سورہ التغابن: آیت 5 - ألم يأتكم نبأ الذين كفروا... - اردو

آیت 5 کی تفسیر, سورہ التغابن

أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَؤُا۟ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ مِن قَبْلُ فَذَاقُوا۟ وَبَالَ أَمْرِهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

اردو ترجمہ

کیا تمہیں اُن لوگوں کی کوئی خبر نہیں پہنچی جنہوں نے اِس سے پہلے کفر کیا اور پھر اپنی شامت اعمال کا مزہ چکھ لیا؟ اور آگے اُن کے لیے ایک دردناک عذاب ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alam yatikum nabao allatheena kafaroo min qablu fathaqoo wabala amrihim walahum AAathabun aleemun

آیت 5 کی تفسیر

الم بالکم ............................ حمید (46 : 6) (46 : 5۔ 6) ” کیا تمہیں ان لوگوں کی کوئی خبر نہیں پہنچی جنہوں نے اس سے پہلے کفر کیا اور پھر اپنی شامت اعمال کا مزہ چکھ لیا ؟ اور آگے ان کے لئے ایک درد ناک عذاب ہے۔ اس انجام کے مستحق وہ اس لئے ہوئے کہ ان کے پاس ان کے رسول کھلی کھلی دلیلیں اور نشانیاں لے کر آتے رہے ، مگر انہوں نے کہا ” کیا انسان ہمیں ہدایت دیں گے ؟ “ اس طرح انہوں نے ماننے سے انکار کردیا اور منہ پھیرلیا ، تب اللہ بھی ان سے بےپرواہ ہوگیا اور اللہ تو ہے ہی بےنیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود۔ “

یہ خطاب تمام مشرکین کو ہے کہ اس سے قبل جن لوگوں نے تکذیب کی ان کا جو انجام ہوا ، اس پر ذرا غور کرلو۔ استفہام تو کبھی اس لئے ہوتا ہے کو اقوام سابقہ کے حالات ان مشرکین کو بتا دیئے جانے کے بعد بھی یہ کفر کرتے ہیں تو ان کا یہ رویہ قابل مذمت ہے اور کبھی اس لئے ہوتا ہے کہ دیکھو اور اس طرح توجہ کرو کہ جو کچھ تم کررہے ہو اس کا انجام یوں بھی ہوتا ہے (یعنی مذمت اور توجہ مبذول کرانے کے لئے) یہ لوگ تو امم سابقہ کے احوال سے واقف تھے ، قصے ان کے ہاں مشہور تھے۔ مثلاً عاد ، ثمود اور لوط (علیہ السلام) کی قوم کے بارے میں تو عرب واقف تھے۔ ان کھنڈرات پر سے وہ گزرتے تھے جب وہ شمال اور جنوب کے سفروں پر جاتے تھے۔

دنیا میں ان کا جو انجام ہوا تو ہو اور تو زبان زد عام ہے ، قرآن اس پر یہ اضافہ کرتا ہے۔

ولھم عذاب الیم (46 : 5) ” اور آگے ان کے لئے ایک درد ناک عذاب ہے “۔ یہ آخرت کا عذاب ہے۔ اور اس کا سبب یہ ہے۔

آیت 5{ اَلَـمْ یَاْتِکُمْ نَـبَؤُا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ } ”کیا تمہارے پاس خبریں آ نہیں چکی ہیں ان لوگوں کی جنہوں نے کفر کیا تھا پہلے“ قومِ نوح علیہ السلام ‘ قومِ ہود علیہ السلام ‘ قومِ صالح علیہ السلام اور دوسری اقوام کے واقعات مکی قرآن میں بار بار دہرائے گئے ہیں۔ { فَذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِہِمْ } ”تو انہوں نے اپنے کیے کی سزا چکھ لی“ انہوں نے اللہ کے رسولوں کو جھٹلایا اور اس کفر کی پاداش میں انہیں ہلاک کردیا گیا۔ { وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔ } ”اور ان کے لیے دردناک عذاب بھی ہے۔“ دنیا کی سزا بھگتنے کے بعد ان اقوام کے افراد ابھی تو عالم برزخ میں ہیں ‘ لیکن ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے وہ بھی ان کا منتظر ہے۔ اس بڑے عذاب کا سامنا انہیں آخرت میں کرنا پڑے گا۔ اب اگلی آیت میں ان کے کفر کے سبب کا تجزیہ کیا جا رہا ہے۔

سابقہ واقعات سے سبق لو یہاں گزشتہ کافروں کے کفر اور ان کی بری سزا اور بدترین بدلے کا ذکر ہو رہا ہے کہ کیا تمہیں تم سے پہلے منکروں کا حال معلوم نہیں ؟ کہ رسولوں کی مخالفت اور حق کی تکذیب کیا رنگ لائی ؟ دنیا اور آخرت میں برباد ہوگئے یہاں بھی اپنے بد افعال کا خمیازہ بھگتا اور وہاں کا بھگتنا ابھی باقی ہے جو نہایت الم انگیز ہے۔ اس کی وجہ سوا اس کے کچھ بھی نہیں کہ دلائل وبراہین اور روشن نشان کے ساتھ جو انبیاء اللہ ان کے پاس آئے انہوں نے انہیں نہ مانا اور اپنے نزدیک اسے محال جانا کہ انسان پیغمبر ہو، اور انہی جیسے ایک آدم زاد کے ہاتھ پر انہیں ہدایت دی جائے پس انکار کر بیٹھے اور عمل چھوڑ دیا، اللہ تعالیٰ نے بھی ان سے بےپرواہی برتی وہ تو غنی ہے ہی اور ساتھ ہی حمد وثناء کے لائق بھی۔

آیت 5 - سورہ التغابن: (ألم يأتكم نبأ الذين كفروا من قبل فذاقوا وبال أمرهم ولهم عذاب أليم...) - اردو