سورہ الشمس: آیت 11 - كذبت ثمود بطغواها... - اردو

آیت 11 کی تفسیر, سورہ الشمس

كَذَّبَتْ ثَمُودُ بِطَغْوَىٰهَآ

اردو ترجمہ

ثمود نے اپنی سرکشی کی بنا پر جھٹلایا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kaththabat thamoodu bitaghwaha

آیت 11 کی تفسیر

کذبت ثمود ................................ عقبھا

قوم ثمود اور ان کے نبی حضرت صالح علہی السلام کی کہانی قرآن مجید میں کئی مقامات پر آتی ہے۔ ہر مقام پر ہم نے اس پر بات کی ہے اور ابھی سورة الفجر میں ، اسی پارے میں یہ کہانی گزری ہے۔ تفصیلات ان مقامات پر دیکھی جاسکتی ہیں۔

یہاں صرف یہ کہا گیا ہے کہ قوم ثمود نے صرف اپنی سرکشی کی وجہ سے اپنے نبی کی تکذیب کی۔ اور اس سرکشی کے سوا کوئی اور جواز اس کے لئے نہ تھا۔ واقعہ یوں ہوا کہ ان میں سے ایک نہایت ہی شقی القلب شخص اٹھا اور اس نے ناقتہ اللہ کو قتل کردیا۔ یہ شخص ان میں نہایت سنگدل اور سرکش تھا کہ وہ اس قدر عظیم جرم کے ارتکاب کے لئے تیار ہوگیا۔ حالانکہ ان کے نبی نے واضح الفاظ میں ان کو متنبہ کردیا تھا اور کہہ دیا تھا کہ اس ناقہ کو کوئی گزندنہ پہنچانا ، نہ اس پانی میں مداخلت کرنا جس کو اللہ نے تمہارے اور ناقہ کے درمیان تقسیم کردیا ہے کہ ایک دن تمہارے لئے اور ایک دن اس ناقہ کے لئے ہے اور یہ تقسیم اس لئے ہوئی تھی کہ انہوں نے اللہ کے نبی سے معجزے کا مطالبہ کردیا تھا تو اللہ نے اس ناقعہ کو معجزہ قرار دیا۔ اس ناقہ کی کوئی نہ کوئی معجزانہ شان تو بہرحال ہوگی۔ یہاں ہم اس کی تفصیلات میں نہیں جاتے۔ اس لئے کہ خود اللہ نے اس شان اعجاز کی تفصیلات نہیں دی ہیں۔ بہرحال انہوں نے اپنی سرکشی کی وجہ سے اللہ کی جانب سے ڈرانے والے کی تکذیب کی اور ناقہ کو قتل کردیا۔ اور جس شخص نے عملاً یہ فعل اپنے ذمہ دیا۔ وہ ان میں سے بہت زیادہ بدبخت اور شقی تھا۔ لیکن ذمہ داری سب نے لی۔ اور سب ہی ذمہ دار اس لئے قرار پائے کہ انہوں نے اس شخص کو اس برے فعل سے نہ روکا بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی۔ اسلام کے اصولوں میں سے یہ بنیادی اصول ہے کہ دنیا کی اجتماعی زندگی میں ذمہ داری بھی اجتماعی ہوتی ہے اور یہ اجتماعی ذمہ داری کا قانون اسلام کے انفرادی ذمہ داری کے اصول کے خلاف نہیں ہے۔ یعنی آخرت میں کوئی شخص دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا اور ہر شخص کے لئے وہی کچھ ہوگا جو اس نے کمایا ، کیونکہ اسلام میں یہ بھی گناہ کبیرہ ہے کہ کوئی دوسروں کو نصیحت کرنا چھوڑ دے ، دوسروں کی اصلاح ، ان کی کفالت ، سے دسکش ہوجائے اور نیکی کرنے اور ظالم کا ہتھ پکڑنے پر لوگوں کو نہ ابھارے۔

جب انہوں نے اس عظیم جرم کا ارتکاب کیا تو پھر دست قدرت حرکت میں آیا۔

فدمدم علیھم ............................ فسوھا (14:91) ” آخر کار ان کے گناہ کی پاداش میں ان کے رب نے ان پر ایسی آفت توڑی کہ ایک ساتھ سب کو پیوندخاک کردیا “۔” دمدمہ “ کے معنی غضب کے ہوتے ہیں اور غضب کے نتیجے میں جو انتفام اور عذاب آتا ہے۔ لفظ ” دمدم “ کا تلفظ ہی بناتا ہے کہ وہ عذاب کس قدر سخت ہوگا ۔ اس لفظ کا تلفظ اور ترنم ہی ایک خوفناک منظر کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ اللہ نے ان کی زمین کو اوپر نیچے کردیا اور برابر کردیا۔ یہ ایک ایسی تصویر کشی ہے جس سے نہایت ہی ہمہ گیر بربادی کا اظہار ہوتا ہے۔

ولا یخاف عقبھا (15:91) ” اور اسے اس کے کسی برے نتیجے کا خوف نہیں ہے “۔ وہ تو ہر کمزوری سے پاک ہے ، وہ کس سے خوف کرسکتا ہے ؟ کہاں خوف کھاسکتا ہے اور کب خائف ہوسکتا ہے ؟ “۔

دراصل اس انداز تعبیر سے ایک لازمی مفہوم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ کی گرفت نہایت سخت ہوتی ہے ، اس لئے کہ دنیا کا جو شخص بھی اگر کسی انجام سے نہ ڈرتا ہو تو وہ سخت ترین مظالم ڈھاتا ہے۔ اسی طرح اللہ کی پکڑ سخت ہوگی کیونکہ اللہ سے کوئی پوچھنے والا ہے ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ

ان بطش .................... لشدید ” بیشک تیرے رب کی پکڑ بہت شدید ہوتی ہے “۔ اس لئے یہ کہہ کر کہ وہ اپنے کسی فعل کے برے نتیجے سے نویں ڈرتا ، یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ کی پکڑ بہت شدید ہوگی۔

یوں نفس انسانی کو اس کائنات کے عظیم حقائق کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے اور اس کائنات کے مشاہد اور مناظر کے ساتھ نفس انسانی کو متعلق کیا جاتا ہے۔ پھر نفس انسانی اور مشاہد کائنات دونوں کو اللہ کی اس سنت کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے جو اس نے سرکشوں اور تکذیب کرنے والوں کی گرفت کے لئے وضع کی ہے۔ یہ سب واقعات اللہ کی تقدیر کے حدود کے اندر ہوتے ہیں۔ جس کے نظام میں اللہ نے ہر چیز کے لئے ایک وقت مقرر کیا ہے ۔ ہر حادثہ کا ایو وقت طے شدہ ہے۔ ہر واقعہ کا ایک مقصد ہوتا ہے اور اس تدقر کے نظام میں ہر ہر قدم پر حکمت ربانی کار فرما ہوتی ہے۔ اس لئے کہ اللہ نفس کا بھی رب ہے۔ اس کائنات کا بھی رب ہے اور نظام قضا وقدر کا بھی وہی منتظم ہے۔ لہٰذا یہ سب اس کی وسیع تر اسکیم مشیت کے دائرے میں ہیں۔

آیت 1 1{ کَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِطَغْوٰٹہَآ۔ } ”قومِ ثمود نے بھی جھٹلایا تھا اپنی سرکشی کے باعث۔“ یعنی حضرت صالح علیہ السلام کی نبوت کو جھٹلا دیا جو ان کی ہدایت کے لیے مبعوث کیے گئے تھے۔

آل ثمود کی تباہی کے اسباب :اللہ تعالیٰٰ بیان فرما رہا ہے کہ ثمودیوں نے اپنی سرکشی، تکبر و تجبر کی بناء پر اپنے رسول کی تصدیق نہ کی۔ محمد بن کعب فرماتے ہیں بطغواھا کا مطلب یہ ہے کہ ان سب نے تکذیب کی لیکن پہلی بات ہی زیادہ اولیٰ ہے، حضرت مجاہد اور حضرت قتادہ نے بھی یہی بیان کیا ہے، اس سرکشی اور تکذیب کی شامت سے یہ اس قدر بدبخت ہوگئی کہ ان میں سے جو زیادہ بد شخص تھا وہ تیار ہوگیا اس کا نام قدار بن سالف تھا اسی نے حضرت صالح ؑ کی اونٹنی کی کوچیں کاٹی تھیں اسی کے بارے میں فرمان ہے فنادوا صاحبھم فتعاطی فعقرثمودیوں کی آواز پر یہ آگیا اور اس نے اونٹنی کو مار ڈالا، یہ شخص اس قوم میں ذی عزت تھا شریف تھا ذی نسب تھا قوم کا رئیس اور سردار تھا۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ اپنے خطبے میں اس اونٹنی کا اور اس کے مار ڈالنے والے کا ذکر کیا اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ جیسے ابو زمعہ تھا اسی جیسا یہ شخص بھی اپنی قوم میں شریف عزیز اور بڑا آدمی تھا، امام بخاری بھیا سے تفسیر میں اور امام مسلم جہنم کی صفت میں لائے ہیں اور سنن ترمذی سنن نسائی میں بھی یہ روایت تفسیر میں ہے، ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا کہ میں تجھے دنیا بھر کے بدبخت ترین دو شخص بتاتا ہوں ایک تو احیم ثمود جس نے اونٹنی کو مار ڈالا اور دوسرا وہ شخص جو تیری پیشانی پر زخم لگائے گا یہاں تک کہ داحی خون سے تربتر ہوجائے گی، اللہ کے رسول حضرت صالح ؑ نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ اے قوم اللہ کی اونٹنی کو برائی پہنچانے سے ڈرو، اس کے پانی پینے کے مقرر دن میں ظلم کرکے اسے پانی سے نہ روکو تمہاری اور اس کی باری مقرر ہے۔ لیکن ان بدبختوں نے پیغمبر کی نہ مانی جس گناہ کے باعث ان کے دل سخت ہوگئے اور پھر یہ صاف طور پر مقابلہ کرلیے تیار ہوگئے اور اس اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں، جسے اللہ تعالیٰ نے بغیر ماں باپ کے پتھر کی ایک چٹان سے پیدا کیا تھا جو حضرت صالح کا معجزہ اور اللہ کی قدرت کی کامل نشانی تھی اللہ بھی ان پر غضبناک ہوگیا اور ہلاکت ڈال دی۔ اور سب پر ابر سے عذاب اترا یہ اس لیے کہ احیم ثمود کے ہاتھ پر اس کی قوم کے چھوٹے بڑوں نے مرد عورت نے بیعت کرلی تھی اور سب کے مشورے سے اس نے اس اونٹنی کو کاٹا تھا اس لیے عذاب میں بھی سب پکڑے گئے ولا یخاف کو فلا یخاف بھی پڑھا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کسی سزا کرے تو اسے یہ خوف نہیں ہوتا کہ اس کا انجام کیا ہوگا ؟ کہیں یہ بگڑنہ بیٹھیں، یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اس بدکار، احیم نے اونٹنی کو مار تو ڈالا لیکن انجام سے نہ ڈرا، مگر پہلا قول ہی اولیٰ ہے واللہ اعلم الحمد اللہ سورة الشمس کی تفسیر ختم ہوئی۔

آیت 11 - سورہ الشمس: (كذبت ثمود بطغواها...) - اردو