سورہ شعراء: آیت 18 - قال ألم نربك فينا وليدا... - اردو

آیت 18 کی تفسیر, سورہ شعراء

قَالَ أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينَا وَلِيدًا وَلَبِثْتَ فِينَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ

اردو ترجمہ

فرعون نے کہا "کیا ہم نے تجھ کو اپنے ہاں بچہ سا نہیں پالا تھا؟ تو نے اپنی عمر کے کئی سال ہمارے ہاں گزارے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala alam nurabbika feena waleedan walabithta feena min AAumurika sineena

آیت 18 کی تفسیر

قال الم نربک ……بنی اسرآئیل (22)

فرعون کو سخت تعجب ہوتا ہے۔ وہ یقین نہیں کرسکتا کہ موسیٰ اس قدر عظیم دعویٰ بھی کرسکتے ہیں کہ میں (رسول رب العالمین) ہوں اور پھر وہ فرعون سے اس قدر عظیم مطالبہ کرتے ہیں۔

ان ارسل معنا بنی اسرآئیل (26 : 18) ” کہ ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دو ۔ “ کیونکہ انہوں نے جب موسیٰ کو آخری بار دیکھا تھا تو وہ ان کے گھر میں ان کا پروردہ تھا ، جس کے صندوق کو انہوں نے دریا سے اٹھا لیا تھا اور پھر ایک قبطی کے قتل کے بعد بھاگ گیا تھا۔ وہ قطبی جو ایک اسرائیل کے ساتھ ناحق الجھ رہا تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ یہ قبطی فرعون کے حاشیہ نشینوں میں سے تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) دس سال تک غائب رہے اور اب آئے تو اس عظیم اور ناقابل تصور مطالبے کے ساتھ یہی وجہ ہے کہ فرعون بات کا آغاز نہایت تعجب ، حقارت اور مزاحیہ انداز سے کرتا ہے کہ تم وہی تو ہو جس نے یہ یہ کام کئے اور اب :

قال الم …الکفرین (26 : 19) ” فرعون نے کہا ” کیا ہم نے تجھ کو اپنے ہاں بچہ سا نہیں پالا تھا ؟ تو نے اپنی عمر کے کء سال مہارے ہاں گزارے اور اس کے بعد کر گیا جو کچھ کر گیا تو بڑا احسان فراموش آدمی ہے۔ “ کیا اس پرورش اور عزت کا یہ صلہ ہے جو تو ہمیں دے رہا ہے ؟ اب تو آیا ہے اور ہم جس نظام زندگی کے مطابق اپنا نظام چلا رہے ہیں تو اس کی مخالفت کر رہا ہے۔ تاکہ تو اس بادشاہ کے خلاف بغاوت کر دے جس کے گھر میں پلا ہے اور میرے سوا تو کسی اور الہ اور رب اور حاکم کی بات کرتا ہے۔ تو ایک عرصہ تک ہمارے اندر رہ چکا ہے ، اس وقت تو تو نے کبھی ایسا کوئی پروگرام نہیں بنایا۔ نہ ایسے دعوے کئے جو اب کر رہا ہے۔ اس عظیم پروگرام سے تو ، تو نے ہمیں خبردار نہیں کیا۔

اور فرعون قبطی کے قتل کے واقعہ کو نہایت مبالغے کے ساتھ پیش کرتا ہے اور دھمکی آمیز انداز میں یاد دلاتا ہے۔

وفعلت فعلتک التی فعلت (62 : 19) ” اور تو نے وہ اپنا کام کیا جو تو نے کیا۔ “ یعنی بہت ہی برا کام ، اس قدر برا کہ اس کو صراحت کے ساتھ منہ پر لانا ہی اچھا نہیں ہے۔ تو نے اس قدر عظیم جرم کا ارتکاب کیا۔

وانت من الکفرین (26 : 19) ” اس طرح تو رب العالمین کا منکر بن گیا۔ “ اور اب تو اسی رب العالمین کی باتیں کرتا ہے۔ اس وقت تو تو رب العالمین کی بات نہ کرتا تھا۔

یوں فرعون نے حضرت موسیٰ کی تردید میں تمام مسکت دلائل گنوا دیئے اور اس نے یہ خیال کیا کہ شاید موسیٰ (علیہ السلام) ان دلائل کے بعد لاجواب ہوجائیں گے۔ کوئی مقابلہ نہ کرسکیں گے ، خصوصاً اس نے ایک سابق مقدمہ قتل کی

طرف بھی اشارہ کردیا اور بالواسطہ دھمکی دے دی ہے کہ تمہارے خلاف اس مقدمہ کی کارروائی بھی ہو سکتی ہے اور سزائے قصاص تم پر نافذ ہو سکتی ہے۔

لیکن حضرت موسیٰ کی تو دعا قبول ہوچکی تھی۔ اب ان کی زبان میں کوئی گرہ نہ تھی۔ وہ بڑی روانی سے کہہ رہے تھے۔

قال فعلتھا ……المرسلین (26 : 21) وتلک نعمۃ تمنھا علی ان عبدت بنی اسرائیل (26 : 22) ” موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا ” اس وقت وہ کام میں نے نادانستگی میں کردیا تھا۔ پھر میں تمہارے خوف سے بھاگ گیا۔ اس کے بعد میرے رب نے مجھ کو حکم عطا کیا اور مجھے رسولوں میں شامل فرما لیا۔ رہا تیرا احسان ، جو تو نے مجھ پر جتایا ہے تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا لیا تھا۔ “ میں نے جو مستحق کا ارتکاب کیا تو اس وقت میں نادان تھا۔ اس وقت میں نے اپنی مظلوم قوم کی حمایت کی بنا پر یہ فعل کیا تھا۔ یہ کام میں اپنے اس نظریہ حیات کی حمایت میں نہ کیا تھا جو اللہ نے اب مجھے بطور حکمت عطا کیا ہے۔

فقرت منکم لما خفتکم (26 : 21) ” پھر میں تمہارے خوف سے بھاگ گیا “۔ کیونکہ مجھے جان کا ڈر تھا۔ اللہ کو میری خیریت مطلوب تھی۔ اس نے مجھے یہ حکمت عطا کرنی تھی۔

وجعلنی من المرسلین (26 : 21) ” اور مجھے رسولوں میں شامل کرلیا۔ “ میں کوئی نیا رسول نہیں ہوں۔ میں جماعت رسل میں سے ایک ہوں۔

اب حضرت موسیٰ اس شخص کی طنز کا جواب طنزیہ انداز میں دیتے ہیں۔

وتلک نعمۃ تمنھا علی ان عبدت بنی اسرائیل (26 : 22) ” یہ احسان جو تو نے مجھ پر جتایا ہے ، اس کی حقیقت یہ ہے کہ تو نے بنی اسرائیل غلام بنا لیا تھا۔ “ میں تمہارے گھر میں باہر مجبوری پلا ، کیونکہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا تھا۔ تو ان کے لڑکوں کو قتل کرتا تھا ، اس وجہ سے میری ماں مجبور ہوئی کہ مجھے صندوق میں بند کر کے موجوں کے حوالے کر دے ۔ اس طرح تم لوگوں نے صندوق کو پکڑ لیا اور اس طرح میں تمہارے گھر میں پلا اور والدین کے گھر میں پلنے سے محروم رہا تو کیا یہ ہے وہ احسان جو تم جتلاتے ہو اور کیا یہ تمہاری مہربانیاں ہیں ؟

اب فرعون اپنی بات بدل دیتا ہے۔ اس موضوع کو چھوڑ کر اب وہ اصل بات پر آجاتا ہے لیکن یہاں بھی وہ مستکبرین کی طرح تجاہل عارفانہ کے انداز میں بات کرتا ہے۔ مزاحیہ اور گستاخانہ انداز اور گستاخی بھی رب العالمین کے نجاب میں۔

آیت 18 قَالَ اَلَمْ نُرَبِّکَ فِیْنَا وَلِیْدًا وَّلَبِثْتَ فِیْنَا مِنْ عُمُرِکَ سِنِیْنَ ”یہ قرآن کا خاص اسلوب ہے کہ کوئی واقعہ بیان کرتے ہوئے اس کی غیر ضروری تفاصیل چھوڑ دی جاتی ہیں۔ چناچہ یہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مصر پہنچنے اور اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کے ساتھ فرعون کے دربار میں جا کر اسے دعوت دینے سے متعلق تمام تفصیلات کو چھوڑ کر فرعون کے جواب کو نقل کیا گیا ہے کہ کیا تم وہی نہیں ہو جس کو ہم نے دریائے نیل میں بہتے ہوئے صندوق سے نکالا تھا اور پھر پال پوس کر بڑا کیا تھا ؟ آیت زیر مطالعہ میں قرآن کے الفاظ کا امکانی حد تک مناسب انداز میں ترجمہ تو وہی ہے جو اوپر کیا گیا ہے ‘ لیکن جس ماحول اور جس انداز میں فرعون نے یہ جملے کہے ہوں گے ان کا تصور کریں تو مفہوم کچھ یوں ہوگا کہ تم ہمارے ٹکڑوں پر پلے ہو اور آج اللہ کے رسول بن کر ہمارے ہی سامنے آ کھڑے ہوئے ہو۔ ہماری بلیّ اور ہمیں کو میاؤں ![ سورة الاعراف کی آیات 104 ‘ 105 کے ذیل میں یہ وضاحت آچکی ہے کہ یہ وہ فرعون نہ تھا جس کے گھر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پرورش پائی تھی ‘ بلکہ یہ اس کا بیٹا تھا۔ زیر مطالعہ آیت کے اسلوب سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ اگر یہ وہی فرعون ہوتا تو کہتا کہ میں نے تجھے پالا پوسا ‘ لیکن یہ کہہ رہا ہے کہ تو ہمارے ہاں رہا ہے اور ہم نے تیری پرورش کی ہے۔ ]

آیت 18 - سورہ شعراء: (قال ألم نربك فينا وليدا ولبثت فينا من عمرك سنين...) - اردو