سورہ صف: آیت 5 - وإذ قال موسى لقومه يا... - اردو

آیت 5 کی تفسیر, سورہ صف

وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِۦ يَٰقَوْمِ لِمَ تُؤْذُونَنِى وَقَد تَّعْلَمُونَ أَنِّى رَسُولُ ٱللَّهِ إِلَيْكُمْ ۖ فَلَمَّا زَاغُوٓا۟ أَزَاغَ ٱللَّهُ قُلُوبَهُمْ ۚ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلْفَٰسِقِينَ

اردو ترجمہ

اور یاد کرو موسیٰؑ کی وہ بات جو اس نے اپنی قوم سے کہی تھی "اے میری قوم کے لوگو، تم کیوں مجھے اذیت دیتے ہو حالانکہ تم خوب جانتے ہو کہ میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں؟" پھر جب انہوں نے ٹیڑھ اختیار کی تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دیے، اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith qala moosa liqawmihi ya qawmi lima tuthoonanee waqad taAAlamoona annee rasoolu Allahi ilaykum falamma zaghoo azagha Allahu quloobahum waAllahu la yahdee alqawma alfasiqeena

آیت 5 کی تفسیر

اس کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ بیان کیا جاتا ہے کہ اسلامی انقلاب کا منہاج تمام دعوتوں میں ایک ہی رہا ہے۔ آدم (علیہ السلام) سے ادھر :

بنی اسرائیل کا حضرت موسیٰ کو ایذا دینا ، جبکہ آپ ان کو اور اس ملت کو فرعون کے مظالم سے چھڑانے والے تھے ، آپ ان کے رسول اور قائد تھے اور معلم تھے ، ایک ایسی داستان کی طرف اشارہ ہے جو مسلسل ان کو دی جانے والی ایذا پر مشتمل ہے۔ آپ نے اس قوم کو درست کرنے کے لئے جو مشقتیں اٹھائیں اور دشوار گزار مراحل سے گزرے ، وہ انتھک جدوجہد ہے۔ اور قرآن کریم نے اس کی خوب تفصیلات دی ہیں ، جن کو پڑھ کر ایک شخص تسلیم کرلیتا ہے کہ یہ ان تھک جدوجہد تھی اور آپ اولوالعزم رسولوں میں سے تھے۔

ان کی حالت یہ تھی یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کو ذلت سے نجات دینے کی جدوجہد کررہے تھے اور فرعون کی گرفت اور جباری وقہاری کا مقابلہ کررہے تھے لیکن یہ لوگ اس ذات میں بھی امن وچین سے رہنا پسند نہیں کرتے تھے ، اس حالت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر تنقید کرتے تھے۔ وہ اس ان تھک جدوجہد پر یہ تبصرہ کرتے تھے۔

اوذینا ........................ ماجئتنا (7 : 921) ” ہمیں اذیت دی گئی قبل اس کے کہ آپ ہمارے پاس آئیں اور اس کے بعد بھی جب کہ آپ آگئے “۔ گویا وہ آپ کی رسالت میں اپنے لئے کوئی خیر نہیں دیکھ رہے تھے بلکہ وہ اپنی اذیت کی وجہ اس رسالت کو سمجھتے تھے۔

لیکن جونہی اللہ نے فرعون کو غرق کیا اور بنی اسرائیل کو نجات دی اور یہ سب منظر انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ، نجات پاتے ہی انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت توحید کو ترک کرنے کا ارادہ کرلیا اور قوم فرعون کی طرح ، شرک کرنے کا ارادہ کیا۔

فاتوا .................... الھة ” پھر وہ چلے اور راستے میں ایک ایسی قوم پر ان کا گزر ہوا جو اپنے چند بتوں کی گرویدہ بنی ہوئی تھی۔ کہنے لگے ” اے موسیٰ ہمارے لئے بھی کوئی ایسا معبود بنادے جیسے ان کے لئے معبود ہیں “۔

اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب کی ملاقات کے لئے پہاڑ پر گئے جہاں سے انہیں تورات کی تختیاں دی گئیں ، ان کے جاتے ہی سامری نے انہیں گمراہ کردیا۔

فاخرج .................... فنسی (06 : 88) ” اور ان کے لئے سامری نے ایک بچھڑے کی مورت بناکر نکال لایا جس سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی ۔ لوگ پکاراٹھے یہی ہے تمہارا خدا اور موسیٰ کا خدا۔ موسیٰ (علیہ السلام) اسے بھول گیا “۔

پھر انہوں نے اس طعام پر اعتراضات شروع کردیئے جو انہیں صحرا میں من اور سلویٰ کی شکل میں ملتا تھا اور کہا۔

یموسیٰ.................... وبصلھا (2 : 16) ” اے موسیٰ﴿﴿﴿ہم ایک ہی کھانے پر صبر نہیں کرسکتے۔ اپنے رب سے دعا کر کہ ہمارے لئے زمین کی پیداوار ساگ ، ترکاری ، گیہوں ، لہسن پیاز اور دال وغیرہ پیدا کرے “۔

اس کے بعد جب ان کو گائے کے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تو وبہانہ سازی اور گستاخی کرنے لگے۔ یہ گستاخی نبی کے حق میں بھی تھی اور رب تعالیٰ کے حق میں بھی۔ کہنے لگے : اپنے رب کو پکارو کہ وہ کیسی ہو ، اس کا رنگ کیسا ہو۔

فذبحوھا .................... یفعلون (2 : 17) ” پھر انہوں نے اسے ذبح کیا ورنہ وہ ایسا کرتے نہ معلوم ہوتے تھے “۔

اس کے بعد انہوں نے سبت کو بطور یومتعطیل خود مطالبہ کیا اور پھر اس کی خلاف ورزی کی۔ پھر ان کو حکم دیا گیا کہ اس مقدس سر زمین میں داخل ہوجاﺅ جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دی ہے۔ تو انہوں نے ذلیل و خوار ہوکر ارض مقدس میں داخل ہونے سے انکار کردیا۔

قالوا یموسیٰ.................... دخلون (5 : 22) ” انہوں نے کہا اے موسیٰ وہاں تو بڑے زبردست لوگ رہتے ہیں۔ ہم وہاں ہرگز نہ جائیں گے ، جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں ، ہاں اگر وہ نکل گئے تو ہم داخل ہونے کے لئے تیار ہیں اور جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اصرار کیا تو ان کا جواب یہ تھا :

قالو ................ قعدون (5 : 22) ” اے موسیٰ ! ہم تو وہاں کبھی نہ جائیں گے ، جب تک وہ وہاں موجود ہیں۔ بس تم اور تمہارا رب دونوں جاﺅ اور لڑو۔ ہم یہیں بیٹھے ہیں “۔

اس کے علاوہ بار بار کی نافرمانیوں ، سوالات سے ، سرکشی اور ذاتی تہمتوں کے ذریعہ ان لوگوں نے بار بار حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اذیت دی۔ جن کی تفصیلات احادیث میں آتی ہیں۔

یہاں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ قول نقل کرتا ہے جو محبت بھرے لہجے میں ان سے ایک گلہ ہے۔

یقوم لم ................ الیکم (16 : 5) ” اے میری قوم کے لوگو ، تم کیوں مجھے اذیت دیتے ہو حالانکہ تم خوب جانتے ہو کہ میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں “۔ اور ان کو اس بارے میں شک نہ تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے رسول ہیں۔ لیکن ان کی یہ بات گلہ ہے جس میں عتاب بھی ہے اور نصیحت بھی ہے۔

لیکن جب انہوں نے اصلاح و استقامت کی تمام کوششوں کو نظر انداز کردیا تو اللہ نے ان کے دلوں کو مزید ٹیڑھا کردیا۔ اور ان کے یہ دل ہدایت کے لئے قابل ہی نہ رہے۔ یہ گمراہ ہوگئے اور اللہ نے بھی ان کے لئے ضلالت لکھ دی۔

واللہ ............ الفسقین (16 : 5) ” اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا “۔ یوں دین پر ان کی استقامت ختم ہوگئی اور ان سے محافظین دین کا منصب چلا گیا اور وہ اسی طرح ٹیڑھی راہ اور گمراہی پر رہے۔

آیت 5 { وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰــقَوْمِ لِمَ تُؤْذُوْنَنِیْ } ”اور یاد کرو جب کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم کے لوگو ! تم کیوں مجھے ایذا دے رہے ہو ؟“ یہ جس ایذا کا ذکر ہے وہ ذاتی نوعیت کی بھی ہوسکتی ہے۔ ظاہر ہے انبیاء و رسل بھی آخر انسان تھے اور طبع بشری کے تحت ہر طرح کی تکلیف کو محسوس بھی کرتے تھے۔ جیسے سورة الاحزاب کی آیت 69 میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے ایک تکلیف دہ معاملے کا ذکر آیا ہے یا جیسے خود حضور ﷺ کو مشرکین مکہ کی طرف سے بھی ذاتی نوعیت کی تکالیف پہنچائی جاتی رہیں اور منافقین کے طرزعمل سے بھی شدید ذہنی و قلبی اذیت سے دوچار ہونا پڑا۔ لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے بنی اسرائیل کی طرف سے اصل اور سب سے بڑی ایذا وہ تھی جو حکم جہاد سے ان کے انکار کی وجہ سے آپ علیہ السلام کو پہنچی تھی۔ اپنی قوم کے اس انکار کے بعد آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے جو دعا کی تھی اس کے ایک ایک لفظ میں شدت ِتکلیف کے احساسات کی جھلک نظر آتی ہے۔ ملاحظہ ہوں آپ علیہ السلام کی دعا کے یہ الفاظ :{ قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَآ اَمْلِکُ اِلاَّ نَفْسِیْ وَاَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ۔ } المائدۃ”موسٰی علیہ السلام نے عرض کیا : پروردگار ‘ مجھے تو اختیار نہیں ہے سوائے اپنی جان کے اور اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کی جان کے ‘ تو اب تفریق کردے ہمارے اور ان نافرمان لوگوں کے درمیان۔“ { وَقَدْ تَّعْلَمُوْنَ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَـیْکُمْ } ”جبکہ تم جانتے ہو کہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں۔“ میرے نزدیک یہاں لفظ ”رسول“ نبی کے معنی میں آیا ہے۔ دراصل حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت اپنی قوم یعنی بنی اسرائیل کی طرف ”نبی“ کی حیثیت سے تھی ‘ بطور ”رسول“ نہیں تھی۔ جبکہ قوم فرعون کی طرف آپ علیہ السلام بحیثیت ”رسول“ مبعوث ہوئے تھے : { وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰیٰتِنَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَمَلاَئِہٖ فَقَالَ اِنِّیْ رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ } الزخرف”اور ہم نے بھیجا تھا موسیٰ علیہ السلام کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف تو اس نے کہا کہ دیکھو میں تمام جہانوں کے پروردگار کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔“ کسی قوم کی طرف ”رسول“ کی بعثت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا قانون ہمیشہ یہ رہا ہے کہ متعلقہ قوم پر اپنے رسول کی فرمانبرداری لازم ہوتی تھی۔ چناچہ جو قوم اپنے رسول علیہ السلام کی دعوت کو رد کردیتی تھی اسے ہلاک کردیا جاتا تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس قانون کا اطلاق بنی اسرائیل پر نہیں ہوا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پے در پے نافرمانی کے باوجود انہیں ہلاک نہیں کیا گیا۔ دوسری طرف قوم فرعون آپ علیہ السلام کی نافرمانی کی وجہ سے ہلاک کردی گئی۔ چناچہ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حیثیت نبی کی تھی ‘ جبکہ آلِ فرعون کی طرف آپ علیہ السلام ”رسول“ مبعوث ہو کر آئے تھے۔ { فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ ط } ”پھر جب وہ ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا۔“ یہ آیت اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس میں لوگوں کی ہدایت کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کا ایک بنیادی اصول اور قانون بیان ہوا ہے۔ اس اصول کی روشنی میں قرآن مجید کی ان آیات کو سمجھنا بھی آسان ہوجاتا ہے جن میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کو گمراہ کرنے یا ان کے دلوں پر مہر کردینے کا ذکر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس قانون کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ہدایت کے راستے کو پہچان لینے کے بعد بھی اسے اختیار نہ کرے بلکہ گمراہی کی روش پر ہی چلتے رہنے کو ترجیح دے ‘ پھر وہ اس راستے پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ مہلت کی حدود پھلانگ کر ایسے مقام پر پہنچ جائے جہاں سے اس کی واپسی کا کوئی امکان نہ ہو point of no return تو ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ اس شخص کے دل پر مہر لگا دیتا ہے اور اس پر ہدایت کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کردیتا ہے ‘ یعنی بندہ جب سمجھتے بوجھتے ہوئے ٹیڑھا راستہ اختیار کرتا ہے تو اس کی سزا کے طور پر اللہ تعالیٰ اس کا دل ہمیشہ کے لیے ٹیڑھا کردیتا ہے۔ اعاذنا اللّٰہ من ذٰلک ! { وَاللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۔ } ”اور اللہ فاسقوں کو زبردستی ہدایت نہیں دیتا۔“

حضرت عیسیٰ کی طرف سے خاتم الانبیاء کی پشین گوئی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کلیم اللہ حضرت موسیٰ بن عمران نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم میری رسالت کی سچائی جانتے ہو پھر کیوں میرے درپے آزار ہو رہے ہو ؟ اس میں گویا ایک طرح سے آنحضور ﷺ کو تسلی دی جاتی ہے، چناچہ آپ بھی جب ستائے جاتے تو فرماتے اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ ؑ پر رحمت نازل فرمائے وہ اس سے زیادہ ستائے گئے لیکن پھر بھی صابر رہے اور ساتھ ہی اس میں مومنوں کو ادب سکھایا جا ہرا ہے کہ وہ اللہ کے نبی ﷺ کو ایذاء نہ پہنچائیں ایسا نہ کریں جس سے آپ کا دل دکھتا ہو، جیسے اور جگہ ہے الخ ایمان والو تم ایسے نہ ہونا جیسے موسیٰ کو ایذاء دینے والے تھے اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ذی عزت بندے کو اس کے بہتانوں سے پاک کیا، پس جبکہ یہ لوگ علم کے باوجود اتباع حق سے ہٹ گئے اور ٹیڑھے چلنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے دل ہدایت سے ہٹا دیئے شک و حیرت ان میں سما گئی، جیسے اور جگہ ہے الخ، یعنی ہم ان کے دل اور آنکھیں الٹ دیں گے جس طرح یہ ہماری آیتوں پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے اور ہم انہیں ان کی سرکشی کی حالت میں چھوڑ دیں گے جس میں وہ سرگرداں رہیں گے اور جگہ ہے الخ، جو رسول ﷺ کی مخالفت کرے ہدایت ظاہر ہوجانے کے بعد اور مومنوں کے راستے کے سوا کسی دوسرے کی تابعداری کرے ہم اسے ایسی طرف متوجہ کریں گے جس طرف وہ متوجہ ہوا ہے اور بالاخر اسے ہم جہنم میں ڈال دیں گے اور وہ بہت بری جگہ ہے، یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے اللہ تعالیٰ فاسقوں کی رہبری نہیں کرتا، پھر حضرت عیسیٰ کا خطبہ بیان ہوتا ہے جو آپ نے بنی اسرائیل میں پڑھا تھا جس میں فرمایا تھا کہ توراۃ میں میری خوش بری دی گئی تھی اور اب میں تمہیں اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی پیش گوئی سناتا ہوں جو نبی امی عربی مکی احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں، پس حضرت عیسیٰ بنی اسرائیل کے نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں اور حضرت محمد ﷺ کا انبیاء اور مرسلین کے خاتم ہیں، آپ کے بعد نہ تو کوئی نبی آئے نہ رسول، نبوت و رسالت سب آپ پر من کل الوجوہ ختمہو گئی، صحیح بخاری شریف میں ایک نہایت پاکیزہ حدیث وارد ہوئی ہے جس میں ہے کہ آپ نے فرمایا میرے بہت سے نام ہیں محمد، احمد، ماحی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے کفر کو مٹا دیا اور میں حاشر ہوں جس کے قدموں پر لوگوں کا حشر کیا جائے گا اور میں عاقب ہوں، یہ حدیث مسلم شریف میں بھی ہے، ابو داود میں ہے کہ حضور ﷺ نے ہمارے سامنے اپنے بہت سے نام بیان فرمائے جو ہمیں محفوظ رہے ان میں سے یہ چند ہیں، فرمایا میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں حاشر ہوں میں مقفی ہوں، میں نبی الرحمتہ ہوں، میں نبی التوبہ ہوں، میں نبی الملممہ ہوں، یہ حدیث بھی صحیح مسلم شریف میں ہے، قرآن کریم میں ہے۔ الخ جو پیروی کرتے ہیں اس رسول نبی امی کی جنہیں اپنے پاس لکھا ہوا پاتے ہیں توراۃ میں بھی اور انجیل میں بھی، اور جگہ فرمان ہے الخ، اللہ تعالیٰ نے جب نبیوں سے عہد لیا کہ جب کبھی میں تمہیں کتاب و حکمت دوں پھر تمہارے پاس میرا رسول آئے جو اسے سچ کہتا ہو جو تمہارے ساتھ ہے تو تم اس پر ضرور ایمان لاؤ گے اور اس کی ضرور مدد کرو گے کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو اور اس پر میرا عہد لیتے ہو ؟ سب نے کہا ہمیں اقرار ہے فرمایا بس گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں، حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کوئی نبی اللہ تعالیٰ نے ایسا مبعوث نہیں فرمایا جس سے یہ اقرار نہ لیا ہو کہ ان کی زندگی میں اگر حضرت محمد ﷺ مبعوث کئے جائیں تو وہ آپ کی تابعداری کرے بلکہ ہر نبی سے یہ وعدہ بھی لیا جاتا رہا کہ وہ اپنی اپنی امت سے بھی عہد لے لیں، ایک مرتبہ صحابہ نے دریافت کیا کہ حضور ﷺ آپ ہمیں اپنی خبر سنایئے آپ نے فرمایا میں اپنے باپ حضرت ابراہیم کی دعا ہوں اور حضرت عیسیٰ کی خوش خبری ہوں میری والدہ کا جب پاؤں بھاری ہوا تو خواب میں دیکھا کہ گویا ان میں سے ایک نور نکلا ہے جس سے شام کے شہر بصریٰ کے محلات چم اٹھے (ابن اسحاق) اس کی سند عمدہ ہے اور دوسری سندوں سے اس کے شواہد بھی ہیں، مسند احمد میں ہے میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک خاتم الانبیاء تھا درآنحالیکہ حضرت آدم اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے۔ میں تمہیں اس کی ابتداء سناؤں۔ میں اپنے والد حضرت ابراہیم کی دعا، حضرت عیسیٰ کی بشارت اور اپنی ماں کا خواب ہوں۔ انبیاء کی والدہ اسی طرح خواب دکھائی جاتی ہیں، مسند احمد میں اور سند سے بھی اسی کے قریب روایت مروی ہے، مسند کی اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نجاشی بادشاہ حبشہ کے ہاں بھیج دیا تھا ہم تقریباً اسی آدمی تھے۔ ہم میں حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت جعفر حضرت عبداللہ بن رواحہ حضرت عثمان بن مطعون حضرت ابو موسیٰ وغیرہ بھی تھے۔ ہمارے یہاں پہنچنے پر قریش نے یہ خبر پا کر ہمارے پیچھے اپنی طرف سے بادشاہ کے پاس اپنے دو سفیر بھیجے عمرو بن عاص اور عمارہ بن ولید ان کے ساتھ دربار شاہی کے لئے تحفے بھی بھیجے جب یہ آئے تو انہوں نے بادشاہ کے سامنے سجدہ کیا پھر دائیں بائیں گھوم کر بیٹھ گئے پھر اپنی درخواست پیش کی کہ ہمارے کنبے قبیلے کے چند لوگ ہمارے دین کو چھوڑ کر ہم سے بھاگ کر آپ کے ملک میں چلے آئے ہیں ہماری وقم نے ہمیں اس لئے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے کہ آپ انہیں ہمارے حالے کر دیجئے، نجاشی نے پوچھا وہ کہاں ہیں ؟ انہوں نے کہا یہیں اسی شہر میں ہیں حکم دیا کہ انہیں حاضر کرو چناچہ یہ مسلمان صحابہ دربار میں آئے ان کے خطیب اس وقت حضرت جعفر ؓ تھے باقی لوگ ان کے ماتحت تھے یہ جب آئے تو انہوں نے سلام تو کیا لیکن سجدہ نہیں کیا درباریوں نے کہا تم بادشاہ کے سامنے سجدہ کیوں نہیں کرتے ؟ جواب ملا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو سجدہ نہیں کرتے، پوچھا گیا کیوں ؟ فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول ﷺ ہماری طرف بھیجا اور اس رسول ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو سجدہ نہ کریں اور حضور ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم نمازیں پڑھتے رہیں زکوٰۃ ادا کرتے رہیں، اب عمرو بن عاص سے نہ رہا گیا کہ ایسا نہ ہو ان باتوں کا اثر بادشاہ پر پڑے درباریوں اور ود بادشاہ کو بھڑکانے کے لئے وہ بیج میں بول پڑا کہ حضور ان کے اعتقاد حضرت عسیٰ بن مریم کے بارے میں آپ لوگوں سے بالکل مخلاف ہیں، اس پر بادشاہ نے پوچھا بتاؤ تم حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتے ہو ؟ انہوں نے کہا ہمارا عقیدہ اس بارے میں وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب میں ہمیں تعلیم فرمایا کہ وہ کلمتہ اللہ ہیں روح اللہ ہیں جس روح کو اللہ تعالیٰ کنواری مریم بتول کی طرف القا کیا جو کنواری تھیں جنہیں کسی انسان نے ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا نہ انہیں بچہ ہونے کا کوئی موقعہ تھا بادشاہ نے یہ سن کر زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور کہا اے حبشہ کے لوگو اور اے واعظو عالمو اور درویشو کا اور ہمارا اس کے بارے میں ایک ہی عقیدہ ہے اللہ کی قسم ان کے اور ہمارے عقیدے میں اس تنکے جتنا بھی فرق نہیں۔ اے جماعت مہاجرین تمہیں مرحبا ہو اور اس رسول ﷺ کو بھی مرحبا ہو جن کے پاس سے تم آئے ہو میری گواہی ہے کہ وہ اللہ کے سچے رسول ہیں یہ وہی ہیں جن کی پیش گوئی ہم نے انجیل میں پڑھی ہے اور یہ وہی ہیں جن کی بشارت ہمارے پیغمبر حضرت عیسیٰ ؑ نے دی ہے میری طرف سے تمہیں عام اجازت ہے جہاں چاہو رہو سہو اللہ کی قسم اگر ملک کی اس جھنجٹ سے میں آزاد ہوتا تو میں یقیناً حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتا آپ کی جوتیاں اٹھاتا آپ کی خدمت کرتا اور آپ کو وضو کراتا اتنا کہہ کر حکم دیا کہ یہ دونوں قریشی جو تحفہ لے کر آئے ہیں وہ انہیں اپس کردیا جائے۔ ان مہاجرین کرام میں سے حضرت عبداللہ بن مسعود تو جلد ہی حضور ﷺ سے آ ملے جنگ بدر میں بھی آپ نے شرکت کی۔ اس شاہ حبشہ کے انتقال کی خبر جب حضور ﷺ کو پہنچی تو آپ نے ان کے لئے بخشش کی دعا مانگی۔ یہ پورا واقعہ حضرت جعفر اور حضرت ام سلمہ سے مروی ہے۔ تفسیری موضوع سے چونکہ یہ الگ چیز ہے اس لئے ہم نے اسے یہاں مختصراً وارد کردیا مزید تفصیل سیرت کی کتاب میں ملاحظہ ہو، ہمارا مقصود یہ ہے کہ عالی جناب حضور محمد مصطفیٰ ﷺ کی بابت اگلے انبیاء کرام (علیہم السلام) برابر پشین گوئیاں کرتے رہے اور اپنی امت کو اپنی کتاب میں سے آپ کی صفتیں سناتے رہے اور آپ کی اتباع اور نصرت کا انہیں حکم کرتے رہے، ہاں آپ کے امر کی شہرت حضرت ابراہیم خلیل اللہ ؑ کی دعا کے بعد ہوئی جو تمام انبیاء کے باپ تھے اسی طرح مزید شہرت کا باعث حضرت عیسیٰ کی بشارت ہوئی جس حدیث میں آپ نے سائل کے سوال پر اپنے امر نبوت کی نسبت داء خلیل اور نوید مسح کی طرف کی ہے اس سے یہی مراد ہے ان دونوں کے ساتھ آپ کا اپنی والدہ محترمہ کے خواب کا ذکر کرنا اس لئے تھا کہ اہل مکہ میں آپ کی رشوع شہرت کا باعث یہ خواب تھا، اللہ تعالیٰ آپ پر بیشمار درود و رحمت بھیجے۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ باوجود اس قدر شہرت اور باوجود انبیاء کی متواتر پیش گوئیوں کے بھی جب آپ روشن دلیلیں لے کر آئے تو مخالفین نے اور کافروں نے کہہ دیا کہ یہ تو صاف صاف جاود ہے۔

آیت 5 - سورہ صف: (وإذ قال موسى لقومه يا قوم لم تؤذونني وقد تعلمون أني رسول الله إليكم ۖ فلما زاغوا أزاغ الله قلوبهم...) - اردو