وما اھلکنا من قریۃ الا لھا مذرون ، ذکری وما کنا ظلمین (209)
اللہ تعالیٰ نے انسانوں سے یہ فطری عہد لیا ہے کہ وہ صرف اس کی بندگی کریں گے اور اسے وحدہ لاشریک سمجھیں گے۔ انسان کی فطرت از خود ایک خالق کائنات کے وجود کو تسلیم کرتی ہے بشرطیکہ اس کے اندر فساد اور انحراف پیدا نہ ہوجائے۔ (پارہ 9 ، ص ……) اور پھر اللہ نے اس کائنات میں دلائل کو ڈھیر لگا دیا۔ یہ تمام دلائل اس بات کی طرف راہنمائی کرتے ہیں کہ اس کائنات کا ایک خالق موجود ہے۔ اگر لوگ اس فطری عہد کو بھول جائیں اور دلائل ایمان پر غور نہ کریں تو پھر ان کے پاس ایک ڈرانے والا آتا ہے جو ان کو یہ فطری سبق یاد دلاتا ہے اور خواب غفلت سے ان کو جگاتا ہے۔ اس معنی میں رسالت ایک یاد دہانی اور سوئے ہئے لوگوں کو جگانے سے عبارت ہے اور یہ اللہ کا رحم و کرم ہے کہ اللہ نے اپنے اوپر پیغمبر بھیجنا لازم کردیا کہ ہم اس وقت تک عذاب نہیں دیتے جب تک رسول نہ بھیجیں۔ جب رسول آتا ہے اور لوگ پھر بھی نہیں مانتے ، نہیں یاد کرتے اور نہیں جاگتے تو یہ ان کی ناکامی ہوتی ہے اور وہ راہ ہدایت ترک کردیتے ہیں لہٰذا عذاب حق ہوجاتا ہے۔
قرآن کریم کے بارے میں ایک جدید بحث :