سورہ التغابن: آیت 4 - يعلم ما في السماوات والأرض... - اردو

آیت 4 کی تفسیر, سورہ التغابن

يَعْلَمُ مَا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ ۚ وَٱللَّهُ عَلِيمٌۢ بِذَاتِ ٱلصُّدُورِ

اردو ترجمہ

زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا اسے علم ہے جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو سب اس کو معلوم ہے، اور وہ دلوں کا حال تک جانتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

YaAAlamu ma fee alssamawati waalardi wayaAAlamu ma tusirroona wama tuAAlinoona waAllahu AAaleemun bithati alssudoori

آیت 4 کی تفسیر

یعلم مافی ............................................ الصدور (46 : 4) ” زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا اسے علم ہے ، جو کچھ تم چھپاتے ہو ، اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو ، سب اس کو معلوم ہے ، اور وہ دلوں کا حال تک جانتا ہے “۔

اس حقیقت کا ایک مومن کے دل میں بیٹھنا ، اسے معرفت رب عطا کرتا ہے۔ اس طرح اپنے رب کی معرفت حاصل ہونے کے بعد اس کے آفاقی اور کائناتی ایمان کا یہ پہلو بہت مضبوط ہوجاتا ہے۔ وہ یہ شعور رکھتا ہے کہ وہ اللہ کی نظروں میں ہے۔ کوئی ایسا راز نہیں ہے جو اس پر مخفی ہو۔ اس کے ضمیر میں کوئی گہری سوچ بھی ایسی نہیں ہے جس سے اللہ باخبر نہ ہو۔

یہ تین آیات ہی انسان کے لئے اس قدر رہنمائی فراہم کردیتی ہیں کہ انسان اپنی حقیقت کو سمجھے ، اس کائنات کو سمجھے اور اس کائنات اور اپنے خالق کی ساتھ اپنا تعلق جوڑے۔ اللہ سے ڈرے۔ ہر حرکت اور ہر رخ میں۔

اب ہم آتے ہیں اس سورت کے دوسرے پیراگراف کی طرف۔ اس میں ان اقوام ماضیہ کی طرف اشارہ ہے جنہوں نے رسولوں کی تکذیب کی۔ جن کا بڑا اعتراض یہ تھا کہ ایک بشر کو کس طرح رسول بنایا گیا ؟ مشرکین مکہ بھی یہی سوال دہراتے تھے اور اسی وجہ سے حضور اکرم ﷺ اور آپ کی تعلیمات کی تکذیب کرتے تھے۔

آیت 4 { یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ } ”وہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے“ اب دوسری جہت ملاحظہ کیجیے :{ وَیَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ } ”اور وہ جانتا ہے جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو۔“ اور تیسری جہت کیا ہے ؟ { وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۔ } ”اور اللہ اس سے بھی باخبر ہے جو تمہارے سینوں کے اندر ہے۔“ اس آیت کے الفاظ اور مفہوم کے حوالے سے میں بہت عرصہ متردّد رہا کہ بظاہر تو یہاں الفاظ کی تکرار نظر آتی ہے کہ جو کچھ ہم چھپاتے ہیں وہی تو ہمارے سینوں میں ہوتا ہے ‘ لیکن تکرارِ محض چونکہ کلام کا عیب سمجھا جاتا ہے اس لیے مجھے یقین تھا کہ آیت کے تیسرے حصے میں ضرور کوئی نئی بات بتائی گئی ہے۔ پھر یکایک میرا ذہن اس طرف منتقل ہوگیا کہ مَا تُسِرُّوْنَ کے لفظ میں ہمارے ان خیالات و تصورات کا ذکر ہے جنہیں ہم ارادی طور پر چھپاتے ہیں ‘ جبکہ ”سینوں کے رازوں“ سے ہماری سوچوں کے وہ طوفان مراد ہیں جو ہمارے تحت الشعور subconscious mind میں اٹھتے رہتے ہیں اور جن سے اکثر و بیشتر ہم خود بھی بیخبر ہوتے ہیں ‘ بلکہ بسا اوقات ان خیالات کے بارے میں ہم دھوکہ بھی کھا جاتے ہیں۔ چناچہ آیت کے اس حصے کا مفہوم یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ تو تمہارے تحت الشعور کی تہوں میں اٹھنے والے ان خیالات کو بھی جانتا ہے جنہیں تم خود بھی نہیں جانتے ‘ کیونکہ وہ تو تمہارے جینز genes سے بھی واقف ہے : { ہُوَ اَعْلَمُ بِکُمْ اِذْ اَنْشَاَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَاِذْ اَنْتُمْ اَجِنَّــۃٌ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّہٰتِکُمْج } النجم : 32 ”وہ تمہیں خوب جانتا ہے اس وقت سے جب اس نے تمہیں زمین سے اٹھایا تھا اور جب تم اپنی مائوں کے پیٹوں میں جنین کی شکل میں تھے۔“

آیت 4 - سورہ التغابن: (يعلم ما في السماوات والأرض ويعلم ما تسرون وما تعلنون ۚ والله عليم بذات الصدور...) - اردو