سورہ نساء: آیت 6 - وابتلوا اليتامى حتى إذا بلغوا... - اردو

آیت 6 کی تفسیر, سورہ نساء

وَٱبْتَلُوا۟ ٱلْيَتَٰمَىٰ حَتَّىٰٓ إِذَا بَلَغُوا۟ ٱلنِّكَاحَ فَإِنْ ءَانَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَٱدْفَعُوٓا۟ إِلَيْهِمْ أَمْوَٰلَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوهَآ إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُوا۟ ۚ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِٱلْمَعْرُوفِ ۚ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَٰلَهُمْ فَأَشْهِدُوا۟ عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ حَسِيبًا

اردو ترجمہ

اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کے قابل عمر کو پہنچ جائیں پھر اگر تم اُن کے اندر اہلیت پاؤ تو اُن کے مال اُن کے حوالے کر دو ایسا کبھی نہ کرنا کہ حد انصاف سے تجاوز کر کے اِس خوف سے اُن کے مال جلدی جلدی کھا جاؤ کہ وہ بڑے ہو کر اپنے حق کا مطالبہ کریں گے یتیم کا جو سرپرست مال دار ہو وہ پرہیز گاری سے کام لے اور جو غریب ہو وہ معروف طریقہ سے کھائے پھر جب اُن کے مال اُن کے حوالے کرنے لگو تو لوگوں کو اس پر گواہ بنا لو، اور حساب لینے کے لیے اللہ کافی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waibtaloo alyatama hatta itha balaghoo alnnikaha fain anastum minhum rushdan faidfaAAoo ilayhim amwalahum wala takulooha israfan wabidaran an yakbaroo waman kana ghaniyyan falyastaAAfif waman kana faqeeran falyakul bialmaAAroofi faitha dafaAAtum ilayhim amwalahum faashhidoo AAalayhim wakafa biAllahi haseeban

آیت 6 کی تفسیر

(آیت) ” وابتلوا الیتمی حتی اذا بلغوا النکاح فان انستم منھم رشدا فادفعوا الیھم اموالھم ولا تاکلوھا اسرافا وبدارا ان یکبروا ومن کان غنیا فلیستعفف ومن کان فقیرا فلیاکل بالمعروف فاذا دفعتم الیھم اموالھم فاشھدوا علیھم وکفی باللہ حسیبا “۔ (6)

اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے یتیموں کو ان کی دولت حوالے کرنے کے سلسلے میں شریعت نے کس قدر سخت کاروائی کی ہے ۔ جب وہ بالغ ہوجائیں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ شریعت بلوغ اور سیانے ہونے کے بعد جلد از جلد ان کی دولت انکے حوالے کرنے کیلئے کاروائی کرنے پر زور دیتی ہے ۔ یعنی جونہی وہ بالغ ہوں ‘ ان کی دولت ان کے حوالے کی جائے ۔ اور یہ دولت پوری کی پوری صحیح سالم ان کے حوالے کی جائے ۔ اور جب تک ولی کی حفاظت میں ہو اس کی حفاظت ایمانداری کے ساتھ کی جائے اور اسے بےدردی کے ساتھ خرچ نہ کیا جائے ۔ اس ڈر سے کہ یتیم بالغ ہونے والے ہیں اور یہ دولت انہیں لوٹانی ہوگی ۔ نیز شریعت کی پالیسی یہ ہے کہ اگر محافظ مالدار ہو تو وہ اس نگرانی اور حفاظت کا کوئی معاوضہ نہ لے اور اگر وہ نادار ہو تو اسے چاہئے کہ معروف طریقے کے مطابق کم سے کم ضرورت کی حد تک کھائے ۔ اور شریعت یہ بھی لازمی قرار دیتی ہے کہ جب کسی یتیم کو اس کا مال حوالے کیا جا رہا ہو تو اس پر شہادت ضرور قائم کی جائے ۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اللہ کی شہادت تو ہر وقوعہ پر قائم ہے اور اللہ کے سامنے جو حساب ہوگا وہ آخری حساب ہوگا ۔

(آیت) ” وکفی باللہ حسیبا “۔ (6) ”’ اور حساب لینے کیلئے اللہ کافی ہے ۔ “

یہ تمام تشدید وتاکید اور تمام تفصیلات وتشریحات اور یہ تمام تنبیہات وتذکیرات اس حقیقت کی مظہر ہیں کہ جس معاشرے میں اسلامی نظام نافذ ہوا ۔ اس میں ہر طرف ییتموں کی حق تلفی ہو رہی تھی ۔ یتیموں کے علاوہ دوسرے کمزوروں کے مال بھی کھائے جاتے تھے ۔ اس لئے کہ اس رسم و رواج کو ختم کرنے کیلئے اس قدر تاکید وتشدید کی ضرورت پیش آئی ۔ اور جزوی تفصیلات کو قرآن کریم کے اندر قلم بند کرنے کی ضرورت لاحق ہوئی ۔ تاکہ آئندہ لوگ قانونی حیلوں اور بہانوں سے کام لیکر قانون شکنی نہ کرسکیں اور قانون سے بچنے کی کوئی راہ کھلی نہ رہے ۔

اس طرح نظام حیات مسلمانوں کی فکری اور عملی دنیا سے جاہلیت کے ایک ایک نشان مٹاتا رہا اور اس کی جگہ اسلامی جھنڈے گاڑتا رہا ۔ جاہلیت کے آثار مٹائے جاتے رہے اور معاشرے کے چہرے کو ان بدنما داغوں سے صاف کیا جاتا رہا ۔ اور ان کی جگہ اسلام کے خوبصورت خدوخال ظاہر ہوتے رہے ۔ اور یوں ایک جدید معاشرہ ڈھلتا رہا ۔ جدید معاشرے کی رسوم اور روایات قائم ہوتی چلی گئیں ۔ اس کے اصول و ضوابط اور قوانین و احکام نازل ہوتے رہے ۔ اور یہ سب کچھ خدا خوفی کی فضا میں اور اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں ہوتا رہا ۔ اور اسلامی قانون اور اسلامی احکام کی آخری گارنٹی ذات باری کے خوف اور رضا مندی کو قرار دیا جاتا رہا حقیقت یہ ہے کہ خدا خوفی ‘ خدا کی رضا مندی اور اللہ کی نگرانی کے تصور کے سوا ‘ اس دنیا میں کسی بھی قانونی نظام کی استواری اور چلت کی کوئی گارنٹی نہیں ہے ۔ اصل مدار اس پر ہے کہ (آیت) ” وکفی باللہ حسبیا “۔ ” اور حساب لینے کیلئے اللہ کافی ہے ۔ “

جاہلیت کی رسم یہ تھی کہ وہ لڑکیوں اور بچوں کو وراثت نہ دیتے تھے ۔ عام رواج یہی تھا ۔ البتہ بعض جگہوں پر اس کے خلاف بھی تھا مگر شاذ ۔ اس کی وجہ ان کے نزدیک یہ تھی کہ یہ لوگ گھوڑے پر سوار نہیں ہوتے تھے ۔ دشمن کے مقابلے میں شریک نہ ہوتے تھے ۔ گویا اصل مدار جنگ پر تھا ۔ اسلامی نظام قانون نے میراث کو قرابت کے اصول پر استوار کیا ۔ جو تقسیم میراث کا حقیقی سبب تھا ۔ ہاں جس طرح قرابت کے مختلف درجے ہوتے ہیں ۔ اسی طرح اقرباء کے حصص اور فرائض میں بھی فرق ہے ۔ جیسا کہ بعد میں تفصیلات آرہی ہیں ۔ نظام میراث کو اسلام نے نظام قرابت پر اس لئے استوار کیا کہ اسلام اجتماعی تکافل کے نظام کی اکائی ایک خاندان کو قرار دیتا ہے ۔ وہ سب سے پہلے ایک خاندان کے افراد کے درمیان باہم کفالت کا نظام قائم کرتا ہے ۔ اور یہ خاندانی نظام بھی اجتماعی کفالتی نظام کے فریم ورک کے اندر ہوتا ہے ۔ نیز اس اصول کے تحت کہ حقوق ذمہ داریوں کی نسبت سے متعین ہوتے ہیں تو اس طرح قریبی رشتہ داروں پر خاندان کے کسی غریب فرد کی بابت اس کی قرابت کے اعتبار سے ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔ مثلا قتل میں دیت کی ادائیگی بھی قرابت اور رشتہ داری کے اصول پر ہوتی ہے ۔ نیز زخموں کی مرہم پٹی کی ادائیگی بھی قرابت کے اصول پر ہوا کرتی ہے ۔ اس لئے پھر انصاف کا تقاضا ہے کہ اگر کوئی رشتہ دار فوت ہوجائے اور اس کا ترکہ رہ جائے تو اسے اصول قرابت پر تقسیم کیا جائے ، کیونکہ اسلامی نظام زندگی ایک مکمل اور باہم متناسق نظام ہے ۔ اور اس کی یہ ہمہ گیری اور ہم آہنگی اس وقت اچھی طرح ظاہر ہوتی ہے جب اس کے اندر حقوق وفرائض متعین ہوتے ہیں ۔

غرض میراث کی تقسیم میں شریعت نے عموما ان قریبی ذمہ داریون کو ملحوظ رکھا ہے ۔ بعض لوگ اس قانون کے اصول تقسیم پر نکتہ جہنیاں کرتے ہیں ‘ یہ حرکت وہ اس لئے کرتے ہیں کہ درحقیقت ذات باری کی شان میں گستاخی کیلئے تیار ہیں ۔ حالانکہ خود ان کا حال یہ ہے کہ وہ کود ات انسانی سے بھی اچھی طرح واقف نہیں ہیں۔ اور نہ وہ انسانی زندگی کے مختلف احوال کو اچھی طرح سمجھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے نظام میراث کی اساس جن اصولوں پر رکھی گئی ہے اگر یہ لوگ ان کا اچھی طرح ادراک کرلیں تو یہ ہر گز یہ جسارت نہ کریں۔

اسلامی نظام میراث کا اصل الاصول سوشل سیکورٹی ہے ۔ اس کفالتی نظام کو شریعت نے ان اصولوں پر استوار کیا ہے ۔ جو نہایت ہی مستحکم ہیں اور ان اصولوں کو وضع کرتے وقت اسلام نے نفس انسانی کے فطری رجحانات کو بھی مد نظر رکھا ہے ۔ اور یہ وہ رجحانات ہیں جن کا خالق اللہ ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے فطرت انسانی کے اندر ان رجحانات کو عبث طور پر پیدا نہیں کیا ہے ۔ یہ فطری میلانات انسانی زندگی کے ارتقاء وبقا میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔

ایک خاندان کے اندر قریبی یا دور کے رشتوں کے جو رابطے ہوتے ہیں ‘ وہ چونکہ فطری روابط ہوتے ہیں اور نہایت ہی حقیقی روابط ہوتے ہیں اور وہ ایسے رابطے ہوتے ہیں ‘ جن کی تخلیق کسی ایک نسل یا سوسائٹی نے نہیں کی ہے ۔ اور نہ ہی ان رابطوں کی تخلیق میں پوری انسانی نسلوں کے اتفاق کا کوئی دخل ہے ۔ اس لئے ان رابطوں کی حقیقت پسندی ‘ ان کی گہرائی انسانی زندگی کے بچاو اس کی ترقی اور اس کی سربلندی میں ان رابطوں کی اہمیت کا کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔ اور اگر کوئی ان حقیقی رابطوں کی اہمیت کا انکار کرتا ہے تو ان کلیہ انکار نظر انداز کرنے کا مستحق ہے ۔ اس لئے اسلام نے اپنے کفالتی نظام کی اکائی ایک خاندان کے کفالتی نظام کو قرار دیا ہے ۔ اور اس کفالتی یونٹ کو پھر اپنے اجتماعی اور ملکی کفالتی نظام کا سنگ میل قرار دیا ہے ۔ اسلام نے نظام میراث کو اس خاندانی کفالتی نظام کا ایک مظہر اور علامت قرار دیا ہے ۔ جبکہ اقتصادی اور اجتماعی نظام معیشت وسیاست میں اس کے اور مفید اثرات بھی اپنی جگہ مسلم ہیں ۔

اگر کسی شخص کے تکافل میں یہ پہلا قدم کامیاب نہیں ہوتا اور خاندان کسی شخص کی کفالت میں ناکام ہوجاتے ہے تو پھر مقامی مسلم سوسائٹی سامنے آتی ہے اور وہ اس شخص کی کفالت کرتی ہے ۔ اور اگر محلہ اور مقامی سوسائٹی بھی ناکام رہیں تو اس کے بعد اسلامی حکومت ان تمام لوگوں کی کفالت کی ذمہ دار ہے جو خود اپنا انتظام نہیں کرسکتے ۔ اس انتظام کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ تمام نادار لوگوں کا انتظام کرنا صرف حکومت کے نظم ونسق کے کاندھوں پر یکدم نہیں پڑتا ۔ یہ انتظام اس لئے کیا گیا ہے کہ ایک خاندان اور ایک محدود سوسائٹی کے اندر باہم تکافل کے انتظام کے نتیجے میں افراد معاشرہ کے دلوں میں باہم دگر محبت ‘ لطف وکرم اور رحم اور ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور ان جذبات کی وجہ سے لوگوں کے درمیان باہم تعاون اور ہمدردی کے فطری فضائل اخلاق پروان چڑھتے ہیں اور یہ بالکل حقیقی ہوتے ہیں ان میں کوئی بناوٹ نہیں ہوتی ۔ اس خاندانی کفالت کے علاوہ بھی رشتہ داروں کی امداد اور ہمدردی کے جذبات رکھنا ایک ایسا انسانی فعل ہے جسے ایک بدفطرت اور گٹھیا درجے کا خبیث شخص ہی نظر انداز کرسکتا ہے ۔ ایک خاندان کے اندر کفالت کرنا تو ایک ایسا فعل ہے جس کے انسانی فطرت اور مزاج پر بہت ہی مفید اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ جو عین فطرت کے مطابق ہوتے ہیں ۔ ایک شخص کا یہ شعور کہ اس کی شخصی جدوجہد اس کے تمام رشتہ داروں کیلئے مفید عمل ہے ۔ خصوصا اس کی اپنی اولاد کیلئے تو اس شعور کی وجہ سے اس کی قوت عمل دو چند ہوجاتی ہے اسی طرح ایک شخص جدوجہد بالواسطہ پورے معاشرے کیلئے مفید ثابت ہوتی ہے ۔ اس لئے کہ اسلامی نظام حیات میں فرد اور جماعت کے درمیان فاصلے نہیں رکھے جاتے ۔ (1) (تفصیلات کیلئے دیکھئے فصل ” فرد اور معاشرہ “ کتاب الانسان بین المادیتہ والسلام۔ مصنفہ محمد قطب اور مصنف کی کتاب العدالتہ الاجتماعیہ فی اسلام ‘ فصل اجتماعی تکافل اور مالی پالیسی اور میری کتاب ” دراسات اسلامیہ ۔ “

اس لئے کہ فرد کی تمام ملکیت بھی دراصل پورے معاشرے کی ملکیت ہوتی ہے ۔ اگر معاشرے کو اس کی ضرورت پڑے ۔

اس آخری اصول کی روشنی میں اسلامی نظام وراثت پر کئے جانے والے وہ تمام اعتراضات زائل ہوجاتے ہیں ‘ جن میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ نظام ان لوگوں کو بھی وارثت منتقل کردیتا ہے جنہوں نے اس کیلئے کوئی جدوجہد نہیں کی ہوتی ۔ اس لئے کہ یہ وارث درحقیقت موروث منہ کا تسلسل ہوتا ہے اور اگر یہی موروث منہ محتاج ہوتا اور یہ وارث مالدار ہوتا تو اپنے اسلامی اور معاشرتی فرائض کے تحت وہ اس کی کفالت کرتا ، اور ان امور کے بعد یہ قاعدہ اپنی جگہ مسلم ہے کہ یہ دولت جس کے پاس بھی ہو اور جس طرح بھی تقسیم ہو یہ پورے معاشرے کی اجتماعی دولت ہے اور اسے اجتماعی ضروریات کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ (2) (تفصیلات کیلئے دیکھئے فصل ” فرد اور معاشرہ “ کتاب الانسان بین المادیتہ والسلام۔ مصنفہ محمد قطب اور مصنف کی کتاب العدالتہ الاجتماعیہ فی اسلام ‘ فصل اجتماعی تکافل اور مالی پالیسی اور میری کتاب ” دراسات اسلامیہ ۔ “

ان امور کے علاوہ وارث اور مورث کے درمیان جو رابطہ ہوتا ہے خصوصا مورث اور اس کی اولاد کے درمیان وہ صرف مالی رابطہ نہیں ہوتا ۔ اگر ہم وارث اور مورث کے درمیان مالی مفادات کو از روئے قانون کاٹ بھی دیں تو بھی ان کے درمیان جو خونی رشتے موجود ہیں اور جو دوسرے رشتے موجود ہیں وہ کاٹنے سے نہیں کٹتے ۔

آباو اجداد اور دوسرے رشتہ دار اپنے بچوں ‘ پوتوں اور رشتہ داروں کو صرف مالی وراثت ہی منتقل نہیں کرتے ‘ بلکہ وہ اپنی اچھی صلاحیتیں اچھی عادات ‘ بری عادات اور کمزوریاں بھی منتقل کرتے ہیں ۔ اس طرح وہ اپنے بچوں اور پوتوں کی طرف بعض موروثی بیماریاں بھی منتقل کرتے ہیں اور اگر وہ صحت مند ہیں تو اپنی صحت مندی بھی وارثت میں دیتے ہیں ۔ اسی طرح ایک شخص کے حسن اخلاق وبداخلاقی اس کی اچھائیاں اور برائیاں اور زکاوت اور غبی ہونا بھی وراثتا ‘ منتقل ہوتا ہے ۔ اور یہ تمام صفات وارثوں کی طرف منتقل ہو کر ہمیشہ کیلئے ان کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں ۔ اور ان کے نتائج ان وارثوں کو بھگتنے پڑتے ہیں ۔ اس لئے انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ مورث کا مال اگر کوئی ہے تو وہ بھی وارثوں کی طرف منتقل ہو ۔ اس لئے کہ اگر ہم کسی شخص کا مال اس کے وارثوں کو نہیں دیتے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم وارثوں کو موروثی بیماریوں ‘ اخلاقی کمزوریوں ‘ بدعملی اور ذہنی اور جسمانی کمزوریوں سے بھی نجات دلائیں اور یہ اس وقت بھی ممکن نہیں جب ہم اپنے پورے وسائل اس کام میں لگا دیں ۔

انسانی زندگی کے ان فطری اور واقعاتی حقائق کی وجہ سے اور ان تمام دوسری حکمتوں کی وجہ سے جو شریعت الہیہ میں پوشیدہ ہوتی ہیں ، اللہ تعالیٰ نے میراث کی تقسیم کا یہ موجودہ نظام وضع فرمایا ہے ۔ (3) (تفصیلات کیلئے دیکھئے فصل ” فرد اور معاشرہ “ کتاب الانسان بین المادیتہ والسلام۔ مصنفہ محمد قطب اور مصنف کی کتاب العدالتہ الاجتماعیہ فی اسلام ‘ فصل اجتماعی تکافل اور مالی پالیسی اور میری کتاب ” دراسات اسلامیہ ۔ “ فرماتے ہیں ۔

آیت 6 وَابْتَلُوا الْیَتٰمٰی حَتّٰیٓ اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ ج فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْہُمْ رُشْدًا تم محسوس کرو کہ اب یہ باشعور ہوگئے ہیں ‘ سمجھ دار ہوگئے ہیں۔ فَادْفَعُوْآ اِلَیْہِمْ اَمْوَالَہُمْ ج وَلاَ تَاْکُلُوْہَآ اِسْرَافًا وَّبِدَارًا اَنْ یَّکْبَرُوْا ط ایسا نہ ہو کہ تم یتیموں کا مال ضرورت سے زیادہ اور جلد بازی میں خرچ کرنے لگو ‘ اس خیال سے کہ بچے جوان ہوجائیں گے تو یہ مال ان کے حوالے کرنا ہے ‘ لہٰذا اس سے پہلے پہلے ہم اس میں سے جتنا ہڑپ کرسکیں کر جائیں۔وَمَنْ کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ ج۔یتیم کا ولی اگر خود غنی ہے ‘ اللہ نے اس کو دے رکھا ہے ‘ اس کے پاس کشائش ہے تو اسے یتیم کے مال میں سے کچھ بھی لینے کا حق نہیں ہے۔ پھر اسے یتیم کے مال سے بچتے رہنا چاہیے۔ وَمَنْ کَانَ فَقِیْرًا فَلْیَاْکُلْ بالْمَعْرُوْفِ ط۔اگر کوئی خود تنگ دست ہے ‘ محتاج ہے اور وہ یتیم کی نگہداشت بھی کر رہا ہے ‘ اس کا کچھ وقت بھی اس پر صرف ہو رہا ہے تو معروف طریقے سے اگر وہ یتیم کے مال میں سے کچھ کھا بھی لے تو کچھ حرج نہیں ہے۔ اسلام کی تعلیم بڑی فطری ہے ‘ اس میں غیر فطری بندشیں نہیں ہیں جن پر عمل کرنا ناممکن ہوجائے۔ فَاِذَا دَفَعْتُمْ اِلَیْہِمْ اَمْوَالَہُمْ فَاَشْہِدُوْا عَلَیْہِمْ ط۔ان کا مال و متاع گواہوں کی موجودگی میں ان کے حوالے کیا جائے کہ ان کی یہ یہ چیزیں آج تک میری تحویل میں تھیں ‘ اب میں نے ان کے حوالے کردیں۔ وَکَفٰی باللّٰہِ حَسِیْبًا ۔یہ دنیا کا معاملہ ہے کہ اس کے لیے لکھت پڑھت اور شہادت ہے۔ باقی اصل حساب تو تمہیں اللہ کے ہاں جا کردینا ہے۔

وراثت کے مسائل مشرکین عرب کا دستور تھا کہ جب کوئی مرجاتا تو اس کی بڑی اولاد کو اس کا مال مل جاتا چھوٹی اولاد اور عورتیں بالکل محروم رہتیں اسلام نے یہ حکم نازل فرما کر سب کی مساویانہ حیثیت قائم کردی کہ وارث تو سب ہوں گے خواہ قرابت حقیقی ہو یا خواہ قرابت حقیقی ہو یا خواہ بوجہ عقد زوجیت کے ہو یا بوجہ نسبت آزادی ہو حصہ سب کو ملے گا گو کم و بیش ہو، " ام کجہ " رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتی ہیں کہ حضور میرے دو لڑکے ہیں ان کے والد فوت ہوگئے ہیں ان کے پاس اب کچھ نہیں پس یہ آیت نازل ہوئی، یہی حدیث دوسرے الفاظ سے میراث کی اور دونوں آیتوں کی تفسیر میں بھی عنقریب انشاء اللہ آئے گی واللہ اعلم، دوسری آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی مرنے والے کا ورثہ بٹنے لگے اور وہاں اس کا کوئی دور کا رشتہ دار بھی آجائے جس کا کوئی حصہ مقرر نہ ہو اور یتیم و مساکین آجائیں تو انہیں بھی کچھ نہ کچھ دے دو۔ ابتداء اسلام میں تو یہ واجب تھا اور بعض کہتے ہیں مستحب تھا اور اب بھی یہ حکم باقی ہے یا نہیں ؟ اس میں بھی دو قول ہیں، حضرت ابن عباس تو اسے باقی بتاتے ہیں حضرت مجاہد حضرت ابن مسعود حضرت ابو موسیٰ حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر حضرت ابو العالیہ حضرت شعبی حضرت حسن حضرت سعید بن جیر حضرت ابن سیرین حضرت عطاء بن ابو رباح حضرت زہری حضرت یحیٰی بن معمر رحمتہ اللہ علیہم اجمعین بھی باقی بتاتے ہیں، بلکہ یہ حضرات سوائے حضرت ابن عباس کے وجوب کے قائل ہیں، حضرت عبیدہ ایک وصیت کے ولی تھے۔ انہوں نے ایک بکری ذبح کی اور تینوں قسموں کے لوگوں کو کھلائی اور فرمایا اگر یہ آیت نہ ہوتی تو یہ بھی میرا مال تھا، حضرت عروہ نے حضرت مصعب کے مال کی تقسیم کے وقت بھی دیا، حضرت زہری کا بھی قول ہے کہ یہ آیت محکم ہے منسوخ نہیں، ایک روایت میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ یہ وصیت پر موقوف ہے۔ چناچہ جب عبدالرحمن بن حضرت ابوبکر کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے حضرت عبداللہ نے اپنے باپ کا ورثہ تقسیم کیا اور یہ واقعہ حضرت مائی عائشہ کی موجودگی کا ہے تو گھر میں جتنے مسکین اور قرابت دار تھے سب کو دیا اور اسی آیت کی تلاوت کی، حضرت ابن عباس کو جب یہ معلوم ہوا تو فرمایا اس نے ٹھیک نہیں کیا اس آیت سے تو مراد یہ ہے کہ جب مرنے والے نے اس کی وصیت کی ہو (ابن ابی حاتم) بعض حضرات کا قول ہے کہ یہ آیت بالکل منسوخ ہی ہے مثلاً حصرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں یہ آیت منسوخ ہے۔ اور ناسخ آیت (يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِيْٓ اَوْلَادِكُمْ ۤ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ) 4۔ النسآء :11) ہے، حصے مقرر ہونے سے پہلے یہ حکم تھا پھر جب حصے مقرر ہوچکے اور ہر حقدار کو خود اللہ تعالیٰ نے حق پہنچا دیا تو اب صدقہ صرف وہی رہ گیا جو مرنے والا کہہ گیا ہو حضرت سعید بن مسیب ؒ بھی یہی فرماتے ہیں کہ ہاں اگر وصیت ان لوگوں کے لئے ہو تو اور بات ہے ورنہ یہ آیت منسوخ ہے، جمہور کا اور چاروں اماموں کا یہی مذہب ہے، امام ابن جریر نے یہاں ایک عجیب قول اختیار کیا ہے ان کی لمبی اور کئی بار کی تحریر کا ماحصل یہ ہے کہ مال وصیت کی تقسیم کے وقت جب میت کے رشتہ دار آجائیں تو انہیں بھی دے دو اور یتیم مسکین جو آگئے ہوں ان سے نرم کلامی اور اچھے جواب سے پیش آؤ، لیکن اس میں نظر ہے واللہ اعلم، حضرت ابن عباس وغیرہ فرماتے ہیں تقسیم سے مراد یہاں ورثے کی تقسیم ہے، پس یہ قول امام ابن جریر ؒ کے خلاف ہے، ٹھیک مطلب آیت کا یہ ہے کہ جب یہ غریب لوگ ترکے کی تقسیم کے وقت آجائیں اور تم اپنا اپنا حصہ الگ الگ کر کے لے رہے ہو اور یہ بیچارے تک رہے ہوں تو انہیں بھی خالی ہاتھ نہ پھیرو ان کا وہاں سے مایوس اور خالی ہاتھ واپس جانا اللہ تعالیٰ رؤف و رحیم کو اچھا نہیں لگتا بطور صدقہ کے راہ اللہ ان سے بھی کچھ اچھا سلوک کردو تاکہ یہ خوش ہو کر جائیں، جیسے اور جگہ فرمان باری ہے کہ کھیتی کے کٹنے کے دن اس کا حق ادا کرو اور فاقہ زدہ اور مسکینوں سے چھپا کر اپنے باغ کا پھل لانے والوں کی اللہ تعالیٰ نے بڑی مذمت فرمائی ہے جیسے کہ سورة نون میں ہے کہ وہ رات کے وقت چھپ کر پوشیدگی سے کھیت اور باغ کے دانے اور پھل لانے کے لئے چلتے ہیں وہاں اللہ کا عذاب ان سے پہلے پہنچ جاتا ہے اور سارے باغ کو جلا کر خاک سیاہ کردیتا ہے دوسروں کے حق برباد کرنے والوں کا یہی حشر ہوتا ہے، حدیث شریف میں ہے جس مال میں صدقہ مل جائے یعنی جو شخص اپنے مال سے صدقہ نہ دے اس کا مال اس وجہ سے غارت ہوجاتا ہے۔ پھر فرماتا ہے ڈریں وہ لوگ جو اگر اپنے پیچھے چھوڑ جائیں یعنی ایک شخص اپنی موت کے وقت وصیت کر رہا ہے اور اس میں اپنے وارثوں کو ضرر پہنچا رہا ہے تو اس وصیت کے سننے والے کو چاہئے کہ اللہ کا خوف کرے اور اسے ٹھیک بات کی رہنمائی کرے اس کے وارثوں کے لئے ایسی بھلائی چاہئے جیسے اپنے وارثوں کے ساتھ بھلائی کرانا چاہتا ہے جب کہ ان کی بربادی اور تباہی کا خوف ہو، بخاری و مسلم میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ حضرت سعد بن ابی وقاص کے پاس ان کی بیماری کے زمانے میں ان کی عیادت کو گئے اور حضرت سعد نے کہا یا رسول اللہ ﷺ میرے پاس مال بہت ہے اور صرف میری ایک لڑکی ہی میرے پیچھے ہے تو اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے مال کی دو تہائیاں اللہ کی راہ میں صدقہ کر دوں آپ نے فرمایا نہیں انہوں نے کہا پھر ایک تہائی کی اجازت دیجئے آپ نے فرمایا خیر لیکن ہے یہ بھی زیادہ تو اگر اپنے پیچھے اپنے وارثوں کو توانگر چھوڑ کر جائے اس سے بہتر ہے تو کہ تو انہیں فقیر چھوڑ کر جائے کہ وہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں لوگ ایک تہائی سے بھی کم یعنی چوتھائی کی ہی وصیت کریں تو اچھا ہے اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ نے تہائی کو بھی زیادہ فرمایا ہے فقہاء فرماتے ہیں اگر میت کے وارث امیر ہوں تب تو خیر تہائی کی وصیت کرنا مستحب ہے اور اگر فقیر ہوں تو اس سے کم کی وصیت کرنا مستحب ہے، دوسرا مطلب اس آیت کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ تم یتیموں کا اتنا ہی خیال رکھو جتنا تم تمہاری چھوٹی اولاد کا تمہارے مرنے کے بعد چاہتے ہو اور لوگ خیال رکھیں جس طرح تم نہیں چاہتے کہ ان کے مال دوسرے ظلم سے کھا جائیں اور وہ بالغ ہو کر فقیر رہ جائیں اسی طرح تم دوسروں کی اولادوں کے مال نہ کھا جاؤ، یہ مطلب بھی بہت عمدہ ہے اسی لئے اس کے بعد ہی یتیموں کا مال ناحق مار لینے والوں کی سزا بیان فرمائی، کہ یہ لوگ اپنے پیٹ میں انگارے بھرنے والے اور جہنم و اصل ہونے والے ہیں، بخاری و مسلم میں ہے حضور ﷺ نے فرمایا سات گناہوں سے بچو جو ہلاکت کا باعث ہیں پوچھا گیا کیا کیا ؟ فرمایا اللہ کے ساتھ شرک، جادو، بےوجہ قتل، سود خوری، یتیم کا مال کھا جانا، جہاد سے پیٹھ موڑنا، بھولی بھالی ناواقف عورتوں پر تہمت لگانا، ابن ابی حاتم میں ہے صحابہ نے حضور ﷺ سے معراج کی رات کا واقعہ پوچھا جس میں آپ نے فرمایا کہ میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا کہ ان کے ہونٹ نیچے لٹک رہے ہیں اور فرشتے انہیں گھسیٹ کر ان کا منہ خوب کھول دیتے ہیں پھر جہنم کے گرم پتھر ان میں ٹھونس دیتے ہیں جو ان کے پیٹ میں اتر کر پیچھے کے راستے سے نکل جاتے ہیں اور وہ بےطرح چیخ چلا رہے ہیں ہائے ہائے مچا رہے ہیں۔ میں نے حضرت جبرائیل سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ کہا یہ یتیموں کا مال کھا جانے والے ہیں جو اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں اور عنقریب جہنم میں جائیں گے، حضرت سدی ؒ فرماتے ہیں یتیم کا مال کھا جانے والا قیامت کے روز اپنی قبر سے اس طرح اٹھایا جائے گا کہ اس کے منہ آنکھوں نتھنوں اور روئیں روئیں سے آگ کے شعلے نکل رہے ہوں گے ہر شخص دیکھتے ہی پہچان لے گا کہ اس نے کسی یتیم کا مال ناحق کھا رکھا ہے۔ ابن مردویہ میں ایک مرفوع حدیث بھی اسی مضمون کے قریب قریب مروی ہے اور حدیث میں ہے میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ ان دونوں ضعیفوں کا مال پہنچا دو عورتوں کا اور یتیم کا، ان کے مال سے بچو، سورة بقرہ میں یہ روایت گزر چکی ہے کہ جب یہ آیت اتری تو جن کے پاس یتیم تھے انہوں نے ان کا اناج پانی بھی الگ کردیا اب عموماً ایسا ہوتا کہ کھانے پینے کی ان کی کوئی چیز بچ رہتی تو یا تو دوسرے وقت اسی باسی چیز کو کھاتے یا سڑنے کے بعد پھینک دی جاتی گھر والوں میں سے کوئی اسی ہاتھ بھی نہ لگاتا تھا یہ بات دونوں طرف ناگوار گزری حضور ﷺ کے سامنے بھی اس کا ذکر آیا ہے اس پر آیت (وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْيَتٰمٰي ۭ قُلْ اِصْلَاحٌ لَّھُمْ خَيْرٌ ۭوَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانُكُمْ) 2۔ البقرۃ :220) اتری جس کا مطلب یہ ہے کہ جس کام میں یتیموں کی بہتری سمجھو کرو چناچہ اس کے بعد پھر کھانا پانی ایک ساتھ ہوا۔

آیت 6 - سورہ نساء: (وابتلوا اليتامى حتى إذا بلغوا النكاح فإن آنستم منهم رشدا فادفعوا إليهم أموالهم ۖ ولا تأكلوها إسرافا وبدارا أن يكبروا...) - اردو