سورہ الصافات: آیت 6 - إنا زينا السماء الدنيا بزينة... - اردو

آیت 6 کی تفسیر, سورہ الصافات

إِنَّا زَيَّنَّا ٱلسَّمَآءَ ٱلدُّنْيَا بِزِينَةٍ ٱلْكَوَاكِبِ

اردو ترجمہ

ہم نے آسمان دنیا کو تاروں کی زینت سے آراستہ کیا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna zayyanna alssamaa alddunya bizeenatin alkawakibi

آیت 6 کی تفسیر

ربنا زینا السمآء۔۔۔۔ الخطفۃ فاتبعہ شھاب ثاقب (6 –۔۔

سورت کے آغاز میں ملائکہ کے بارے میں عربوں کے غلط خیالات پر بحث کی گئی تھی ، یہاں شیاطین کے بارے میں ان کے غلط خیالات کو لیا جاتا ہے۔ عربوں کئ یہ خیالات تھے کہ اللہ اور جنوں کے درمیان رشتہ داری ہے۔ بعض عرب محض اس خیال سے شیاطین کی پوجا کرتے تھے کہ شیاطین کو ملکوت السموات کی بعض غیوب کا علم ہوتا ہے۔ وہ ملاء اعلیٰ سے وابستہ ہوتے ہیں اور یوں نفع و نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ زمین ، آسمان اور مشرقوں کے ذکر کے بعد ، چاہے ان سے مراد ستاروں کے مشرق ہوں ، زمین کے اوپر جاری مشرق ہوں ، یا دونوں مشرق ہوں یا ان سے مراد نور اور روشنی ہو ، بہرحال اب یہاں کواکب کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔

انا زینا السماء الدنیا بزینۃ الکواکب (37: 6) ” ہم نے آسمان دنیا کو تاروں سے آراستہ کیا ہے “۔ صرف ایک نظر ہی سے یہ زینت دکھائی دیتی ہے۔ چاندنی رات میں تارے اور کواکب کیا نظارہ پیش کرتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ تخلیق کائنات میں جمال ایک اہم عنصر ہے۔ جس طرح اللہ کی تخلیق غوروفکر کے بعد انوکھی معلوم ہوتی ہے۔ اسی طرح خوبصورت بھی معلوم ہوتی ہے۔ جمال اس کائنات کے نقشے میں کوئی عارضی رنگ نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک حقیقی عنصر ہے۔ تخلیق کائنات میں دو چیزیں بنیادی مواد ہیں۔ ایک کمال درجے کا منصوبہ اور دوسرا نہایت ہی خوبصورت نقوش فطرت۔ یہ دونوں عنصر برابر اور مقصود بالذات ہیں۔ اور اس کائنات میں کمال و جمال دونوں اپنا اپنا کام کرتے ہیں۔

چاندنی رات میں جب انسان تاروں بھرے آسمان کو دیکھتا ہے تو وہ اس دنیا کے خوبصورت ترین منظر کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ یہ منظر اس قدر خوبصورت ہوتا ہے کہ انسان دیکھتا چلا جائے ، نظریں تھکتی نہیں اور دل ملول نہیں ہوتا۔ ہر ستارہ ضوبار ہوتا ہے اور چمکتا ہے۔ ہر سیارہ اپنا نور بکھیر رہا ہوتا ہے۔ انسان محسوس کر رہا ہے کہ یہ کائنات کی محبت بھری آنکھیں ہیں جو نظر چرا کے دیکھ رہی ہیں اور جب انسان ان پر نطر ڈالتا ہے تو یہ آنکھیں بند ہوجاتی ہیں ، چھپ جاتی ہیں اور جب آپ ان سے نظر ہٹاتے ہیں تو یہ آنکھیں پھر چمک اٹھتی ہیں اور اپنے منظور نطر کی تلاش میں رہتی ہیں۔ ہر رات ان آنکھوں کا موقف مختلف ہوتا ہے اور منزل جدا ہوتی ہے یہ بھی انسان کے لیے ایک ذہبی اور نفسیاتی خوارک ہے اور اسے جس قدر بھی کوئی کھائے سیر نہیں ہوتا اور نہ ملول ہوتا ہے۔

اگلی آیت میں بتایا جاتا ہے کہ ان کواکب کا ایک دوسرا فریضہ بھی ہے ۔ ان میں سے بعض شہاب ثاقب ہوتے ہیں اور یہ ان شیاطین پر بمباری کرتے ہیں جو ملاء اعلیٰ کے قریب جانے کی سعی کرتے ہیں۔

آیت 6{ اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِزِیْنَۃِ نِ الْکَوَاکِبِ } ”ہم نے مزین کردیا ہے آسمانِ دنیا کو ستاروں کی زیبائش سے۔“ السَّمَائَ الدُّنْیَا مرکب توصیفی ہے ‘ یعنی سب سے قریب والا آسمان۔ دَنَا یَدْنُو کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور اسی سے ادنٰیہے یعنی ”قریب ترین“ جبکہ ”دُنْیَا“ کا لفظ اس کا مونث ہے۔

شیاطین اور کاہن۔ آسمان دنیا کو دیکھنے والے کی نگاہوں میں جو زینت دی گئی ہے اس کا بیان فرمایا۔ یہ اضافت کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے اور بدلیت کے ساتھ بھی معنی دونوں صورتوں میں ایک ہی ہیں۔ اس کے ستاروں کی، اس کے سورج کی روشنی زمین کو جگمگادیتی ہے، جیسے اور آیت میں ہے (وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ وَجَعَلْنٰهَا رُجُوْمًا لِّلشَّـيٰطِيْنِ وَاَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَاب السَّعِيْرِ) 67۔ الملک :5) ہم نے آسمان دنیا کو زینت دی ستاروں کے ساتھ۔ اور انہیں شیطانوں کے لیے شیطانوں کے رجم کا ذریعہ بنایا اور ہم نے ان کے لیے آگ سے جلا دینے والے عذاب تیار کر رکھے ہیں۔ اور آیت میں ہے ہم نے آسمان میں برج بنائے اور انہیں دیکھنے والوں کی آنکھوں میں کھب جانے والی چیز بنائی۔ اور ہر شیطان رجیم سے اسے محفوظ رکھا جو کوئی کسی بات کو لے اڑنا چاہتا ہے وہیں ایک تیز شعلہ اس کی طرف اترتا ہے۔ اور ہم نے آسمانوں کی حفاظت کی ہر سرکش شریر شیطان سے، اس کا بس نہیں کہ فرشتوں کی باتیں سنے، وہ جب یہ کرتا ہے تو ایک شعلہ لپکتا ہے اور اسے جلا دیتا ہے۔ یہ آسمانوں تک پہنچ ہی نہیں سکتے۔ اللہ کی شریعت تقدیر کے امور کی کسی گفتگو کو وہ سن ہی نہیں سکتے۔ اس بارے کی حدیثیں ہم نے آیت (حَتّىٰٓ اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِهِمْ قَالُوْا مَاذَا ۙ قَالَ رَبُّكُمْ ۭ قَالُوا الْحَقَّ ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ 23؀) 34۔ سبأ :23) ، کی تفسیر میں بیان کردی ہیں، جدھر سے بھی یہ آسمان پر چڑھنا چاہتے ہیں وہیں سے ان پر آتش بازی کی جاتی ہے۔ انہیں ہنکانے پست و ذلیل کرنے روکنے اور نہ آنے دینے کے لیے یہ سزا بیان کی ہے اور آخرت کے دائمی عذاب ابھی باقی ہیں، جو بڑے المناک درد ناک اور ہمیشگی والے ہوں گے۔ ہاں کبھی کسی جن نے کوئی کلمہ کسی فرشتے کی زبان سے سن لیا اور اسے اس نے اپنے نیچے والے سے کہہ دیا اور اس نے اپنے نیچے والے سے وہیں اس کے پیچھے ایک شعلہ لپکتا ہے کبھی تو وہ دوسرے کو پہنچائے اس سے پہلے ہی شعلہ اسے جلا ڈالتا ہے کبھی وہ دوسرے کے کانوں تک پہنچا دیتا ہے۔ یہی وہ باتیں ہیں جو کاہنوں کے کانوں تک شیاطین کے ذریعہ پہنچ جاتی ہیں، ثاقب سے مراد سخت تیز بہت زیادہ روشنی والا ہے، حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ شیاطین پہلے جاکر آسمانوں میں بیٹھتے تھے اور وہی سن لیتے تھے اس وقت ان پر تارے نہیں ٹوٹتے تھے یہ وہاں کی وحی سن کر زمین پر آکر ایک کی دس دس کر کے کاہنوں کے کانوں میں پھونکتے تھے، جب حضور ﷺ کو نبوت ملی پھر شیطانوں کا آسمان پر جانا موقوف ہوا، اب یہ جاتے ہیں تو ان پر آگ کے شعلے پھینکے جاتے ہیں اور انہیں جلادیا جاتا ہے، انہوں نے اس نو پیدا امر کی خبر جب ابلیس ملعون کو دی تو اس نے کہا کہ کسی اہم نئے کام کی وجہ سے اس قدر احتیاط و حفاظت کی گئی ہے چناچہ خبر رسانوں کی جماعتیں اس نے روئے زمین پر پھیلا دیں تو جو جماعت حجاز کی طرف گئی تھی اس نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ نخلہ کی دونوں پہاڑیوں کے درمیان نماز ادا کر رہے ہیں اس نے جاکر ابلیس کو یہ خبر دی اس نے کہا بس یہی وجہ ہے جو تمہارا آسمانوں پر جانا موقوف ہوا۔ اس کی پوری تحقیق اللہ نے چاہا تو آیت (وَّاَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاۗءَ فَوَجَدْنٰهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيْدًا وَّشُهُبًا ۙ) 72۔ الجن :8) ، کی تفسیر میں آئے گی۔

آیت 6 - سورہ الصافات: (إنا زينا السماء الدنيا بزينة الكواكب...) - اردو