سورہ شوریٰ: آیت 7 - وكذلك أوحينا إليك قرآنا عربيا... - اردو

آیت 7 کی تفسیر, سورہ شوریٰ

وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ قُرْءَانًا عَرَبِيًّا لِّتُنذِرَ أُمَّ ٱلْقُرَىٰ وَمَنْ حَوْلَهَا وَتُنذِرَ يَوْمَ ٱلْجَمْعِ لَا رَيْبَ فِيهِ ۚ فَرِيقٌ فِى ٱلْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِى ٱلسَّعِيرِ

اردو ترجمہ

ہاں، اِسی طرح اے نبیؐ، یہ قرآن عربی ہم نے تمہاری طرف وحی کیا ہے تاکہ تم بستیوں کے مرکز (شہر مکہ) اور اُس کے گرد و پیش رہنے والوں کو خبردار کر دو، اور جمع ہونے کے دن سے ڈرا دو جن کے آنے میں کوئی شک نہیں ایک گروہ کو جنت میں جانا ہے اور دوسرے گروہ کو دوزخ میں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wakathalika awhayna ilayka quranan AAarabiyyan litunthira omma alqura waman hawlaha watunthira yawma aljamAAi la rayba feehi fareequn fee aljannati wafareequn fee alssaAAeeri

آیت 7 کی تفسیر

آیت نمبر 7 تا 9 وکذلک اوحینا الیک قرانا عربیاً ( 42 : 7) “ ہاں ، اسی طرح اے نبی یہ قرآن عربی ہم نے تمہاری طرف وحی کیا ہے ”۔ تا کہ تم بستیوں کے مرکزی شہر مکہ کے لوگوں کو ڈراؤ ۔ یہ فقرہ معطوف ہے ، اس فقرے پر جس سے سورت کا آغاز ہوا۔ یعنی کذلک یوحی پر۔ سورت کے آغاز میں آنے والے اس کذلک سے مراد حروف مقطعات تھے۔ یہاں معطوف اور معطوف علیہ کے درمیان مناسبت حروف مقطعات اور قرآن عربی کی ہے۔ یہ مناسبت ظاہر ہے ۔ یعنی یہ حروف عربی ہیں اور یہ قرآن عربی ہے۔ وحی نے ان حروف سے یہ قرآن بنایا ہے تا کہ وہ اپنا مقصد پورا کرے اور غرض وغایت کیا ہے۔

لتنذر ام القری ومن حولھا (42 : 7) “ تا کہ تم بستیوں کے مرکز (شہر مکہ) اور اس کے گردو پیش رہنے والوں کو خبردار کردو ”۔ ام القریٰ سے مراد مکہ مکرمہ ہے۔ اس میں بیت اللہ ، اللہ کا پرانا گھر تھا۔ اللہ نے یہ پسند فرمایا کہ خانہ کعبہ اس آخری رسالت کا مرکز ہو اور اللہ نے اپنی آخری کتاب کے لئے عربی زبان کو منتخب کیا۔ یہ اس کی مصلحت تھی اور وہی اس کو جانتا ہے کہ کیوں۔

اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ “ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کہاں رکھے ”۔

آج جب ہم تاریخی واقعات کا جائز لیتے ہیں اور پوری تاریخ کو چھانتے ہیں ، اس وقت کے حالات اور تقاضوں کو دیکھتے ہیں۔ پھر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ دعوت کس طرح پھیلی اور کن خطوط پر آگے بڑھی اور اس نے کیا کیا نتائج پیدا کئے اور دنیا پر کیا کیا اثرات چھوڑے۔ آج جب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ نے اس سر زمین کو اس مقصد کے لئے کیوں منتخب کیا تھا۔ اور تاریخ کے ایک خاص موڑ پر اس آخری رسالت کے لئے کیوں مکہ مکرمہ کو مرکز ٹھہرایا۔ جبکہ یہ آخری رسالت تھی بھی عالمی رسالت ، تمام انسانوں کے لئے تھی۔ اور جس کے عالمی خدو خال اس کے ابتدائی دنوں ہی سے عیاں تھے۔

حضور اکرم ﷺ کے ظہور کے دور میں پورے کرۂ ارض کے آباد علاقوں کو چار شہنشاہوں نے باہم تقسیم کر رکھا تھا۔ روی سلطنت جو پورے ایشیا کے ایک حصے ، اور افریقہ پر حکمران تھی۔ کسرائے فارس کی مملکت جس کا اقتدار ایشیا کے ایک بڑے حصے ، افریقہ کے ایک حصے پر قائم تھا ، مملکت ہند اور مملکت چین۔ یہ آخر الذکر دونوں شہنشاہتیں اپنے خول میں بند تھیں ، ان کے اپنے عقائد تھے اور صرف چین و ہند کے باہم سیاسی روابط تھے ، چونکہ چین وہند کی مملکتیں اپنے ہی خول میں بند تھیں۔ اس لیے دنیا کے معاشروں پر حقیقی اثر قیصر روم اور کسرائے فارس ہی کی حکومتوں کو حاصل تھا۔

اس دور میں دنیا میں دو مشہور سماوی دین تھے۔ یہودیت اور نصرانیت ۔ یہ دونوں مذاہب اس پوزیشن تک پہنچ گئے تھے کہ یہ کسی نہ کسی حکومت اور مملکت کے زیر اثر ہوگئے تھے۔ ان ادیان پر حکومت کا اثر قائم ہوگیا تھا۔ کسی مملکت پر دین کا اثر نہ تھا بلکہ مملکت دین پر غالب تھی۔ یہ اس لیے کہ ان ادیان کے اندر تحریف و تغیر واقع ہوگیا تھا اور اہل دین بد عمل ہوگئے تھے۔

یہودیوں پر تو کبھی رومی ظلم کرتے اور کبھی اہل فارس ان پر مظالم ڈھاتے۔ ان کی تو اس علاقے میں کوئی قابل ذکر پوزیشن نہ تھی۔ حالات نے یہودیت کو مجبور کردیا تھا کہ وہ صرف یہودیوں ، یعنی بنی اسرائیل کا دین بن جائے اور خود اپنے اندر سکڑ جائے۔ ان کو نہ اس بات کی ضرورت تھی اور نہ خواہش تھی کہ وہ دوسری اقوام کو دین یہودیت میں لائیں۔

جہاں تک موجودہ عیسائیت کا تعلق ہے ، یہ مملکت روما کی پیدا کردہ ہے۔ جس وقت عیسائیت وجود میں آئی تو مملکت روما ، فلسطین ، مصر ، شام اور ان باقی حصوں پر برسر اقتدار تھی جن میں مسیحیت خفیہ طور پر پھیل گئی تھی اور مملکت روما اس پر تشدد کر رہی تھی۔ اس دین کو ماننے والوں کا پیچھا کیا جاتا تھا۔ اور ان پر سختیاں کی جاتی تھیں۔ یہ تشدد اس قدر سخت تھا کہ ہزارہا لوگوں کو ظالمانہ طریقے پر ذبح کیا گیا ۔ جب اس تشدد کا دور ختم ہوا اور قیصر روم خود دین مسیحیت میں داخل ہوگیا تو وہ اپنے ساتھ بت پرستانہ افسانے بھی لایا۔ چناچہ یونان کے مذہبی دیو مالائی فلسفے عیسائیت میں داخل ہوگئے اور عیسائیت کی سادہ شکل ہی کو بدل کر رکھ دیا گیا۔ لہٰذا اب سرکار کے سائے میں جو عیسائیت وجود میں آئی ، وہ اس دین سے بالکل مختلف تھی جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر اتارا تھا بلکہ یہ ایک نئی چیز وجود میں آگئی۔ ہوا یوں کہ مملکت روم نے کلمہ تو پڑھ لیا مگر وہ مسیحیت سے متاثر نہ ہوئی۔ ادھر مسیحیت تشدد سے تو کنٹرول میں نہ آئی تھی ، اب مکمل طور پر کنٹرول میں آگئی۔ اس سرکاری کنٹرول کی وجہ سے یہ دین مزید ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا اور اس طرح تشدد کا ایک دوسرا دور شروع ہوا ، سرکاری مسیحیت نے دوسرے فرقوں کو کچلنا شروع کردیا۔ کینسہ تقسیم ہوگیا اور یہ خطرہ بھی پیدا ہوگیا کہ اس کے نتیجے میں مملکت روما منقسم ہوجائے۔ یوں ایک سرکاری فرقے نے دوسرے فرقوں کو کچلا اور دونوں کی حالت یہ ہوگئی کہ کوئی بھی حضرت عیسیٰ کے دین پر نہ رہا۔

یہ وقت تھا جب اسلام نمودار ہوا۔ اسلام کا مقصد یہ تھا کہ انسانیت جس انحراف ، فساد ، ظلم اور جاہلیت میں گرفتار ہے ، اسے ان تاریکیوں سے نکالا جائے۔ اسلام نے چاہا کہ پوری انسانی زندگی کو اپنے کنٹرول میں لے ، اور نہایت ہی روشنی اور صحیح راستے پر اس کی راہنمائی کرے۔ یہ ضروری تھا کہ اسلام پوری انسانیت کے اوپر اپنا اقتدار اعلیٰ قائم کرے تا کہ انسانی زندگی میں وہ عظیم انقلاب لایا جاسکے ۔ جو اسلام کے پیش نظر تھا۔ لہٰذا یہ ضروری تھا کہ اسلام کا آغاز کسی ایسے مقام سے کیا جائے جو آزادانہ ہو اور وہاں دنیا کی بڑی شہنشاہیتوں میں سے کوئی بھی برسر اقتدار نہ ہو۔ اور اسلام کی ترقی اور نشوونما ایسے حالات میں ہو کہ اس پر کوئی ایسی مملکت مسلط نہ ہو ، جو اس کے مزاج کے متضاد ہو۔ بلکہ اس علاقے پر اسلام خود ہی برسر اقتدار ہو۔ ان مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر سوچا جائے تو مکہ مکرمہ ، اس وقت کے حالات کے مطابق آغاز اسلام کے لئے ایک بہترین مقام تھا ، جہاں سے اسلام نے اپنا عالمی سفر شروع کیا کیونکہ ایک عالمی انقلاب اول روز سے اسلام کے پیش نظر تھا۔

جزیرۃ العرب میں ان دنوں کوئی منظم حکومت نہ تھی جس کے اپنے قوانین ہوں ، جس کی فوجیں ہوں ، جس کی پولیس ہو ، اور وہ پورے جزیرۃ العرب پر اقتدار رکھتی ہو۔ اور جو اپنے منظم ڈھانچے کے بل بوتے پر جدید نظریہ حیات کا مقابلہ کرسکتی ہو۔ اور جمہور عوام پوری طرح اس کے کنٹرول میں ہوں جیسا کہ اس وقت دنیا کی چار شہنشاہیتوں میں ایسا انتظام تھا۔

پھر جزیرۃ العرب میں ایسا واضح دین بھی نہ تھا ، جس طرح یہودیت ، عیسائیت تھی یا بکھری ہوئی بت پرستی تھی۔ تمام قبائل کے معتقدات اور ان کے طریقہ ہائے حیات مختلف تھے۔ پھر ان کے الہہ بھی مختلف تھے۔ ملائکہ سے ، جنوں سے ، سیاروں اور ستاروں سے ، اور بتوں سے ، لیکن ان حالات کے باوجود خانہ کعبہ اور قریش کی دینی قیادت و سیادت ، پورے جزیرۃ العرب میں مسلم تھی۔ اگرچہ یہ قیادت باقاعدہ اقتدار اعلیٰ کی نہ تھی ، نہ مکہ پر اور نہ بیرون مکہ پر۔ اس وجہ سے دین جدید کی مزاحمت حکومتی سطح پر نہ تھی۔ قریش نے دین جدید کا ایک حد تک مقابلہ ضرور کیا لیکن اگر اقتصادی وجوہات نہ ہوتیں ، اور قریش کے سرداروں کے خاص مفادات کا مسئلہ نہ ہوتا تو اسلام کی جو مخالفت ام القریٰ میں ہوئی وہ بھی نہ ہوتی۔ جہاں تک عقائد ونظریات کا تعلق ہے ، وہ جانتے تھے کہ ان کے عقائد پوچ ہیں اور ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

جزیرۃ العرب میں کسی سیاسی نظام کا نہ ہونا ، یا کسی منظم دینی نظام کا نہ ہونا ، اسلام کے مفاد میں تھا ، ابتدائی ادوار میں اسلام کے اوپر کوئی خاص دباؤ نہ تھا۔ اگر کوئی ایسا نظام ہوتا تو وہ لازماً اسلام کے مزاج کے خلاف ہوتا اور وہ اسلام کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا۔

بلکہ کسی اجتماعی حکومتی اور دینی نظام کی عدم موجودگی میں ، ایک طرح اسلام کی حمایت کا پہلو نکل آیا۔ اجتماعی نظام حکومت کی جگہ جزیرۃ العرب میں قبائلی نظام تھا اور اس قبائلی نظام میں خاندان کو اہمیت حاصل ہوتی۔ جب حضور ﷺ دعوت اسلامی لے کر اٹھے تو بنی ہاشم کی تلواریں آپ کے ساتھ تھیں اور جو قبائلی توازن قائم تھا وہ آپ کے حق میں تھا ۔ کیونکہ بنو ہاشم باوجود اس کے کہ آپ کے دین کو قبول نہ کرتے تھے لیکن آپ کے حامی ضرور تھے۔ بلکہ آغاز اسلام میں جن جن لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا اور ان کا تعلق اہم قبائل سے تھا ، ان پر لوگ کسی قسم کے تشدد سے ڈرتے تھے۔ ان کی اصلاح اور تادیبی کاروائی کا کام قبائل کے سپرد تھا۔ اسی طرح جن غلاموں پر تشدد ہوا ان پر بھی ان کے مالکان نے تشدد کیا ، یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوبکر ایسے غلاموں کو خریدتے اور آزاد کردیتے۔ اس طرح ان پر سختی ختم ہوجاتی اور وہ حضرت ابوبکر کے موالی ہوجاتے۔ اب لوگ ان کے دین کے بارے میں زیادہ نہ چھیڑتے ۔ اس صورت حال نے دین جدید کو ایک امتیازی شان دے دی ۔ تمام غرباء اور غلام اس کی طرف لپکے۔

پھر عربوں کے اندر بہادری ، ذاتی وقار ، جوانمردی اور بھلائی پر خوشی سے آمادہ ہوجانے کی صفات بھی تھیں۔ یہ وہ صفات ہیں جو جدید دین کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لئے ضروری تھیں۔

ان باتوں کے علاوہ جزیرۃ العرب میں اس وقت وہ تمام صلاحیتیں موجود تھیں جو کسی تہذیب و ترقی کے لئے ضروری ہوتی ہیں اور ساکنان جزیرہ ان پر فخر کرتے تھے۔ جزیرۃ العرب میں قوت ، قابلیت ، شخصیات کے کافی ذخائر موجود تھے جو بےتاب تھے کہ ان کو کام میں لایا جائے۔ غیب کے قلب میں یہ سب کچھ موجود تھا۔ پھر اہل قریش پوری دنیا میں گرویدہ اور گرم و سروچشیدہ تھے۔ وہ ایک طرف قیصر روم کی مملکت میں سفر کرتے تھے دوسری جانب وہ کسری فارس کے علاقوں میں سفر کرتے تھے اور انہوں نے اس وقت کی تہذیب و تمدن کے تمام تجربات اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوئے تھے۔ اہل قریش کے سفر موسم گرما اور سفر موسم سرما کو قرآن کریم نے ہمیشہ کے لئے ریکارڈ بھی کردیا ہے۔

لایلف قریش (106 : 1) الفھم رحلۃ الشتاء والصیف (106 : 2) فلیعبدوا رب ھذا البیت (106 : 3) الذی اطعمھم من جوع وامنھم من خوف (106 : 4) “ چونکہ قریش مانوس ہوتے ہیں ، جاڑے اور گرمی کے سفروں سے ، لہٰذا ان کو چاہئے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں جس نے انہیں بھوک سے بچا کر کھانے کو دیا اور خوف سے بچا کر امن عطا کیا ”۔ پھر تجربات کا ایک بڑا ذخیرہ ان کے ہاں مختلف اسباب کے تحت جمع ہوگیا ، تا کہ جزیرۃ العرب اسلامی انقلاب کی مہم کے لئے تیار ہوجائے۔ جب اسلام آیا تو اس نے ان تمام ذخائر اور صلاحیتوں کو اسلام کے حق میں استعمال کیا۔ عربوں کی طاقت اور جنگی صلاحیت جو صدیوں سے جمع ہوچکی تھی ، وہ صلاحیت کھل گئی۔ اسلام کی کنجی سے یہ خزانے رو بعمل ہوگئے۔ یہ تمام صلاحیتیں اسلام کا سرمایہ بن گئیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آغاز اسلام ہی سے اسلام کو ایسی عظیم شخصیات مل گئی جن کا ملنا کسی تحریک کے لئے بڑی خوش نصیبی ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام اس زاویہ نظر سے بہت بڑا مقام رکھتے ہیں ، مثلاً حضرت ابوبکر ‏ ؓ ‌ ؓ ، حضرت عمر ؓ ، حضرت عثمان ؓ ، حضرت علی ؓ ، حضرت حمزہ ؓ ، حضرت عباس ؓ ، حضرت ابو عبیدہ ؓ ، حضرت سعد ؓ ، حضرت معاذ ؓ ، حضرت ابو ایوب انصاری وغیرھم۔ ساتھیوں کا یہ باصلاحیت گروپ جنہوں نے ابتداء ہی میں اسلام قبول کرلیا تھا ، ان کے دل اللہ نے اسلام کے لئے کھول دئیے ، انہوں نے اس دعوت کو اٹھایا۔ اس دعوت کے ذریعہ یہ باصلاحیت لوگ مزید بڑے لوگ بن گئے اور ان کی صلاحیتیں اور نکھر گئیں۔ لیکن ان کے اندر بنیادی قابلیت اسلام سے پہلے بھی موجود تھی۔

یہاں ہم تفصیلی اسباب نہیں لکھ سکتے کہ جزیرۃ العرب کو کیوں دعوت اسلامی کے لئے منتخب کیا گیا۔ کیوں اس دعوت کو آغاز میں بچا کر جزیرۃ العرب ہی میں اس کی نشوونما کی گئی ، اور کیوں ام القریٰ اور ماحول کو برتری دی گئی کہ بڑی مملکتیں اس کی طرف متوجہ ہی نہ ہوئیں ، تو یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ جزیرۃ العرب کو جدید رسالت کے لئے ایک پرورش گاہ بنانا چاہتا تھا ۔ جس نے پوری انسانیت کو روشنی دینی تھی۔ اور پھر ام القریٰ کو منتخب کیا گیا کہ رسول اللہ ﷺ وہاں سے اٹھیں۔ بہرحال یہ بہت ہی طویل بحث ہوگی اور اس کے لئے ایک مستقل کتاب کے صفحات درکار ہیں۔ یہاں یہی اشارات کافی ہیں اور جن سے آگے بڑھ کر مزید اسباب بھی معلوم کئے جاسکتے ہیں ، یہ تو ان اسباب کا ایک حصہ ہیں۔ جس طرح ہم کائنات میں سنن الٰہیہ کے سلسلے میں نئے اسباب معلوم کر رہے ہیں۔ اسی طرح ام القریٰ کے بارے میں مزید وجوہات غوروفکر کے بعد سامنے لائی جاسکتی ہیں۔

غرض یوں یہ قرآن ام القریٰ میں نازل ہوا ، اس نے اس کے اردگرد کام شروع کیا اور جب پورا جزیرۃ العرب جاہلیت سے نکل کر اسلام میں داخل ہوگیا۔ اور عرب پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوگئے تو انہوں نے اسلام کے جھنڈے بلند کر دئیے اور وہ اسلام کو لے کر شرق و غرب میں داخل ہوگئے اور انہوں نے جدید رسالت اور اس کے ذریعہ آیا ہوا نظام اسلام اور نظام شریعت انسانوں کے سامنے پیش کیا۔ جس طرح اسلام کا مزاج تھا۔ جن لوگوں نے یہ جھنڈے بلند کئے وہ اس مقصد کے لئے صالح ترین لوگ تھے۔ جنہوں نے اسے اٹھایا اور پوری دنیا میں پھیلا دیا۔ جب وہ اسے لے کر اٹھے تو اسلام کی تولید وتشکیل ایک بہترین ماحول میں ہوچکی تھی۔

یہ بات کوئی اتفاقی بات نہیں ہے کہ اللہ نے رسول اللہ ﷺ کو پورے جزیرۃ العرب میں اسلام کے مکمل غلبے تک زندہ رکھا اور پورے جزیرۃ العرب کو مشرکین اور شرک کے آثار سے بھی پاک کردیا گیا۔ پھر اس دعوت کے لئے عربی زبان کو بھی محض اتفاق سے نہ چنا تھا بلکہ دنیا کی زبانوں میں یہ اس دعوت کے پھیلانے کے لئے نہایت ہی موزوں زبان تھی۔ یہ ایک مکمل اور پختہ زبان تھی۔ اس کے اندر وسعت کی بےپناہ صلاحیت تھی اور اس دعوت کے مقاصد کے لئے اس وقت اس سے زیادہ بہتر اور کوئی زبان نہ تھی۔ اگر یہ کوئی اور زبان ہوتی یا اس زبان کی تشکیل اور مقاصد کے لئے اس وقت اس سے زیادہ بہتر اور کوئی زبان نہ تھی۔ اگر یہ کوئی اور زبان ہوتی یا اس زبان کی تشکیل اور ساخت میں کوئی جھول ہوتی تو اس کے لئے ممکن نہ ہوتا ہے کہ یہ زبان دعوت اسلامی کے مقاصڈ کو پورا کرسکتی اور نہ یہ زبان اس دعوت کو جزیرۃ العرب کے باہر پھیلا سکتی۔ غرض جس طرح رجال عرب اس دعوت کا بوجھ اٹھانے کے لئے موزوں تھے اسی طرح ان کی زبان بھی موزوں تھی ، (یہ زبان پھر قرب و جوار کے ملکوں کی زبان بن گئی ) ۔

غرض یہ وہ قدرتی سازگاریاں تھیں جو اس رسالت کے جزیرۃ العرب سے آغاز میں مضمر تھیں۔ لیکن تمام وجوہات کے مقابلے میں اصل وجہ یہی ہے جو خود قرآن نے بتائی ہے۔

اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ “ اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کہاں رکھتا ہے ”۔ بہرحال غورو تدبر سے حکمت الٰہیہ کو معلوم کیا جاسکتا ہے۔

لتنذر ام القری ۔۔۔۔ فی السعیر (42 : 7) “ تا کہ تم بستیوں کے مرکز اور اس کے گردو پیش رہنے والوں کو خبردار کر دو ، اور جمع ہونے کے دن سے ڈراؤ جس کے آنے میں کوئی شک نہیں۔ ایک گروہ کو جنت میں جانا ہے اور دوسرے گروہ کو دوزخ میں ”۔ قرآن کریم میں ڈراوے کا ذکر بہت آتا ہے۔ بار بار مختلف طریقوں سے لفظ انذار آتا ہے۔ اس سے مراد یوم قیامت سے ڈرانا ہے۔ پوری دنیا کی تاریخ میں جس زمان ومکان میں انسان پیدا ہوئے اور فوت ہوئے۔ اللہ تعالیٰ ایک دن سب کو جمع کرے گا اور پھر ان کی گروہ بندی ہوگی ،

فریق فی الجنۃ وفریق فی السعیر (42 : 7) “ ایک گروہ جنت میں جائے گا اور ایک جہنم میں ”۔ جس طرح انہوں نے اس دنیا میں عمل کیا ، جو دارالعمل ہے اور جو رویہ انہوں نے اپنی اس مختصر زندگی میں اختیار کیا۔

ولو شاء اللہ لجعلھم ۔۔۔۔۔۔ ولا نصیر (42 : 8) “ اگر اللہ چاہتا ہے تو ان سب کو ایک ہی امت بنا دیتا مگر وہ جسے چاہتا ہے ، اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے اور ظالموں کا نہ کوئی ولی ہے اور نہ مددگار ”۔ اگر اللہ چاہتا تو انسانوں کی تخلیق ہی دوسرے انداز سے کرتا جس میں ان کا رویہ ایک جیسا ہوتا۔ ان کا انجام بھی ایک ہی ہوتا ، یا سب جنتی ہوتے یا سب جہنمی ہوتے لیکن اللہ نے اس انسان کو جس مقصد کے لئے پیدا کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ وہ اس کرۂ ارض پر اللہ کا خلیفہ ہے۔ اور اس خلافت کا تقاضا یہ تھا کہ انسان ایسا ہو جیسا کہ وہ ہے۔ انسان کو خصوصی استعداد دی جائے ، اس استعداد کے ذریعہ وہ فرشتوں سے بھی ممتاز ہو اور شیاطین سے بھی ممتاز ہو۔ جن کی تخلیق کسی محدود مقصد کے لئے ہے اور ان کا ایک ہی رویہ ہے۔ اس استعداد کے ذریعہ بعض انسان ہدایت اور نور کی طرف آجائیں ، عمل صالح کریں ، اور بعض لوگ گمراہی اور تاریکی کی طرف چلیں اور برے کام کریں۔ ہر انسان ان اجتمالات میں سے ایک طرف جھک جائے جو اس کی طبیعت میں رکھے ہوئے ہیں اور پھر اس احتمال کے لئے جو انجام مقرر ہے اس سے دوچار ہو ، یعنی ایک فریق جنت میں جائے اور دوسرا دوزخ میں۔ اور اس طرح یہ بات حق بن جائے کہ ۔

یدخل من یشاء فی رحمتہ والظالمون ما لھم من ولی ولا نصیر (42 : 8) “ اور ظالموں کا نہ کوئی ولی ہے اور نہ مددگار ” ۔ اور اللہ کی مشیت نے اپنا کام اپنے سابق علم کی وجہ سے کیا۔ انسان اس کی ہدایت کی وجہ سے اس کی رحمت مستحق ہوا اور ضلالت کی وجہ سے وہ گمراہی و عذاب کا مستحق ہوگیا۔

اس سے قبل یہ بات گزر گئی کہ بعض لوگوں نے اللہ کے سوا اور سرپرست بنا رکھے تھے۔ یہاں یہ فیصلہ دے دیا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا تو کوئی ولی و مدد گار نہ ہوگا ۔ لہٰذا جن کو وہ ولی و مدد گار پکڑتے ہیں تو ، یہ ایک فضول حرکت ہے ان کی جانب سے کیونکہ ان کا تو وجود ہی نہیں ہے۔ پھر پوچھا جاتا ہے :

ام اتخذوا من دونہ اولیاء ( 42 : 9) “ کہا ، انہوں نے اللہ کے سوا اور ولی و مددگار پکڑ رکھے ہیں ؟” یہ سوال استنکاری اس لیے ہے کہ ان کو متوجہ کر کے یہ فیصلہ دے دیا جائے کہ اللہ وحدہ ولی و مددگار ہے۔ وہ قادر مطلق ہے۔ وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور اس سے اس کی قدرت واضح ہوتی ہے۔ مردے کو حیات دینا یہ بہت بڑی قدرت ہے۔

فاللہ ھو الولی وھو یحی الموتی (42 : 9) “ اللہ ہی ولی و مددگار ہے اور وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے ” اس کے بعد اس خصوصی قدرت کے مظہر یعنی احیائے موتیٰ کے بعد عام قدرت کا ذکر کیا جاتا ہے۔

وھو علی کل شیء قدیر (42 : 9) “ اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ”۔ اس کی قدرت صرف احیائے موتیٰ تک محدود نہیں ۔

٭٭٭

پھر روئے سخن اس سورت کے موضوع اول کی طرف مڑتا ہے کہ اسلامی سوسائٹی میں اپنے تمام اختلافات کس معیار پر رفع کئے جائیں گے۔ یہ وحی واحد معیار حق ہے جو اللہ کی طرف سے آئی ہے ، یہ صراط مستقیم ہے اور مکمل اسلامی نظام زندگی آنے کے بعد تم نے تمام اختلافات اس کے مطابق ختم کرنے ہیں۔ اب یہ نہ ہوگا کہ ہر شخص ہوائے نفس کے مطابق چلے

آیت 7 { وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا } ”اور اسی طرح ہم نے وحی کیا ہے آپ کی طرف یہ قرآن عربی“ آیت 3 کی طرح یہاں پر بھی وحی کے ذکر کے ساتھ لفظ کَذٰلِکَ آیا ہے۔ اس کی وضاحت قبل ازیں کی جاچکی ہے۔ { لِّتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰی وَمَنْ حَوْلَہَا } ”تاکہ آپ خبردار کردیں بستیوں کے مرکز اور اس کے ارد گرد رہنے والوں کو“ بالکل یہی الفاظ سورة الانعام کی آیت 92 میں بھی آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی قوم پر اتمامِ حجت کرنے کا یہ وہی طریقہ اور اصول ہے جس کا ذکر سورة القصص کی آیت 59 میں اس طرح ہوا ہے : { وَمَا کَانَ رَبُّکَ مُہْلِکَ الْقُرٰی حَتّٰی یَبْعَثَ فِیْٓ اُمِّہَا رَسُوْلًا } ”اور نہیں ہے آپ کا رب بستیوں کو ہلاک کرنے والا ‘ جب تک کہ وہ ان کی مرکزی بستی میں کوئی رسول نہیں بھیجتا“۔ جزیرہ نمائے عرب کی ”اُمّ القری“ یعنی مرکزی بستی چونکہ مکہ ہے اس لیے مذکورہ اصول کے تحت اس مرکزی بستی میں نبی آخر الزماں ﷺ کو مبعوث فرمایا گیا۔ بلکہ ایک اعتبار سے تو مکہ پوری دنیا کا ”اُمّ القریٰ“ ہے۔ اس لیے کہ حَوْلَ کے معنی اردگرد کے ہیں اور ”اردگرد“ کی حدود کسی خاص نقطے تک محدود نہیں کی جا سکتیں۔ چناچہ ایک مرکزی مقام کے ارد گرد کے دائرے کو اگر بڑھاتے جائیں تو یہ دائرہ پوری دنیا تک پھیل جائے گا۔ اس نکتے کی وضاحت اس سے پہلے سورة الانعام کی آیت 92 کے تحت بھی گزر چکی ہے۔ { وَتُنْذِرَ یَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَیْبَ فِیْہِ } ”اور آپ ﷺ خبردار کردیں اس جمع ہونے والے دن سے جس میں کوئی شک نہیں۔“ { فَرِیْقٌ فِی الْْجَنَّۃِ وَفَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ } ”اُس دن ایک گروہ جنت میں جائے گا اور ایک گروہ جہنم میں۔“

قیامت کا آنا یقینی ہے یعنی جس طرح اے نبی آخر الزماں تم سے پہلے انبیاء پر وحی الٰہی آتی رہی تم پر بھی یہ قرآن وحی کے ذریعہ نازل کیا گیا ہے۔ یہ عربی میں بہت واضح بالکل کھلا ہوا اور سلجھے ہوئے بیان والا ہے تاکہ تو شہر مکہ کے رہنے والوں کو احکام الٰہی اور اللہ کے عذاب سے آگاہ کر دے نیز تمام اطراف عالم کو۔ آس پاس سے مراد مشرق و مغرب کی ہر سمت ہے مکہ شریف کو ام القرٰی اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ تمام شہروں سے افضل و بہتر ہے اس کے دلائل بہت سے ہیں جو اپنی اپنی جگہ مذکور ہیں ہاں ! یہاں پر ایک دلیل جو مختصر بھی ہے اور صاف بھی ہے سن لیجئے۔ ترمذی نسائی، ابن ماجہ، مسند احمد وغیرہ میں ہے حضرت عبداللہ بن عدی فرماتے ہیں کہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے سنا آپ مکہ شریف کے بازار خزروع میں کھڑے ہوئے فرما رہے تھے کہ اے مکہ قسم ہے اللہ کی ساری زمین سے اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب اور زیادہ افضل ہے اگر میں تجھ میں سے نہ نکالا جاتا تو قسم ہے اللہ کی ہرگز تجھے نہ چھوڑتا۔ امام ترمذی ؒ اس حدیث کو حسن صحیح فرماتے ہیں اور اس لئے کہ تو قیامت کے دن سے سب کو ڈرا دے جس دن تمام اول و آخر زمانے کے لوگ ایک میدان میں جمع ہوں گے۔ جس دن کے آنے میں کوئی شک و شبہ نہیں جس دن کچھ لوگ جنتی ہوں گے اور کچھ جہنمی یہ وہ دن ہوگا کہ جنتی نفع میں رہیں گے اور جہنمی گھاٹے میں دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے آیت (ذٰلِكَ يَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ ۙ لَّهُ النَّاسُ وَذٰلِكَ يَوْمٌ مَّشْهُوْدٌ01003) 11۔ ھود :103) یعنی ان واقعات میں اس شخص کے لئے بڑی عبرت ہے جو آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہو آخرت کا وہ دن ہے جس میں تمام لوگ جمع کئے جائیں گے اور وہ سب کی حاضری کا دن ہے۔ ہم تو اسے تھوڑی سی مدت معلوم کے لئے مؤخر کئے ہوئے ہیں۔ اس دن کوئی شخص بغیر اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بات تک نہ کرسکے گا ان میں سے بعض تو بدقسمت ہوں گے اور بعض خوش نصیب۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے پاس ایک مرتبہ دو کتابیں اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر آئے اور ہم سے پوچھا جانتے ہو یہ کیا ہے ؟ ہم نے کہا ہمیں تو خبر نہیں آپ فرمائیے۔ آپ نے اپنی داہنے ہاتھ کی کتاب کی طرف اشارہ کر کے فرمایا یہ رب العالمین کی کتاب ہے جس میں جنتیوں کے نام ہیں مع ان کے والد اور ان کے قبیلہ کے نام کے اور آخر میں حساب کر کے میزان لگا دی گئی ہے اب ان میں نہ ایک بڑھے نہ ایک گھٹے۔ پھر اپنے بائیں ہاتھ کی کتاب کی طرف اشارہ کر کے فرمایا یہ جہنمیوں کے ناموں کا رجسٹر ہے انکے نام ان کی ولدیت اور ان کی قوم سب اس میں لکھی ہوئی ہے پھر آخر میں میزان لگا دی گئی ہے ان میں بھی کمی بیشی ناممکن ہے۔ صحابہ نے پوچھا پھر ہمیں عمل کی کیا ضرورت ؟ جب کہ سب لکھا جا چکا ہے آپ نے فرمایا ٹھیک ٹھاک رہو بھلائی کی نزدیکی لئے رہو۔ اہل جنت کا خاتمہ نیکیوں اور بھلے اعمال پر ہی ہوگا گو وہ کیسے ہی اعمال کرتا ہو اور نار کا خاتمہ جہنمی اعمال پر ہی ہوگا گو وہ کیسے ہی کاموں کا مرتکب رہا ہو۔ پھر آپ نے اپنی دونوں مٹھیاں بند کرلیں اور فرمایا تمہارا رب عزوجل بندوں کے فیصلوں سے فراغت حاصل کرچکا ہے ایک فرقہ جنت میں ہے اور ایک جہنم میں اس کے ساتھ ہی آپ نے اپنے دائیں بائیں ہاتھوں سے اشارہ کیا گویا کوئی چیز پھینک رہے ہیں۔ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ یہی حدیث اور کتابوں میں بھی ہے کسی میں یہ بھی ہے کہ یہ تمام عدل ہی عدل ہے حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے جب آدم ؑ کو پیدا کیا اور ان کی تمام اولاد ان میں سے نکالی اور چیونٹیوں کی طرح وہ میدان میں پھیل گئی تو اسے اپنی دونوں مٹھیوں میں لے لیا اور فرمایا ایک حصہ نیکوں کا دوسرا بدوں کا۔ پھر انہیں پھیلا دیا دوبارہ انہیں سمیٹ لیا اور اسی طرح اپنی مٹھیوں میں لے کر فرمایا ایک حصہ جنتی اور دوسرا جہنمی یہ روایت موقوف ہی ٹھیک ہے واللہ اعلم۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ حضرت ابو عبداللہ نامی صحابی بیمار تھے ہم لوگ ان کی بیمار پرسی کے لئے گئے۔ دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں تو کہا کہ آپ کیوں روتے ہیں آپ سے تو رسول اللہ ﷺ نے فرما دیا ہے کہ اپنی مونچھیں کم رکھا کرو یہاں تک کہ مجھ سے ملو اس پر صحابی نے فرمایا یہ تو ٹھیک ہے لیکن مجھے تو یہ حدیث رلا رہی ہے کہ حضور ﷺ سے سنا ہے اللہ تعالیٰ اپنی دائیں مٹھی میں مخلوق لی اور اسی طرح دوسرے ہاتھ کی مٹھی میں بھی اور فرمایا یہ لوگ اس کے لئے ہیں یعنی جنت کے لئے اور یہ اس کے لئے ہیں یعنی جہنم کے لئے اور مجھے کچھ پرواہ نہیں۔ پس مجھے خبر نہیں کہ اللہ کی کس مٹھی میں میں تھا ؟ اس طرح کی اثبات تقدیر کی اور بہت سی حدیثیں ہیں پھر فرماتا ہے اگر اللہ کو منظور ہوتا تو سب کو ایک ہی طریقے پر کردیتا یعنی یا تو ہدایت پر یا گمراہی پر لیکن رب نے ان میں تفاوت رکھا بعض کو حق کی ہدایت کی اور بعض کو اس سے بھلا دیا اپنی حکمت کو وہی جانتا ہے وہ جسے چاہے اپنی رحمت تلے کھڑا کرلے ظالموں کا حمایتی اور مددگار کوئی نہیں۔ ابن جریر میں ہے اللہ تعالیٰ سے حضرت موسیٰ (علیہ الصلوۃ والسلام) نے عرض کی کہ اے میرے رب تو نے اپنی مخلوق کو پیدا کیا پھر ان میں سے کچھ کو تو جنت میں لے جائے گا اور کچھ اوروں کو جہنم میں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ سب ہی جنت میں جاتے جناب باری نے ارشاد فرمایا موسیٰ اپنا پیرہن اونچا کرو آپ نے اونچا کیا پھر فرمایا اور اونچا کرو آپ نے اور اونچا کیا فرمایا اور اوپر اٹھاؤ جواب دیا اے اللہ اب تو سارے جسم سے اونچا کرلیا سوائے اس جگہ کے جس کے اوپر سے ہٹانے میں خیر نہیں فرمایا بس موسیٰ اسی طرح میں بھی اپنی تمام مخلوق کو جنت میں داخل کروں گا سوائے ان کے جو بالکل ہی خیر سے خالی ہیں۔

آیت 7 - سورہ شوریٰ: (وكذلك أوحينا إليك قرآنا عربيا لتنذر أم القرى ومن حولها وتنذر يوم الجمع لا ريب فيه ۚ فريق في الجنة...) - اردو