سورہ رحمن: آیت 5 - الشمس والقمر بحسبان... - اردو

آیت 5 کی تفسیر, سورہ رحمن

ٱلشَّمْسُ وَٱلْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ

اردو ترجمہ

سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alshshamsu waalqamaru bihusbanin

آیت 5 کی تفسیر

اب اس کائنات کی نمائش گاہ میں دست قدرت کے بنائے ہوئے دو اور عجوبے۔

الشمس والقمر بحسبان (55:5) (سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں) شمس وقمر کی بناوٹ ان کی حرکت اور ہم آہنگی کو دیکھ کر انسان حیران اور ششدر رہ جاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک عظیم نظام ہے اور منظم کی عظمت پر دال ہے اور اس نظام کے اندر گہرے حقائق پوشیدہ ہیں اور اس سے نکلنے والے نتائج دور رس ہیں۔

سورج اجرام فلکی میں سے کوئی بہت بڑا کرہ نہیں ہے۔ اس فضا نے کائنات کے اندر جس کے حدود کا تعین انسان نہیں کرسکا ، کئی ملین ستارے ہیں جن میں سے بہت سے سورج سے بڑے ہیں اور زیادہ حرارت والے ہیں۔ زیادہ تیز روشنی والے ہیں۔ بعض تو بیس گناہ بڑے اور زیادہ گرم ہیں اور جن کی روشنی سورج کی روشنی سے پچاس گنا تیز ہے۔

شعری یمانی سورج سے بیس گناہ بھاری اور اس کی روشنی سورج کی روشنی سے پچاس گنا زیادہ ہے۔ سماک رائح سورج کے حجم سے اسی گنا بڑا حجم رکھتا ہے اور اس کی روشنی آٹھ ہزار گنا زیادہ تیز ہے۔ سہیل کا حجم سورج سے دو ہزار پانچ صد مرتبہ بڑا ہے۔ اسی طرح اور ستارے اور سیارے۔

لیکن ہمارے لئے سورج ہی زیادہ اہم ہے یعنی ہم زمین کے باشندوں کے لئے کیونکہ یہ زمین اور اس کی یہ حالت اور انسان کی زندگی سورج کی حرارت کی مرہون منت ہے اور اس میں سورج کی جاذبیت کو بھی بڑا دخل ہے۔

اس طرح چاند جو اس زمین کا ایک چھوٹا سا سیارچہ ہے لیکن اسے بھی اس زمین کی زندگی میں اہمیت حاصل ہے۔ سمندروں کے اندر مددجزر اسی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔

سورج کا حجم ، اس کا درجہ حرارت ، ہم سے اس کا بعد ، اس کا اپنے مدار میں چکر لگانا ، اس طرح چاند کا حجم ، اس کی ہم سے دوری اور اپنے مدار میں گردش یہ سب امور نہایت ہی باریک حساب اور پیمانوں سے بنائے ہوئے ہیں اور زمین کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ بمقابلہ دوسرے ستاروں اور سیاروں کے۔ شمس وقمر کے بعض حسابات ہم یہاں درج کرتے ہیں کہ زمین کے حوالے سے ان کے ان حسابات میں ذرا بھی فرق آئے تو دوررس نتائج نکلیں۔

سورج زمین سے 5 لاکھ 29 میل دور ہے۔ اگر یہ اس سے قریب تر ہوتا تو زمین جل جاتی اور تمام پانی بخارات میں بدل جاتا اور بخارات فضا میں بلند ہوجاتے اور اگر یہ ذرا اور دور ہوتا تو تمام چیزیں منجمد ہوجائیں۔ ہم تک سورج کی جو حرارت پہنچتی ہے ، وہ اس کی حرارت کے دو ملین حصوں میں سے ایک حصہ پہنچتی ہے اور ہماری موجودہ زندگی کے لئے یہی معمولی حرارت کافی ہے۔ اگر شعری اپنی موجودہ ضخامت اور حرارت کے ساتھ سورج کی جگہ ہوتا تو پورا کرہ ارض جل کر راکھ ہوجاتا اور پانی بخارات بن کر فضا آسمانی میں بکھر جاتا۔

اسی طرح چاند کا حجم اور ہم سے بعد ایک حساب سے رکھا گیا ہے۔ اگر یہ اس سے ذرا بھی بڑا ہوتا تو سمندر کے اندر اس قدر طوفان آتے کہ زمین بار بار ڈوبتی رہتی۔ اسی طرح اگر یہ ہم سے قریب ہوجاتا یعنی جہاں ہے تو بھی زمین پر طوفان مچا دیتا لیکن جہاں اللہ نے اسے رکھ چھوڑا ہے اس سے بال برابر ادھر ادھر نہیں ہوتا۔

سورج اور چاند کی جاذبیت زمین کے لئے ایک مقدار کے ساتھ متعین ہے اور ان کی رفتار کو بھی ایک نہایت ہی مضبوط حساب سے رکھا گیا ہے اور ہمارا یہ پورا کہکشاں اور مجموعہ شمسی بحساب بیس ہزار میل فی گھنٹہ ایک ہی سمت میں چل رہا ہے اور اس راہ میں وہ کسی دوسرے ستارے سے نہیں ٹکرایا اور اس رفتار کے کئی ملین سال ہوگئے ہیں اور فضائے کائنات ختم نہیں ہوئی۔

اس وسیع فضائے آسمانی کے اندر کوئی ستارہ اپنے مدار سے ایک بال برابر بھی ادھر ادھر نہیں ہوتا اور ان کے درمیان جو توازن اور ہم آہنگی رکھی گئی ہے ، اپنے حجم کے لحاظ سے یا حرکت کے لحاظ سے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ سچ فرمایا ذات باری نے :

الشمس والقمر بحسبان (55:5) (تارے اور درخت سب سجدہ ریز ہیں) سابقہ اشارہ یہ تھا کہ اس کائنات کی تخلیق وتشکیل میں ایک مضبوط حساب رکھا ہوا ہے اور یہ اشارہ اسی طرف ہے کہ یہ پوری کائنات اللہ کی ذات کے ساتھ مربوط ہے۔ یہ کہ یہ باری تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق چلتی ہے اور اس کی مطیع فرمان ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ کائنات پوری طرح اللہ کی مطیع فرمان ہے جس طرح بندہ اور غلام مطیع ہوتا ہے اور اس کے لئے خالق نے جو ضوابط رکھے ہیں ، ان کو تسلیم کرتی ہے۔ ستارے اور درخت اس بندگی اور اطاعت کا نمونہ ہیں۔ بعض نے ستارے کا یہ مفہوم لیا ہے کہ اس سے وہ ستارہ مراد ہے جو آسمان میں ہے جبکہ بعض نے شجر سے مراد وہ گھاس لی ہے جو نال پر کھڑی نہ ہو۔ مراد جو بھی ہو ، بہرحال آیت کا مفہوم وہی ہے کہ تمام چیزوں کی اطاعت اور بندگی کا رخ اللہ کی طرف ہے۔

غرض یہ کائنات ایک ایسی مخلوق ہے جس کی ایک روح اور اسی روح کی شکلیں اور مظاہر اور درجے مختلف ہوتے ہیں۔ کسی چیز میں کیسی روح ہے اور کسی میں کسی دوسری نوعیت کی روح در حقیقت روح کائنات ایک ہی ہے۔

قلب بشری نے روح کائنات کا ادراک بہت پہلے کرلیا تھا اور یہ کہ یہ پوری کائنات اپنی اس روح کے اعتبار سے خالق کی طرف متوجہ ہے۔ ہر شخص کو بذریعہ الہام لدنی اس حقیقت کا ادراک کرایا گیا تھا لیکن جب انسان نے اس روح کو اپنے حواص سے معلوم کرنے کیسعی کی تو اس حقیقت ، اس الہامی حقیقت کو غبار آلود کردیا گیا اور یہ انسانی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ جب بھی اس حقیقت کو عقل کے پائے چوبیں سے معلوم کرنے کی سعی کی گئی یہ بھاگ گئی۔

حال ہی میں انسان نے کائنات کی تخلیق میں علامات وحدت کا ایک حصہ تلاش کرلیا ہے لیکن موجودہ مادیت زدہ انسانیت روح کائنات تک نہیں پہنچ سکی جو ایک زندہ روح ہے اور اس تک روحانی انداز ہی میں پہنچنا چاہئے اور پہنچا جاسکتا ہے۔

سائنس دان اپنے کام کا آغاز اس سے کرتے ہیں کہ ذرہ تخلیق کی پہلی اکائی ہے اور وہ صرف شعاع یا نور سے مرکب ہے اور یہ کہ حرکت اصول کائنات ہے اور کائنات کے تمام اجسام اور افراد کے درمیان مابہ الاشتراک حرکت ہے۔

سوال بلکہ سوالات یہ ہیں کہ یہ کائنات حرکت کرکے جا کہاں رہی ہے۔ یہ تو کائنات کی صفت ہوئی اور خاصیت ہوئی۔ قرآن کریم یہ اطلاع دیتا ہے کہ یہ کائنات اپنے خالق کی طرف رخ کئے ہوئے ہے اور یہی حقیقی حرکت ہے۔ ظاہری حرکت دراصل روح کائنات کی حرکت کی ایک تعبیر ہے اور قرآن کریم اس روح کائنات کی حرکت کی تعبیر ایسے الفاظ میں کرتا ہے۔

آیت 5{ اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ۔ } ”سورج اور چاند ایک حساب کے ساتھ گردش کرتے ہیں۔“ سورج اور چاند کی گردش ایک قطعی اور مربوط نظام کا حصہ ہے۔ ان کی گردش سے ہی دن رات بنتے ہیں اور دنوں ‘ مہینوں اور سالوں کا حساب ممکن ہوتا ہے۔

آیت 5 - سورہ رحمن: (الشمس والقمر بحسبان...) - اردو