سورہ رحمن: آیت 4 - علمه البيان... - اردو

آیت 4 کی تفسیر, سورہ رحمن

عَلَّمَهُ ٱلْبَيَانَ

اردو ترجمہ

اور اسے بولنا سکھایا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AAallamahu albayana

آیت 4 کی تفسیر

آیت 4 { عَلَّمَہُ الْبَیَانَ۔ } ”اس کو بیان سکھایا۔“ یعنی اسے بولنا سکھایا ‘ اسے گویائی کی صلاحیت بخشی۔ آیات زیر مطالعہ کے حوالے سے یہاں چوتھا اہم نکتہ یہ ہے کہ انسان کی صلاحیتوں میں سے جو چوٹی کی صلاحیت ہے وہ قوت بیان گویائی ہے۔ آج میڈیکل سائنس کی تحقیق سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ انسان کی قوت گویائی کا تعلق اس کے دماغ کی خصوصی بناوٹ سے ہے۔ سائنس کی زبان میں تو انسان بھی حیوان ہی ہے ‘ لیکن اس کے بولنے کی صلاحیت کی وجہ سے اسے حیوانِ ناطق بولنے والا حیوان کہا گیا ہے۔ دماغ تو ظاہر ہے انسان سمیت تمام جانوروں میں موجود ہے ‘ لیکن ہر جانور کے دماغ کی بناوٹ اور صلاحیت مختلف ہے۔ اس لحاظ سے انسان کا دماغ تمام حیوانات کے دماغوں میں سب سے اعلیٰ ہے اور اس میں ایسی صلاحیتیں بھی پائی جاتی ہیں جو کسی اور جانور کے دماغ میں نہیں ہیں۔ بہرحال استعداد کے حوالے سے حیوانی دماغ کی بناوٹ نچلی سطح سے ترقی کر کے گوریلوں اور چیمپنزیز champenzies کے دماغ کی سطح تک پہنچتی ہے ‘ اور پھر اس ترقی کی معراج انسان کا دماغ ہے۔ انسانی دماغ کے مختلف حصے ہیں ‘ مثلاً سماعت سے متعلقہ حصہ ‘ بصارت سے متعلقہ حصہ وغیرہ۔ حواس آنکھ ‘ کان وغیرہ سے حاصل ہونے والی معلومات پہلے دماغ کے متعلقہ حصے میں جاتی ہیں اور پھر وہاں سے gray matter کے پچھلے حصے میں پہنچتی ہیں۔ لیکن انسانی دماغ کا سب سے اہم اور بڑا حصہ speech centre ہے ‘ اور پھر اس میں بھی کلام کے فہم اور ابلاغ سے متعلق دو الگ الگ حصے ہیں ‘ یعنی ایک حصے میں دوسروں کی بات سمجھنے کی صلاحیت ہے جبکہ دوسرا حصہ دوسروں تک بات پہنچانے سے متعلق ہے۔ ویسے تو اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت سی صلاحیتوں سے نوازا ہے ‘ لیکن قوت گویائی کے علاوہ انسان کی باقی تقریباً تمام صلاحیتیں کسی نہ کسی سطح پر کسی نہ کسی درجے میں دوسرے حیوانات کو بھی ملی ہیں ‘ بلکہ بعض حیوانات کی بعض صلاحیتیں تو انسان کے مقابلے میں کہیں بہتر ہیں۔ بعض جانوروں کی بصارت ہمارے مقابلے میں بہت زیادہ تیز ہے ‘ کئی جانور اندھیرے میں بھی دیکھ سکتے ہیں جبکہ ہم دیکھنے کے لیے روشنی کے محتاج ہیں۔ گھوڑے کی قوت سماعت انسان کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔ چناچہ ذرا سی آہٹ پر گھوڑے کے کان antenna کی طرح کھڑے ہوجاتے ہیں ‘ جبکہ ُ گھڑ سوار نے ابھی کچھ دیکھا ہوتا ہے نہ سنا ہوتا ہے۔ اسی طرح ُ کتوں ّکے دماغ میں سونگھنے کا حصہ بہت بڑا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ان کے سونگھنے کی حس انسان کے مقابلے میں سو گنا سے بھی زیادہ تیز ہے۔ بہرحال باقی صلاحیتیں تو دوسرے جانوروں میں بھی پائی جاتی ہیں ‘ لیکن بیان اور گویائی کی صلاحیت صرف اور صرف انسان کا طرئہ امتیاز ہے۔ اس تمہید کے بعد اب ان آیات کو دوبارہ پڑھئے۔ ان چار آیات سے تین جملے بنتے ہیں۔ پہلی آیت { اَلرَّحْمٰنُ۔ } جملہ نہیں ہے ‘ یہ مبتدأ ہے اور { عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ۔ } اس کی خبر ہے۔ چناچہ پہلی اور دوسری آیت کے ملنے سے مکمل جملہ بنتا ہے۔ یعنی ”رحمن نے قرآن سکھایا“۔ اس کے بعد آیت 3 { خَلَقَ الْاِنْسَانَ۔ } ”اس نے انسان کو پیدا کیا“ بھی مکمل جملہ ہے اور آیت 4 { عَلَّمَہُ الْبَیَانَ۔ } ”اسے بیان کی صلاحیت عطا کی“ بھی مکمل جملہ ہے۔___ اب ان آیات پر اس پہلو سے غور کیجیے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے سب سے اعلیٰ نام کے حوالے سے سب سے اعلیٰ علم قرآن کا ذکر کیا۔ پھر اپنی چوٹی کی مخلوق اور اس مخلوق کی چوٹی کی صلاحیت بیان کا ذکر کیا۔ اس زاویے سے غور کیا جائے تو یہ تین جملے ریاضی کے کسی سوال کی طرح ”جواب“ کا تقاضا کرتے نظر آتے ہیں۔ چناچہ جس طرح ریاضی کے ”نسبت و تناسب“ کے سوالات میں تین رقموں values کی مدد سے چوتھی رقم معلوم کی جاتی ہے ‘ اسی طرح ان تین جملوں پر غور کرنے سے اس عبارت کے اصل مدعا تک پہنچا جاسکتا ہے۔ ”رحمن نے قرآن سکھایا۔ اس نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بیان کی صلاحیت عطا فرمائی“۔ کس لیے ؟۔ -۔ جواب بالکل واضح ہے : ”قرآن کے بیان کے لیے !“ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی اعلیٰ ترین مخلوق کو ”بیان“ کی انمول صلاحیت سے اس لیے تو نہیں نوازا کہ وہ اسے لہو و لعب میں ضائع کرتا پھرے ‘ یا دلائل کے انبار لگانے والا وکیل یا شعلہ بیان مقرر بن کر اسے حصول دولت و شہرت کا ذریعہ بنا لے۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ توپ اس لیے تو نہیں بنائی جاتی کہ اس سے مکھیاں ماری جائیں۔ چناچہ انسان کی اس بہترین صلاحیت کا بہترین مصرف یہ ہوگا کہ وہ اسے بہترین علم کے سیکھنے سکھانے کا ذریعہ بنائے۔ یعنی اپنی قوت بیان کو قرآن کی تعلیم اور نشرواشاعت کے لیے وقف کر دے۔ ان آیات کے اس مفہوم کو حضور ﷺ کے اس فرمان کی روشنی میں بہتر انداز میں سمجھا جاسکتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ 1 یہاں خَیْرُکُمْ کا صیغہ تفضیل کل superlative degree کے مفہوم میں آیا ہے کہ تم سب میں بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔ اس حدیث کے حوالے سے ضمنی طور پر یہاں یہ نکتہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ اس کے راوی حضرت عثمان بن عفان رض کے نام اور حدیث کے لفظ ”قرآن“ کے قافیے بھی زیر مطالعہ آیات کے قافیوں کے ساتھ مل رہے ہیں۔ یعنی ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے اس حدیث کی ان آیات کے ساتھ خصوصی نسبت ہے۔ سورة الرحمن کی ان ابتدائی آیات کا مطالعہ کرتے ہوئے اگر سورة القمر کی ترجیعی آیت { وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ …} کے مفہوم اور اس کے پرشکوہ اسلوب کو بھی مدنظر رکھا جائے اور ان آیات کی ترتیب پر بھی غور کیا جائے کہ سورة القمر کی مذکورہ آیت کو باربار دہرانے کے فوراً بعد سورة الرحمن کی یہ آیات آئی ہیں تو ان آیات کا مذکورہ مفہوم واضح تر ہوجاتا ہے۔ بہرحال ان آیات کے بین السطور یہ پیغام بھی مضمر ہے کہ انسانوں پر اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت کا حق ادا کرنا لازم ہے۔

آیت 4 - سورہ رحمن: (علمه البيان...) - اردو