سورہ الشمس: آیت 9 - قد أفلح من زكاها... - اردو

آیت 9 کی تفسیر, سورہ الشمس

قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّىٰهَا

اردو ترجمہ

یقیناً فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qad aflaha man zakkaha

آیت 9 کی تفسیر

قد افلح ........................ دسھا (10:91) ” یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبادیا “۔ مطلب یہ ہے کہ ان فطری قوتوں اور صلاحیتوں کے علاوہ انسان کے اندر ایک قوت مدرکہ ہے اور اس قوت مدرکہ کی وجہ سے انسان ایک ذمہ دار مخلوق بنایا گیا ہے۔ اس قوت مدرکہ کو جس شخص نے نفس کی تطہیر کے لئے اور اس کے اندر بھلائی کی استعداد کو بڑھانے کے لئے استعمال کیا اور خیر کی صلاحیت کو شریر غالب کردیا تو یہ شخص کامیاب ہوگیا ، اور جس شخص نے اپنی قوت عقلیہ کو تاریک کردیا اور اس کو چھپا کر دبا کر کمزور کردیا تو وہ ناکام ہوا۔

غرض انسان کی مسﺅلیت اس وجہ سے ہے کہ وہ قوت عقلیہ اور قوت مدرکہ رکھتا ہے ، اور اپنی اس قوت کی وجہ سے نفس کے اندر موجود خیروشر کی صلاحیتوں کو ایک رخ دے سکتا ہے۔ ان صلاحیتوں کو خیر کے میدان میں ڈال کر پروان چڑھا سکتا ہے اور شر کے میدان میں ڈال کر شر کو پروان چڑھا سکتا ہے۔ اس آزادی واختیار کے نتیجے میں انسان پر ذمہ داری عائد کی گئی ہے۔ اس کی قوت پر فرض عائد ہوا۔ یہ انعام لھا جس کے جواب میں اس پر فرائض عائد ہوئے۔

لیکن اللہ نہایت رحیم ہے۔ انسان کو محض فطری استعداد ، عقلی قوت مدرکہ اور فطری الہام وہدایت کے حوالے ہی نہیں کردیا گیا ، بلکہ آدم (علیہ السلام) سے حضرت محمد ﷺ تک اس ہدایت کے لئے رسول بھیجے گئے جو ان کے لئے مستقل قدریں وضع کرتے رہے۔ انسان کو ایمان کی بنیادی باتیں بتاتے رہے ، ایمان وہدایت کے دلائل سمجھاتے رہے۔ نفس انسانی کے اندر موجود دلائل اور اس کائنات کے آفاق کے اندر موجود اشارات ایمان بھی سمجھاتے رہے۔ انسان کی آنکھوں پر سے ضلالت کے پردے اتارتے رہے تاکہ اسے راہ ہدایت صحیح نظر آئے۔ اور یہ راہ واضح ، صاف اور بغیر کسی التباس کے انسان کو معلوم ہو ، ہر طرف سنگ ہائے میل نصب کردیئے تاکہ وہ انسان منزل مقصود تک پہنچے اور جس راہ پر اس نے جانا ہے ، علی وجہ البصیرت جائے۔ جس کو بھی وہ اختیار کرے اس پر چلے۔

یہ تھی مختصراً انسان کے بارے میں اللہ کی اسکیم اور مشیت جو کام بھی ہوتا ہے۔ اس کے دائرے کے اندر ہوتا ہے۔ وہ اللہ کی مشیت کے مطابق ہوتا ہے اور اللہ کی مکمل تقدیری نظام کے دائرے میں رہتے ہوئے ہوتا ہے۔

انسان کی حیثیت اور مقام انسانیت کے بارے میں یہ اجمالی اور مختصر تبصرہ اپنے اندر نہایت ہی قیمتی نکات رکھتا ہے جو انسان کی تہذیب اور تربیت کے لئے نہایت مفید ہیں۔ ایک یہ کہ اس سے حضرت انسان کو نہایت معزز اور مکرم مخلوق قرار دیا جاتا ہے۔ اس طرح کہ اسے اپنے معاملات کا خود مختار اور ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ یہ اختیار اور ذمہ داری اگرچہ اللہ کے وسیع تر نظام مشیت اور تقدیر کے اندر ہے ، کیونکہ یہ حریت اور اختیار اللہ کی مشیت ہی نے اسے عطا کیا ، لیکن اس سے بہرحال اس مقام و مرتبہ کا تعین ہوتا ہے اور وہ آزاد اور خود مختار مخلوق قرار پاتا ہے۔ یوں اس کائنات میں انسان ایک نہایت ہی بلندو برتر مقام رکھتا ہے کیونکہ یہ ایک ایسی مخلوق ہے جسے اللہ نے نہایت اہتمام سے تیار کیا ، پھر اس میں اپنی روح پھونکی اور اس جہاں کے بہت سے اور بیشترمخلوقات پر اسے فضیلت دی۔

دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ ان آیات میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ انسان اپنے انجام کا خود ذمہ دار ہے۔ سارا معاملہ اس کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے۔ (دائرہ مشیت الہیہ کے اندر اندر جیسا کہ ہم نے وضاحت کی) اس ذمہ داری سے اس کے شعور میں احتیاط اور تقویٰ کا رنگ پیدا ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اللہ کی تقدیر اس کی ذات میں اس طرح کام کرے گی جس طرح وہ اپنے تصرفات اور سرگرمیوں کو رخ دے گا۔

ان اللہ ........................ بانفسھم ” اللہ کبھی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت بدلتے نہیں “۔ فی الحقیقت یہ نہایت ہی عظیم ذمہ داری ہے۔ کوئی ذی شعور شخص اس سے غافل اور لاپرواہ نہیں رہ سکتا۔

تیسری بات یہ ہے کہ یہ انسانی سوچ کے اندر یہ شعور پیدا کرتا ہے کہ وہ راہ راست پر ثابت قدم رہنے کے لئے اللہ کے مستقل پیمانوں اور دائمی قدروں کی طرف رجوع کرے تاکہ وہ یقین پر ہو کہ اس سے کی خواہشات نے کہیں غلط راہوں پر تو نہیں ڈال دیا ہے ، دھوکہ تو نہیں دے دیا تاکہ خواہشات نفس اسے ہلاکت کے راستے پر نہ ڈال دیں۔ اور یہ نہ ہو کہ تقدیر الٰہی کے نتیجے میں وہ کہیں اپنی خواہش کو الٰہ بنا چکا ہو۔ یہی وجہ ہے ، اس طرح وہ مطیع شریعت ہونے کے سبب اللہ کے راستوں سے کبھی نہ بھٹکے گا۔ وہ اللہ کی ہدایات کے مطابق چل رہا ہوگا ، اور اسی نور سے روشنی حاصل کرے گا جو دنیا کی ان تاریک راہوں پر چلنے کے لئے ، اللہ نے اسے عنایت کیا۔

چناچہ انسان کو اللہ نے اپنی ذات تک پہنچنے کے لئے تزکیہ نفس اور تطہیر ذات کے لئے بیشمار وسائل عطا کیے ہی ، اس کے ارد گرد نور کے دریا بہہ رہے ہیں ، وہ ان میں ہر وقت غسل کرسکتا ہے اور اس کائنات میں معرفت کردگار کے جو سرچشمے رواں دواں ہیں وہ ان میں اپنی ذات کی تطہیر وقت کرسکتا ہے۔

اس کے بعد ایک زندہ تاریخی مثال سے اس بات کو واضح کیا جاتا ہے کہ کس طرح انسان اپنے نفس کو دنیا کی آلودگیوں میں دفن کردیتا ہے۔ اور پھر اسے راہ ہدایت سے محروم کردیتا ہے۔ یہ مثال قوم ثمود ہے ، جو اللہ کے غصب کے مستحق ہوئے اور جن پر سخت عذاب ٹوٹ پڑا اور ہلاک کردیئے گئے۔

آیت 9 - سورہ الشمس: (قد أفلح من زكاها...) - اردو