سورہ طارق: آیت 11 - والسماء ذات الرجع... - اردو

آیت 11 کی تفسیر, سورہ طارق

وَٱلسَّمَآءِ ذَاتِ ٱلرَّجْعِ

اردو ترجمہ

قسم ہے بارش برسانے والے آسمان کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalssamai thati alrrajAAi

آیت 11 کی تفسیر

الرجع کے معنی ہیں لوٹنے کے ، آسمان بار بار بارش برساتا ہے اور الصدع کے معنی پھٹنے کے ہیں اور بارش کے بعد جب زمین سے نباتات اگتے ہیں تو وہ پھٹتی ہے اور اس سے پودے پھوٹتے ہیں۔ یہ دونوں باتیں زندگی کی ایک قسم کا اظہار کرتی ہیں۔ یعنی نباتات اور ان کی پہلی زندگی کہ آسمانوں سے پانی برستا ہے اور پھر نباتات اگتے ہیں۔ یہ تمثیل اس سے زیادہ مشابہت رکھتی ہے کہ نطفے کا پانی اچھل کر برسے ، اور آسمان کے بجائے ریڑھ اور سینے کی ہڈیوں سے نکلے اور رحم کے اندھیروں سے بچہ نمودار ہو۔ گویا ایک ہی زندگی ہے اور ایک ہی منظر ہے ، ایک ہی قسم کی حرکت ، ایک ہی نظام اور ایک ہی قسم کی تخلیق ہے اور دونوں سے ثابت ہوتا ہے کہ دونوں کا صانع ایک ہے۔ اور کوئی معقول انسان یہ دعویٰ نہیں کرسکتا ہے کہ وہ ایسی کوئی تخلیق کرسکتا ہے اور ان تخلیقات کے ہم شکل کوئی مخلوق بناسکتا ہے۔

یہ منظر چمکتے ہوئے ستارے کے منظر کے بھی ہم رنگ ہے۔ ایسے ستارے کی روشنی بھی ظلمتوں کے پردے پھاڑ کر سامنے آتی ہے اور جس طرح یہ روشنی نمودار ہوتی ہے اس طرح چھپے ہوئے راز بھی نمودار ہوں گے گویا یہ مناظر بھی ہم رنگ ہیں۔ اور ان سے بھی ایک ہی صانع کی قدرت کا پتہ چلتا ہے۔

یہ دوکائناتی مخلوقات ہیں جن کی قسم اٹھائی جارہی ہے یا کائناتی حادثات ہیں جن کی قسم اٹھائی جارہی ہے آسمان جو بار بار بارش برساتا ہے اور زمین جو نباتات کے اگنے کی وجہ سے با ربار پھٹتی ہے۔ ان دونوں واقعات یا حادثات کا منظر ، اس منظر کے اندر پوشیدہ اشارات اور خود ان الفاظ صدع اور رجع کی قطعیت اور سختی اور پھر ان کے ساتھ اللہ کی قسم اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ دوبارہ زندگی اور باز پرس قطعی بات ہے۔ مذاق نہیں ہے۔ یا یہ کہ یہ پورا قرآن مجید ایک قطعی بات کرتا ہے اور اس کے اندر کوئی بات محض بات کے لئے نہیں کی گئی۔ اس میں جو تصورات بیان کیے گئے ہیں وہ فیصلہ کن خیالات اور نظریات ہیں اور وہ حق اور سچائی ہیں جن کے اندر کوئی شبہ اور شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ آخری بات ہے ، اللہ کا آخری کلام ہے۔ اس کے بعد کوئی لکام نہیں ہے۔ اور اس کے حقائق میں کوئی کلام نہیں ہے۔ اور زمین وآسماناس پر شاہدعادل ہیں خصوصاً بارش برسانے والا آسمان اور فصلیں اگانے والی زمین۔

ان حقائق کے بیان کے سایہ میں ، کہ تمام انسانوں کو اٹھایا جائے گا اور ان سے باز پرس ہوگی ، روئے سخن حضور اکرم ﷺ اور اس مٹھی بھر جماعت کی طرف پھرجاتا ہے جو مکہ مکرمہ میں نہایت ہی کٹھن حالات سے گزر رہے تھے۔ اور ان کے خلاف اور ان کی دعوت اور تحریک کے خلاف رات دن کی سازشیں ہورہی تھیں۔ اور اس کام کے لئے یہ ہر وقت گھات میں بیٹھے رہتے تھے ، اور اسلامی تحریک کے مقابلے میں مختلف تدابیر اختیار کرتے تھے اور دعوت اسلامی کے پھیلنے کے راستے بند کرتے تھے۔ اس سلسلے میں وہ نئے ہتھکنڈے استعمال کرتے تھے۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ کو تلقین کی جاتی ہے کہ آپ ثابت قدر رہیں اور ان لوگوں کی سازشوں کو کوئی اہمیت نہ دیں۔ ایک وقت تک یہ مخالفت ہوگی اور آخرکار کامیابی آپ کے قدم چومے گی ، اس دعوت کی قیادت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ صبر اور اطمینان سے کام جاری رکھیں۔ اللہ خود تدابیر اختیار کررہا ہے۔

صداقت قرآن کا ذکر رجع کے معنی بارش، بارش والے بادل، برسنے، ہر سال بندوں کی روزی لوٹانے جس کے بغیر انسان اور ان کے جانور ہلاک ہوجائیں سورج چاند اور ستاروں کے ادھر ادھر لوٹنے کے مروی ہیں زمین پھٹتی ہے تو دانے گھاس اور چارہ نکلتا ہے یہ قرآن حق ہے عدل کا مظہر ہے یہ کوئی عذر قصہ باتیں نہیں کافر اسے جھٹلاتے ہیں اللہ کی راہ سے لوگوں کو روکتے ہیں طرح طرح کے مکر و فریب سے لوگوں کو قرآن کے خلاف اکساتے ہیں اے نبی تو انہیں ذرا سی ڈھیل دے پھر عنقریب دیکھ لے گا کہ کیسے کیسے بدترین عذابوں میں پکڑے جاتے ہیں جیسے اور جگہ ہے آیت (نُمَـتِّعُهُمْ قَلِيْلًا ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ اِلٰى عَذَابٍ غَلِيْظٍ 24؀) 31۔ لقمان :24) یعنی ہم انہیں کچھ یونہی سا فائدہ دیں گے پھر نہایت سخت عذاب کی طرف انہیں بےبس کردیں گے الحمد اللہ سورة طارق کی تفسیر ختم ہوئی۔

آیت 11 - سورہ طارق: (والسماء ذات الرجع...) - اردو