سورہ نور: آیت 2 - الزانية والزاني فاجلدوا كل واحد... - اردو

آیت 2 کی تفسیر, سورہ نور

ٱلزَّانِيَةُ وَٱلزَّانِى فَٱجْلِدُوا۟ كُلَّ وَٰحِدٍ مِّنْهُمَا مِا۟ئَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِى دِينِ ٱللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ ۖ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ

اردو ترجمہ

زانیہ عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ تعالیٰ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو اور ان کو سزا دیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجود رہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alzzaniyatu waalzzanee faijlidoo kulla wahidin minhuma miata jaldatin wala takhuthkum bihima rafatun fee deeni Allahi in kuntum tuminoona biAllahi waalyawmi alakhiri walyashhad AAathabahuma taifatun mina almumineena

آیت 2 کی تفسیر

(الزانی۔۔۔۔۔۔ علی المئو منین) (3)

اسلام کے ابتدائی ایام میں حد زنا وہ تھی جو جس کا تذکرہ سورة نساء کی آیت میں ہوا۔

(والتی یا تین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سبیلا) (4 : 15) ” اور وہ تمہاری عورتیں جنہوں نے فحاشی کا ارتکاب کرلیا تو ان پر چار گواہ گزارو ‘ اگر چار گواہ شہادت دے دیں تو انہیں گھروں میں روک رکھو ‘ یہاں تک کہ انہیں موت آلے یا ان کے لیے اللہ کوئی راستہ نکال دے “۔ عورت کے لیے سزا یہ تھی کہ اسے گھر میں بند کردیا جائے اور ملامت کر کے اذیت دی جائے۔ اور مرد کو بھی لعنت و ملامت کی جاتی تھی۔

اس کے بعد پھر سورة نور میں حکم آگیا اور یہ تھا وہ راستہ جو زنا کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے نکال دیا گیا جس کے بارے میں اللہ نے سورة نساء میں اشارہ فرمایا تھا۔

کوڑوں کی یہ سزا ان مردوں اور عورتوں کے لیے ہے جو شادی شدہ نہ ہوں یعنی شادی کے ذریعے ارتکاب جرم سیمحفوظ نہ کردیئے گئے ہوں۔ اور یہ سزا تب نافذ ہوگی جبمجرم مسلم ‘ بالغ اور آزاد ہو۔ رہا وہ شخص جو محصن ہے یعنی جس نے شادی کرلی ہے اور شادی کے نتیجے میں وہ اپنی بیوی کے ساتھ مجامعت کرچکا ہو۔ مسلم ہو بالغ ہو اور آزاد اور نکاح بھی شرعاً نکاح صحیح ہو تو اس کی حد ‘ حد رجم ہے۔

حد رجم سنت سے ثابت ہے جبکہ کوڑوں کی حد قرآن کریم سے ثابت ہے۔ قرآن کی یہ آیت عام تھی اور مجمل تھی۔ رسول اللہ ﷺ محصن زانیوں کو رجم کی سزادیتے تھے اس لیے ثابت ہوگیا کہ کوڑوں کی سزاغیرمحصین کے لیے ہے۔

یہاں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے کہ آیا محصن کو رجم سے قبل کوڑوں کی سزا بھی دی جائے گی یا نہیں۔ جمہور علماء اس طرف گئے ہیں کہ دونوں سزائوں کو جمع نہیں کیا جاسکتا ۔ نیز اس میں بھی اختلاف ہے کہ جب غیر محصن زانیکو کوڑوں کی سزادی جائے گی تو پھر اسے بمو جب حدیث جلاوطن بھی کیا جائے گا یا نہیں اسی طرح غلام زانی کی حد میں بھی اختلاف ہے۔ یہ اختلافات بہت طویل مباحث چاہتے ہیں۔ مناسب ہے کہ قارئین انکے بارے میں معلومات کتب فقہ سے حاصل کریں۔ ہم یہاں صرف اس قانون کی تہ میں موجود فلسفہ اور حکمت سے بات کریں گے۔ آپ نے پڑھا کہ کنواروں کی سزا کو ڑوں تک محدود ہے اور شادی شدہ محصنین کی سزا رجم ہے۔ یہ اس لیے کہ جس شخص نے مسلم ‘ بالغ اور حرہوتے ہوئے نکاح صحیح میں عورت کے ساتھ مجاسعت کرلی اس کو تو صحیح پاک اور شریفانہ طریقہ معلوم اور میسر ہوگیا ہے۔ ایسا شخص اگر جنسی بےراہ روی اختیار کرتا ہے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کے اندر فطری بگاڑ پیدا ہوگیا ہے۔ یہ شخص راہ فطرت اور راہ اسلام سے منحرف ہے لٰہذا اسے سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے۔ رہا غیر شادی شدہ غیر محصن تو ان سے غلطی کے وقوع کا امکان زیادہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات وہ جذبات کی شدت سے مغلوب ہو سکتا ہے جبکہ اس پر ابھی نادانی کا دور ہے۔ پھر یہاں نفس جرم میں بھی فرق ہے محصن چونکہ اس کام میں سابق تجربہ رکھتا ہے اس لیے وہ اس فعل سے زیادہ فائدہ اٹھاتا ہے بہ نسبت کنوارے کنواروں کے جو زیادہ تجربہ کار نہیں ہوتے۔

قرآن کریم یہاں صرف غیر محصن یعنی کنواروں کی سزا کا ذکر کرتا ہے جیسا کہ ہم نے اس کی تصریح کردی ہے اور یہاں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ اس معاملے میں کسی کے ساتھ کوئی نرمی نہ کی جائے۔

(الزانیۃ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ المئومنین) (24 : 2) ” زانیہ عورت اور زانی مرد ‘ دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔ اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ تعالیٰ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو اور ان کو سزا دیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجود رہے “۔

حکم یہ ہے کہ اسلامی حدود کا نفاذ سختی سے کیا جائے اور اس معاملے میں کسی قسم کی رعایت یا نرمی اور رحمد لی کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ کیونکہ یہ معاملہ اللہ کے دین کے ساتھ متعلق ہے۔ اور دین کے معاملے میں نرمی ناقابل برداشت ہے۔ نیز نفاذ سزا کے وقت مومنین کی ایک تعداد کو حاضر ہونا چاہیے تاکہ سزا کا اثر مجرم پر زیادہ ہو۔ روحانی لحاظ سے بھی اسے اذیت پہنچے اور دیکھنے والوں کے لیے بھی عبرت انگیز ہو۔

اس کے بعد اس فعل کی کراہت اور ناپسندیدگی کو ظاہر کرنے کے لیے اس فعل کے مرتکبین کو اسلامی معاشرت سے علیحدہ کردیا جاتا ہے یعنی یہ فعل اس قدر شمیع ہے کہ کوئی شخص ایسے مجرموں کے ساتھ نکاح نہ کرے۔

(الزانی۔۔۔۔۔۔ علی المئومنین) (24 : 3) ” زانی نکاح نہ کرنے مگر زانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ اور زانیہ کے ساتھ نکاح نہ کرے مگر زانی یا مشرک۔ اور یہ حرام کردیا گیا ہے اہل ایمان پر “۔ تو معلوم ہوا کہ اس فعل بد کا ارتکاب جب کوئی کرتا ہے تو وہ اس وقت نہیں کرتا جب وہ مومن ہو۔ اس جرم کا ارتکاب کرنیوالے ایسی نفسیاتی حالت میں ہوتے ہیں کہ اس وقت ان کے شعور اور دل سے ایمان دور ہوجاتا ہے اور اس فعل کے ارتکاب کے بعد کسی نفس مومن کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ایسے شخص کے ساتھ نکاح کرے۔ جو اس فعل شنیع کی وجہ سے دائرہ ایمان سے نکل گیا ہے۔ ایک مومن ایسے رابطے سے نفرت کرتا ہے اور اس کا ضمیر اس سے ابا کرتا ہے یہاں تک کہ امام احمد (رح) زانی اور عفیفہ کے درمیان نکاح کو حرام سمجھتے ہیں۔ اسی طرح عفیف اور زانیہ کے درمیان بھی وہ نکاح کو حرام سمجھتے ہیں۔ الا یہ کہ دونوں کے درمیان توبہ کے ذریعے صفائی ہوجائے اور یہ گندگی دورہو جائے۔ بہر حال ایک پاکباز مومنہ ایک زانی سے نکاح کرنے سے ابا کرتی ہے اور اسی طرح ایک پاکباز مومن بھی ایک زانیہ سے نکاح کو قابل نفرت سمجھتا ہے۔ اس قسم کے نکاح کے لیے چونکہ حرام کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس لیے شریعت اور دینی مزاج اس کو بہرحال مسعبد سمجھتا ہے۔

وحرم ذلک علی المئومنین (24 : 3) ” اور اسے مومنین کے لیے حرام کردیا گیا ہے “۔ یوں اسلامی سوسائٹی سے ناپاک اور گندے لوگوں کو علیحدہ کردیا جاتا ہے۔

اس آیت کی شان نزول میں روایت ہے کہ ایک شخص مرتد ابن ابو مرتد مکہ سے ضعیف اسیروں کو اٹھا کر مدینہ لانے کا کام کرتا تھا ” وہ لوگ جن کو اہل مکہ نے مدینہ ہجرت کرکے جانے سے روک دیا تھا “۔ مکہ میں ایک بد کار عورت تھی جس کا نام عناق تھا ‘ جو مرتد کی دوست تھی۔ مرتد نے مکہ کے نظر بندوں میں سے ایک شخص کے ساتھ وقت مقرر کر رکھا تھا کہ وہ اسے رات کو اٹھا کرلے جائے گا کہتے ہیں کہ چاندنی رات تھی اور میں مکہ کے ایک گھر کی دیوار کے سایہ میں تھا۔ عناق آگئی اور اس نے دیوار کے ساتھ لگا ہوا سایہ دیکھ لیا۔ جب وہ میرے پاس آئی تو اس نے مجھے پہچان لیا اور بولی ” مرتد ہو “۔ میں نے کہا ” مرتد ہوں “ تو اس نے کہا مرحبا اہلا وسہلاً ۔ پھر اس نے کہا آئو اور ہمارے ساتھ آج رات رہو۔ تو میں نے اس سے کہا عناق ! اللہ نے توزنا کو حرام قرار دے دیا ہے۔ اس نے علاقے میں شور کردیا کہ دیکھو مرتد تمہارے نظر بندوں کو لے جارہا یہ۔ چناچہ میں باغ میں داخل ہوگیا اور آٹھ افراد مرے پیچھے نکل پڑے۔ میں ایک غار یا کیف میں پہنچ گیا اور اندر داخل ہوگیا۔ وہ لوگ آئے اور انہوں نے میرے سر پر کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ ان کا پیشاب میرے سر پر گر رہا تھا لیکن اللہ نے ان کو ایسا اندھا کردیا تھا کہ انہوں نے مجھے نہ دیکھا۔ مرتد کہتے ہیں کہ یہ لوگ واپس ہوگئے اور میں نے بھی واپس آکر اپنے آدمی کو لیا۔ یہ بہت عیار شخص تھا ” اذخر “ تک میں پہنچا۔ میں نے اس شخص کی رسیاں کھولیں ۔ میں اس کو اٹھاتا اور وہ بھی میری مدد کرتا۔ یہاں تک کہ ہم مدینہ پہنچ گئے۔ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور میں نے آپ ﷺ سے درخواست کی حضور ﷺ میں عناق کے ساتھ نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے دو بار حضور ﷺ سے یہ سوال کیا اور حضور ﷺ نے مجھے کوئی جواب نہ دیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

(الزانی۔۔۔۔۔۔۔ علی المئومنین) (24 : 3) ” زانی نکاح نہ کرے مگر زانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ اور زانیہ کے ساتھ نکاح نہ کرے مگر زانی یا مشرک۔ اور یہ حرام کردیا گیا ہے اہل ایمان پر “۔

اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اے مرتد زانی نکاح نہیں کرتا مگر زانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ لہٰذا تمہیں چاہیے کہ اس کے ساتھ نکاح نہ کرو “۔ (ابو دائود ‘ نسائی ‘ ترمذی) ۔

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ زانیہ کے ساتھ مومن کا نکاح اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک توبہ نہ کرے۔ اس طرح کوئی مومنہ بھی زانی سے نکاح نہیں کرسکتی الا یہ کہ وہ توبہ کرے۔ یہ امام احمد کی رائے ہے۔ دوسرے فقہاء نے دوسری آراء کو لیا ہے۔ یہ مسئلہ اختلافی ہے تفصیلات کتب فقہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ بہرحال زنا ایک ایسا فعل ہے کہ اس کا مرتکب اسلامی سوسائٹی میں رہنے کا اہل نہیں رہتا۔ اسلامی سوسائٹی سے اسے دور ہونا چاہیے اور دور کردیا جانا چاہیے۔ یہ بھی ایسے مجرموں کے لیے ایک قسم کی سزا ہے جس طرح کوڑوں کی سزا ایک سزا ہے۔

اسلام نے اس مکروہ اور شنیع فعل پر اس قدر سخت اور دو ٹوک سزا تجویز کی ہے ‘ یہ اس لیے نہیں ہے کہ اسلام انسان کے فطری تقاضوں کے خلاف کوئی جنگ لڑنا چاہتا ہے۔ اسلام تو اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ انسان کے لیے اس کے فطری میلانات اور فطری تقاضوں کو پورا کرنے کا انتظام ہونا چاہیے۔ اسلام اس امر میں انسانیت کی بھلائی نہیں دیکھتا کہ انسان کے فطری میلانات کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکاجائے۔ نہ اسلام انسان کے ان فطری دواعی کے خلاف ہے جو خالق کائنات نے انسان کی فطرت کے اندر و دیعت کر رکھے ہیں اور یہ اس کائنات کی عظیم زندگی کے قواعد کا ایک حصہ ہیں۔ انہی فطری میلانات کے نتیجے میں سلسلہ حیات کا تسلسل قائم ہے اور زمین کی تعمیر و ترقی کا راز بھی اسی میں مضمر ہے۔ جو فریضہ خلافت ارضی کا ایک حصہ ہے بلکہ اسلامی نظام حیات کی جنگ دراصل حیوانیت کے خلاف جنگ ہے۔ ایک حیوان کے نزدیک ایک جسم اور دوسرے جسم کے درمیان کوئی امتیاز نہیں ہوتا۔ نہ حیوانات کی کوئی فیملی ہوتی ہے۔ نہ ان کے درمیان مشترکہ جائے رہائش ہوتی ہے اور نہ مشترکہ زندگی ہوتی ہے۔ بس چند لحقوں کا جسمانی ملاپ ہوتا ہے فقط۔ اسلام انسانی زندگی کو اس قدر عارضی میلانات پر استوار کرنا نہیں چاہتا بلکہ اسلام جنسی تعلق کو ترقی یافتہ انسانی شعور کی بنیاد پر استوار کرتا ہے کہ ” پاک اور نفیس جسم ایک دوسرے کے ساتھ ملیں۔ دو دل اور دو رو حیں اکٹھی ہوجائیں۔ دو انسان مل جائیں۔ ان کے درمیان ایک مشترکہ زندگی کی تعمیر ہو۔ ان کے درمیان مشترکہ امیدیں ہوں ‘ ان کا دکھ درد مشترک ہو۔ ان کا مستقبل مشترک ہو۔ اور دونوں کی آنے والی اولاد ہو۔ ان کی خوشیوں اور ان کی ذمہ داریوں میں وہ شریک ہوں اور یہ جدید آنے والی نسل ایک ہی مشترکہ جائے رہائش میں پروان چڑھے اور دونوں والدین اس نرسری کی حفاظت اور نشو و نما کے لیے کھڑے ہوں۔

یہی وجہ ہے کہ اسلام نے زنا کی سزا میں اس قدر شدت اختیار کی ہے کیونکہ جنسی تعلقات میں زنا حیوانیت کی سطح تک گرنے کے مترادف ہے۔ اس سے ان تمام اعلیٰ قدروں کی نفی ہوجاتی ہے جو اسلام کے پیش نظر ہیں اور وہ تمام معاشرتی مقاصد فوت ہوجاتے ہیں جن کو اسلام بروئے کار لانا چاہتا ہے۔ اس سے انسان محض حیوانیت کے مقام تک گرجاتا ہے۔ کیونکہ اگر عورت اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہ ہو اور مرد اور مرد کے درمیان فرق نہ کیا جائے تو یہ حیوانی سطح ہے۔ آزاد شہوات رانی کے نظام میں انسانیت اس قدر مسخ ہوجاتی ہے کہ لوگ گوشت اور خون کی ایک لمحاتی بھوک پر سب کچھ قربان کردیتے ہیں۔ اور اس وقتی اور حیوانی جنسی ملاپ کے نتیجے میں ‘ زندگی کی تعمیر کا جذبہ نہیں ہوتا ‘ اس کرئہ ارض کی تعمیر کا کوئی منصوبہ نہیں ہوتا۔ نہ اس ملاپ سے اولاد کے حصول کا کوئی جذبہ ہوتا ہے بلکہ اس کی پشت پر کوئی حقیقی اور بلند جذبہ ہوتا ہی نہیں۔ کیونکہ محبت اور میلان کے اندر بھی ایک قسم کا دوام ہونا چاہیے جبکہ زنا کے پیچھے جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ سب کا سب وقتی ہوتا ہے۔ بعض معاشروں میں اگر چہ دوستی اور محبت کے طویل تعلقات ہوتے ہیں لیکن ان کی پشت پر اعلیٰ انسانی اقدار نہیں ہوتیں۔ ان کی پشت پر محض حیوانیت ہی ہوتی ہے۔

جہاں تک اسلام کا تعلق وہ نہ فطری میلانات اور خواہشات کو دباتا ہے اور نہ ان کو کوئی ناپاک چیز سمجھتا ہے۔ اسلام ان کو منظم اور منطبط کر کے پاکیزگی عطا کرتا ہے اور حیوانی مقام سے بلند کر کے اسے ایک ادارہ اور محور بنا دیتا ہے جس کے ارد گرد بیشمار نفسیاتی اور اجتماعی آداب جمع ہوجاتے ہیں۔ رہا زنا اور خصوصاً عصمت فروشی تو اس سے یہ فطری جذبات پاکیزگی اور رواحانیت اور اعلیٰ خواہشات سے عاری ہوجاتے ہیں۔ نیز نسل انسانی کی تاریخ میں اس ادارے سے ہمیشہ جو آداب و اقدار وابستہ رہی ہیں ‘ وہ اس ادارے سے چھن جاتی ہیں اور یہ محض حیوانی لذتیت تک گرجاتا ہے بلکہ حیوان سے بھی زیادہ غلیظ گندا اور گرا ہوا ہوتا ہے اس لیے کہ بیشمار حیوانات اور پرندے ایسے ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں اور ان کی منظم ازدواجی زندگی ہوتی ہے۔ اور اس زندگی میں جنسی تعلق میں طوائف الملوکی نہیں ہوتی۔ جیسا کہ دو انسان زنا کاروں کے درمیان ہوتی ہے خصوصاً جسم فروش عورتوں کے معاملے میں تو فریقین حیوانوں سے بھی نیچے ہوتے ہیں۔

اسلام چونکہ انسانی معاشرے سے اس گراوٹ کو دور کرنا چاہتا ہے اس لیے اس نے زنا کی سزا میں اس قدر سختی برتی ہے۔ زنا کے جرم کے خلاف علماء نے بعض دوسرے اسباب بھی گنوائے ہیں اور ان میں سے ہر ایک سبب بھی ایک پورا جواز فراہم کرتا ہے کہ زنا کے جرم پر اس قسم کی سخت سزادی جائے ‘ مثلاً یہ کہ اس سے نسب میں اختلاط پیدا ہوتا ہے۔ لوگوں کے درمیان بغض اور کینہ اور دشمنی پیدا ہوتی ہے اور یہ کہ مطمئن گھرانوں کے اطمینان کے اندر فرق پڑتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن میرے خیال میں اس سزا کا اصل اور جامع سبب یہی ہے کہ انسان کو حیرانی جنسی ملاپ کی کر اوٹ سے بلند کیا جائے اور ان اقدار و آداب کو محفوظ کیا جائے جو جنسی ملاپ کے انسانی ادارے سے ہمیشہ وابستہ رہے ہیں۔ نیز یہ کہ اس ادارے کو دوام بخشا جائے اور زوجین اعلیٰ اقدار اور اعلیٰ مقاصد کے لی ایک دوسرے کے ساتھ مشترکہ زندگی بسر کریں۔ یہ سب سے اہم اور جامع وجہ ہے جو جامع الوجوہ والا سباب ہے۔

پھر یہ بھی واقعہ ہے کہ اسلام اس جرم کی سزا میں تشدد اس وقت کرتا جب اس جرم کے وقوع کے خلاف تمام احتیاطی اور امتناعی تدابیر اختیار کرلی جائیں۔ اسلام زندگی کا ایک مکمل نظام ہے اور جب قائم ہوتا ہے تو اس میں سوسائٹی ایسے خطوط پر منظم ہوچکی ہوتی ہے کہ پاکیزہ زندگی گزارنے کے مواقع عام ہوتے ہیں اور گندی اور غلیظ زندگی گزارنے کے مواقع محدود ہوتے ہیں۔ تب اسلام ان لوگوں پر یہ سزا نافذ کرتا ہے جو پاکیزہ طریقوں کو چھوڑ کر گندے طریقے اپناتے ہیں۔ اور اس صورت میں کئی ایسے نمونے اور مثالیں موجود ہیں جن سے ہماری اس بات کی تصدیق ہوگی۔

نیز اگر یہ جرم واقع بھی ہوجائے تو بھی اسلام نے اس کے ثبوت کے لیے اس قدر مشکل طریق کار رکھا ہے کہ کسی نہ کسی صورت میں شبہ پیدا ہو ہی جاتا ہے اور اسلام کے قانون جرائم کے سلسل میں یہ اہم اصول وضع کیا گیا ہے کہ شبہات کے ذریعہ الزام جرم ساقط کردیا جاتا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ مسلمانوں پر سے حدود کو ساقط کر دو جہاں تک تم سے ہو سکتا ہے۔ اگر ملزم کے چھوڑے جانے کی کوئی سبیل اور راستہ ہو تو اسے نکلنے دو کیونکہ قاضی اگر معاف کرنے میں غلطی کرجائے تو اس سے بہتر ہے کہ وہ سزا دہی میں غلطی کرے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام چار گواہ طلب کرتا ہے جو عادل بھی ہوں اور جو یہ شہادت دیں کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے فعل ہوتے دیکھا ہے یا یہ کہ ملزم کی طرف سے ایسا اعتراف ہو جس میں کوئی شبہ نہ ہو۔

بعض اوقات یہ شبہ کیا جاتا ہے کہ پھر اسلام نے چار آدمیوں کی شہادت کی جو شرط لگائی ہے تو یہ سزا پھر خیالی سزا ہوگی اور اس سزا کے نفاذ کا کوئی امکان نہیں رہے گا۔ لیکن جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا اسلام اسلامی سوسائٹی سے جرم زنا کو صرف سزا کے ذریعے نہیں مٹاتا بلکہ اسلامی نظام دوسرے امتناعی اسباب بھی اختیار کرتا ہے جن کی وجہ سے یہ جرم واقع ہی کم ہوتا ہے۔ اسلام انسان کی تہذیب و تربیت پر زور دیتا ہے۔ انسانوں کے ضمیر کو پاک کرتا ہے۔ اسلام لوگوں کے اندر یہ ڈر پیدا کرتا ہے کہ جو شخص اس جرم کا ارتکاب کرے اگر اس کا یہ جرم افشا ہوگیا تو وہ اس سوسائٹی کا ایک بد کردار شخص مشہور ہوگا ‘ کوئی اسے اپنی بیٹی۔۔۔۔۔۔۔ نہ دے گا یا کوئی اس کی بیٹی کو بیوی نہ بنائیگا۔ اسلامی سوسائٹی سے وہ کٹ جائے گا۔ اسلام سزا صرف ان لوگوں کو دیتا ہے جو اس جرم کا ارتکاب اس قدر دلیری سے کریں کہ انہیں چار افراد دیکھ لیں یا ایسے لوگوں پر یہ سزا نافذ کرتا ہے جو خدا سے ڈرنے والے ہوں اور جو اپنے آپ کو سزا کے ذریعے سے پاک کرنا چاہتے ہوں اور وہ اقرار جرم کرلیں جیسا کہ حضرت ماعز اور غامد یہہ کے ساتھہوا۔ یہ دونوں خود حضور ﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ حضور ﷺ ہمیں پاک کردیں انہوں نے اس بات پر اصرار کیا حالانکہ حضور اکرم ﷺ نے اس معاملے میں چار مرتبہ اعراض فرمایا اور چار مرتبہ اقرار و اصرار کرنے کے بعد آپ نے حکم دیا کہ اب حد قائم کردی جائے۔ حضور اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ ” آپس میں حدود کو معاف کردیا کرو ‘ اگر حدود کا کوئی معاملہ مجھ تک پہنچ گیا تو پھر اس کا نفاذ واجب ہوجائے گا “ (ابودائود) ۔

لیکن جب ارتکاب جرم کا یقین ہوگیا اور معاملہ حکام مجاز تک پہنچ گیا تو پھر اس میں کسی نرمی کی اجازت نہیں ہے۔ پھر حدود کا نفاذ واجب ہوجاتا ہے اور پھر یہ دین کا معاملہ بن جاتا ہے اور اس میں رحم کرنا جائز نہیں ہے۔ ثبوت جرم کے بعد رحمدلی کے معنی یہ ہیں کہ مجرم پر رحمدلی کی جائے اور سوسائٹی کے ساتھ سنگدلی کی جائے اور انسانی آداب اور انسانی ضمیر پر ظلم کیا جائے۔ یہ دراصل ایک مصنوعی رحمدلی ہوگی۔ ہمارے مقابلے میں اللہ اپنے بندوں پر زیادہ رحمدل ہے اور اللہ نے یہ سزا تجویز کی ہے اور کسی مومن اور مومنہ کو یہ اختیار نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول ﷺ کسی معاملے میں کوئی فیصلہ کردیں تو انہیں ان کے لیے اس میں کوئی اپنا اختیار ہو۔ اللہ اپنے بندوں کی مصلحتوں سے خوب واقف ہے۔ نیز اللہ بندوں کے مزاجوں سے بھی ہم سے زیادہ واقف ہے اس لیے کسی کنے والے کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی سزا کے بارے میں یہ کہے کہ یہ سخت ہے۔ ہم کہتے ہیں سوسائٹی میں اس گھنائو نے جرم کے پھیلانے کے مقابلی میں یہ بہت ہی نرم سزا ہے۔ کیونکہ اس جرم کے پھیلنے سے سوسائٹی زوال ‘ پسماندگی اور فساد فطرت اور بےغیرتی جیسے مصائب میں مبتلا ہوجاتی ہے۔

صرف زنا کی سزا میں تشدد ہی اسلامی سوسائٹی کو بچانا مقصود نہیں ہے۔ نہ اسلامی نظام اسلامی معاشرے کو پاک و صاف رکھنے میں صرف سزائوں پر اعتماد کرتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے اس بات کی وضاحت کردی ہے اسلام سوسائٹی کو اس جرم سے بچانے کے لیے دوسرے اقدامات بھی کرتا ہے۔ اسلام ان تمام کاموں سے منع کرتا ہے جن سے اس جرم کی بو بھی آتی ہو۔

یہی وجہ ہے کہ زانیوں کو امت مسلمہ کے جسم سے دور کردیا جاتا ہے۔ اس کے بعد دوسرا قدم یہ اٹھایا جاتا ہے کہ پاک دامن عورتوں پر زنا کے الزام لگانے کو بھی جرم قرار دیا گیا ہے الا یہ کہ کوئی چار گواہ پیش کر دے۔ یہ اس لیے کہ اس گھنائو نے جرم کا الزام لگانے میں لوگ بےباک نہ ہوں۔

وَّلَا تَاْخُذْکُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ ”یہ اللہ کے دین اور اس کی شریعت کا معاملہ ہے۔ ایسے معاملے میں حد جاری کرتے ہوئے کسی کے ساتھ کسی کا تعلق ‘ انسانی ہمدردی یا فطری نرم دلی وغیرہ کچھ بھی آڑے نہ آنے پائے۔اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ج ”یہ غیر شادی شدہ زانی اور زانیہ کے لیے حد ہے جو نص قرآنی سے ثابت ہے۔ البتہ شادی شدہ زانی اور زانیہ کی سزا رجم ہے جو سنت رسول ﷺ سے ثابت ہے اور قرآن کے ساتھ ساتھ سنت رسول ﷺ بھی شریعت اسلامی کا ایک مستقل بالذاتّ ماخذ ہے۔ رجم کی سزا کا قاعدہ اور اصول یہ ہے کہ شریعت موسوی علیہ السلام میں یہ سزا موجود تھی اور حضور ﷺ نے سابقہ شریعت کے ایسے احکام جن کی قرآن میں نفی نہیں کی گئی اپنی امت میں جوں کے توں جاری فرمائے ہیں۔ ان میں رجم اور قتل مرتد کے احکام خاص طور پر اہم ہیں۔ شادی شدہ زانی اور زانیہ کے لیے رجم کی سزا متعدد احادیث ‘ رسول اللہ ﷺ کی سنت ‘ خلفائے راشدین کے تعامل اور اجماع امت سے ثابت ہے۔وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَآءِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ”اس حد کو عام پبلک میں کھلے عام جاری کرنے کا حکم ہے۔ اس سے یہ اصول ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ اسلامی شریعت دراصل تعزیرات اور حدود کو دوسروں کے لیے لائقِ عبرت بنانا چاہتی ہے۔ اگر کسی مجرم کو جرم ثابت ہونے کے بعد چپکے سے پھانسی دے دی جائے اور لوگ اسے ایک خبر کے طور پر سنیں تو ان کے ذہنوں میں اس کا وہ تاثر قائم نہیں ہوگا جو اس سزا کے عمل کو براہ راست دیکھنے سے ہوگا۔ اگر کسی مجرم کو سرعام تختہ دار پر لٹکایا جائے تو اس سے کتنے ہی لوگوں کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔ چناچہ اسلامی شریعت سزاؤں کے تصور کو معاشرے میں ایک مستقل سدراہ deterrent کے طور پر مؤثر دیکھنا چاہتی ہے۔ اس میں بنیادی فلسفہ یہی ہے کہ ایک کو سزا دی جائے تو لاکھوں کے لیے باعث عبرت ہو۔

آیت 2 - سورہ نور: (الزانية والزاني فاجلدوا كل واحد منهما مائة جلدة ۖ ولا تأخذكم بهما رأفة في دين الله إن كنتم تؤمنون بالله...) - اردو