سورہ شعراء: آیت 10 - وإذ نادى ربك موسى أن... - اردو

آیت 10 کی تفسیر, سورہ شعراء

وَإِذْ نَادَىٰ رَبُّكَ مُوسَىٰٓ أَنِ ٱئْتِ ٱلْقَوْمَ ٱلظَّٰلِمِينَ

اردو ترجمہ

اِنہیں اس وقت کا قصہ سناؤ جب کہ تمہارے رب نے موسیٰؑ کو پکارا "ظالم قوم کے پاس جا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith nada rabbuka moosa ani iti alqawma alththalimeena

آیت 10 کی تفسیر

درس نمبر 162 ایک نظر میں

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصے کا یہ حصہ ، اس سورت کے موضوع اور محور کے ساتھ بہت ہی ہم آہنگ ہے۔ اس سورت میں مدار کلام زیادہ تر اس پر ہے کہ مکذبین کا انجام کیسا ہوا کرتا ہے۔ پھر اس سورت میں بھی حضور اکرم ﷺ کو تسلی دی گئی ہے اور مشرکین کی جانب سے روگردانی اور تکذیب کے نتیجے میں آپ کو جو مشکلات درپیش تھیں۔ ان پر آپ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار بھی اس سورت کا موضوع سخن ہے۔ پھر اس سورت میں اس بات کی یقین دہانی بھی ہے کہ اس دعوت اور اس کی حامل تحریک کا حامی و مددگار اور محافظ اللہ ہے۔ اگرچہ یہ لوگ کمزور ہیں اور ان کے مخالفین زاد و عتاد یعنی ساز و سامان سے لیس ہیں۔ اہل قوت اور جبار ہیں اور ان پر مظالم ڈھا رہے ہیں۔ کیونکہ اس سورت کے نزول کے وقت مکہ میں تحریک اسلامی کچھ ایسے ہی حالات سے گزر رہی تھی۔ انبیائے سابقین کے قصص قرآن کے منہاج تربیت میں ایک اہم مواد اور وسائل تربیت ہیں۔

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصے کی بعض کڑیاں سورت بقرہ ، سورت مائدہ ، سورت اعراف ، سورت یونس ، سورت اسرائ، سورت کہف اور سور طہ میں گزر چکی ہیں۔ جبکہ بعض دوسری سورتوں میں بھی حیات موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف مجمل سے اشارات موجود ہیں۔

جہاں جہاں بھی اس قصے کی کڑی کی طرف کوئی اشارہ آیا ہے یا کوئی کڑی تفصیل کے ساتھ دی گئی ہے وہاں موضوع سخن کے ساتھ وہ کڑی اور وہ حصہ نہایت ہی موزوں رہا ہے ہر جگہ سیاق کلام کے ساتھ مناسب حصہ لایا گیا ہے۔ جس طرح اس قصے میں جو کڑیاں ہیں وہ اس سورت کے موضوع کے ساتھ متناسب ہیں اور اسی مقصد کو واضح کرتی ہیں۔ (تفصیلات کے لئے دیکھیے فی ظلال پارہ ششم)

یہاں جو حلقہ دیا گیا ہے وہ رسالت او اس کی تکذیب کے ساتھ متعلق ہے اور تکذیب نیز حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کے خلاف سازش کی وجہ سے فرعون اور اس کی قوم کی غرقابی کے واقعات دیئے گئے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ اور آپ کے ساتھی ظالموں کے چنگل سے ربانی پا گئے ۔ چناچہ یہ پوری کڑی اس آیت کی تصدیق ہے۔

وسیعلم الذین طلموا ای منقلب ینقلبون (26 : 228) ” اور عنقریب جان لیں گے وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا کہ وہ کس انجام تک پہنچتے ہیں۔ “ اور اللہ کے اس قول کی بھی تصدیق ہے۔

فقد کذبوا فسیاتیھم انبوا ماکانوا بہ یستھزء ون (26 : 6) ” اب جبکہ انہوں نے جھٹلا دیا تو عنقریب پہنچ جائیں گی ان تک خبریں اس چیز کی جس کے ساتھ وہ مذاق کرتے تھے۔ “ حضرت موسیٰ کے قصے کا یہ حصہ چند مناظر پر مشتمل ہے جن کو دکھانا ضروری تھا۔ ان مناظر کے درمیان گیپ اور وقفے ہیں جن کے اندر منظر پر پردہ گر جاتا ہے او اس کے بعد جب پردہ اٹھتا ہے تو دوسرا منظر نظروں کے سامنے ہوتا ہے۔ یہ وہ خصوصیت ہے جو پورے قرآن کریم میں قصص کے پیش کرتے وقت محلوظ رہی ہے۔

اس کڑی میں سات مشاہد ہیں۔ پہلے منظر میں اللہ کی جانب سے ندا آتی ہے۔ حضرت موسیٰ رب سے ہمکلام ہوتے ہیں اور ان کو منصب نبوت سے سرفراز کیا جاتا ہے اور ان پر وحی آتی ہے۔ دوسرے منظر میں کلیم اور فرعون کو آمنا سامنا ہوتا ہے۔ اس میں فرعون کے درباری بھی موجود ہیں۔ حضرت موسیٰ رسالت پیش فرماتے ہیں اور عصا اور ید بیضا کے معجزے بھی دکھائے جاتے ہیں۔ تیسرے منظر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں جادوگروں کو لایا جاتا ہے۔ ایک وسیع میدان میں لوگ جمع ہو کر مقابل ی کی تدابیر پر بحث ہوتی ہے۔ چوتھے منظر میں جادو گر فرعون کے دربار میں جمع ہیں اور انعام و اکرام کے پکے وعدے لے رہے ہیں۔ اگر وہ میدان مار لیں۔ پانچواں منظر مقابلے کا منظر ہے ، مقابلہ ہوتا ہے ، جادوگر ایمان لاتے ہیں۔ فرعون ان کو دھمکیاں دیتا ہے۔ چھٹے منظر میں دونوں کیمپوں کی جھلکیاں ہیں ایک طرف وحی الٰہی کا منظر ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کی طرف سے حکم دیا جاتا ہے کہ تم تیاری کرو اور میرے بندوں کو لے کر رات کے وقت نکل جائو اور دوسری طرف فرعون تمام علاقوں میں اپنے کارندے بھیجتا ہے اور فوجیں جمع ہوتی ہیں۔ ساتویں منظر میں یہ تعاقب کرنے والی افواج اور بھاگنے والوں مسلمان ایک سمندر کے سامنے ہیں۔ سمندر پھٹ جاتا ہے او ان آبی راستوں سے یہ مظلوم پار ہوجاتے ہیں اور ظالم غرق ہوجاتے ہیں۔

یہی مناظر سورت اعراف ، سورت یونس اور سورت طہ میں بھی پیش کئے گئے ہیں۔ لیکن ہر جگہ انداز اور قصے کا رنگ مختلف ہے اور بات جس رخ پر جا رہی ہوتی ہے ، قصے کو بھی اسی انداز پر لایا جاتا ہے۔ چناچہ قصے کا وہ پہلو اجاگر کیا جاتا ہے جو زیر بحث موضوع کے ساتھ متعلق ہو۔

اعراف میں قصے کا آغاز ہی کلیم اور فرعون کے مختصر مکالمے سے ہوا ہے۔ پھر جادوگروں کے ساتھ مقابلے کی ایک جھلک دکھائی گئی ہے جبکہ فرعون او اس کے سرداروں کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کو اچھی طرح تفصیل کے ساتھ دکھایا گیا ہے اور جادوگروں کے مقابلے اور لشکر فرعون کی غرقابی کے درمیان مصر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مصر میں معجزات دکھاتے ہوئے منظر پر لایا گیا ہے۔ پھر جب یہ لشکر کامیابی کے ساتھ سمندر سے گزر جاتا ہے تو پھر ہجرت کی زندگی کے کئی حلقے پیش کئے گئے ہیں ، جبکہ یہاں اس سورت میں یہ کڑیاں حذف کردی گئی ہیں اور حضرت موسیٰ اور فرعون کے درمیان توحید کے موضوع پر مکالمہ طوالت کے ساتھ دیا گیا ہے کیونکہ یہ اس سورت کا موضوع ہے اور مشرکین مکہ اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان یہی مکالمہ زوروں پر ہے اور سورت یونس میں مختصر مکالمہ کلیم و فرعون سے آغاز ہوتا ہے اور عصا اور ید بیضا کے معجزات بھی نہیں دکھائے جاتے اور جادوگروں کے ساتھ مکالمے کی تفصیلات بھی حذف کردی گئی ہیں جبکہ یہاں ان دونوں کو مفصل لایا گیا ہے اور طہ میں حضرت موسیٰ اور رب تعالیٰ کے درمیان مناجات کو مفصل لایا گیا ہے۔ پھر موسیٰ اور فرعون کا سامنا ، جادوگروں کا مقابلہ سرسری طور پر اور بنی اسرائیل کا سفر ہجرت مفصل ہے۔ یہاں فرعون کی غرقابی پر قصہ کے مناظر ختم کردیئے جاتے ہیں۔

اس طرح جب ہم اس قصے کو قرآن کریم کی مختلف سورتوں میں بار بار پاتے ہیں تو قرآن کے اسلوب بیان کا یہ کمال ہمارے سامنے آتا ہے کہ کسی جگہ بھی ہمیں یہ نظر نہیں آتا کہ یہ وہی قصہ ہے جو دہرایا جا رہا ہے کیونکہ ہر جگہ مختلف کڑیاں دکھائی گئی ہیں۔ مختلف مناظر ہیں۔ قصے کا ایک مخصوص پہلو کھول کر بیان کیا جاتا ہے اور انداز بیان تو ہر جگہ نیا ہوتا ہے۔ یہ تمام خصوصیات قصے کو ہر جگہ نیا بنا دیتی ہیں اور ہر جگہ قصہ اپنے موضوع کے ساتھ ہم آہنگ بھی ہوتا ہے۔

درس نمبر 162 تشریح آیات

10……تا……68

واذ نادی ……اسرائیل (17)

اس سورت میں جو قصے لائے گئے ان کے ذریعے حضور اکرم ﷺ کو مخاطب کیا گیا ہے۔ ذرا سورت کے آغاز کو ایک بار پھر ملاحظہ فرمائیں۔

لعلک باخع ……یستھزء ون (6) (26 : 3 تا 6) ” اے نبی شاید تم اس غم میں اپنی جان کھو دو گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔ ہم چاہیں تو آسمان سے ایسی نشانی نازل کرسکتے ہیں کہ ان کی گردنیں اس کے آگے جھک جائیں۔ لوگوں کے پاس رحمٰن کی طرف سے جو نئی نصیحت بھی آتی ہے یہ اس سے منہ موڑ لیتے ہیں ، اب جبکہ یہ جھٹلا چکے ہیں۔ عنقریب ان کو اس چیز کی حقیقت معلوم ہوجائے گی جس کا یہ مذاق اڑاتے ہیں۔ “ اب جبکہ یہ جھٹلا چکے ہیں۔ عنقریب ان کو اس چیز کی حقیقت معلوم ہوجائے گی جس کا یہ مذاق اڑاتے ہیں۔ ‘ ‘ اس تمہید کے بعد یہ تمام قصص لائے گئے ہیں اور ان میں بیان شدہ حصوں کا بنیادی مقصد مکذبین اور مستھزئین کا انجام بتانا ہے۔

واذ نادی ربک موسیٰ ان ائت القوم الظلمین (26 : 10) قوم فرعون الا یتقون (26 : 11) ” انہیں اس وقت کا قصہ سنائو جب کہ تمہارے رب نے موسیٰ کو پکارا ” ظالم قوم کے پاس جا…فرعون کی قوم کے پاس …کیا وہ نہیں ڈرتے ؟ “ یہ ہے یہاں اس قصے کا پہلا منظر ، اس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو منصب رسالت عطا کر کے ایک مشن دے دیا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ تم نے ایک ظالم قوم کے پاس جانا ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے اپنی ذات پر ظلم کیا ہے کہ کفر و گمراہی میں مبتلا ہیں۔ پھر انہوں نے بنی اسرائیل پر ظلم کیا ہے کہ وہ ان کی عورتوں کو زندہ رکھتے ہیں اور مردوں کو ذبح کرتے ہیں اور ان کے ساتھ جگہ جگہ مذاق کرتے ہیں اور طرح طرح کی سزائیں دیتے ہیں۔ اس قوم کی صفات پہلے بیان کرنے کے بعد اب ان کا نام لیا جاتا ہے۔ قوم فرعون کے پاس جائو۔ حضرت موسیٰ اور تمام انسان تعجب کرتے ہیں کہ کیا یہ ظالم قوم اپنے برے انجام سے نہیں ڈرتی۔ کیا ان کو خدا کا خوف نہیں ہے۔ کیا اپنے ان مظالم کا انجام انہیں معلوم نہیں ہے۔ کیا یہ لوگ اس قدر گھنائونے جرائم کے بعد بھی باز نہیں آتے۔ ان کا معاملہ تو عجیب ہے اور تعجب انگیز ہے اور اسی طرح تمام ایسی اقوام کا معاملہ ہے جو حدت گزر جاتی ہیں۔

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے فرعون اور اس کی قوم کا معاملہ کوئی نیا نہیں تھا وہ تو ان کو اچھی طرح جانتے تھے وہ فرعون کے ظلم ، اس کے جبر اور اس کی سرکشی سے اچھی طرح باخبر تھے اور اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ تو ایک عظیم اور مشکل مشن ہے جو ان کے حوالے کردیا گیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے رب کے سامنے اپنی کمزوریاں رکھ دیتے ہیں۔ اس لئے نہیں کہ وہ اس دعوت سے پہلو تہی کرنا چاہتے ہیں اور مستقلاً معذرت کرنا چاہتے ہیں بلکہ اس مشن کے لئے مزید ضروری امداد اور معاونت کے طلبگار ہیں۔

قال رب انی اخاف ان یکذبون (26 : 12) ویضیق صدری ولاینطلق لسانی فارسل الی ھرون (26 : 31) ولھم علی ذنب فاخاف ان یقتلون (26 : 13) اس نے عرض کیا ، ” اے میرے رب ، مجھے خوف ہے کہ وہ مجھ کو جھٹلا دیں گے۔ میرا سینہ گھٹتا ہے اور میری زبان نہیں چلتی۔ آپ ہارون کی طرف رسالت بھیجیں اور مجھ پر ان کے ہاں ایک جرم کا الزام بھی ہے ، اس لئے میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کردیں گے۔ “

یہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی جو بات نقل کی گئی ہے اس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے وہ محض تکذیب کے خوف سے یہ فرماتے ہیں بلکہ ان کو رسالت ایسے حالات میں دی جا رہی ہے کہ ان کے دل کے اندر تنگی پائی جاتی ہے اور ان کو طلاقت لسانی کا ملکہ حاصل نہیں ہے۔ رسالت کے سلسلے میں ان کو ہر کسی سے مباحثہ اور گفتگو کرنی ہوگی اور ان کی حالت یہ ہے کہ ان کی زبان میں لکنت ہے اور اس کے بارے میں سورت طہ میں انہوں نے تصریح فرمائی ہے۔

واحلل عقدہ من لسانی یفقھوا قولی ” اور میری زبان میں جو گرہ ہے اسے کھول دے تاکہ وہ میری بات کو سمجھیں۔ “ جب انسان کی زبان میں لکنت ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے سینہ میں تنگی پیدا جاتی ہے۔ یہ تنگی اس وقت سخت تکلیف دہ ہوتی ہے کہ انسان بات کرنا چاہتا ہے اور جذبات کے ساتھ دلائل کا اظہار چاہتا ہے اور زبان اس وقت ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔ جوں جوں خیالات اور جذبات کا سیلاب رواں ہوتا ہے ، زبان بند ہوتی ہے اور دل تنگ ہوجاتا ہے اور انسان کی حالت قابل دید ہوتی ہے۔ یہ صورت حال ہر کسی کی دیکھی ہوتی ہے۔ اس لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر یشان ہیں کہ اگر ایسے حالات میں ان کی زبان کو گرہ لگ جائے تو بڑی عجیب پوزیشن ہوگی۔ خصوصاً جبکہ مقابلہ فرعون جیسے قہار و جبار کے ساتھ ہو۔ چناچہ حضرت نے اپنی کمزور یاپنے رب کے سامنے رکھی اور ساتھ ہی یہ درخواست بھی کی کہ حضرت ہارون کو بھی مقام رسالت عطا کردیا جائے۔ ان کو بھی اس منصب میں شریک کردیا جائے تاکہ وہ دونوں مل کر اس عظیم فریضے کو ادا کریں۔ مقصد یہ نہ تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس منصب کو قبول کرنے سے ہچکچا رہے ہیں یا پہلو تہی کرنا چاہتے ہیں اور حضرت ہارون چونکہ حضرت موسیٰ سے زیادہ فصیح اللسان تھے اور جذباتی اعتبار سے وہ ٹھنڈے دل دماغ کے مالک تھے ۔ جب دوران کلام حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان کو اگر گرہ لگ گئی تو حضرت ہارون ساتھ موجود ہوں گے وہ استدلال اور مکالمے کو آگے بڑھائیں گے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی اس لکنت کو دور کرنے کے لئے خصوصی دعا بھی فرمائی جس طرح سورت طہ میں ہے اور ہو سکتا ہے کہ اللہ نے اسے دور بھی کردیا ہو لیکن آپ نے پھر بھی حضرت ہارون کو شریک منصب کرنے کے لئے دعا فرمائی اور فرمایا کہ انہیں ان کے لئے وزیر مقرر فرمایا جائے۔

اسی طرح حضرت نے فرمایا۔

ولھم علی ذنب فاخاف ان یقتلون (26 : 13) ” اور مجھ پر ان کے ہاں ایک جرم کا الزام بھی ہے اس لئے میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کردیں گے۔ “ لہٰذا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون سے مقابلہ کرنے سے نہیں ڈرتے تھے اور نہ وہ ادائیگی فرض سے پہلوتہی چاہتے تھے بلکہ آپ حضرت ہارون کو وزیر اور شریک کار مقرر کروانا چاہتے تھے کہ اگر یہ لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جرم قتل میں سزائے موت دے دیں تو ان کے بعد رسالت کا کام حضرت ہارون جاری رکھیں اور اس طرح فریضہ رسالت ادا ہوتا رہے جس طرح اللہ کا حکم تھا۔

چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ احتیاطی تدابیر دعوت اسلامی اور رسالت کی خاطر اختیار کیں۔ داعی کی ذات کے لئے کچھ زیادہ فکر نہ تھی۔ یعنی اگر حضرت موسیٰ کی زبان کو گروہ لگ جائے او آپ تقریر نہ کرسکیں تو حضرت ہارون تیار ہوں ، یہ نہ ہو کہ نیا آنے والا نبی لوگوں کے سامنے تقریر کر رہا ہے اور اچانک اس کی بات ہی رک جائے اور اس طرح دعوت اسلامی کو ایک کمزوری کا سامنا کرنا پڑے۔ اسی طرح اگر ان کو قتل ہی کردیا جائے تو دعوت کا کام ہی رک جائے۔ حالانکہ دعوت کا کام جاری رہنا ضروری ہے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی یہ سوچ بالکل فطری تھی۔ اس لئے کہ اللہ نے ان کو منتخب ہی اسی کام کے لئے کیا تھا اور اللہ نے اپنی نگرانی میں ان کی تربیت ہی اسی مقصد کے لئے فرمانی تھی اور ان کو اللہ نے اپنے کام کے لئے ہی بنایا تھا۔

جب حضرت موسیٰ نے اپنی اس دلچسپی کا اظہار کیا ، دعوت کے بارے میں اپنے خدشات اور احتیاطی تدابیر کا اظہار کیا تو اللہ نے ان کی درخواست قبول کرلی۔ اور آپ کو تسلی دے دی کہ آپ ڈریں نہیں ، یہاں قبولیت دعا کا مرحلہ نہایت ہی مختصر ہے۔ ہارون (علیہ السلام) کو نبی بنانا ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مصر میں پہنچنا ، ہارون (علیہ السلام) سے ملنا ، تمام واقعاتک و حذف کر کے صرف یہ دکھایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ اور ہارون دونوں اپنے رب کے احکام لے کر فرعون کے ساتھ ہمکلام ہونے کی تیاری کر رہے ہیں لیکن حضرت موسیٰ کے خدشات کو صرف ایک ہی سخت لفظ سے روکا جاتا ہے جو غنی کے معنی میں آتا ہے اور جو تنبیہ کے لئے ہے کلا ” ہرگز نہیں۔ “

قال کلا ……اسرائیل (18) (26 : 15 تا 18) ” فرمایا ” ہرگز نہیں ، تم دونوں جائو ہماری نشانیاں لے کر ، ہم تمہار یساتھ سب کچھ سنتے رہیں گے۔ فرعون کے پاس جائو او اس سے کہو ہم کو رب العالمین نے اس لئے بھیجا ہے کہ تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے دے۔ ہرگز نہیں نہ تمہارا دل تنگ ہوگا اور نہ تمہاری زبان میں لکنت ہوگی اور وہ ہرگز تمہیں قتل نہ کرسکیں گے۔ یہ سب خدشات آپ اپنے دل سے نکال دیں تم اور تمہارا بھائی دونوں جائو۔

فاذھبا بایتنا (26 : 15) ” جائو ہماری نشانیاں لے کر “ ان نشانیوں میں سے عصا اور ید بیضا کی نشانی تو حضرت موسیٰ نے دیکھی ہوئی تھی۔ یہاں ان سب باتوں کو مختصر کردیا جاتا ہے کیونکہ اس سورت میں پیش نظر فرعون کے سامنے رسالت کا پیش کرنا ، جادوگروں کے کرتب دکھانا اور فرعون کی غرقابی کی منظر کشی کرنا ہے۔ جائو انا معکم مستمعون (26 : 15) ” ہم تمہارے ساتھ سب کچھ سنتے رہیں گے “ نہایت ہی زور دار اور تاکیدی الفاظ میں کہا جاتا ہے ، جائو تمہیں اللہ کی حمایت یا رعایت اور تحفظ حاصل ہے۔ اللہ تمہارے ساتھ ہے جس طرح وہ ہر وقت ، ہر انسان کے ساتھ ہوتا ہے لیکن یہاں اللہ کی موجودگی کا مقصد یہ ہے کہ ہم تمہاری مدد اور تائید کے لئے حاضر ہیں۔

یہاں نصرت و تائید کا یقین یوں دلایا گیا ہے کہ ہم دیکھ رہے ہیں ، سن رہے ہیں یعنی حضوری اور توجہ انسانوں کے نزدیک اپنے عروج پر ہوتی ہے جب انسان سنتا ہے اس لئے ان کو یہ یقین دلایا جا رہا ہے کہ میری امداد اور نصرت ہر وقت حاضر ہے۔ یہ ہے قرآن کریم کا انداز کہ وہ ہر چیز کو ایک شخص اور مجسم صورت میں پیش کرتا ہے۔ اذھبا ” جائو “

فاتبا فرعون ” فرعون کے پاس جائو “ اور اس کو اپن یمہم سے آگاہ کردیا اور بغیر کسی خوف کے اس کے سامنے اپنا مطلب صاف صاف بیان کر دو ۔

فقولا انا رسول رب العلمین (26 : 16) ” کہ ہم رب العالمین کے بھیجے ہوئے ہیں۔ ‘ یہ تو دو ہیں لیکن چونکہ ہم ایک ہیں ، رسالت ایک ہے ، اس لئے دونوں ایک رسول ہیں۔ یہ اس فرعون کے سامنے کھڑے ہیں جو الوہیت کا دعویٰ کرتا تھا اور اپنی قوم کو یوں باور کراتا تھا۔

ماعلمت لکم من الہ غیری ” میں تمہارے لئے ، اپنے سوا کسی دوسرے الہ کو نہیں جانتا۔ “ یوں اس فرعون کے سامنے سب سے پہلے اس حقیقت کا اظہار ہے کہ ہم دونوں رب العالمین کے فرستادہ ہیں یعنی وہ عالمین کا رب ہے اور وہ عالمین کا رب ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے اور اس میں کوئی مداہنت اور لیپا پوتی نہیں ہو سکتی۔

انا رسول رب العلمین (26 : 16) ان ارسل معنا بنی اسرآئیل (26 : 18) ” ہم کو رب العالمین نے اس لئے بھیجا ہے کہ تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے۔ “ قصہ موسیٰ کے ان اشارات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہم السلام) کو فرعون کے پاس اس لئے رسول بنا کر نہ بھیجا تھا کہ حضرت موسیٰ فرعون اور اس کی قوم کو دین اسلام میں داخل ہونے کی دعوت دیں اور اسلام کے دین کو قبول کریں بلکہ ان کے پاس صرف اس لئے بھیجا گیا تھا کہ فرعون اور اس کی قوم سے بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کردیں۔ وہ اس کی غلامی سے آزاد ہوجائیں اور پھر جس طرح چاہیں اپنے رب کی بندگی کریں۔ وہ تو پہلے سے دین اسلام کے پیروکار تھے۔ حضرت یعقوب ، حضرت یوسف کے دین کو مانتے تھے البتہ ان کے نظریات اور ان کے ذہن میں انحراف ہوگیا تھا ان کے عقائد میں بگاڑ پیدا وہ گیا تھا اس لئے اللہ نے ان کے لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو دوبارہ ارسال کیا کہ وہ ان کے عقائد بھی درست کردیں اور ان کو فرعون کی غلامی سے بھی نجات دلائیں اور ان کو اچھی تربیت دے کر دوبارہ عقیدہ توحید پر قائم کردیں۔

……

یہاں تک تو ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہم السلام) کو نبوت عطا ہوئی ، ان پر وحی آئی اور ان کو دعوت اسلامی کا مشن عطا ہوا۔ اب پردہ گرتا ہے اور دوسرے منظر میں پھر ہم فرعون کے دربار میں کھڑے ہیں۔ ان دونوں مناظر کے درمیان جو غیر ضروری افعال و حرکات ہیں ان کو کاٹ دیا جاتا ہے اور یہ قرآن کریم کا ایک مخصوص انداز بیان ہے کہ وہ مناظر و مشاہد کے درمیان سے غیر ضروری حصے کاٹ دیتا ہے یا مختصر کردیتا ہے۔

موسیٰ ؑ اور اللہ جل شانہ کے مکالمات اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور اپنے رسول اور اپنے کلیم حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کو جو حکم دیا تھا اسے بیان فرما رہے ہیں کہ طور کے دائیں طرف سے آپ کو آواز دی آپ سے سرگوشیاں کیں آپ کو اپنا رسول ﷺ اور برگزیدہ بنایا اور آپ کو فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجا جو ظلم پر کمر بستہ تھے۔ اور اللہ کا ڈر اور پرہیزگاری نام کو بھی ان میں نہیں رہی تھی۔ حضرت موسیٰ ؑ نے اپنی چند کمزوریاں جناب باری تعالیٰ کے سامنے بیان کی جو عنایت الٰہی سے دور کردی گئیں جیسے سورة طہ میں آپ کے سوالات پور کردئیے گئے۔ یہاں آپ کے عذر یہ بیان ہوئے کہ مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے جھٹلادیں گے۔ میرا سینہ تنگ ہے میری زبان لکنت والی ہے، ہارون کو بھی میرے ساتھ نبی بنادیا جائے۔ اور میں نے ان ہی میں سے ایک قبطی کو بلا قصور مار ڈالا تھا جس وجہ سے میں نے مصر چھوڑا اب جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ کہیں وہ مجھ سے بدلہ نہ لے لیں۔ جناب باری تعالیٰ نے جواب دیا کہ کسی بات کا کھٹکا نہ رکھو۔ ہم تیرے بھائی کو تیرا ساتھی بنادیتے ہیں۔ اور تمہیں روشن دلیل دیتے ہیں وہ لوگ تمہیں کوئی ایذاء نہ پہنچا سکیں گے میرا وعدہ ہے کہ تم کو غالب کرونگا۔ تم میری آیتیں لے کر جاؤ تو سہی میری مدد تمہارے ساتھ رہے گی۔ میں تمہاری ان کی سب باتیں سنتا رہونگا۔ جیسے فرمان ہے میں تم دونوں کے ساتھ ہوں سنتا ہوں دیکھتا رہونگا۔ میری حفاظت میری مدد میری نصرت و تائید تمہارے ساتھ ہے۔ تم فرعون کے پاس جاؤ اور اس پر اپنی رسالت کا اظہار کرو۔ جسیے دوسری آیت میں ہے کہ اس سے کہو کہ ہم دونوں میں سے ہر ایک اللہ کا فرستادہ ہے۔ فرعون سے کہا کہ تو ہمارے ساتھ بنو اسرائیل کو بھیج دے وہ اللہ کے مومن بندے ہیں تو نے انہیں اپنا غلام بنارکھا ہے اور ان کی حالت زبوں کر رکھی ہے۔ ذلت کے ساتھ ان سے اپنا کام لیتا ہے اور انہیں عذابوں میں جکڑ رکھا ہے اب انہیں آزاد کردے۔ حضرت موسیٰ ؑ کے اس پیغام کو فرعون نے نہایت حقارت سے سنا۔ اور آپ کو ڈانٹ کر کہنے لگا کہ کیا تو وہی نہیں کہ ہم نے تجھے اپنے ہاں پالا ؟ مدتوں تک تیری خبر گیری کرتے رہے اس احسان کا بدلہ تو نے یہ دیا کہ ہم میں سے ایک شخص کو مار ڈالا اور ہماری ناشکری کی۔ جس کے جواب میں حضرت کلیم اللہ ؑ نے فرمایا یہ سب باتیں نبوت سے پہلے کی ہیں جب کہ میں خود بیخبر تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی قرائت میں بجائے من الضالین کے من الجاھلین ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے ساتھ ہی فرمایا کہ پھر وہ پہلا حال جاتا رہا دوسرا دور آیا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا رسول بناکر تیری طرف بھیجا اب اگر تو میرا کہا مانے گا تو سلامتی پائے گا اور میری نافرمانی کرے گا تو ہلاک ہوگا۔ اس خطا کے بعد جب کہ میں تم میں سے بھاگ گیا اس کے بعد اللہ کا یہ فضل مجھ پر ہوا اب پرانے قصہ یاد نہ کر۔ میری آواز پر لبیک کہہ۔ سن اگر ایک مجھ پر تو نے احسان کیا ہے تو میری قوم کی قوم پر تو نے ظلم وتعدی کی ہے۔ ان کو بری طرح غلام بنارکھا ہے کیا میرے ساتھ کا سلوک اور انکے ساتھ کی یہ سنگدلی اور بد سلوکی برابر برابر ہوجائیگی ؟

آیت 10 - سورہ شعراء: (وإذ نادى ربك موسى أن ائت القوم الظالمين...) - اردو