سورہ طارق: آیت 5 - فلينظر الإنسان مم خلق... - اردو

آیت 5 کی تفسیر, سورہ طارق

فَلْيَنظُرِ ٱلْإِنسَٰنُ مِمَّ خُلِقَ

اردو ترجمہ

پھر ذرا انسان یہی دیکھ لے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Falyanthuri alinsanu mimma khuliqa

آیت 5 کی تفسیر

انسان کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا اور پھر دیکھتے دیکھتے کیا بن گیا۔ ایک ایسے پانی سے پیدا کیا جو اچھل کر جسم انسانی سے نکلتا ہے اور یہ آتا کہاں سے ہے ، انسان کی پیٹھ اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے۔ یہ پانی مرد کی ریڑھ کی ہڈیوں سے جمع ہوتا ہے۔ اور عورت کی سینے کی بالائی ہڈیوں سے نکلتا ہے اور اس پانی کا بننا اور اس کا یوں خارج ہونا اللہ کے رازوں میں سے ایک راز تھا جسے انسان ابھی تک نہیں جانتا تھا ، گزشتہ نصف صدی میں سائنس نے اپنے اسلوب تحقیق کے مطابق اس کے بعض پہلوﺅں سے پردہ اٹھایا اور معلوم ہوا کہ انسان کی پیٹھ کی ہیوں اور عورت کے سینے کی بلائی ہڈیوں کے اندر عورت کا مادہ منوبہ بنتا ہے اور یہ دونوں مواد جب ایک نہایت ہی محفوظ جگہ میں اکٹھے ہوتے ہیں تو پھر ان سے انسان کی تخلیق ہوتی ہے۔

حقیقت ہے کہ انسان کی ابتدائی پیدائش اور آخری شکل تمام کے درمیان ایک طویل اور خوفناک سفر ہے۔ وہ پانی جو ریڑھ کی ہڈیوں اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے اس کے اور پھر ایک مکمل شکل و صورت کے انسان کے درمیان ایک طویل سفر ہے ، جو عقل بھی رکھتا ہے۔ وہ عضوی ، اعصابی ، عقلی اور نفسیاتی پیچیدہ ترکیب بھی رکھتا ہے۔ یہ سفر جو اچھلتا پانی طے کرکے ایک عاقل وبالغ انسان کی شکل اختیار کرلیتا ہے ، اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان سے باہر ایک قوت ہے جو اس مائع پانی کو ایک سمت میں چلاتی ہے ، جبکہ ابتدائی حالت میں اس پانی کے اندر نہ قدرت ہے نہ کوئی ہیولا ہے ، یہ پانی یہ طویل سفر نہایت ہی عجیب و غریب انداز میں طے کرتا ہے اور اس انجام تک پہنچتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے حکم سے اس پر ایک نگران مقرر ہے کہ وہ اس باریک نکتے کی نگرانی کرتا ہے جس کے اندر نہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے حکم سے اس پر ایک نگران مقرر ہے کہ وہ اس باریک نکتے کی نگرانی کرتا ہے جس کے اندر نہ عقل ہے اور نہ اس کے اندر کوئی ہیولا نظر آتا ہے۔ نہ قوت ہے اور نہ ارادہ ہے اور اس نکتے کے اس طویل سفر میں مسلسل نگران رہتا ہے۔ اس نکتے کے اندر اس قدر عجائب ہیں کہ انسان اپنی شعوری زندگی کے آغاز سے انتہا تک اس قدر عجائب وغرائب نہیں دیکھ سکتا۔

یہ ایک نکتہ نہایت ہی باریک نکتہ ہوتا ہے اور یہ نہایت طاقتور خوردبین سے بھی بمشکل نظر آتا ہے۔ یہ پانی جب ایک بار مرد کی پشت سے اچھل کر نکلتا ہے تو اس کے اندر ایسے کروڑوں نکتے ہوتے ہیں اور ان میں سے ایک نکتہ اپنے مقام تک پہنچتا ہے۔ یہ حقیقت کہ اس نکتے کی کوئی شکل نہیں ہوتی اس کے اندر عقل نہیں ہوتی ، اس کے اندر کوئی قوت نہیں ہوتی ، اور کوئی ارادہ نہیں ہوتا ، اس وقت معلوم ہوجاتی ہے جب یہ نکتہ رحم مادر میں جاکر ٹھہرتا ہے اور پھر غذا کا متلاشی ہوتا ہے۔ اب دست قدرت اس کی رہنمائی یوں کرتا ہے کہ یہ نکتہ اپنے ارد گرد پائے جانے والے رحم مادر کی دیواروں کو کھانا شروع کردیتا ہے اور یہ رحم مادر کے اندر اپنے لئے خون کا ایک حوض بنا لیتا ہے۔ یہ خون اس کے لئے غذا کا کام کرتا ہے۔ جونہی اسے اطمینان ہوتا ہے کہ اس کی خوراک کا انتظام ہوگیا ہے۔ یہ ایک نئی کاروائی شروع کرتا ہے۔ اب یہ تقسیم در تقسیم ہونا شروع کرتا ہے۔ اور مسلسل تقسیم ہوتا رہتا ہے۔ یہ سادہ ، بےعقل اور بےشکل اور ضعیف وناتواں اور قوت و ارادے سے محروم خلیے کو معلوم ہے کہ اسے کیا کرنا ہے اور کس طرف بڑھنا ہے۔ یہ دست قدرت ہی ہے جو اس کی حفاظت کرتا ہے اور اس کی رہنمائی کرتا ہے اور اسے قوت وا ارادہ سے نوازتا ہے کہ اسے کدھر جانا ہے اور کیا شکل اختیار کرنی ہے۔ دست قدرت اسے حکم دیتا ہے کہ وہ اس مسلسل تقسیم کے عمل سے پیدا ہونے والے خلیوں کو اس کام میں لگادے جس کے لئے انہیں پیدا کیا جارہا ہے۔ اس عمارت کے جس حصے کے لئے خلیے پیدا ہوتے ہیں وہ اس عضو کی طرف بڑھتے ہیں جبکہ جسم انسانی کی عمارت مجموعی اعتبار سے بےحد پیچیدہ عمارت ہے۔ تقسیم کے عمل سے پیدا ہونے والے یہ خلیے مسلسل چلتے ہیں اور ان اعضا کی شکل میں جمع ہوتے ہیں اور آخر کاء یہ عظیم ہیکل تیار ہوتا ہے۔ یہ خلیے انسان کے جسم کے اندر عضلاتی نظام تیار کرتے ہیں۔ پھر ان کا ایک گروپ اعضابی نظام تیار کرتا ہے۔ ان کا ایک گروپ شرائین کا جال بچھاتا ہے۔ یہ اور اس عمارت کے دوسرے پیچیدہ نظام تیار ہوتے ہیں لیکن یہ تعمیر وتشکیل کا عمل اس قدر سادہ نہیں ہے جس طرح سمجھا جاتا ہے۔ اس نظام کے اندر نہایت ہی گہری ٹیکنالوجی کام کرتی ہے۔ ہڈیوں میں سے ہر ہڈی ، عضلات میں سے ہر ایک عضلا اور اعصاب میں سے ہر ایک پٹھا ، کسی دوسری ہڈی ، پٹھے کے پوری طرح مشابہ اور یکساں نہیں ہے۔ کوئی پٹھا دوسرے اعصاب کے ساتھ یکساں نہیں ہے کیونکہ یہ عمارت بےحد پیچیدہ ہے۔ اس کی ساخت بھی نہایت عجیب ہے۔ ہر ایک کا فعل اور فریضہ الگ ہے۔ اس لئے ہر خلیہ معلم قدرت سے یہ بات سیکھتا ہے اور اخذ کرتا ہے کہ وہ کس مخصوص عضو کے لئے مخصوص ہے۔ اور اس نے اس عضو کے اندر پھر کیا ڈیوٹی سرانجام دینی ہے۔ اس لئے جسم کے اندر جو چھوٹے سے چھوٹا خلیہ بھی حرکت کرتا ہے ، معلم قدرت کی رہنمائی میں وہ اپنی راہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اس نے کہاں جانا ہے اور اس کی ڈیوٹی کیا ہے اور اس نے کیا کرنا ہے۔ کوئی ایک خلیہ یا ان کا گروپ بھی کبھی اپنی راہ غلط نہیں کرتا۔ مثلاً جو خلیے آنکھ بناتے ہیں ، ان کو معلوم ہوتا ہے کہ آنکھ سر میں ہوتی ہے۔ یہ جائز نہیں ہے کہ وہ پیٹ یا پاﺅں یا بازوﺅں میں آنکھیں بنائیں۔ حالانکہ اگر اللہ چاہے تو وہ پیٹ ، ہاتھ اور پاﺅں میں کسی جگہ آنکھ بنا دے۔ اگر آنکھ بناننے والا پہلا خلیہ ان مقامات کی طرف چلا جائے اور وہاں آنکھ بنادے تو وہ بناسکتا ہے لیکن جب آنکھ کا خلیہ سفر کرتا ہے تو وہ اسی مقام کی طرف سفر کرتا ہے جو اس کے لئے اس انسانی پیچیدہ ہیولا کے اندر مخصوص کردیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس خلیے کو یا ان خلیات کو یہ احکام کون دیتا ہے۔ کون ہے جس نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آنکھ کو اس جگہ ہونا چاہئے اور اس جگہ نہیں ہونا چاہئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ یہ اللہ ہی حافظ و برتر ہے جو ان خلیات کی نگرانی کرتا ہے ، ان کو ہدایت دیتا ہے ، ان کو راہ بتاتا ہے اور ایسی تاریکیوں میں رہا بتاتا ہے جہاں الہل کے سوا کوئی اور راہ بنانے والا ہوتا ہی نہیں ہے۔

یہ تمام خلیے ، اجتماعی طور پر بھی اور انفرادی طور پر اس فریم ورک کے اندر کام کرتے ہیں جو ان کے لئے ان خلیات کا مجموعی نظم طے کرتا ہے۔ اس مجموعی نظم میں اس عضو کی شکل بھی ہوتی ہے اور اس کے اندر وراثتی خصوصیات بھی ہوتی ہیں ، مثلاً اگر انسان کی آنکھ کے خلیات ہیں تو وہ ایک تو انسانی آنکھ بنائیں گے اور دوسرے یہ کہ اس آنکھ کے اندر اس انسان کے آباء و اجداد کی مخصوص شکل و صورت بھی محفوظ ہوگی۔ اس نقشے سے معمولی انحراف بھی اس عضو کے نظام کو خراب کردیتا ہے۔ تو سوال پھر یہی ہے کہ وہ ہستی کون ہے جس نے خلیات کو یہ قدرت دی اور ان کو ایسا منظم عمل کرنے کا طریقہ سکھایا۔ حالانکہ یہ ایک سادہ خلیہ ہوتا ہے اور اس میں عقل وادراک نہیں ہوتا۔ نہ قوت اور ارادہ ہوتا ہے۔ اس سوال کا سیدھا سادھا جواب یہی ہے کہ صرف اللہ کی ذات ہے۔ یہ اللہ ہی ہے جو ان خلیات کو وہ کچھ سکھاتا ہے کہ انسان نہ اس قسم کا نقشہ بناسکتا ہے۔ نہ ایک عضوتیار کرسکتا ہے۔ نہ ہاتھ ، نہ آنکھ ، نہ ان کا کوئی حصہ۔ اس کے برعکس ایک سادہ خلیہ یا خلیات کا مجموعہ یہ کام کر دکھاتا ہے ، جہ نہایت ہی عظیم اور پیچیدہ کام ہے۔

ایک خلیے سے انسان تک اس سفر کے اس سرسری جائزے کے اندر ایک جہاں ہے عجائبات اور انوکھی چیزوں کا ، یعنی اچھلتے پانی سے انسان بننے تک کے مراحل میں۔ اعضاء کا نظام ، ان عجائب کی تفصیلات بیان کرنے سے بھی ہم عاجز ہیں۔ اور نہ ظلال القرآن کے محدود صفحات میں یہ ممکن ہے لیکن یہ سب عجائبات اس بات پر شاہد ناطق ہیں کہ ایک خفیہ دست قدرت ہے جو ان خلیوں سے یہ کام کرواتا ہے۔ ان حقائق سے ایک تو وہ حقیقت ثابت ہوتی ہے جس پر آسمان اور الطارق کی قسم اٹھائی گئی ہے اور یہ قسم اور جواب قسم دوسری عظیم حقیقت کے لئے ایک تمہید ہے کہ تمام انسانوں نے ، اسی طرح ایک بار پھر خود کار انداز سے اپنی قبروں سے اٹھنا ہے لیکن اس دوسری حقیقت کا مشرکین مکہ انکار کرتے تھے جو قرآن کے اولین مخاطب تھے ، جن کے سامنے یہ سورت سب سے پہلے اتری تھی۔

آیت 5 - سورہ طارق: (فلينظر الإنسان مم خلق...) - اردو