سورہ صف: آیت 4 - إن الله يحب الذين يقاتلون... - اردو

آیت 4 کی تفسیر, سورہ صف

إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلَّذِينَ يُقَٰتِلُونَ فِى سَبِيلِهِۦ صَفًّا كَأَنَّهُم بُنْيَٰنٌ مَّرْصُوصٌ

اردو ترجمہ

اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna Allaha yuhibbu allatheena yuqatiloona fee sabeelihi saffan kaannahum bunyanun marsoosun

آیت 4 کی تفسیر

ان اللہ .................... مرصوص (16 : 4) ” اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں “۔ صرف قتال ہی نہیں ، بلکہ قتال اللہ کی راہ میں ہو ، اور یہ قتال منظم ہو ، سوسائٹی کی صفوں کے اندر تنظیم کے بعدہو اور یہ قتال ہو بھی نہایت ہی جم کر لڑنے کی صورت میں۔

جیسا کہ ہم نے اس پارے کی متعدد سورتوں میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ قرآن کریم کے پیش نظر یہ بات تھی کہ ایک ایسی امت کی تعمیر کی جائے جو اس زمین پر قرآن کی امانت کی حامل ہو۔ قرانی منہاج زندگی قائم کرنا اس کی منشا ہو ، اور قرآنی شریعت کو ایک مکمل نظام کی شکل میں پیش کرے۔ اس مقصد کے لئے ایک جماعت اور ایک سوسائٹی بنانا ضروری تھا۔ اور اسی جماعت کو ایک عملی جماعت بنانا ضروری تھا ، اور یہ سب کام ایک ساتھ کرنے ضروری تھے۔ یاد رہے کہ اسلامی نظام کا مزاج یہ ہے کہ اس میں فرد کی قیمت جماعت میں ہے ، تنہا کچھ نہیں۔ اسلام اپنے وجود کو ایک باہم مربوط اور منظم جماعت کی شکل میں دیکھنا چاہتا ہے ، جس کا ایک نظام ہو ، جس کا ایک ہدف ہو ، اور اس ہدف کے ارد گرد اس کے تمام افراد گھومتے ہوں۔ یوں کہ یہ نظام ہر ایک کے ضمیر میں ، ہر ایک کے عمل میں ، پھر اس کرہارض پر کسی امت کی عملی شکل میں نافذ ہو اور زمین کے ابوپر اس عملی سوسائٹی کی شکل میں ، ایک ایسی سوسائٹی ایک ، ایسی امت جو عملاً متحرک ہو اور اپنے تمام کام اس نظام کے حدود اور فریم ورک میں کرتی ہو۔

اسلام ، اگرچہ فرد کی اصلاح اور ایک فرد کی نیت کی اصلاح اور ضمیر کی اصلاح پر بہت زور دیتا ہے اور انفرادی ذمہ داری کا اصول بھی اسلام ہی نے عطا کیا ہے ، لیکن اسلام افراد کا دین نہیں ہے ، کہ ایک ایک عبادت خانے میں جاکر اپنی اپنی عبادت کرے۔ اس طرح اسلام کسی ایک فرد کی ذات میں حقیقت نہیں بن سکتا ، نہ کسی ایک منفرد شخص کی ذات میں بھی حقیقت نہیں بن سکتا۔ نہ اسلام اس صورت میں آیا ہے کہ وہ ایک شخص کی زندگی میں گوشہ نشین ہوکر رہے ، بلکہ اسلام کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ انسانوں کی زندگی پر حکمران ہو ، زندگی کے اندر تصرف کرے ، اس پر کنٹرول کرے ، اور لوگوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی اور سرگرمیوں پر حاوی ہو۔ اس لئے کہ انسان انفرادی طور پر زندہ نہیں رہتے بلکہ اجتماعی طور پر زندہ رہتے ہیں اور اسلام چونکہ انسانوں پر حکمرانی کے لئے آیا ہے اس لئے وہ ایک اجتماعی نظام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے آداب ، اس کے قواعد ، اس کے ارادے ، یہاں تک کہ اس کی عبادات بھی اجتماعی ہیں۔ اگر اسلام کا کوئی حکم کسی فرد کے لئے ہے تو بھی وہ ایک ایسے انسان کے لئے ہے جو سوشل ہے اور ایک جماعت کے اندررہتا ہے ، اس میں اٹھتا بیٹھتا ہے اور اس جماعت میں اپنے دین کا امین ہے ، ایک نظام کا حامل ہے ، اور اس کا فرض ہے کہ اس نظام کو لوگوں کے اندر نافذ کرے۔

جب سے نبی ﷺ نے دعوت کا آغاز کیا ، اسلامی معاشرہ قائم ہونا شروع ہوگیا۔ اسلامی جماعت کی تشکیل شروع ہوگئی اور رسول اللہ ﷺ اس جماعت کے قائد قرار پائے۔ یہ جماعت ایسی تھی جس کی جماعتی ذمہ داریاں تھیں ، جو اپنے ماحول سے بالکل ممتاز تھی۔ اس کو ایسے آداب سکھائے جاتے تھے کہ ان کا ایک سرا اگر ایک فرد انسان کے ضمیر میں ہوتا تھا تو دوسرا سرایک جماعت سے متعلق ہوتا تھا اور یہ اسلامی اجتماعی سوسائٹی اس وقت بھی تھی جب ابھی مدینہ میں اسلامی حکومت قائم نہ ہوئی تھی بلکہ مدینہ کی اسلامی حکومت قائم بھی مکہ کی اسلامی جماعت کے ذریعہ سے ہوئی تھی۔

ہم جب ان آیات پر غور کرتے ہیں تو دینی عقائد کے اوپر جو اخلاقی نظام ان میں استوار کیا جاتا ہے وہ ایک اجتماعی ضرورت بھی ہے اور یہ اخلاق ایک اجتماعی نظام ہی کی شکل میں ظاہر ہوسکے ہیں اور یہ نظام ایسا ہے کہ اسے نافذ کرنے کے لئے ایک انتظامیہ کی ضرورت ہے۔

پہلی دو آیات میں اس بات پر گرفت کی گئی ہے کہ یہ بات ایک مسلمان اور مومن کی شایان شان نہیں ہے کہ وہ ایک بات کہے اور پھر اس پر عمل نہ کرے۔ یہ ایک مسلمان اور مومن کی شخصیت کی بنیادی صفت ہے۔ سچائی اور استقامت اور راست بازی۔ اس کا باطن اور ظاہر ایک ہو۔ اس کا قول اور فعل یکساں ہوں اور یہ بات صرف مسئلہ جہاد تک محدود نہیں ہے بلکہ ایک مومن کو ہر معاملے میں ایسا ہونا چاہئے۔

یہ کہ مسلم کا ظاہر و باطن ایک ہونا چاہئے اور قول وفعل یکساں ہونا چاہئے۔ ایک ایسی بات ہے جس پر قرآن نے بہت ہی تاکید کی ہے اور اس مضمون کو بار بار بیان کیا ہے۔ یہودیوں کے بارے میں کہا گیا۔

اتامرون ........................ تعقلون (2 : 44) ” تم دوسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لئے کہتے ہو مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو۔ کیا تم عقل سے بالکل ہی کام نہیں لیتے “۔ اور منافقین پر تنقید کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے :

ومن الناس ............................ الفساد (502) (2 : 402) ” انسانوں میں سے کوئی تو ایسا ہے جس کی باتیں دنیا کی زندگی میں تمہیں بھلی معلوم ہوتی ہیں اور اپنی نیک نیتی پر وہ بار بار خدا کو گواہ ٹھہراتا ہے ، مگر حقیقت میں وہ بدترین دشمن حق ہوتا ہے۔ جب اسے اقتدار حاصل ہوجاتا ہے ، تو زمین میں اس کی ساری دوڑ دوپ اس لئے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے ، کھیتوں کو غارت کرے اور نسل انسانی کو تباہ کرے۔ حالانکہ اللہ فساد کو ہر گز پسند نہیں کرتا “۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” منافق کی علامتیں تین ہیں ، جب بات کرے تو جھوٹ بولے ، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے ، اور جب اس پر امانت کا اعتماد کیا جائے تو خیانت کرے “۔ (متفق علیہ)

اس مضمون کی احادیث بہت ہیں ، آگے جو حدیث ہم ذکر کررہے ہیں ، وہ اس سلسلے میں شدید ترین اور سخت ترین ہدایت ہے۔ امام احمد نے عبداللہ ابن عامر ابن ربیعہ سے روایت کی۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے گھر آئے۔ اس وقت میں بچہ تھا۔ میں گھر سے باہر جانے لگا کہ کھیلوں۔ میری ماں نے مجھے کہا عبداللہ ! ادھر آؤ میں تمہیں کچھ دیتی ہوں۔ میری ماں سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم نے اسے کیا دینے کا ارادہ کیا ہے ؟ تو اس نے کہا کھجور کا دانہ۔ تو حضور نے فرمایا : اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تمہارے خلاف ایک جھوٹ لکھ دیا جائے گا۔ اور یہی وجہ ہے کہ امام احمد ابن عقیل سفر کرکے ایک شخص کے پاس ایک حدیث نقل کرنے لگے اور یہ سفر کافی طویل تھا تو آپ نے اس شخص کو دیکھا کہ وہ تھیلی پکڑے ہوئے ہے اور اپنے خچر کو یہ باور کر ارہا ہے کہ اس میں خوراک ہے ، حالانکہ وہ خالی تھی تو امام احمد نے اس شخص سے روایت کرنا مناسب نہ سمجھا ، کیونکہ اس نے اپنے خچر کے ساتھ جھوٹ بولا۔

یہ تھی اسلام کی اخلاقی تعمیر ۔ اور یہ تھا ایک مسلمان کے لئے اخلاقی معیار۔ اور یہ تھے وہ لوگ جن کو اسلامی نظام حیات کا امین بنایا گیا تھا۔ یہی معیار ہے جسے قائم کرنا اس سورت کا مقصد و محور ہے اور یہ اسلامی جماعت کی تربیت کا ایک اہم نکتہ ہے جسے اللہ اسلامی منہاج کو درست کرنے کے لئے اٹھاتا ہے۔

جب ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں جو اس سورت کا محور اور موضوع ہے یعنی جہاد فی سبیل اللہ۔ تو اس سے پہلے ہم کئی موضوعات اپنے سامنے پاتے ہیں تاکہ ہم ان پر غور کریں اور اس سے عبرت لیں۔

سب سے پہلے تو ہمارے سامنے حضرت انسان کا نفس آتا ہے اور اس نفس پر ضعف کے لمحات آتے ہیں۔ صرف اللہ ہی اسے اس ضعف سے بچا سکتا ہے اور دائمی یاد دہانی اور دائمی تربیت کی ضرورت پیش آتی ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ یہ نہایت ہی ابتدائی مہاجرین میں سے کچھ لوگ تھے جن کی خواہش تھی کہ ان کو قتال کی اجازت دی جائے۔ یہ لوگ اہل مکہ میں تھے اور ان کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ مکہ ہی میں لڑنا چاہتے تھے لیکن اس وقت ان کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ ہاتھوں کو روکے رکھیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰة دیں۔ لیکن جب ان پر جہاد فرض کیا گیا اور وہ بھی مدینہ میں اور مناب وقت پر ، تو ان میں سے بعض لوگ ایسے تھے کہ وہ لوگوں سے ایسے ڈرنے لگے جس طرح اللہ سے ڈرنا چاہئے بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ ڈرنے لگے۔ اور انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ۔

وقالوا ................ اجل قریب (4 : 77) ” اے اللہ تونے ہم پر قتال کیوں فرض کردیا۔ ذرا اور ہمیں مہلت دی ہوتی “۔ یا یہ مدینہ ہی کی ایک جماعت تھی اور محبوب ترین اعمال کے بارے میں پوچھتی تھی اور جب بتایا گیا کہ محبوب ترین عمل جہاد فی سبیل اللہ ہے تو انہوں نے اس کو ناپسند کیا۔

یہی ایک واقعہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے کہ نفس انسانی بہت کمزور ہے اور اسے رات دن مسلسل تربیت وتذیکر اور یاد دہانی کی ضرورت ہے۔ خصوصاً جکبہ اس کو مشکل ترین ٹارگٹ دیا جارہا ہو۔ یہ تربیت اس لئے ضروری ہے کہ یہ اپنی راہ پر درست چلتی رہے ، اپنی کمزوریوں پر قابو پائے اور دور افق بلند پر اس کی نظریں ہوں۔ نیز اس سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کبھی بھی کوئی مشکل ٹارگٹ لینے کے لئے ایک مسلم کو بےتاب نہیں ہونا چاہئے۔ جبکہ چاہت دین ہو تو خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ اگر ہم اللہ کے سامنے تجاویز پیش کریں اور اللہ وہ حالات پیش کردے تو شاید ہم ثابت قدم نہ رہ سکیں۔ دیکھئے یہ مسلمانوں کی پہلی جماعت ہے اور اس میں بھی ایسے لوگ ہیں جن پر گرفت ہورہی ہے کہ کیوں تم ایسی باتیں کرتے ہو جن پر عمل نہیں کرتے۔ یہ سخت عتاب ہے اور خوفناک گرفت ہے۔

دوسری بات جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے ، جو اس کی راہ میں لڑتے ہیں ، اس طرح جس طرح وہ بنیان مرصوص ہیں۔ اللہ اپنے راستے میں لڑنے کے لئے کس قدر زور دار انداز سے مسلمانوں کو آمادہ کرتا ہے لیکن ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ یہ تاکید بعض لوگوں کی اس نفسیاتی حالت کو دور کرنے کے لئے کہی گئی جو جنگ کو پسند نہ کرتے تھے اور اسے اور موخر کرنا چاہتے تھے۔ اور جنگ سے پسپائی اختیار کررہے تھے۔ اس لئے یہاں ان کو سختی سے آمادہ کیا گیا۔ لیکن اس مخصوص سبب نزول کے معنی یہ نہیں ہیں کہ یہ آیت مخصوص حالات کے لئے ہے بلکہ اسلام کی یہ عام پالیسی ہے کہ لوگوں کو بروقت جنگی حالات کے لئے آمادہ رکھا جائے۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ اسلام خواہ مخواہ جنگی جنون پیدا کرنا نہیں چاہتا اور نہ ہی وہ جنگ کو ایک محبوب چیز سمجھتا ہے۔ اسلام جنگ کو اس لئے فرض قرار دیتا ہے کہ حالات اسے مجبور کردیتے ہیں۔ پھر اسلام جن مقاصد کے لئے جنگ کرتا ہے وہ بلند مقاصد ہیں۔ اسلامی جنگ اس لئے ہوتی ہے کہ اسلامی ممالک کے اندر اللہ کے آخری منہاج زندگی کو نافذ اور قائم کیا جائے۔ یہ اسلامی منہاج زندگی اگرچہ ایک فطری منہاج ہے لیکن اسلام انسانی نفوس پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس منہاج کے معیار تک بلند کریں تاکہ اس اعلیٰ معیار پر یہ نظام قائم رہ سکے۔ لیکن یہ بھی ایک عملی حقیقت ہے کہ ہمیشہ اس کرہ ارض پر ایسی قوتیں رہی ہیں جن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اسلامی نظام زندگی اس دنیا میں قدم نہ جماسکے۔ اس لئے کہ دنیا کے جس قدر غیر اسلامی نظام ہیں ان کے کچھ مفادات وامتیازات ہوتے ہیں ، یہ نظام بعض کھوٹی اور جھوٹی قدروں پر قائم ہوتے ہیں ، جب بھی دنیا میں اسلامی نظام قائم ہوا ہے ایسی قوتوں کے مفادات ختم ہوگئے ہیں۔ یہ باطل نظامہائے زندگی انسانی نفوس کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور انسانوں کو انسانی سطح سے نیچے گر اکر اور ان کے اندر اخلاقی بگاڑ پیدا کرکے ، اور ان کو حقیقت سے جاہل رکھ کر اسلامی نظام کی مخالفت میں لاکرکھڑا کردیتے ہیں۔ اور یوں عوام الناس اپنی جہالت کی وجہ سے اسلام کی راہ روکنے لگتے ہیں۔ شرکا زور ہوتا ہے اور باطل پھولا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اور شیطان کی چالیں بہت گہری ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حاملین ایمان اور اسلامی منہاج حیات کے محافظین اور پاسداروں کے لئے اعلیٰ اخلاقی معیار تجویز کرتا ہے تاکہ وہ شر اور شیطان کے ایجنٹوں کا اچھی طرح مقابلہ کرسکیں۔ ان کی اخلاقی حالت مضبوط ہو ، وہ دشمنوں کے خلاف لڑسکیں۔ اور وہ ہر وقت ایسی جنگ کے لئے تیار ہوں جو ان پر اسلام کے دشمن مسلط کردیں۔ یہی ایک ضمانت ہے جس کی وجہ سے دعوت اسلامی کی راہ نہیں رکتی۔ جس کے ذریعہ سے اسلامی نظام قائم رہتا ہے۔ لوگوں کو اظہار رائے کی آزادی ملتی ہے۔ اور وہ اپنی مرضی کا نظام قائم کرسکتے ہیں۔

پھر یہ لوگ اللہ کی راہ میں جہاد و قتال کرتے ہیں نہ اپنی ذات کے لئے لڑتے ہیں اور نہ ہی کسی رنگ کی عصبیت کے لئے لڑتے ہیں۔ نہ نسلی ، نہ لسانی ، نہ علاقائی اور نہ خاندانی عصبیت کے لئے۔ صرف اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں۔ اس لئے لڑتے ہیں کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” وہ جو صرف اس لئے لڑتا ہے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو تو وہ اللہ کے راستے میں لڑتا ہے “۔

کلمة اللہ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کے احکام ومقاصد کے لئے اور اللہ کا ارادہ بھی یہی ہے کہ جس طرح یہ پوری کائنات اللہ کی تسبیح کرتی ہے اور اللہ کے قانون قدرت کے مطابق چلتی ہے اسی طرح انسان بھی اللہ کے بھیجے ہوئے آخری اور مکمل نظام زندگی اور شریعت الٰہیہ کے مطابق چلے۔ اور یوں یہ پوری کائنات اور اس کے اندر پائے جانے والے سب انسان اللہ کے قانون کے مطابق چلیں۔ اور اللہ کے سوا کسی کا قانون اور شریعت نہ چلے۔

یہ ضروری تھا کہ بعض افراد نظام شریعت کی راہ روکیں ، بعض طبقات اسلامی نظام کو قائم ہونے نہ دیں۔ بعض حکومتیں اسے اپنے لئے خطرہ سمجھیں اور اس کے سوا بھی چارہ نہ تھا کہ اسلام ان رکاوٹوں کو عبور کرے اور ان کا مقابلہ کرے۔ اور یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں پر جہاد و قتال فرض کیا گیا تاکہ اسلامی نظام کو قائم کیا جاسکے اور اسے قائم رکھا جاسکے۔ اور زمین کے اوپر اللہ کا کلمہ بلند ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ ان لوگوں کو محبوب سمجھتا ہے ، جو اس کے راستے میں صف بندی سے لڑتے ہیں ، گویا وہ بنیان مرصوص ہیں۔

یہ ہے وہ حالت جس پر ہمیں بہت زیادہ غور کرنا چاہئے۔

الذین ........................ مرصوص (16 : 4) ” جو اللہ کی راہ میں صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں “۔ اگر مجاہدین اس حالت میں نہ ہوں تو شاید محبوب نہ ہوں۔ یہ ہر قرد کو بھی حکم ہے اور اجتماعی لحاظ سے بھی حکم ہے۔ یعنی ان کو اس طرح ہونا چاہئے کہ ان کی ایک مضبوط نظام والی جماعت ہو۔ اس لئے کہ جو قوتیں اسلام کی راہ میں روکتی ہیں وہ جماعتی اور اجتماعی قوت کی شکل میں ہوتی ہیں۔ اور اس کے خلاف پوری قوتوں کو جمع کرتی ہیں۔ لہٰذا اسلامی قوتوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کے مقابلے میں جمع کر نکلیں اور ملت واحد کی شکل میں آئیں۔ ایک پختہ دیوار کی شکل میں اور نہایت ہی منظم شکل میں نکلیں۔ ہم آہنگی سے نکلیں۔ لہٰذا یہ صورت کہ ایک انسان اکیلا اللہ کی بندگی کرے ، اکیلا جہاد کرے ، اکیلا زندگی بسر کرے ، یہ ایسی صورت ہے ، جو اس دین کے مزاج ہی کے خلاف ہے ، حالت جہاد کے جو تقاضے ہوتے ہیں ان کے خلاف ہے اور اس کے بعد پوری زندگی کو کنٹرول کرنے کی جو صورت ہوتی ہے ، اس کے خلاف ہے۔

یہ تصویر جو مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ یہاں پیش فرماتا ہے یہ دراصل مسلمانوں کے دین کی تصویر ہے۔ یہ تصویر دکھاتی ہے کہ مسلمانوں کے نشانات راہ کیا ہیں اور قرآن کریم ان کے لئے اجتماعی نظام کفالت وحمایت کس طرح تجویز کرتا ہے۔

صفا ................ مرصوص (16 : 4) ” ایک صف کی شکل میں ، گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں “۔ ایک ایسی دیوار جس کی اینٹیں ملی ہوئی ہیں ، باہم پیوست ہیں اور ہر اینٹ اپنا فریضہ ادا کررہی ہے اور ہر اینٹ اپنے مقام پر کھڑی ہے اور اپنا فریضہ ادا کررہی ہے۔ اگر ایک اینٹ بھی نکال لی جائے تو پوری عمارت گر سکتی ہے۔ اسی طرح اگر اینٹ آگے ہوجائے ، پیچھے ہوجائے یا اوپر والی اینٹ نیچے والی اینٹ سے جدا ہوجائے تو دیوار میں سوراخ ہوسکتا ہے۔ یہ سب باتیں جماعت کے افراد کے باہمی ربط کو متعین کری ہیں۔ جو ایک ہی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ یعنی وہ شعوری طور پر بھی ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہوں ، فکر ونظر میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ ہمقدم ہوں ، نظام میں بھی منظم ہوں جس طرح تسبیح کے دانے اور ہدف بھی ایک ہو۔

آیت 4 { اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ۔ } ”اللہ کو تو محبوب ہیں وہ بندے جو اس کی راہ میں صفیں باندھ کر قتال کرتے ہیں ‘ جیسے کہ وہ سیسہ پلائی دیوار ہوں۔“ آج کے زمانے میں ”بنیانِ مرصوص“ reinforced concrete wall کو کہا جائے گا۔ ایسی دیواریں بڑے بڑے dams کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ البتہ پرانے زمانے میں اگر کسی دیوار کو غیر معمولی طور پر مضبوط کرنا مقصود ہوتا توچنائی کرنے کے بعد اس کے اندر پگھلا ہوا تانبا ڈالا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اردو میں عام طور پر ”بنیانِ مرصوص“ کا ترجمہ ”سیسہ پلائی ہوئی دیوار“ کے الفاظ میں کیا جاتا ہے۔ پرانے زمانے میں اس طریقہ سے ”سیسہ پلائی ہوئی دیوار“ بنانے کا تصورسورۃ الکہف کی آیت 96 میں بھی ملتا ہے۔ ذوالقرنین بادشاہ نے یاجوج ماجوج کے حملوں سے حفاظت کے لیے لوہے کے تختوں کی مدد سے دیوار کھڑی کرنے کے بعد حکم دیا تھا : { اٰ تُوْنِیْٓ اُفْرِغْ عَلَیْہِ قِطْرًا۔ } ”اب لائو میں اس پر پگھلا ہوا تانبا ڈال دوں“۔ بہرحال یہاں ”بنیانِ مرصوص“ سے مراد میدانِ جنگ میں مجاہدین کی ایسی صفیں ہیں جن میں کوئی رخنہ یا خلا نہ ہو اور ایک ایک مجاہد اپنی جگہ پر اس قدر مضبوطی سے کھڑا ہو کہ دشمن کے لیے صف کے کسی ایک حصے کو بھی دھکیلنا ممکن نہ ہو۔ یہاں ضمنی طور پر یہ مسئلہ بھی سمجھ لیں کہ نماز کے لیے ہماری صف بندی کی بھی یہی کیفیت ہونی چاہیے۔ ایک صف کے تمام نمازیوں کو کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونا چاہیے اور ان کے پیروں کے محاذات بھی ایک ہونے چاہئیں ‘ یعنی تمام لوگوں کے پائوں ایک سیدھ میں ہوں تاکہ صف سیدھی رہے۔ دو آدمیوں کے درمیان خلا بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جماعت کی صف میں دو نمازیوں کے درمیان خلا کی جگہ سے شیطان گزر جاتا ہے۔ جماعت کے لیے صف بندی کا اہتمام کرانا دراصل امام کی ذمہ داری ہے ‘ لیکن مقام افسوس ہے کہ ہمارے اکثر ائمہ مساجد اس طرف کوئی توجہ ہی نہیں دیتے۔ البتہ اس ضمن میں ضرورت سے زیادہ شدت بھی مناسب نہیں ‘ جیسے بعض لوگ غیر معمولی طور پر ٹانگیں پھیلا کر دوسرے نمازی کے پائوں پر اپنا پائوں چڑھا دیتے ہیں اور دوسروں کے لیے کو فت کا باعث بنتے ہیں۔ بہرحال ہمارے لیے اس آیت کا اصل پیغام یہ ہے کہ اسلام میں سب سے بڑی نیکی اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل ”قتال فی سبیل اللہ“ ہے۔ فلسفے کی اصطلاح میں سب سے اعلیٰ خیر یا نیکی کو summum bonum کہتے ہیں۔ ہر فلسفہ اخلاق میں ایک ”خیر اعلیٰ“ summum bonum یا بلند ترین نیکی highest virtue کا تصور ہوتا ہے۔ چناچہ اس آیت کے اصل پیغام کو اگر فلسفہ کی زبان میں بیان کریں تو یوں کہیں گے کہ اسلام کے نظام فکر اور اس کے نظریہ اخلاق میں بلند ترین نیکی یا ”خیر اعلیٰ“ summum bonum قتال فی سبیل اللہ ہے۔ چناچہ جو کوئی اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہو اسے اپنی سب سے قیمتی متاع یعنی اپنی جان اس کی راہ میں قربانی کے لیے پیش کرنا ہوگی۔ جو شخص اس قربانی کے لیے تیار نہ ہو اسے چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت و قربت کا دعویٰ بھی نہ کرے۔ بقول غالب ؔ ع ”جس کو ہو جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں !“ یہاں سورت کے پہلے حصے کا مطالعہ مکمل ہوگیا۔ اب آئندہ چار آیات میں بنی اسرائیل کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبروں کے ساتھ ان کا طرزعمل کیا تھا۔ یہود کی تاریخ کے حوالے سے دراصل مسلمانوں کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ قول و عمل کا تضاد اور ایمان کے عملی تقاضوں کی ادائیگی سے پہلوتہی ہی وہ اصل جرم تھا جس کی پاداش میں یہود اس مقام اور منصب سے معزول کردیے گئے جس پر اب تم فائز کیے گئے ہو۔

آیت 4 - سورہ صف: (إن الله يحب الذين يقاتلون في سبيله صفا كأنهم بنيان مرصوص...) - اردو