سورہ الصافات: آیت 1 - والصافات صفا... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورہ الصافات

وَٱلصَّٰٓفَّٰتِ صَفًّا

اردو ترجمہ

قطار در قطار صف باندھنے والوں کی قسم

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalssaffati saffan

آیت 1 کی تفسیر

درس نمبر 208 تشریح آیات

1 ۔۔۔ تا۔۔۔ 68

والصفت صفا۔۔۔۔۔ ورب المشارق (1 – 5) ۔ ۔ ” ، ۔ “۔

قطاروں میں صف آرا ہونے والے ، زجر کرنے والے اور تلاوت کرنے والے دراصل وہ فرشتے ہیں جو ان اعمال کے حامل ہیں۔ صفیں باندھنے والے یعنی نمازوں میں یا اللہ سے احکام لینے کے انتظار میں صف بستہ مراد ہوں اور زجر و توبیخ سے مراد یہ ہوسکتی ہے کہ جن نافرمانوں کی روح قبض کرنا مقصود ہو تو وہ ڈانٹتے ہوئے لیتے ہیں ، یا وہ جو حشر میں ان کو ڈانٹ ڈپٹ سے جہنم کی طرف چلائیں گے۔ یا کسی بھی حال میں اللہ کی مرضی کے مطابق زجر کرنے والے۔ اور تلاوت و ذکر کرنے والوں سے مراد کتاب الٰہی پڑھنے والے اور اللہ کی تسبیحات کرنے والے ہوسکتے ہیں۔ غرض ملائکہ کی ان خاص اقسام و انواع کی قسم کھانے کی غرض وغایت یہ ہے کہ لوگو ! جان لو کہ۔

ان الھکم لواحد (37: 4) ” تمہارا معبود حقیقی بس ایک ہی ہے ؛۔ اور ان فرشتوں کی اس حالت کی پھر قسم اس لیے کھائی گئی ہے کہ فرشتوں کے بارے میں عربوں کا مقصود بہت غلط تھا جیسا کہ ہم نے کہا کہ عرب فرشتوں کو اللہ کی اولاد سمجھتے تھے اور بعض عرب فرشتوں کو الہہ بھی اس لیے بناتے تھے کہ یہ اللہ کی بیٹیاں ہیں لہٰذا ہماری دیویاں ہیں۔

آیت 1{ وَالصّٰٓفّٰتِ صَفًّا } ”قسم ہے ان فرشتوں کی جو قطار در قطار صفیں باندھے حاضر رہتے ہیں۔“ گویا وہ بارگاہِ خداوندی میں ہمہ وقت حاضر رہنے والے خادمین ہیں جو احکامات کی تعمیل کے لیے ہر لمحہ کمربستہ رہتے ہیں۔

فرشتوں کا تذکرہ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں ان تینوں قسموں سے مراد فرشتے ہیں۔ اور بھی اکثر حضرات کا یہی قول ہے۔ حضرت قتادہ ؓ فرماتے ہیں فرشتوں کی صفیں آسمانوں پر ہیں۔ مسلم میں حضور ﷺ فرماتے ہیں ہمیں سب لوگوں پر تین باتوں میں فضیلت دی گئی ہے۔ ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں جیسی کی گئی ہیں۔ ہمارے لیے ساری زمین مسجد بنادی گئی ہے۔ اور پانی کے نہ ملنے کے وقت زمین کی مٹی ہمارے لیے وضو کے قائم مقام کی گئی ہے۔ مسلم وغیرہ میں ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے ہم سے فرمایا تم اس طرح صفیں نہیں باندھتے جس طرح فرشتے اپنے رب کے سامنے صف بستہ کھڑے ہوتے ہیں۔ ہم نے کہا وہ کس طرح ؟ آپ نے فرمایا اگلی صفوں کو وہ پورا کرتے جاتے ہیں اور صفیں بالکل ملا لیا کرتے ہیں۔ ڈانٹنے والوں سے مراد سدی ؒ وغیرہ کے نزدیک ابر اور بادل کو ڈانٹ کر احکام دے کر ادھر سے ادھر لے جانے والے فرشتے ہیں۔ ربیع بن انس وغیرہ فرماتے ہیں قرآن جس چیز سے روکتا ہے وہ اسی سے بندش کرتے ہیں۔ ذکر اللہ کی تلاوت کرنے والے فرشتے وہ ہیں جو اللہ کا پیغام بندوں کے پاس لاتے ہیں جیسے فرمان ہے (فَالْمُلْقِيٰتِ ذِكْرًا ۙ) 77۔ المرسلات :5) یعنی وحی اتارنے والے فرشتوں کی قسم جو عذر کو ٹالنے یا آگاہ کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ ان قسموں کے بعد جس چیز پر یہ قسمیں کھائی گئی ہیں اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ تم سب کا معبود برحق ایک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ وہی آسمان و زمین کا اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا مالک و متصرف ہے۔ اسی نے آسمان میں ستارے اور چاند سورج کو مسخر کر رکھا ہے، جو مشرق سے ظاہر ہوتے ہیں مغرب میں غروب ہوتے ہیں۔ مشرقوں کا ذکر کرکے مغربوں کا ذکر اس کی دلالت موجود ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا۔ دوسری آیت میں ذکر کر بھی دیا ہے فرمان ہے (رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ 17ۚ) 55۔ الرحمن :17) یعنی جاڑے گرمیوں کی طلوع و غروب کی جگہ کا رب وہی ہے۔

آیت 1 - سورہ الصافات: (والصافات صفا...) - اردو