سورہ شوریٰ: آیت 1 - حم... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورہ شوریٰ

حمٓ

اردو ترجمہ

ح م

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hameem

آیت 1 کی تفسیر

حروف ، مقطعات کے بارے میں کئی سورتوں کے آغاز میں بات ہوچکی ہے جسے یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ حروف بتاتے ہیں کہ سورت کا آغاز ہو رہا ہے ۔ ان حروف کے بعد پہلا فقرہ یہ ہے۔

کذلک یوحی ۔۔۔۔ العزیز الحکیم (42 : 3) ” اسی طرح اللہ غالب و حکیم تمہاری طرف اور تم سے پہلے گزرے ہوئے رسولوں کی طرف وحی کرتا رہا ہے “۔ یعنی جس طرح تمہاری طرف وحی ہورہی ہے اسی طرح اور اسی انداز میں ہم نے پہلے رسولوں کی طرف بھی وحی بھیجی ہے۔ یہ وحی الفاظ ، کلمات اور حروف تہجی پر مشتمل رہی ہے۔ وحی کا کلام الٰہی حروف سے بنایا گیا ہے ۔ ان حروف سے لوگ اچھی طرح واقف ہیں۔ ان کلمات کے معانی وہ سمجھتے ہیں لیکن اس وحی کی طرح وہ کلام پیش نہیں کرسکتے۔ حالانکہ جس مواد سے یہ کلام بنا ہے ، وہ ان کے سامنے ہے اور دسترس میں ہے۔

دوسرا مفہوم اس کا یہ ہے کہ وحی ایک ہے ، وحی کا مصدر و ماخذ ایک اللہ ہے جو عزیز و حکیم ہے۔ اور جن کی طرف وحی آتی ہے وہ ہر زمان و مکان کے رسول ہیں۔ رسول مختلف ہیں ، زمان و مکان کا اختلاف ہو سکتا ہے لیکن وحی اور ہدایت ایک ہی ہے۔

الیک والی الذین من قبلک (42 : 3) ” تمہاری طرف اور تم سے پہلے گزرے ہوئے رسولوں کی طرف “۔

یہ بہت لمبی کہانی ہے ، زمانے کے نشیب و فراز اور تاریخ کی بیشمار کڑیوں پر مشتمل اس کے مختلف سلسلے ہیں البتہ وحی کا یہ ایک مستحکم و مستقبل اصول و منہاج ہے اور اس کی کئی شاخیں ہیں۔

یہ بات اس انداز سے جب اہل ایمان کے دلوں میں بیٹھ جاتی ہے تو وہ اپنے اندر یہ شعور پاتے ہیں کہ وہ جس منہاج اور طریقے پر ہیں ، یہ ایک مستقل ، واحد طریقہ ہے اور اس کا سرچشمہ بھی واحد اللہ وحدہ ہے۔ اور یہ کہ ان کا سر رشتہ بھی اللہ العزیز الحلیم ہے۔ اس طرح ان کے اندر یہ شعور بھی پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایک تاریخی قافلہ حق کے ممبر ہیں جس کا آخری سرایا پہلا سرا زمان ومکان کے اندر دور تک چلا گیا ہے ، یہ گویا اہل ایمان کا ایک خاندان ہے جس کا روحانی شجرۂ نسب انسانی تاریخ کے آغاز ہی سے شروع ہوتا ہے۔ آخر میں اس شجرے کی کڑیاں ملتی ہیں اور سب جا کر اللہ العزیز پر ملتے ہیں ، جو قوی اور قادر مطلق ہے ، جو حکیم ہے ، جو اپنی حکمت و تدبیر کے ساتھ جس کی طرف چاہتا ہے ، وحی کرتا ہے۔ لہٰذا تم اس واحد ثابت اور مستقل ربانی منہاج سے منتشر ہوکر ادھر ادھر پگڈنڈیوں پر کیوں جارہے ہو ، کیونکہ یہ پگڈنڈیاں تو اللہ تک نہیں پہنچاتیں ، ان کے جائے آغاز کا نہ پتہ اور نہ ان کے مقام انجام کا پتہ ہے اور نہ ان کا راستہ مستقیم ہے۔

اللہ جس نے تمام رسولوں کی طرف وحی فرمائی۔ اس کی مزید صفات بھی دی جاتی ہیں کہ وہ آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا واحد مالک ہے۔ اور وہی بلند اور عظیم ہے۔

لہ ما فی السموت ومافی الارض وھو العلی العظیم (42 : 4) ” آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے ، اسی کا ہے ، وہ برتر اور عظیم ہے “

بسا اوقات لوگوں کو یہ دھوکہ ہوتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بھی مالک ہیں ، محض اس لیے کہ وہ دیکھتے ہیں کہ یہ چیزیں ان کے ہاتھوں میں ہیں۔ ان کے قبضہ قدرت اور کنٹرول میں ہیں۔ وہ ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور جس طرح چاہتے ہیں ان سے خدمت لیتے ہیں لیکن یہ دراصل حقیقی ملکیت نہیں ہے۔ حقیقی ملکیت اللہ کی ہے۔ وہ اللہ ہے جو موجود اور معدوم کرتا ہے ، زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے۔ یہ وہی ہے جو کسی بشر کو جو چاہتا ہے ، دیتا ہے۔ اور جس چیز سے چاہتا ہے محروم کردیتا ہے۔ جس وقت چاہتا ہے ان کے ہاتھ میں جو کچھ ہوتا ہے وہ یکدم چلا جاتا ہے۔ اور اگر وہ چاہے تو جو چلا گیا ہے ، اس کا متبادل دے دے۔ مالک حقیقی تمام اشیاء میں اللہ ہے۔ وہ ان چیزوں کو اپنے قانون قدرت کے مطابق چلاتا ہے۔ اور یہ تمام اشیاء اس کے حکم پر لبیک کہتی ہیں۔ اس لحاظ سے زمین و آسمان میں جو چیز ہے ، وہ اللہ کی ہے اور اس لحاظ سے اللہ کے ساتھ اس ملکیت میں کوئی شریک نہیں ہے۔

وھو العلی العظیم (42 : 4) ” وہ برتر اور عظیم ہے “۔ وہ صرف مالک ہی نہیں ہے ۔ وہ مالک اعلیٰ بھی ہے۔ اور وہ بڑی عظمتوں والا ہے ، اور اس عظمت میں وہ منفرد ہے۔ وہ اس طرح برتر ہے کہ اس کے مقابلے میں ہر چیز کمتر ہے اور وہ اس معنی میں عظیم ہے کہ اس کے مقابلے میں ہر چیز بہت ہی چھوٹی ہے۔

جب یہ حقیقت انسانوں کے خمیر میں اچھی طرح بیٹھ گئی اور لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ وہ اپنے نفوس کے لئے جو مال ، جو رزق اور جو روزگار طلب کرتے ہیں ، یہ انہوں نے کہاں سے طلب کرنا ہے یعنی یہ زمین و آسمان میں جو چیزیں موجود ہیں ، ان کا مالک اللہ ہے۔ اور وہ مالک ہی کسی کو کوئی چیز دے سکتا ہے۔ پھر وہ برتر اور عظیم بھی ہے۔ اس سے اگر کوئی کچھ مانگتا ہے تو وہ اس کے سوال کو رد نہیں کرتا۔ جس طرح مخلوقات کے سامنے ہم ہاتھ پھیلاتے ہیں وہ نہ برتر ہیں اور نہ عظیم ہیں ، اس لیے ان کا سوال محروم بھی ہو سکتا ہے۔

اس کے بعد اس کائنات میں سے ایک ایسا منظر دکھایا جاتا ہے جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اس کائنات کا مالک صرف اللہ ہے اور برتری اور عظمت اللہ ہی کے لئے ہے کہ قریب ہے کہ یہ آسمان اللہ کی عظمت کے رعب کی وجہ سے اور بعض لوگوں کی کج روی اور بری باتوں کی وجہ سے پھٹ پڑیں پھر اللہ کی عظمت کا ایک مظہر یہ بھی یہاں لایا گیا ہے کہ ملائکہ ہر وقت اللہ کی حمد و ثنا کرتے ہیں اور اہل زمین کے لئے مغفرت مانگتے رہتے ہیں ، کیونکہ اہل زمین کے انحراف اور بےراہ روی کو دیکھ کر وہ بھی سہم جاتے ہیں۔

تکاد السموت یتفطرن ۔۔۔۔۔ الغفور الرحیم (42 : 5) “ قریب ہے کہ آسمان اوپر سے پھٹ پڑیں۔ فرشتے اپنی حمد کے ساتھ تسبیح کر رہے ہیں اور زمین والوں کے حق میں درگزر کی درخواستیں کیے جارہے ہیں ۔ آگاہ رہو ، حقیقت میں اللہ غفور و رحیم ہی ہے ”۔

سماوات وہ عظیم کائنات ہے جو ہمارے اوپر نظر آتی ہے۔ اس کرۂ ارض کی پشت پر ہم جہاں کہیں بھی ہوں اور ہمارے پاس اس کے بارے میں ابھی تک جو معلومات جمع ہو ئی ہیں وہ اس کے ایک بالکل معمولی حصے کے بارے میں ہیں۔ آج تک جو معلومات دستیاب ہیں ان سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ہمارے سورج جیسے ایک لاکھ ملین سورج معہ اپنے لاتعداد توابع کے موجود ہیں۔ اور ایسے مجموعے یا گروپ کتنے ہیں ؟ تقریباً ایک لاکھ ملین گروپ معلوم ہوچکے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ سورج ہماری زمین سے ایک ملین گنا بڑا ہے۔ اور یہ لاکھوں اربوں سورج تو وہ ہیں جن کو ہم اپنی چھوٹی چھوٹی رصد گاہوں کے ذریعے دیکھتے ہیں ، یہ اس لا محدود فضائے کائنات (جسے ہم آسمان کہتے ہیں ) کے اندر بکھرے ہوئے ہیں اور ان کے درمیان طویل مسافتیں ہیں جو ہزارہا ملین نوری سالوں کی دوری پر ہیں ، جن کا حساب روشنی کی رفتار کے حساب سے کیا جاتا ہے یعنی 186000 میل فی سیکنڈ کے حساب سے۔

یہ آسمان جن کے بارے میں ہمارا علم بہت ہی محدود ہے ، قریب ہے کہ پھٹ پڑیں ، ہمارے اوپر اس فضا میں سے ، کیوں ؟ اللہ کے خوف سے ، اللہ کی عظمت سے ، اور اللہ کے جلال سے اور زمین کے ان لوگوں کی بدکاریوں کی وجہ سے ان کی غفلت اور نسیان کی وجہ سے جو انہوں نے اس رب ذوالجلال اور اس کائنات کے بارے میں روا رکھی ہوئی ہیں۔ قریب ہے کہ آسمانوں پر رعشہ طاری ہوجائے اور یہ ٹوٹ پڑیں اور اس مقام سے گر جائیں جہاں یہ ٹکے ہوئے ہیں۔

والملئکۃ یسبحون بحمد ربھم ویستغفرون لمن فی الارض (42 : 5) “ فرشتے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر رہے ہیں اور زمین والوں کے حق میں درگزر کی درخواستیں کئے جاتے ہیں ”۔ ملائکہ وہ مخلوق ہے جو مکمل طور پر اطاعت شعار ہے۔ یہ تمام مخلوقات میں سے بہتر مخلوق ہے ، لیکن یہ مسلسل اپنے رب کی تسبیح کر رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کا رب کتنا برتر ہے ۔ اور کتنا عظیم ہے۔ وہ باوجود اپنی مکمل اطاعت شعاری کے پھر بھی اس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں حمد و ثنا میں اور اطاعت میں ان سے کوئی تقصیر نہ ہوجائے۔ جبکہ اہل زمین قصور وار بھی ہیں ، ضعیف بھی ہیں۔ راہ راست سے منحرف بھی ہیں ، پھر بھی احساس نہیں رکھتے چناچہ ملائکہ اللہ کے غضب سے ڈرتے ہیں اور زمین میں جو معصیت ہوتی ہے ، جو تقصیرات ہوتی ہیں ، اس پر وہ اللہ کے غضب کے ڈر سے استغفار کرتے ہیں۔ یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے کہ یہاں ملائکہ کے استغفار سے مراد اہل ایمان کے لئے استغفار ہو ، جس طرح سورة غافر میں آیا ہے۔

الذین یحملون ۔۔۔۔۔ للذین امنوا (غافر : 7) “ عرش الٰہی کے حامل فرشتے ، اور وہ جو عرش کے گردوپیش حاضر رہتے ہیں ، سب اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر رہے ہیں۔ وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں ”۔ اس حالت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ فرشتے زمین پر معصیت کے ارتکاب سے بہت ڈرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اہل ایمان بھی اگر معصیت کریں تو فرشتے ڈرتے ہیں اور اس خوف کی وجہ سے وہ اللہ سے اہل زمین کے لئے معافی طلب کرتے ہیں اور وہ اللہ کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتے رہتے ہیں تا کہ ان معصیتوں کی وجہ سے اللہ کا عذاب نہ آجائے اور اس لئے کہ اللہ کی رحمت لوگوں پر آتی رہے۔ وہ امید کرتے ہیں کہ لوگوں کو معاف کیا جائے گا اور ان پر حمت ہوگی۔

الا ان اللہ ھو الغفور الرحیم (52 : 5) “ آگاہ رہو حقیقت میں اللہ غفورو رحیم ہے ”۔ اللہ کی صفات عزت اور حکمت کے ساتھ اور صفات علو اور عظمت کے ساتھ صفات مغفرت اور رحمت کو بھی یہاں جمع کیا گیا ہے تا کہ لوگ رب کی تمام صفات کو پیش نظر رکھیں۔

اس پیرے کے آخر میں ، ان صفات الٰہیہ کے بیان اور اس کائنات میں ان کے اثرات کے بیان کے بعد ، روئے سخن ان لوگوں کی طرف مڑ جاتا ہے۔ جنہوں نے اللہ کے سوا کچھ اور سرپرست بھی بنا رکھے ہیں ، حالانکہ یہ بات ظاہر ہوچکی ہے کہ اس کائنات میں اللہ کے سوا کوئی سرپرست نہیں ہے تا کہ رسول اللہ ﷺ ان کے معاملات سے اب دستکش ہوجائیں ، کیونکہ آپ کو ان کا حوالہ دار نہیں مقرر کیا گیا۔ اللہ ہی دراصل ان پر نگران ہے اور مختار ہے۔

والذین اتخذوا من۔۔۔۔۔۔ علیھم بوکیل (42 : 6) “ جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے کچھ دوسرے سرپرست بنا رکھے ہیں ، اللہ ہی ان پر نگران ہے ، تم ان کے حوالہ دار نہیں ہو ”۔ انسانی تصور میں ان کج خلق اور بدبختوں کی یہ تصویر آتی ہے کہ انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے سر پرستوں کے سامنے ہاتھ دراز کیے ہوئے ہیں اور ان سے کچھ مانگتے ہیں اور ان کے ہاتھ خالی ہیں ، وہاں تو ہوا کے سوا کچھ نہیں۔ ان کی تصویر اور ان کے سرپرستوں کی تصویر نہایت ہی مکروہ ، حقیر اور بونی تصویر ہے۔ اللہ کے قبضے میں ہیں یہ لوگ اور نہایت ہی چھوٹے ہیں۔ نبی ﷺ کو کہہ دیا گیا ہے کہ آپ ان کے معاملے سے بری الذمہ ہیں۔ آپ ان کی پرواہ نہ کریں ، اللہ تعالیٰ ان کا بندوبست کرے گا۔

اہل ایمان کے دلوں میں یہ بات اچھی طرح بیٹھ جانی چاہئے اور اس معاملے میں ان کو مطمئن ہونا چاہئے ، ہر حال میں مطمئن ہونا چاہئے۔ وہ لوگ جن کو سرپرست بنایا گیا ہے ، وہ اس کرۂ ارض پر برسر اقتدار اور اصحاب جاہ و مرتبہ ہوں یا دوسرے لوگ ہوں۔ اصحاب اقتدار کے بارے میں تو اہل ایمان کو یوں مطمئن ہونا چاہئے کہ وہ جس قدر جبار وقہار بھی ہوں ، اگر ان کا اقتدار قرآن وسنت سے ماخوذ نہیں ہے تو پھر وہ اللہ کی گرفت میں ہیں ، اللہ نے انہیں احاطے میں لے رکھا ہے۔ ان کے اردگرد پوری کائنات اللہ پر ایمان لانے والی ہے ، صرف وہی منحرف ہیں۔ وہ ایک نہایت ہی موزوں زمزمے میں ایک کرخت آواز کی طرح ہیں۔ اور اگر یہ سرپرست اہل اقتدار کے علاوہ اور پیر فقیر ہوں تو اہل ایمان پر ان کی ذمہ داری نہیں ہے کیونکہ اللہ کی مخلوق میں سے اگر کوئی غلط راہ اختیار کرتا ہے۔ تو یہ ذمہ دار نہیں۔ دین و عقائد میں زبردستی نہیں ہے ، ان پر صرف تبلیغ کی ذمہ داری ہے ۔ بندوں کے دلوں پر نگران اللہ ہی ہے۔

چناچہ مومنین کا کام یہ ہے کہ وہ اپنی سیدھی راہ پر وحی الٰہی کی روشنی میں چلیں اور اگر دوسرے لوگ غلط عقائد اختیار کرتے ہیں تو ان پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ یہ غلط عقائد جو بھی ہوں ، وہ خود ذمہ دار ہیں۔ اب ہم اس سورت کے پہلے موضوع یعنی وحی و رسالت کی طرف آتے ہیں :

آیت 1 { حٰمٓ۔ ”ح ‘ م۔“

حم عسق کی تفسیر :حروف مقطعات کی بحث پہلے گزر چکی ہے۔ ابن جریر ؒ نے یہاں پر ایک عجیب و غریب اثر وارد کیا ہے جو منکر ہے اس میں ہے کہ ایک شخص حضرت ابن عباس کے پاس آیا اس وقت آپ کے پاس حضرت حذیفہ بن یمان بھی تھے۔ اس نے ان حروف کی تفسیر آپ سے پوچھی آپ نے ذرا سی دیر سر نیچا کرلیا پھر منہ پھیرلیا اس شخص نے دوبارہ یہی سوال کیا تو آپ نے پھر بھی منہ پھیرلیا اور اس کے سوال کو برا جانا اس نے پھر تیسری مرتبہ پوچھا۔ آپ نے پھر بھی کوئی جواب نہ دیا اس پر حضرت حذیفہ نے کہا میں تجھے بتاتا ہوں اور مجھے یہ معلوم ہے کہ حضرت ابن عباس اسے کیوں ناپسند کر رہے ہیں۔ ان کے اہل بیت میں سے ایک شخص کے بارے میں یہ نازل ہوئی ہے جسے (عبد الا لہ) اور عبداللہ کہا جاتا ہوگا وہ مشرق کی نہروں میں سے ایک نہر کے پاس اترے گا۔ اور وہاں دو شہر بسائے گا نہر کو کاٹ کر دونوں شہروں میں لے جائے گا جب اللہ تعالیٰ ان کے ملک کے زوال اور ان کی دولت کا استیصال کا ارادہ کرے گا۔ اور ان کا وقت ختم ہونے کا ہوگا تو ان دونوں شہروں میں سے ایک پر رات کے وقت آگ آئے گی جو اسے جلا کر بھسم کر دے گی وہاں کے لوگ صبح کو اسے دیکھ کر تعجب کریں گے ایسا معلوم ہوگا کہ گویا یہاں کچھ تھا ہی نہیں صبح ہی صبح وہاں تمام بڑے بڑے سرکش متکبر مخالف حق لوگ جمع ہوں گے اسی وقت اللہ تعالیٰ ان سب کو اس شہر سمیت غارت کر دے گا۔ یہی معنی ہیں (حم عسق) کے یعنی اللہ کی طرف سے یہ عزیمت یعنی ضروری ہے یہ فتنہ قضا کیا ہوا یعنی فیصل شدہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عین سے مراد عدل سین سے مراد سیکون یعنی یہ عنقریب ہو کر رہے گا (ق) سے مراد واقع ہونے والا ان دونوں شہروں میں۔ اس سے بھی زیادہ غربت والی ایک اور روایت میں مسند حافظ ابو یعلی کی دوسری جلد میں مسند ابن عباس میں ہے جو مرفوع بھی ہے لیکن اس کی سند بالکل ضعف ہے اور منقطع بھی ہے اس میں ہے کہ کسی نے ان حروف کی تفسیر آنحضرت ﷺ سے سنی ہے حضرت ابن عباس جلدی سے اکھٹے ہوئے اور فرمایا ہاں میں نے سنی ہے (حم) اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے عین سے مراد (عاین المولون عذاب یوم بدر) ہے۔ سین سے مراد (اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَذَكَرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّانْتَــصَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا ۭ وَسَـيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اَيَّ مُنْقَلَبٍ يَّنْقَلِبُوْنَ02207) 26۔ الشعراء :227) (ق) سے کیا مراد ہے اسے آپ نہ بتاسکے تو حضرت ابوذر کھڑے ہوئے اور حضرت ابن عباس کی تفسیر کے مطابق تفسیر کی اور فرمایا (ق) سے مراد (قارعہ) آسمانی ہے جو تمام لوگوں کو ڈھانپ لے گا ترجمہ یہ ہوا کہ بدر کے دن پیٹھ موڑ کر بھاگنے والے کفار نے عذاب کا مزہ چکھ لیا۔ ان ظالموں کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ ان کا کتنا برا انجام ہوا ؟ ان پر آسمانی عذاب آئے گا جو انہیں تباہ و برباد کر دے گا پھر فرماتا ہے کہ اے نبی جس طرح تم پر اس قرآن کی وحی نازل ہوئی ہے اسی طرح تم سے پہلے کے پیغمبروں پر کتابیں اور صحیفے نازل ہوچکے ہیں یہ سب اس اللہ کی طرف سے اترے ہیں جو اپنا انتقام لینے میں غالب اور زبردست ہے جو اپنے اقوال و افعال میں حکمت والا ہے حضرت حارث بن ہشام نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ آپ پر وحی کس طرح نازل ہوتی ہے ؟ آپ نے فرمایا کبھی تو گھنٹی کی مسلسل آواز کی طرح جو مجھ پر بہت بھاری پڑتی ہے جب وہ ختم ہوتی ہے تو مجھے جو کچھ کہا گیا وہ سب یاد ہوتا ہے اور کبھی فرشتہ انسانی صورت میں میرے پاس آتا ہے مجھ سے باتیں کرجاتا ہے جو وہ کہتا ہے میں اسے یاد رکھ لیتا ہوں حضرت صدیقہ فرماتی ہیں سخت جاڑوں کے ایام میں بھی جب آپ پر وحی اترتی تھی تو شدت وحی سے آپ پانی پانی ہوجاتے تھے یہاں تک کہ پیشانی سے پسینہ کی بوندیں ٹپکنے لگتی تھیں۔ (بخاری مسلم) مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے حضور ﷺ سے وحی کی کیفیت پوچھی تو آپ نے فرمایا میں ایک زنجیر کی سی گھڑگھڑاہٹ سنتا ہوں پھر کان لگا لیتا ہوں ایسی وحی میں مجھ پر اتنی شدت سی ہوتی ہے کہ ہر مرتبہ مجھے اپنی روح نکل جانے کا گمان ہوتا ہے۔ شرح صحیح بخاری کے شروع میں ہم کیفیت وحی پر مفصل کلام کرچکے ہیں فالحمد للہ، پھر فرماتا ہے کہ زمین و آسمان کی تمام مخلوق اس کی غلام ہے اس کی ملکیت ہے اس کے دباؤ تلے اور اس کے سامنے عاجز و مجبور ہے وہ بلندیوں والا اور بڑائیوں والا ہے وہ بہت بڑا اور بہت بلند ہے وہ اونچائی والا اور کبریائی والا ہے اس کی عظمت اور جلالت کا یہ حال ہے کہ قریب ہے آسمان پھٹ پڑیں۔ فرشتے اس کی عظمت سے کپکپاتے ہوئے اس کی پاکی اور تعریف بیان کرتے رہتے ہیں اور زمین والوں کے لئے مغفرت طلب کرتے رہتے ہیں جیسے اور جگہ ارشاد ہے آیت (اَلَّذِيْنَ يَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهٗ يُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَيَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۚ رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِيْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِيْلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَــحِيْمِ) 40۔ غافر :7) یعنی حاملان عرش اور اس کے قرب و جوار کے فرشتے اپنے رب کی تسبیح اور حمد بیان کرتے رہتے ہیں اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لئے استغفار کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو نے اپنی رحمت و علم سے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے پس تو انہیں بخش دے جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرے راستے کے تابع ہیں انہیں عذاب جہنم سے بچا لے۔ پھر فرمایا جان لو کہ اللہ غفور و رحیم ہے، پھر فرماتا ہے کہ مشرکوں کے اعمال کی دیکھ بھال میں آپ کر رہا ہوں انہیں خود ہی پورا پورا بدلہ دوں گا۔ تیرا کام صرف انہیں آگاہ کردینا ہے تو کچھ ان پر داروغہ نہیں۔

آیت 1 - سورہ شوریٰ: (حم...) - اردو