سورہ طارق: آیت 1 - والسماء والطارق... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورہ طارق

وَٱلسَّمَآءِ وَٱلطَّارِقِ

اردو ترجمہ

قسم ہے آسمان کی اور رات کو نمودار ہونے والے کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalssamai waalttariqi

آیت 1 کی تفسیر

سورة الطارق ایک نظر میں

اس پارے کے ابتدائیہ میں ہم نے بتایا تھا کہ یہ سورت دراصل انسان کے خوابیدہ احساس پر پے درپے شدید ضربات ہیں ، شدید ترین ضربات اور ایسی بےساختہ چیخ و پکار پر مشتمل ہے ، جو کسی ایسے شخص کو جگانے کے لئے کی جاتی ہے جو غفلت کی نیند میں غرق ہو ، یہ ضربات اور ان کے ساتھ یہ بےساختہ آوازیں کچھ اس مضمون کی ہیں۔ اٹھو ، جاگو ، دیکھو ، توجہ کرو ، غور کرو ، گہری سوچ سے کام لو۔ آخر اس کارخانہ قدرت کا ایک چلانے والا ہے۔ اس کائنات کی پشت پر ایک حکیمانہ قوت کام کررہی ہے۔ یہ پوری کائنات ایک لگے بندھے ضابطے کے مطابق چل رہی ہے۔ دیکھو اس جہاں میں تمہارا امتحان ہورہا ہے۔ تم اپنے اقوال وافعال کے ذمہ دار ہو ، پوری زندگی کا حساب و کتاب تم نے پیش کرنا ہے۔ ایک شدید عذاب بھی تیار ہے اور ایک عظیم نعمتوں بھری جنت بھی موجود ہے جس کا ایک عظیم مملکت کی طرح نظام ہے۔

یہ سورت ان خصوصیات کا نمونہ ہے۔ اس کی ضربات میں اسی طرح شدت ہے جس طرح ان کے مناظر شدید ہیں۔ موسیقی کا انداز بھی شدید ہے۔ الفاظ کا ترنم بھی شدید ہے ، اور معنوی اشارات میں بھی شدت ہے۔ مثلا الطارق ، الثاقب ، الدافق ، الرجع اور الصدع کے الفاظ لفظی اور معنوی اور ترنم میں شدت رکھتے ہیں۔

معنوی سختی کا نمونہ یہ ہے کہ ہر نفس کی نگرانی ہورہی ہے۔

ان کل .................... حافظ (4:86) ” کوئی جان ایسی نہیں ہے جس کے اوپر کوئی نگہبان نہ ہو “۔ اور قیامت کے دن ایسے شدید حالات ہوں گے کہ کسی کے پاس نہ کوئی اپنی طاقت ہوگی اور کوئی مددگار ہوگا۔

یوم تبلی ............................ ولا ناصر (10:86) ” جس روز پوشیدہ اسرار کی جانچ پڑتال ہوگی اس وقت انسان کے پاس نہ خود اپنا کوئی زور ہوگا اور نہ کوئی اس کی مدد کرنے والا ہوگا “۔ اور یہ قرآن کا آخری اور فیصلہ کن بات ہے۔

انہ لقول ........................ بالھزل (14:86) ” یہ ایک جچی تلی بات ہے یعنی مذاق نہیں ہے “۔ پھر اس سورة میں جو دھمکی دی گئی اس میں شدت اور سختی کا انداز شامل ہے۔

انھم ............................ رویدا (17:86)

” یہ لوگ کچھ چالیں چل رہے ہیں۔ میں بھی ایک چال چل رہا ہوں ، پس چھوڑ دو اے نبی ان کافروں کو ایک ذرا کی ذرا ان کے حال پر “۔

جس طرح ہم نے پارے کے مقدمہ میں کہا تھا اس میں وہ تمام موضوعات پائے جاتے ہیں کہ اس کائنات کا ایک الٰہ ہے ، یہ کائنات ایک تدبیر اور تقدیر کے مطابق چل رہی ہے۔ یہ زندگی ایک آزمائش ہے ، انسان یہاں اپنے افعال واقوال کا ذمہ دار ہے اور ایک دن ایسا آنے والا ہے کہ جہاں جزاء وسزا ہوگی وغیرہ وغیرہ۔

جن کائناتی مناظر کو پیش کیا گیا ہے اور جن نظریاتی مقاصد کو پیش کیا گیا ہے ان کے درمیان مکمل ہم آہنگی اور مطابقت ہے۔ اور اس کی تفصیلی فصاحت اس وقت ہوگی جب ہم قرآن کریم کی آیات بھی بحث کریں گے۔ اپنے انداز بیان کے اعتبار سے قرآن کی آیات بو بےمثال حسن رکھتی ہیں۔

تخلیق انسان اللہ تعالیٰ آسمانوں کی اور ان کے روشن ستاروں کی قسم کھتا ہے طارق کی تفسیر چمکتے ستارے سے کی ہے وجہ یہ ہے کہ دن کو چھپے رہتے ہیں اور رات کو ظاہر ہوجاتے ہیں ایک صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ کوئی اپنے گھر رات کے وقت بیخبر آجائے یہاں بھی لفظ طروق ہے، آپ کی ایک دعا میں بھی طارق کا لفظ آیا ہے ثاقب کہتے ہیں چمکیلے اور روشنی والے کو جو شیطان پر گرتا ہے اور اسے جلا دیتا ہے ہر شخص پر اللہ کی طرف سے ایک محافظ مقرر ہے جو اسے آفات سے بچاتا ہے جیسے اور جگہ ہے کہ آیت (لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ يَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ۭ وَاِذَآ اَرَاد اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْۗءًا فَلَا مَرَدَّ لَهٗ ۚ وَمَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّالٍ 11) 13۔ الرعد :11) یعنی آگے پیچھے سے باری باری آنے والے فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم سے بندے کی حفاظت کرتے ہیں انسان کی ضعیفی کا بیان ہو رہا ہے کہ دیکھو تو اس کی اصل کیا ہے اور گویا اس میں نہایت باریکی کے ساتھ قیامت کا یقین دلایا گیا ہے کہ جو ابتدائی پیدائش پر قادر ہے وہ لوٹانے پر قادر کیوں نہ ہوگا جیسے فرمایا آیت (وَهُوَ الَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَهُوَ اَهْوَنُ عَلَيْهِ 27؀) 30۔ الروم :27) یعنی جس نے پہلے پیدا کیا وہ ہی دوبارہ لوٹائے گا اور یہ اس پر بہت ہی آسان ہے انسان اچھلنے والے پانی یعنی عورت مرد کی منی سے پیدا کیا گیا ہے جو مرد کی پیٹھ سے اور عورت کی چھاتی سے نکلتی ہے عورت کا یہ پانی زرد رنگ کا اور پتلا ہوتا ہے اور دونوں سے بچہ کی پیدائش ہوتی ہے تریبہ کہتے ہیں ہار کی جگہ کو کندھوں سے لے کر سینے تک کو بھی کہا گیا ہے اور نرخرے سے نیچے کو بھی کہا گیا ہے اور چھاتیوں سے اوپر کے حصہ کو بھی کہا گیا ہے اور نیچے کی طرف چار پسلیوں کو بھی کہا گیا ہے اور دونوں چھاتیوں اور دونوں پیروں اور دونوں آنکھوں کے درمیان کو بھی کہا گیا ہے دل کے نچوڑ کو بھی کہا گیا ہے سینہ اور پیٹھ کے درمیان کو بھی کہا جاتا ہے وہ اس کے لوٹانے پر قادر ہے یعنی نکلے ہوئے پانی کو اس کی جگہ واپس پہنچا دینے پر اور یہ مطلب کہ اسے دوبارہ پیدا کر کے آخرت کی طرف لوٹانے پر بھی پچھلا قول ہی اچھا ہے اور یہ دلیل کئی مرتبہ بیان ہوچکی ہے پھر فرمایا کہ قیامت کے دن پوشیدگیاں کھل جائیں گی راز ظاہر ہوجائیں گے بھید آشکار ہوجائیں گے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ہر غدار کی رانوں کے درمیان اس کے غدار کا جھنڈا گاڑ دیا جائے گا اور اعلان ہوجائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی غداری ہے اس دن نہ تو خود انسان کو کوئی قوت حاصل ہوگی نہ اس کا مددگار کوئی اور کھڑا ہوگا یعنی نہ تو خود اپنے آپ کو عذابوں سے بچا سکے گا نہ کوئی اور ہوگا جو اسے اللہ کے عذاب سے بچا سکے۔

آیت 1 - سورہ طارق: (والسماء والطارق...) - اردو