سورہ رحمن: آیت 3 - خلق الإنسان... - اردو

آیت 3 کی تفسیر, سورہ رحمن

خَلَقَ ٱلْإِنسَٰنَ

اردو ترجمہ

اُسی نے انسان کو پیدا کیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Khalaqa alinsana

آیت 3 کی تفسیر

خلق الانسان (55: 3) علمہ البیان (55:4) (انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا) ہم یہاں انسان کی تخلیق کی نعمت پر کلام نہیں کرتے۔ جلد ہی سورة میں یہ بیان آئے گا۔ یہاں اصل مقصود تعلیم بیان ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ انسان بات کرتا ہے۔ مافی الضمیر کی تعبیر کرتا ہے۔ بیان کرتا ہے ایک دوسرے کی بات سمجھتا ہے اور پھر انسان باہم تعاون کرتے ہیں۔ یہ کام چونکہ ہر وقت ہمارے درمیان ہوتا رہتا ہے اس لئے اللہ کی اس نعمت عظمیٰ کو ہم نے بھلا دیا ہے ورنہ ذرا بھی غور کیا جائے تو یہ ایک عجوبہ ہے۔ قرآن ایسی کئی نعمتوں کی یاد دہانی کراتا ہے ہمیں جگاتا ہے۔

انسان کیا چیز ہے ؟ اس کی اصلیت کیا ہے ؟ اسے یہ بیان کس طرح سکھا دیا جاتا ہے ؟ انسان کی حیثیت تو یہ ہے کہ یہ ایک خلیہ ہے جو باپ کے مادہ منویہ میں ہوتا ہے۔ یہ رحم مادر میں ایک نہایت ہی سادہ شکل میں زندگی کا آغاز کرتا ہے۔ یہ بہت ہی چھوٹا ہوتا ہے ، کمزور ہوتا ہے۔ یہ اس قدر چھوٹا ہوتا ہے کہ یہ صرف آلات کے ذریعے دیکھا جاسکتا ہے ، نہ یہ نظر آتا ہے اور نہ یہ اظہار کرسکتا ہے۔

یہ خلیہ جلد ہی جنین کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ اس جنین میں خلیوں کی تعداد پھر کئی ملین ہوجاتی ہے۔ ہڈی کے خلیے ، نرم ہڈیوں کے خلیے ، عضلات کے خلیے ، اعصاب کے خلیے اور جلد کے خلیے۔ پھر اعضا بنتے ہیں اور ان اعضاء کے حیران کن کام اور صلاحیتیں سننا ، دیکھنا ، چکھنا ، سونگھنا اور چھونا اور پھر شعور اور الہام۔ یہ سب خلیے اور یہ سب خواص اس ایک خلیے سے بن گئے جو ایک سادہ خلیہ تھا ، نہایت چھوٹا جو نہ نظر آتا تھا اور نہ اظہار کرسکتا تھا۔

یہ کیسے ہوا ؟ کہ اسے آیا ؟ یہ رحمان سے آیا ہے ، یہ رحمان کی مصنوعات میں سے ایک ہے۔

ذرا غور کیجئے کہ اس مخلوق کو اللہ نے کس طرح بین سکھایا۔

واللہ ............ ولافئدة (61 : 87) (اللہ نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا اس حال میں کہ تم کچھ نہ جانتے تھے۔ اس نے تمہیں کان دیئے ، آنکھیں دیں اور سوچنے والے دل دیئے اس لئے کہ تم شکر گزار ہو)

حقیقت یہ ہے کہ بات کرنے کے اعضا ہی وہ عجوبہ ہیں جن کے عجائبات ختم نہیں ہوسکتے۔ زبان ، ہونٹ ، چہرے ، دانت ، ہوا کی نالی ، حنجرہ اور پھپھٹرے سب اس میں شریک ہوتے ہیں۔ یہ تمام اعضاء آواز نکالنے میں شریک ہوتے ہیں اور اعضا کا یہ فعل بیان کی بنیاد بنتا ہے۔ اس پیچیدہ عمل میں یہ اعضاء ایک میکان کی پہلو دکھاتے ہیں۔ اس کے بعد پھر ان اعضاء کا رابطہ دماغ ، قوت سماعت اور پورے اعصابی نظام سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد عقل سے اس کا تعلق ہوتا ہے اور عقل کیا چیز ہے ، اس کے بارے میں ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ اس کا نام ” عقل “ ہے۔ اس کی ماہیت اور حقیقت کا ہمیں علم نہیں ہے بلکہ یہ عقل کس طرح کام کرتی ہے ہم اس کے بارے میں بھی نہیں جانتے۔

ایک بات کرنے والا جب ایک لفظ بولتا ہے تو کس طرح بولتا ہے ؟ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے کئی مراحل ، کئی درجے اور کئی آلات ہیں اور بعض چیزیں ابھی تک معلوم نہیں۔

پہلے یہ شعور سامنے آتا ہے کہ اس مقصد کے لئے یہ لفظ بولنا چاہئے۔ یہ شعور عقل ، قوت مدرکہ یا روح سے حسی آلات کی طرف آتا ہے۔ یہ کس طرح آتا ہے اس کا ہمیں علم نہیں۔ دماغ کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ اعصاب کے ذریعے یہ حکم دیتا ہے مذکورہ بالا آلات کو کہ اس لفظ کا تلفظ کیا جائے۔ یہ لفظ بذات خود کیا چیز ہے۔ یہ وہ آواز ہے جو اللہ نے ہر انسان کو سکھائی اور اس کے معنی سکھائے۔ اب یہاں پھیپھڑے ہوا کی ایک مقدار ایک نالی کے ذریعہ ہوائی نالی کی طرف منتقل کرتے ہیں۔ پھر یہ ہوا گلے کی طرف آتی ہے۔ یہاں تاروں کا وہ نظام ہے جو آواز پیدا کرتا ہے۔ یہ نظام انسانوں کے بنائے ہوئے صوتی آلات کے تاروں سے بہت ہی مختلف اور پیچیدہ ہے۔ نہ اس نظام کے ساتھ انسان کے بنائے ہوئے آلات مشابہت کرسکتے ہیں جو آواز پیدا کرتے ہیں۔ اس کے بعد حنجرہ میں آواز پیدا ہوتی ہے اور اس کے بعد جس طرح عقل چاہتی ہے اس آواز کی تشکیل ہوتی ہے۔ اونچی آواز ، نرم آواز ، دھیمی آواز ، تیز آواز ، موٹی آواز ، سخت آواز ، نرم آواز ، پتلی آواز ، غرض قسم قسم کی آواز بھی۔ پھر حنجرہ کے ساتھ زبان ، ہونٹ ، جبڑے اور دانت کام کرتے ہیں۔ مختلف اطراف کے دباؤ کے نتیجے میں پھر حروف بنتے ہیں اور جہاں سے وہ نکلتے ہیں وہ ان کا مخرج ہوتا ہے۔ زبان کے اندر یہ کمال ہے کہ وہ ہر حرف کو زبان کے ایک حصے سے نکالتی ہے جس کا خاص اثر ہوتا ہے۔ زبان دباؤ کو اس حصے پر مرکوز کردیتی ہے۔ اسی طرح حروف کی آواز میں ایک خاص ترنم پیدا ہوتا ہے۔

یہ تمام آلات صرف ایک لفظ کی ادائیگی کا انتظام کرتے ہیں۔ اس کے بعد پھر عبارت موضوع ، افکار ، احساسات ، سابقہ اور نئے ، غرض یہ نظام ، ” نظام بیان “ بذات خود ایک معجزہ ہے۔ یہ بیان انسانی جسم کے اندر رکھ دیا گیا ہے۔ یہ رحمان کی صفت ہے اور رحمان کا فضل ہے۔

آیت 3 { خَلَقَ الْاِنْسَانَ۔ } ”اسی نے انسان کو بنایا۔“ اس سلسلے کا تیسرا اہم نکتہ یہ نوٹ کرلیں کہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی معراج climax انسان ہے۔ انسان کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ نے عالم ِامر اور عالم خلق تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : سورة النحل ‘ آیت 40 کی تشریح دونوں کو جمع فرما دیا ہے۔ اسی لیے انسان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا : { خَلَقْتُ بِیَدَیَّ } ص : 75 کہ میں نے اسے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے۔

آیت 3 - سورہ رحمن: (خلق الإنسان...) - اردو