سورہ نور: آیت 6 - والذين يرمون أزواجهم ولم يكن... - اردو

آیت 6 کی تفسیر, سورہ نور

وَٱلَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَٰجَهُمْ وَلَمْ يَكُن لَّهُمْ شُهَدَآءُ إِلَّآ أَنفُسُهُمْ فَشَهَٰدَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَٰدَٰتٍۭ بِٱللَّهِ ۙ إِنَّهُۥ لَمِنَ ٱلصَّٰدِقِينَ

اردو ترجمہ

اور جو لوگ اپنی بیویوں پر الزام لگائیں اور ان کے پاس خود ان کے اپنے سوا دوسرے کوئی گواہ نہ ہوں تو اُن میں سے ایک شخص کی شہادت (یہ ہے کہ وہ) چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ وہ (اپنے الزام میں) سچا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena yarmoona azwajahum walam yakun lahum shuhadao illa anfusuhum fashahadatu ahadihim arbaAAu shahadatin biAllahi innahu lamina alssadiqeena

آیت 6 کی تفسیر

والذین یرمون۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وان اللہ تواب حکیم ) (6 تا 10) ” “۔

ان آیات میں حد قذف کے قانون میں میاں بیوی کے لیے قدرے سہولت پیدا کی گئی ہے اور یہ سہولت میاں بیوی کینازک تعلقات کے لیے زیادہ مناسب ہے۔ اگر خاوند کو یہ معلوم ہوجائے کہ اس کی بیو نے زنا کا ارتکاب کیا ہے اور اس بات پر گواہ صرف وہ خود ہو تو اس صورت میں طریق کار یہ ہوگا کہ وہ چار بار قسم اٹھا کر یہ کہے گا کہ اس کا دعویٰ درست ہے یعنی الزام زنا اور پانچویں مرتبہ یہ کہے گا کہ مجھ پر اللہ کی لعنت ہو اگر میں جھوٹا ہوں۔ اور اس شہادت کو شہادات اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ ایک ہی گواہ کی زیادہ شہادتیں ہیں۔ اگر خاوند نے ایسا کیا تو وہ مہر ادا کرے گا اور عورت پر طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔ اور اس پر حد زنا یعنی رجم جاری ہوگی۔ ہاں اگر عورت اپنے اوپر سے اس سزا کو معاف کرانا چاہتی ہے تو وہ سابقہ شہادت کے بالمقابل چار مرتبہ حلف اٹھا کر کہے کہ الزام لگانے والا کا ۔۔۔ ہے اور پانچویں مرتبہ وہ حلف اٹھا کر کہے کہ مجھ پر اللہ کا غضب ہو ‘ اگر میں جھوٹ بولوں۔ اس طرح اس پر سے حد ساقط ہوجائے گی۔ اور لعان کے ذریعے وہ اپنے خاوند سے جدا ہوجائے گی۔ اس کے بیٹے کا نسب والد کے ساتھ لاحق نہ ہوگا اگر وہ حاملہ ہو بلکہ بیٹے کی نسبت ماں کی طرف ہوگی اور اس قسم کے بیٹے پر دلدالزنا کا الزام موجب حد قذف ہوگا۔

اس پر یہ تعقیب اور تبصرہ آتا ہے۔

(ولولا۔۔۔۔۔۔۔۔ تواب حکیم) (24 : 10) ” تم پر اللہ کا فضل اور رحم نہ ہوتا اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ بڑا التفات فرمانے والا اور حکیم ہے تو (بیویوں پر الزام کا معاملہ تمہیں بڑی پیچیدگی میں ڈال دیتا) ۔ ہیاں اللہ نے بیان نہیں فرمایا کہ اگر اللہ کا فضل نہ ہوتا تو کیا ہوتا ؟ اللہ نے مجمل اس لیے چھوڑ دیا کہ لوگ اس سے ڈرتے رہیں۔ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی بڑا ہی شرہوتا لیکن اللہ نے اسے دفع کردیا۔

اس سلسلے میں بعض صحیح احادیث میں اس قانون سازی کا شان نزول وارد ہے۔ امام احمد نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت فرمائی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی “۔

(والذین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابدا) (204 : 4) ” اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں ‘ پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں ‘ ان کو اسی (80) کوڑے مارو اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو۔

تو سعد ابن عبادہ ؓ جو انصار کے سردار تھے ‘ نے کہا کیا یہ آیت اسی طرح نازل ہوئی ہے ؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے کہا : اے گروہ انصار ‘ تم نہیں سنتے تمہارا سردار کیا کہہ رہا ہے ؟ تو انہوں نے کہا ‘ اے رسول خدا اس شخص کو ملامت نہ کریں۔ یہ نہایت ہی غیور آدمی ہے۔ اس نے کبھی بھی کنواری عورت کے سوا کسی عورت سے نکاح نہیں کیا۔ اور اس نے جب کسی عورت کو طلاق دی تو کسی شخص کو جرأت نہیں ہوئی کہ اس کے ساتھ نکاح کرلے کیونکہ وہ اس کی غیرت سے ڈرتا۔ اس پر سعد ؓ نے کہا اے رسول خدا ﷺ واقعہ یہ ہے کہ میں جانتا ہوں کہ یہ حق ہے اور یہ اللہ کی جانب سے ہے لیکن مجھے تعجب اس پر ہے کہ میری بیوی کی ران پر ایک شخص ران رکھ دے اور مجھے اجازت نہ ہو کہ میں اسے چھیڑوں اور نہ میں اسے اپنی جگہ سے ہلائوں یہاں تک کہ جب تک کہ میں چار گواہ تلاش کر کے نہ لائوں۔ خدا کی قسم جب تک میں چار گواہ لائوں گا تو وہ اپنا کام کر کے چلا گیا ہوگا۔ کہتے ہیں کہ ٹتھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ ہلال ابن امیہ آگیا۔ یہ اپنی اراضی سے کام کر کے عشاء کے وقت لوٹا۔ اس نے اپنی اہلیہ کے پاس ایک شخص کو دیکھا۔ اپنی آنکھوں سے اس نے دیکھا اور اپنے کانوں سے اس نے سنا تو اس نے اس شخص کو نہ چھیڑا۔ صبح ہوتے ہی وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا حضور میں رات کو عشاء کے وقت اپنے گھر آیا۔ میں نے اپنی اہلیہ کے پاس ایک شخص کو دیکھا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں کے ساتھ سنا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کی اس اطلاع کو بہت ہی ناپسند فرمایا۔ آپ ﷺ پر یہ بات بہت ناگوار گزری لیکن انصار اس پر جمع ہوگئے اور انہوں نے کہا : سعد ابن عبادہ نے جو کچھ کہا ہے وہ ہمارے لیے بڑی آزمائش تھی۔ اب نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ نبی ﷺ ہلال ابن امیہ کو کوڑے لگائیں اور لوگوں کے اندر ان کی شہادت ہمیشہ کے لیے غیر مقبول ہوجائے۔ اس پر ہلال ابن امیہ نے کہا : خدا کی قسم مجھے امید ہے کہ اللہ اس سے نکلنے کی کوئی راہ ضرور نکالے گا۔ ہلال نے حضور اکرم ﷺ سے کہا کہ رسول خدا میں جانتا ہوں کہ میری اس بات سے آپ ﷺ پر کس قدر ناگواری کی حالت آگئی ہے لیکن اللہ جانتا ہے کہ میں سچاہوں۔ خدا کی قسم رسول خدا ﷺ ارادہ کر ہی رہے تھے کہ ہلال ابن امیہ پر حد قذف نافذ کرنے کا حکم دیں کہ اچانک وحی آگئی۔ اور جب آپ ﷺ پر وحی آتی تھی تو صحابہ کرام فوراً سمجھ لیتے تھے کہ نزول وحی شروع ہے۔ تمام صحابہ ؓ آپ ﷺ سے علیحدہ ہوجاتے تھے یہاں تک کہ نزول وحی کا عمل مکمل ہوجاتا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

(والذین یرمون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شھدت باللہ) (24 : 7) ” اور جو لوگ اپنی بیویوں پر الزام لگائیں اور ان کے پاس خود ان کے اپنے سوا دوسرے کوئی گواہ نہ ہوں تو ان میں سے ایک شخص کی شہادت (یہ ہے کہ وہ ) چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ وہ (اپنے الزام ) میں سچا ہے۔

رسول اللہ ﷺ پر سے حالت وحی دور ہوگئی تو آپ ﷺ نے فرمایا ہلال ! مبارک ہو۔ اللہ نے تیرے لیے آسانی پیدا کردی ہے اور اس مشکل سے نکلنے کی راہ نکالی ہے۔ تو ہلال نے کہا میں امید کررہا تھا کہ اللہ میرے لیے کوئی راہ نکالے گا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ اس عورت کو بلایا جائے۔ وہ آگئی۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ آیات دونوں کو پڑھ کر سنائیں۔ ان کو نصیحت کی اور ان کو بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کی سزا سے بہت ہی تھوڑا ہے تو ہلال نے کہا رسول خدا ﷺ اللہ کی قسم میں نے اس کے بارے میں سچ کہا ہے اور اس عورت نے جواب میں کہا۔ یہ جھوٹ کہتا ہے۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا ان دونوں کے درمیان لعان کرادو۔ تو ہلال کو کہا گیا تم چار بار شہادت دو کہ تم سچ کہتے ہو۔ جب پانچویں بار شہادت دینے لگا تو اسے کہا گیا : اللہ سے ڈرو ‘ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے ہلکا ہے۔ اور یہ شہادت جو فریق مخالف پر سزا واجب کرنے والی ہے ‘ تیرے لیے موجب عذاب ہوگی۔ تو ہلال نے کہا خدا کی قسم اس کے بارے میں مجھے اللہ ہر گز عذاب نہیں دے گا۔ جس طرح اس نے مجھے کوڑوں کی سز نہیں دی تو پانچویں مرتبہ ہلال نے شہادت دی کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ اس کے بعد عورت سے کہا گیا کہ تم چار شہادتیں دو کہ وہ جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ اس سے کہا گیا خدا سے ڈرو اور دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے بہت ہی ہلکا ہے اور یہ پانچویں بار عذاب کو واجب کرنے والی ہے اور یہ تم پر عذاب کو واجب کردے گی۔ وہ کچھ دیر کے لیے ہچکچائی اور ارادہ کرلیا کہ اعتراف کرلے۔ اس کے بعد اس نے کہا میں اپنی قوم کو شرمندہ نہیں کروں گی۔ چناچہ اس نے پانچویں مرتبہ شہادت دی کہ اس پر اللہ کا غضب ہوگا۔ اگر وہ سچا ہو۔ رسول اللہ نے دونوں کے درمیان تفریق کردی اور یہ فیصلہ کیا کہ اس کے بچے کو اباپ کی طرف منسوب نہ کیا جائے گا۔ نہ اس کے بچے پر تہمت لگائی جائے گی۔ جس نے اس کے بچے کو دلد الزنا کہا ‘ اس پر حد جاری ہوگی۔ یہ بھی حکم دیا کہ اس عورت کے لیے خاوند کے ذمہ رہائش کی جگہ فراہم کرنا لازم نہ ہوگا نہ خوراک لازم ہوگی۔ کیونکہ ان دونوں کے درمیان بغیر طلاق کے تفریق کردی گئی ہے۔ اور حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر اس کا بچو قدرے سرخ بالوں والا ‘ دبلے چوتڑ والا اور پتلی ٹانگوں والا ہوا تو وہ ہلال کا بچہ ہوگا اور اگر گندم گوں رنگ لیچدار بالوں والا ‘ موٹے اعضا والا ‘ موٹی پنڈلیوں والا ہوا ‘ بھرے ہوئے چوتڑ والا ہوا تو پھر یہ اس شخص کا بیٹا ہوگا جس کے ساتھ وہ بد نام ہوئی۔ تو جب اس کا بچو پیدا ہوا تو وہ کدرے لیچدار بالوں والا ‘ موٹے اعضا والا اور موٹی ٹانگوں والا اور بھرے ہوئے چوتڑ والا تھا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر ایمان نہ ہوتا تو میں اس عورت کے ساتھ دیکھ لیتا “۔

یہ قانون لعان تھا اور یہ ایک عملی ضرورت کے تحت نازل ہوا ۔ اس نے مسلمانوں کے لیے درپیش ایک مشکل مسئلے کو حل کردیا۔ یہ مسئلہ اس قدر مشکل تھا کہ خود رسول اللہ ﷺ کو اس کا کوئی حل نظر نہ آتا تھا۔ جیسا کہ روایت بخاری میں آتا ہے۔ آپ ﷺ نے ہلال ابن امیہ سے کہا کہ یا تو گواہ لائو اور یا تمہاری پیٹھ پر حد جاری ہوگی۔ اور ہلال یہی کہتے رہے کہ حضور ﷺ ایک شخص دیکھے کہ اس کی بیوی پر ایک شخص چڑھا ہوا ہے کیا وہ جائے گا کہ گواہ تلاش کرے۔

یہاں سوال کرنے والا یہ سوال کرسکتا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کو علم نہ تھا کہ حد قذف کے عام قانون کے بعد اس قسم کا مسئلہ پیدا ہوگا تو یہ استثناء اللہ نے پہلے کیوں نہ نازل کردی اور کیوں اللہ تعالیٰ نے ایسی مشکل پیدا ہونے دی ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ جانتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے تشریح کے لیے یہ کمت وضع کی تھی کہ قانون اس وقت نازل ہو جب لوگوں کے اندر اس کی ضرورت کا احساس پیدا ہوجائے تاکہ لوگ اسے نہایت ہی بےتابی کے ساتھ قبول کریں۔ اور ان کو اس قانون کے اندر پائے جانے والی حکمت کا اچھی طرح علم ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد یہ تبصرہ آیا۔

(ولولا۔۔۔۔۔۔۔ حکیم) (24 : 10) ” اگر اللہ کا فضل و رحمت نہ ہوتی اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ بہت ہی التفات کرنے والا اور رحیم ہے تو۔۔۔ “ اب ذرا اس واقعہ پر غور کیجئے ۔ دیکھئے کہ اسلام کس طرح کام کررہا تھا اور یہ کہ رسول اللہ ﷺ کی تربیت کس طرح کام کررہی تھی اور کس قدر موثر تھی اور اس قرآن کے ذریعے کس طرح ایک بالکل نئی سوسائٹی کو تعمیر کیا جارہا تھا۔ اسلام نے عربوں جیسی غیور قوم کی کس طرح تربیت کردی تھی۔ کس طرح انکو بدل کر رکھ دیا۔ یہ لوگ اس قدر غیور اور جذباتی تھے کہ قانون حد قذف نازل ہوگیا۔ ان جذباتی لوگوں کے لیے یہنہایت ہی مشکل قانون ہے وہ تو مشتعل ہوتے ہی عظیم سے عظیم کام کر گزرنے والے تھے۔ ان پر یہ نہایت ہی شاق گزرتا ہے۔ اس قدر شاق کہ حضرت سعد ابن عبادہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھتے ہیں کہ آیا فی الواقع یہ قانون اسی طرح نازل ہوا ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں لیکن ان کو معلوم ہے کہ قانون تو نازل ہوگیا ہے۔ اس سوال سے دراصل وہ اس مشکل کا احساس کرتے ہیں کہ اگر یہ صورت حالات ان کے اپنے گھر میں پیش آجائے تو وہ اس کس طرح برداشت کریں گے۔ وہ اس تلخ حقیقت کا اظہار یوں کرتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ میں جانتا ہوں کہ یہ حق ہے اور یہ اللہ کی جانب سے ہے لیکن مجھے اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ اگر میں ایک شخص کو دیکھوں کہ اس نے (مکاعض کی ران کے ساتھ ران ملا دی ہے اور مجھے یہ اجازت نہ ہو کہ اسے پریشان کروں یا اسے اپنی جگہ سے ہٹائوں جب تک میں چار گواہ نہ لائوں۔ خدا کی قسم میں چار گواہ لائوں گا مگر اس نے اپنا کام پورا کرلیا ہوگا۔

یہ تو تھا سعد ابن عبادہ کا نظریاتی خیال اور سوچ۔ لیکن ایک متعین شخص اپنے کانوں اور اپنی آنکھوں کے ساتھ دیکھ رہا ہے کہ اس کی بیوی کے ساتھ یہ بد کاریہورہی ہے اور وہ رک گیا ہے بلکہ قرآن نے اسے روک دیا ہے۔ یہ شخص اپنے جذبات ‘ جذبہ انتقام ‘ سخت عربی غیرت اور خون کے اندر پیدا ہونے والے فوری جوش اور اعصاب کی ناقابل کنٹرول حرکت کو قابو میں لاتا ہے۔ اپنے اوپر ناقابل شکست کنٹرول کرتا ہے جس کا کوئی عربی معاشرے میں تصور بھی نہیں کرسکتا۔ یہ بےبس ہو کر آتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کے حکم کا انتظار کرتا ہے۔ اگر چہ اس کے لیے یہ مسئلہ نہایت ہی شاق گزر رہا ہے لیکن قرآن کریم نے ان لوگوں کی ایسی تربیت کردی ہے کہ یہ شخص جذبات کے اس طوفان کو پوری طرح کنٹرول کرتا ہے تاکہ حکم وہی ہو جو اللہ کی طرف سے آئے۔ اس کے نفس میں اور اس کی ذات کے تمام معاملات میں۔

یہ تربیت کیسے ممکن ہوئی ؟ یہ اس طرح ہوئی کہ ان کو یہ پورا یقین تھا کہ اللہ ان کے ساتھ ہے اور یہ کہ وہ لوگ اللہ کی نگرانی اور حفاظت میں ہیں۔ اللہ ان کی رعایت کرتا ہے اور ان کو ایسی مصیبت میں نہیں ڈالتا جسے وہ برداشت نہ کرسکیں اور یہ کہ اللہ ان کو ایسی مشکلات میں نہیں چھوڑتا کہ وہ ان کے لیے ناقابل برداشت ہوں۔ اللہ کبھی بھی انسانوں پر ظلم نہیں کرتا۔ یہ لوگ ہمیشہ اللہ کے زیر سایہ رہتے تھے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے رحم وکرم کی فضا میں سانس لے رہے تھے۔ وہ ہر وقت اللہ کی طرف اس طرح دیکھ رہے تھے جس طرح ایک بچہ اپنے رحیم و کریم باپ کی طرف دیکھتا ہے۔ ہلال ابن امیہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے اور کانوں سے سن رہا ہے۔ یہ اکیلا ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے شکایت کرتا ہے اور رسول اللہ ﷺ قانون میں کوئی صورت ماسواء نفاذ حد قذف کے اور نہیں پاتے۔ حضور ﷺ اعلان بھی کردیتے ہیں کہ شہادت یا حد ہے اور تمہاری پیٹھ پر ہے لیکن ہلال ابن امیہ کو یقین ہے کہ اللہ اسے ایسے حالات میں بےسہارا نہیں چھوڑے گا جبکہ وہ ہے بھی سچا۔ چناچہ اللہ کی طرف سے یہ استثناء آجاتا ہے اور رسول اللہ ﷺ ہلال ابن امیہ کو خوشخبری دیتے ہیں اور وہ اپنے اس اطمینان کو پھر دہراتے ہیں کہ مجے رب عزوجل سے یہی امید تھی۔ ان لوگوں کو پورا پورا اطمینان تھا کہ وہ اللہ کی نگرانی میں ہیں اور اللہ دیکھ رہا ہے اور یہ کہ وہ خود اپنے اختیار میں چھوڑ نہیں دیئے گئے کہ معاملات کو خود طے کریں۔ وہ تو اللہ کے سامنے اس کے دربار میں ہیں۔ یہ ہے حقیقی ایمان ‘ اطاعت اور تسلیم ورضا جو اصحاب محمد ﷺ کی شان تھی۔

اب سیاق کلام حد قذف کے قانون کے درمیان سے آگے بڑھتا ہے اور جرم قذف کے گھنائو نے پن کی ایک اور جھلک دکھائی جاتی ہے۔ اس کا تعلق حضور اکرم ﷺ کے گھرانے سے ہے۔ خود حضور اکرم ﷺ کی عزت اس میں دائو پر لگی ہوئی ہے۔ حضور اکرم ﷺ اللہ کے مکرم ترین بندے ہیں۔ پھر اس واقعہ میں حضرت صدیق ؓ کی عزت بھی دائو پر لگی ہوئی ہے جو نبی ﷺ کے ساتھیوں میں سے مکرم ترین انسان ہیں۔ پھر نبی ﷺ کے ایک دوسرے ساتھی صفوان ابن المعطل ؓ کی عزت کا بھی مسئلہ ہے۔ حضور اکرم ﷺ خود شہادت دیتے ہیں کہ صفوان کے بارے میں آپ ﷺ بھلائی کے سوا کچھ نہیں جانتے۔ یہ واقعہ ایسا ہے جس میں مدینہ کے اہل اسلام ایک ماہ تک بےحد پریشانی میں مبتلا رہے۔

آیت 6 وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَہُمْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہُمْ شُہَدَآءُ اِلَّآ اَنْفُسُہُمْ ”یعنی اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو بدکاری کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھ لے اور اس کے پاس اپنے علاوہ موقع کے تین اور گواہ بھی نہ ہوں تو وہ کیا کرے ؟ چونکہ معاملہ اس کی اپنی بیوی کا ہے اس لیے وہ خاموشی اختیار کر کے اس کے ساتھ رہ بھی نہیں سکتا۔ عام حالات میں تو اگر کوئی شخص اپنے علاوہ تین چشم دید گواہوں کے بغیر کسی پر ایسا الزام لگائے تو اسے اسّی 80 کوڑوں کی سزا دی جائے گی ‘ لیکن میاں بیوی کے معاملے میں ایسی صورت حال کے لیے یہاں ایک خصوصی قانون دیا گیا ہے جسے اصطلاح میں ”لعان“ کہا جاتا ہے۔فَشَہَادَۃُ اَحَدِہِمْ اَرْبَعُ شَہٰدٰتٍم باللّٰہِلا اِنَّہٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ ”ایسے شخص سے تقاضا یہ ہے کہ وہ اللہ کی قسم کھا کر چار دفعہ واقعہ کی گواہی دے اور دعویٰ کرے کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے سچ کہہ رہا ہے۔

لعان سے مراد ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ رب العالمین نے ان خاوندوں کیلئے جو اپنی بیویوں کی نسبت ایسی بات کہہ دیں چھٹکارے کی صورت بیان فرمائی ہے کہ جب وہ گواہ پیش نہ کرسکیں تو لعان کرلیں۔ اس کی صورت یہ ہے کہ امام کے سامنے آکر وہ اپنا بیان دے جب شہادت نہ پیش کرسکے تو حاکم اسے چار گواہوں کے قائم مقام چار قسمیں دے گا اور یہ قسم کھاکر کہے گا کہ وہ سچا ہے جو بات کہتا ہے وہ حق ہے۔ پانچویں دفعہ کہے گا کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت۔ اتنا کہتے ہی امام شافعی ؒ وغیرہ کے نزدیک اس کی عورت اس سے بائن ہوجائے گی اور ہمیشہ کیلئے حرام ہوجائے گی۔ یہ مہر ادا کر دے گا اور اس عورت پر زنا ثابت ہوجائے گی۔ لیکن اگر وہ عورت بھی سامنے ملاعنہ کرے تو حد اس پر سے ہٹ جائے گی۔ یہ بھی چار مرتبہ حلفیہ بیان دے گی کہ اس کا خاوند جھوٹا ہے۔ اور پانچویں مرتبہ کہے گی کہ اگر وہ سچا ہو تو اس پر اللہ کا غضب نازل ہو۔ اس نکتہ کو بھی خیال میں رکھئے کہ عورت کیلئے غضب کا لفظ کہا گیا اس لئے کہ عموماً کوئی مرد نہیں چاہتا کہ وہ اپنی بیوی کو خواہ مخواہ تہمت لگائے اور اپنے آپ کو بلکہ اپنے کنبے کو بھی بدنام کرے عموماً وہ سچا ہی ہوتا ہے اور اپنے صدق کی بنا پر ہی وہ معذور سمجھا جاسکتا ہے۔ اس لئے پانچویں مرتبہ میں اس سے یہ کہلوایا گیا کہ اگر اس کا خاوند سچا ہو تو اس پر اللہ کا غضب آئے۔ پھر غضب والے وہ ہوتے ہیں جو حق کو جان کر پھر اس سے روگردانی کریں۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر اللہ کا فضل و رحم تم پر نہ ہوتا تو پھر غضب والے وہ ہوتے ہیں جو حق کو جان کر پھر اس سے روگردانی کریں۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر اللہ کا فضل و رحم تم پر نہ ہوتا تو ایسی آسانیاں تم پر نہ ہوتیں بلکہ تم پر مشقت اترتی۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرمایا کرتا ہے گو کیسے ہی گناہ ہوں اور گو کسی وقت بھی توبہ ہو وہ حکیم ہے، اپنی شرع میں، اپنے حکموں میں، اپنی ممانعت میں " اس آیت کے بارے میں جو روایتیں ہیں وہ بھی سن لیجئے۔ " مسند احمد میں ہے جب یہ آیت اتری تو حضرت سعد بن عبادہ ؓ جو انصار کے سردار ہیں کہنے لگے یا رسول اللہ ﷺ کیا یہ آیت اسی طرح اتاری گئی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا انصاریو سنتے نہیں ہو ؟ یہ تمہارے سردار کیا کہہ رہے ہیں ؟ انہوں نے کہا یارسول اللہ ﷺ آپ درگزر فرمائیے یہ صرف ان کی بڑھی چڑھی غیرت کا باعث ہے اور کچھ نہیں۔ ان کی غیرت کا یہ حال ہے کہ انہیں کوئی بیٹی دینے کی جرأت نہیں کرتا۔ حضرت سعد ؓ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ یہ تو میرا ایمان ہے کہ یہ حق ہے لیکن اگر میں کسی کو اس کے پاؤں پکڑے ہوئے دیکھ لوں تو بھی میں اسے کچھ نہیں کہہ سکتا یہاں تک کہ میں چار گواہ لاؤں تب تک تو وہ اپنا کام پورا کرلے گا۔ اس بات کو ذرا سی ہی دیر ہوئی ہوگی کہ حضرت ہلال بن امیہ ؓ آئے یہ ان تین شخصوں میں سے ایک غیر مرد ہے خود آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے ان کی باتیں سنیں۔ صبح ہی صبح رسول اللہ ﷺ سے یہ ذکر کیا آپ کو بہت برا معلوم ہوا اور طبیعت پر نہایت ہی شاق گزرا۔ سب انصار جمع ہوگئے اور کہنے لگے حضرت سعد بن عبادہ ؓ کے قول کی وجہ سے ہم اس آفت میں مبتلا کئے گئے مگر اس صورت میں کہ رسول اللہ ﷺ ہلال بن امیہ کو تہمت کی حد لگائیں اور اس کی شہادت کو مردود ٹھہرائیں۔ حضرت ہلال ؓ کہنے لگے واللہ میں سچا ہوں اور مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ میرا چھٹکارا کردے گا۔ کہنے لگے یارسول اللہ ﷺ میں دیکھتا ہوں کہ میرا کلام آپ کی طبیعت پر بہت گراں گزرا۔ یارسول اللہ ﷺ مجھے اللہ کی قسم ہے میں سچا ہوں، اللہ خوب جانتا ہے۔ لیکن چونکہ گواہ پیش نہیں کرسکتے تھے قریب تھا کہ رسول اللہ ﷺ انہیں حد مارنے کو فرماتے اتنے میں وحی اترنا شروع ہوئی۔ صحابہ آپ کے چہرے کو دیکھ کر علامت سے پہچان گئے کہ اس وقت وحی نازل ہو رہی ہے۔ جب اترچکی تو آپ ﷺ نے حضرت ہلال ؓ کی طرف دیکھ کر فرمایا، اے ہلال ؓ خوش ہوجاؤ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے کشادگی اور چھٹی نازل فرما دی۔ حضرت ہلال ؓ کہنے لگے الحمدللہ مجھے اللہ رحیم کی ذات سے یہی امید تھی۔ پھر آپ نے حضرت ہلال ؓ کی بیوی کو بلوایا اور ان دونوں کے سامنے آیت ملاعنہ پڑھ کر سنائی اور فرمایا دیکھو آخرت کا عذاب دنیا کے عذاب سے سخت ہے۔ ہلال فرمانے لگے یارسول اللہ ﷺ میں بالکل سچا ہوں۔ اس عورت نے کہا حضور ﷺ یہ جھوٹ کہہ رہا ہے آپ نے حکم دیا کہ اچھا لعان کرو۔ تو ہلال کو کہا گیا کہ اس طرح چار قسمیں کھاؤ اور پانچویں دفعہ یوں کہو۔ حضرت ہلال ؓ جب چار بار کہہ چکے اور پانچویں بار کی نوبت آئی تو آپ سے کہا گیا کہ ہلال اللہ سے ڈر جا۔ دنیا کی سزا آخرت کے عذابوں سے بہت ہلکی ہے یہ پانچویں بار تیری زبان سے نکلتے ہی تجھ پر عذاب واجب ہوجائے گا تو آپ نے کہا یارسول اللہ ﷺ قسم اللہ کی جس طرح اللہ نے مجھے دنیا کی سزا سے میری صداقت کی وجہ سے بچایا، اسی طرح آخرت کے عذاب سے بھی میری سچائی کی وجہ سے میرا رب مجھے محفوظ رکھے گا۔ پھر پانچویں دفعہ کے الفاظ بھی زبان سے ادا کردیئے۔ اب اس عورت سے کہا گیا کہ تو چار دفعہ قسمیں کھا کہ یہ جھوٹا ہے۔ جب وہ چاروں قسمیں کھاچکی تو رسول اللہ ﷺ نے اسے پانچویں دفعہ کے اس کلمہ کے کہنے سے روکا اور جس طرح حضرت ہلال ؓ کو سمجھایا گیا تھا اس سے بھی فرمایا تو اسے کچھ خیال پیدا ہوگیا۔ رکی، جھجکی، زبان کو سنبھالا، قریب تھا کہ اپنے قصور کا اقرار کرلے لیکن پھر کہنے لگی میں ہمیشہ کیلئے اپنی قوم کو رسوا نہیں کرنے کی۔ پھر کہہ دیا کہ اگر اس کا خاوند سچا ہو تو اس پر اللہ کا غضب نازل ہو۔ پس آنحضرت ﷺ نے ان دونوں میں جدائی کرا دی اور حکم دیدیا کہ اس سے جو اولاد ہو وہ حضرت ہلال ؓ کی طرف منسوب نہ کی جائے۔ نہ اسے حرام کی اولاد کہا جائے۔ جو اس بچے کو حرامی کہے یا اس عورت پر تہمت رکھے، وہ حد لگایا جائے گا، یہ بھی فیصلہ دیا کہ اس کا کوئی نان نفقہ اس کے خاوند پر نہیں کیونکہ جدائی کردی گئی ہے۔ نہ طلاق ہوئی ہے نہ خاوند کا انتقال ہوا ہے اور فرمایا دیکھو اگر یہ بچہ سرخ سفید رنگ موٹی پنڈلیوں والا پیدا ہو تو تو اسے ہلال کا سمجھنا اور اگر وہ پتلی پنڈلیوں والا سیاہی مائل رنگ کا پیدا ہو تو اس شخص کا سمجھنا جس کے ساتھ اس پر الزام قائم کیا گیا ہے۔ جب بچہ ہوا تو لوگوں نے دیکھا کہ وہ اس بری صفت پر تھا جو الزام کی حقانیت کی نشانی تھی۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر یہ مسئلہ قسموں پر طے شدہ نہ ہوتا تو میں اس عورت کو قطعاً حد لگاتا۔ یہ صاحبزادے بڑے ہو کر مصر کے والی بنے اور ان کی نسبت ان کی ماں کی طرف تھی۔ (ابوداؤد) اس حدیث کے اور بھی بہت سے شاہد ہیں۔ بخاری شریف میں بھی یہ حدیث ہے۔ اس میں ہے کہ شریک بن عماء کے ساتھ تہمت لگائی گئی تھی۔ اور حضور ﷺ کے سامنے جب حضرت ہلال ؓ نے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا گواہ پیش کرو ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد لگے گی۔ حضرت ہلال ؓ نے کہا یارسول اللہ ﷺ ایک شخص اپنی بیوی کو برے کام پر دیکھ کر گواہ ڈھونڈنے جائے ؟ لیکن آنحضرت ﷺ یہی فرماتے رہے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ دونوں کے سامنے آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ تم دونوں میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے۔ کیا تم میں سے کوئی توبہ کرکے اپنے جھوٹ سے ہٹتا ہے ؟ اور روایت میں ہے کہ پانچویں دفعہ آپ ﷺ نے کسی سے کہا کہ اس کا منہ بند کردو پھر اسے نصیحت کی۔ اور فرمایا اللہ کی لعنت سے ہر چیز ہلکی ہے۔ اسی طرح اس عورت کے ساتھ کیا گیا۔ سعید بن جبیر ؒ فرماتے ہیں کہ لعان کرنے والے مرد و عورت کی نسبت مجھ سے دریافت کیا گیا کہ کیا ان میں جدائی کرا دی جائے ؟ یہ واقعہ ہے حضرت ابن زبیر ؓ کی امارت کے زمانہ کا۔ مجھ سے تو اس کا جواب کچھ نہ بن پڑا تو میں اپنے مکان سے چل کر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی منزل پر آیا اور ان سے یہی مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا سبحان اللہ سب سے پہلے یہ بات فلاں بن فلاں نے دریافت کی تھی کہ یارسول اللہ ﷺ کوئی شخص اپنی عورت کو کسی برے کام پر پائے تو اگر زبان سے نکالے تو بھی بڑی بےشرمی کی بات ہے اور اگر خاموش رہے تو بھی بڑی بےغیرتی کی خاموشی ہے۔ آپ سن کر خاموش ہو رہے۔ پھر وہ آیا اور کہنے لگا حضور ﷺ میں نے جو سوال جناب سے کیا تھا افسوس وہی واقعہ میرے ہاں پیش آیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے سورة نور کی یہ آیتیں نازل فرمائیں آپ ﷺ نے دونوں کو پاس بلا کر ایک ایک کو الگ الگ نصیحت کی۔ بہت کچھ سمجھایا لیکن ہر ایک نے اپنا سچا ہونا ظاہر کیا پھر دونوں نے آیت کے مطابق قسمیں کھائیں اور آپ ﷺ نے ان میں جدائی کرا دی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ صحابہ کا ایک مجمع شام کے وقت جمعہ کے دن مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک انصاری نے کہا جب کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی شخص کو پائے تو اگر وہ اسے مار ڈالے تو تم اسے مار ڈالو گے اور اگر زبان سے نکالے گا تو تم شہادت موجود نہ ہونے کی وجہ سے اسی کو کوڑے لگاؤ گے اور اگر یہ اندھیر دیکھ کر خاموش ہو کر بیٹھا رہے تو یہ بڑی بےغیرتی اور بڑی بےحیائی ہے۔ واللہ اگر میں صبح تک زندہ رہا تو آنحضرت ﷺ سے اس کی بابت دریافت کروں گا۔ چناچہ اس نے انہی لفظوں میں حضور ﷺ سے پوچھا اور دعا کی کہ یا اللہ اس کا فیصلہ نازل فرما۔ پس آیت لعان اتری اور سب سے پہلے یہی شخص اس میں مبتلا ہوا۔ اور روایت میں ہے کہ حضرت عویمر نے حضرت عاصم بن عدی سے کہا کہ ذرا جاؤ رسول اللہ ﷺ سے دریافت تو کرو کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو پائے تو کیا کرے ؟ ایسا تو نہیں کہ وہ قتل کرے تو اسے بھی قتل کیا جائے گا ؟ چناچہ عاصم نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تو رسول اللہ ﷺ اس سوال سے بہت ناراض ہوئے۔ جب عویمر ؓ عاصم سے ملے تو پوچھا کہ کہو تم نے حضور ﷺ سے دریافت کیا ؟ اور آپ نے کیا جواب دیا ؟ عاصم نے کہا تم نے مجھ سے کوئی اچھی خدمت نہیں لی افسوس میرے اس سوال پر رسول اللہ ﷺ نے عیب پکڑا اور برا مانا۔ عویمر ؓ نے کہا اب اگر میں اسے اپنے گھر لے جاؤں تو گویا میں نے اس پر جھوٹ تہمت باندھی تھی۔ پس آپ کے حکم سے پہلے ہی اس عورت کو جدا کردیا۔ پھر تو لعان کرنے والوں کا یہی طریقہ مقرر ہوگیا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ یہ عورت حاملہ تھی اور ان کے خاوند نے اس سے انکار کیا کہ یہ حمل ان سے ہوا۔ اس لئے یہ بچہ اپنی ماں کی طرف منسوب ہوتا رہا پھر منسون طریقہ یوں جاری ہوا کہ یہ اپنی ماں کا وارث ہوگا اور ماں اس کی وارث ہوگی۔ ایک مرسل اور غریب حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت صدیق ؓ اور حضرت عمر ؓ سے پوچھا کہ اگر تمہارے ہاں ایسی واردات ہو تو کیا کرو گے ؟ دونوں نے کہا گردن اڑا دیں گے۔ ایسے وقت چشم پوشی وہی کرسکتے ہیں جو دیوث ہوں، اس پر یہ آیتیں اتریں۔ ایک روایت میں ہے کہ سب سے پہلا لعان مسلمانوں میں ہلال بن امیہ ؓ اور ان کی بیوی کے درمیان ہوا تھا۔

آیت 6 - سورہ نور: (والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم فشهادة أحدهم أربع شهادات بالله ۙ إنه لمن الصادقين...) - اردو