سورہ الصافات: آیت 5 - رب السماوات والأرض وما بينهما... - اردو

آیت 5 کی تفسیر, سورہ الصافات

رَّبُّ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَرَبُّ ٱلْمَشَٰرِقِ

اردو ترجمہ

وہ جو زمین اور آسمانوں کا اور تمام اُن چیزوں کا مالک ہے جو زمین و آسمان میں ہیں، اور سارے مشرقوں کا مالک

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Rabbu alssamawati waalardi wama baynahuma warabbu almashariqi

آیت 5 کی تفسیر

ضروری ہوا کہ فرشتوں کی حیثیت بتانے کے بعد اللہ خود اپنی تعریف بھی فرما دے :

رب السموت والارض وما بینھما ورب المشارق (38: 5) ” وہ جو زمینوں اور آسمانوں کا اور تمام ان چیزوں کا مالک ہے جو زمین اور آسمان کے درمیان ہیں اور سارے مشرقوں کا مالک ہے “۔ یہ زمین اور آسمان جو انسانوں کے اردگرد قائم ہیں وہ انسانوں کو بتاتے ہیں کہ اس عظیم کائنات کا ایک خالق مدبر ہے۔ اس جہاں میں کوئی ذات اس کے سوا نہیں ہے جس کا یہ دعویٰ ہو کہ اس کی تخلیق اور تدبیر میں اس کا بھی حصہ ہے۔ کوئی عقلمند انسان اس اعتراف سے نہیں بھاگ سکتا کہ اس جہاں کا خالق بےقید قدرتوں کا مالک ہے۔ اور وہ رب ہے اور وہی مالک ہے زمین و آسمان اور ان کے درمیان ہر چیز کا۔ خواہ ہوائیں ہیں ، بادل ہیں ، روشنی ہے ، مخلوقات ہیں ، دیکھی جانے والی مخلوقات ہیں یا ایسی مخلوقات ہیں جو نظر نہیں اسکتیں اور آئے دن ان کے بارے میں انسانوں کے علم میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ لیکن ان کی اکثریت اب بھی نظروں سے اوجھل ہے۔

آسمان اور زمین اور ان کے درمیان کی مسافتیں اسی قدر وسیع ، اس قدر عظیم ہیں اور ان کے درمیان پائی جانے والی مخلوقات اس قدر متنوع ، خوبصورت اور باہم ہم آہنگ ہیں کہ ایک زندہ دل انسان اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اور اس کائنات سے گہرے تاثر اور عبرت پکڑنے اور اس پر غور و فکر کے بغیر وہی شخص گزر سکتا ہے جس کا دل مر چکا ہو۔ اس لیے ایسے شخص پر پھر یہ خوشگوار تاثرات کوئی اثر نہیں کرتے اور اس کا دل و دماغ ان عجائبات کو دیکھ کر بھی جوش میں نہیں آتا۔

رب المشارق (37: 5) ” مشرقوں کا مالک “۔ ہر ستارے کے لیے ایک مشرق ہے اور ہر سیارے کا بھی ایک مشرق ہے۔ لہٰذا اس کائنات میں بیشمار مشارق ہیں۔ ان وسیع اجرام فلکی میں ان گنت مشارق ہیں۔ اس تعبیر میں اس زمین کی طرف بھی گہرا اشارہ ہے جس پر ہم رہتے ہیں۔ زمین جب سورج کے سامنے حرکت محوری کا عمل کرتی ہے ، تو کسی نہ کسی وقت اس کا ایک حصہ مشرق ہوتا ہے ۔ اسی طرح کسی نہ کسی وقت اس کا ایک حصہ مغرب ہوتا رہتا ہے۔ اور یہ عمل پے در پے چلتا رہتا ہے۔ جونہی کوئی حصہ سورج کے سامنے آتا ہے وہ مشرق ہوتا ہے۔ اور اس کے بالمقابل حصہ مغرب ہوتا ہے۔ جوں جوں حرکت اور گردش ہوتی رہتی ہے ، مشرق بھی بدلتا رہتا ہے اور مغرب بھی۔ یہ وہ حقیقت ہے جس سے نزول قرآن کے وقت لوگ بیخبر تھے۔ لیکن اللہ نے ان کو اس قدر قدیم زمانے میں خبر دے دی۔

یہ نہایت ہی گہرا نظام ہے ، جس کے مطابق اس زمین پر مشارق رواں دواں ہیں اور یہ خوبصورتی جو طلوع آفتاب کے وقت اس زمین پر بکھر جاتی ہے ، یہ اس قابل ہے کہ انسانی دل کو خوشگوار ، تاثر اور گہرے غور وفکر کے تاثرات سے بھر دیں۔ اور انسان چلا اٹھے کہ صانع کائنات کی کیا شان ہے اور انسان چلا اٹھے کہ بیشک اللہ وحدہ خالق کائنات ہے کہ اس عجیب صفت کے آثار اور اس کی مسافت اور طبیعت یہ بتاتی ہے کہ اس کا بنانے والا ایک ہی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ یہاں اللہ کی صفت رب المشارق کو لایا گیا ہے۔ عنقریب ہم کواکب ، شہاب ثاقب ، شیاطین اور ان کے بھگائے جانے پر بحث کریں گے ، اس موقعہ پر رب المشارق کے کچھ اور مفہوم اور مناسبتیں بھی بیان کریں گے۔

آیت 5{ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِ } ”جو مالک ہے آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان دونوں کے مابین ہے اور تمام مشرقوں کا۔“ یہاں ”مشارق“ کے بعد ”مغارب“ کا ذکر نہیں ہوا٭۔ اس لیے کہ زمین کا ہر مقام اور ہر نقطہ مشرق بھی ہے اور مغرب بھی۔ یعنی اگر ہم کسی وقت سورج کو کسی مقام پر غروب ہوتا دیکھ رہے ہیں تو عین اسی وقت اسی مقام سے کسی دوسرے علاقے کے لوگ اسے طلوع ہوتا بھی دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے سورج کے طلوع و غروب کے حوالے سے مشرق اور مغرب کا ذکر الگ الگ بھی ہوسکتا ہے اور یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ زمین کے تمام مقامات مشارق ہی ہیں۔ یعنی ہر جگہ سے کسی نہ کسی وقت سورج طلوع ہوتا نظر آتا ہے۔

آیت 5 - سورہ الصافات: (رب السماوات والأرض وما بينهما ورب المشارق...) - اردو