب الفاظ کا استعمال بھی ہوگا اور غلطیاں بھی ہوں گی۔ بہرحال اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے تمام پیغمبر انسان ہی تھے ‘ لیکن پیغمبروں کے بعض خصائص ایسے بھی ہوتے ہیں جو عام انسانوں کے نہیں ہوسکتے۔ حضور ﷺ کی سیرت میں ایسے کئی خصائص کا ذکر ملتا ہے۔ مثلاً جب صحابہ کرام رض نے حضور ﷺ سے عرض کی کہ آپ ﷺ خود تو صوم وصال کئی کئی دنوں کا روزہ اور اس طرح کے یکے بعد دیگرے کئی روزے رکھنے کا اہتمام فرماتے ہیں لیکن ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتے ‘ تو آپ ﷺ نے فرمایا : اَیُّکُمْ مِثْلِیْ ؟ اِنِّیْ اَبِیْتُ یُطْعِمُنِیْ رَبِّیْ وَیَسْقِیْنِ 1 ”تم میں سے کون ہے جو مجھ جیسا ہے ؟ میں تو اس حال میں رات گزارتا ہوں کہ میرا رب مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے“۔ اسی طرح حضور ﷺ کا فرمان ہے : فَوَ اللّٰہِ مَا یَخْفٰی عَلَیَّ رُکُوْعَکُمْ وَلَا سُجُوْدَکُمْ ‘ اِنِّیْ لَاَرَاکُمْ وَرَائَ ظَھْرِیْ 2 ”اللہ کی قسم ! نماز باجماعت میں تمہارے رکوع اور تمہارے سجدے مجھ پر مخفی نہیں ہوتے ‘ میں تو اپنے پس پشت بھی تمہیں دیکھ رہا ہوتا ہوں“۔ صحیح بخاری کی روایات میں وَلَا خُشُوْعَکُمْ کے الفاظ بھی ہیں کہ نماز میں تمہارا خشوع بھی مجھ سے مخفی نہیں ہوتا۔ پھر معراج کے موقع پر آپ ﷺ کا راتوں رات مکہ سے بیت المقدس تشریف لے جانا ‘ اس کے بعد آسمانوں کی سیر کرنا اور سدرۃ المنتہیٰ کے مقام پر خصوصی کیفیات کا مشاہدہ کرنا ‘ یہ سب آپ ﷺ کے امتیازی خصائص ہیں۔ دوسری طرف اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بنیادی طور پر آپ ﷺ انسان تھے اور انسانی داعیات و میلانات رکھتے تھے۔ آپ ﷺ کو چوٹ لگتی تو درد محسوس کرتے ‘ جنگ احد میں زخم آیا تو خون کا فوارہ چھوٹ پڑا ‘ بیٹا فوت ہوا تو آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ کبھی جذبات کی ایسی کیفیت بھی ہوئی کہ زبان سے بددعا بھی نکل گئی : کَیْفَ یُفْلِحُ قَوْمًا خَضَبُوْا وَجْہَ نَبِیِّھِمْ بَالدَّمِ ! 3”اللہ تعالیٰ اس قوم کو کیسے کامیاب کرے گا جس نے اپنے نبی ﷺ کا چہرہ خون سے رنگین کردیا !“ بہرحال بلاشبہ آپ ﷺ بشر تھے ‘ جیسا کہ قرآن مجید ہمیں تکرار کے ساتھ بتاتا ہے ‘ لیکن آپ ﷺ کی بشریت کو اللہ تعالیٰ نے وہ مقام عطا فرمایا تھا جو آپ ﷺ کے شایانِ شان تھا۔۔۔۔ اب اگلی آیت میں ایمان بالآخرت کا ذکر ہے :

آیت 6 - سورہ التغابن: (ذلك بأنه كانت تأتيهم رسلهم بالبينات فقالوا أبشر يهدوننا فكفروا وتولوا ۚ واستغنى الله ۚ والله غني حميد...) - اردو