سورہ طارق: آیت 17 - فمهل الكافرين أمهلهم رويدا... - اردو

آیت 17 کی تفسیر, سورہ طارق

فَمَهِّلِ ٱلْكَٰفِرِينَ أَمْهِلْهُمْ رُوَيْدًۢا

اردو ترجمہ

پس چھوڑ دو اے نبیؐ، اِن کافروں کو اک ذرا کی ذرا اِن کے حال پر چھوڑ دو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Famahhili alkafireena amhilhum ruwaydan

آیت 17 کی تفسیر

فمھل ................ رویدا (17:86) ” پس چھوڑ دو اے نبی ان کافروں کو ان کو تھوڑی سی مہلت دے دو “۔ جلدی نہ کرو ، اس معرکے کا انجام دور نہیں ہے۔ آپ نے اس معرکے کی حقیقت کو دیکھ لیا ہے ، ان لوگوں کو ذرا سی مہلت بھی ایک بڑی حکمت کے تحت دی جارہی ہے ، اور یہ مہلت قلیل ہی ہے۔ اگرچہ تمہاری پوری زندگی اس میں لگ جائے اس لئے انسانوں کو جو عمر اس دنیا کے لئے دی گئی ہے ، وہ تو قلیل ہی ہے۔

انداز تعبیر محبت بھرا ہے ، اللہ تعالیٰ رسول اللہ سے فرماتا ہے کہ آپ ان کو مہلت دے دیں۔

فمھل…………رویدا (17:86) ” آپ ان کافروں کو مہلت دے دیں ایک تھوڑے وقت کے لئے “۔ گویا نبی ﷺ کے ہاتھ میں ہیں۔ گویا مہلت دینا آپ کے اختیارات میں ہے حالانکہ درحقیقت رسول اللہ ﷺ کے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے ، یہ ایک انداز محبت ہے۔ اور اس انداز سے حضور اکرم رحمت و شفقت کے جھونکے محسوس کرتے ہیں۔ اور آپ کی یہ خواہش کہ فوری کامیابی ہو ، اس فضا میں ڈوب جاتی ہے ، یوں اللہ آپ کے ارادے کو اپنے ارادے میں ملا دیتا ہے اور بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ شاید آپ اختیارات میں شریک ہی ، یوں آپ کے سامنے سے وہ پردے ہٹ جاتے ہیں اور آپ اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں قطعی فیصلے ہوتے ہیں۔ گویا یہ کہا جارہا ہے کہ یہ اختیارات آپ کے ہاتھ میں ہیں لیکن آپ قدرے مہلت دے دیں۔ یہ انداز محبت ہے ۔ نہایت ہی لطیف انداز انس و محبت۔ ایسے انداز گفتگو سے وہ تمام کلفتیں دور ہوجاتی ہیں جو اس راہ میں آپ کو پیش آرہی تھیں۔ تمام تھکاوٹیں ، تمام مشکلات دور ہوجاتی ہیں ، مشکلات اور مشقتوں کے پہاڑ پگھل جاتے ہیں اور فضا پر انس و محبت کے سائے چھاجاتے ہیں۔

آیت 17{ فَمَہِّلِ الْکٰفِرِیْنَ اَمْہِلْہُمْ رُوَیْدًا۔ } ”تو آپ ان کافروں کو ذرا مہلت دے دیجیے ‘ تھوڑی دیر انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجیے !“ ابتدائی مکی دور کی سورتوں میں حضور ﷺ کے لیے یہ ہدایت بہت تکرار کے ساتھ آئی ہے کہ آپ ﷺ ان لوگوں کے لیے جلدی نہ کریں ‘ ان کے بارے میں تھوڑی دیر انتظار کریں : { فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّہُمْط } الاحقاف : 35 ”تو اے محمد ﷺ ! آپ بھی صبر کیجیے جیسے اولوالعزم رسول علیہ السلام صبر کرتے رہے ہیں اور ان کے لیے جلدی نہ کیجیے !“ اس دور میں چونکہ مشرکین ِمکہ ّنے اہل ایمان پر عرصہ حیات تنگ کیا ہوا تھا ‘ اس لیے ان آیات کے ذریعے حضور ﷺ کی وساطت سے اہل ایمان کو بھی بار بار تسلی دی جاتی تھی اور سمجھایا جاتا تھا کہ ابھی ہم ان لوگوں کو کچھ مزیدمہلت دینا چاہتے ہیں۔ چناچہ آپ لوگ ان کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف پر صبر کرتے ہوئے ہمارے فیصلے کا انتظار کریں۔

آیت 17 - سورہ طارق: (فمهل الكافرين أمهلهم رويدا...) - اردو