سورہ نساء: آیت 23 - حرمت عليكم أمهاتكم وبناتكم وأخواتكم... - اردو

آیت 23 کی تفسیر, سورہ نساء

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَٰتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَٰتُكُمْ وَعَمَّٰتُكُمْ وَخَٰلَٰتُكُمْ وَبَنَاتُ ٱلْأَخِ وَبَنَاتُ ٱلْأُخْتِ وَأُمَّهَٰتُكُمُ ٱلَّٰتِىٓ أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَٰتُكُم مِّنَ ٱلرَّضَٰعَةِ وَأُمَّهَٰتُ نِسَآئِكُمْ وَرَبَٰٓئِبُكُمُ ٱلَّٰتِى فِى حُجُورِكُم مِّن نِّسَآئِكُمُ ٱلَّٰتِى دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُوا۟ دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَٰٓئِلُ أَبْنَآئِكُمُ ٱلَّذِينَ مِنْ أَصْلَٰبِكُمْ وَأَن تَجْمَعُوا۟ بَيْنَ ٱلْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا

اردو ترجمہ

تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں، اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہو، اور تمہاری دودھ شریک بہنیں، اور تمہاری بیویوں کی مائیں، اور تمہاری بیویوں کی لڑکیاں جنہوں نے تمہاری گودوں میں پرورش پائی ہے اُن بیویوں کی لڑکیاں جن سے تمہارا تعلق زن و شو ہو چکا ہو ورنہ اگر (صرف نکاح ہوا ہو اور) تعلق زن و شو نہ ہوا ہو تو (ا نہیں چھوڑ کر ان کی لڑکیوں سے نکاح کر لینے میں) تم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے اور تمہارے اُن بیٹوں کی بیویاں جو تمہاری صلب سے ہوں اور یہ بھی تم پر حرام کیا گیا ہے کہ ایک نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرو، مگر جو پہلے ہو گیا سو ہو گیا، اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hurrimat AAalaykum ommahatukum wabanatukum waakhawatukum waAAammatukum wakhalatukum wabanatu alakhi wabanatu alokhti waommahatukumu allatee ardaAAnakum waakhawatukum mina alrradaAAati waommahatu nisaikum warabaibukumu allatee fee hujoorikum min nisaikumu allatee dakhaltum bihinna fain lam takoonoo dakhaltum bihinna fala junaha AAalaykum wahalailu abnaikumu allatheena min aslabikum waan tajmaAAoo bayna alokhtayni illa ma qad salafa inna Allaha kana ghafooran raheeman

آیت 23 کی تفسیر

(آیت) ” حرمت علیکم امھتکم وبنتکم واخوتکم وعمتکم وخلتکم وبنت الاخ وبنت الاخت وامھتکم التی ارضعنکم واخوتکم من الرضاعة وامھت نسآئکم وربآئبکم التی فی حجورکم من نسآئکم التی دخلتم بھن فان لم تکونوا دخلتم بھن فلا جناح علیکم وحلآئل ابنائکم الذین من اصلابکم وان تجمعوا بین الاختین الا ما قد سلف ، ان اللہ کان غفورا رحیما (32) والمحصنت من النسآء الا ملکت ایمانکم “۔

محرمات ‘ یعنی وہ عورتیں جن سے نکاح حرام ہے وہ تمام اقوام اومم میں معروف ہیں ۔ چاہے پسماندہ واقوام ہوں یا ترقی یافتہ اقوام ہوں ۔ تحریم کے اسباب اور تحریم کے درجات مختلف اقوام کے ہاں مختلف رہے ہیں ۔ قدیم پسماندہ اقوام کے اندر یہ دائرہ بہت ہی وسیع رہا ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک کے اندر یہ سکڑتا رہا ہے ۔

اسلام میں آیت زیر بحث اور اس سے پہلی آیت میں محرمات کی تحدید کی گئی ہے ۔ بعض محرمات ابدی ہیں ۔ اور بعض وقتی ہیں ۔ بعض بہ سبب نسب ہیں ‘ بعض بوجہ رضاعت ہیں اور بعض بوجہ مصاہرت ہیں ۔

ان محرمات اور اسباب کے علاوہ اسلام نے تمام دوسری پابندیوں کو ختم کردیا ‘ جو دوسرے معاشروں کے اندر مروج تھیں ‘ مثلا وہ پابندیاں جو نسلی وجوہات کی بنا پر رائج تھیں ۔ قومی حد بندیوں کی وجہ سے رائج تھیں یا رنگ کی وجہ سے رائج تھیں یا وہ پابندیاں جو طبقاتی درجات کی وجہ سے رائج تھیں حالانکہ ان میں زوجین ایک نسل ‘ ایک وطن اور ایک علاقے کے باشندے ہوا کرتے تھے ۔ (1) (تفصیلات کے لئے دیکھئے ڈاکٹر عبدالواحد وافی کی کتاب ” خاندان اور معاشرہ “ ص 62 تا 65)

قرابت داری کی وجہ سے اسلام میں چار قسم کی عورتیں حرام ہیں ۔

(1) کسی شخص کے اصول جس قدر اوپر چلتے جائیں ‘ مثلا ماں دادیاں ‘ نانی اور یہ سب ” امہات “ کے لفظ میں شامل ہیں ۔

(آیت) ” حرمت علیکم امھتکم ” تم پر تمہاری مائیں حرام ہیں ۔ “

(2) دوسری قسم کسی شخص کے فروع ہیں جس قدر نیچے چلے جائیں ۔ مثلا بیٹیوں اور بیٹیوں کی اولاد سے نکاح حرام ہے اور یہ (آیت) ” وبنتکم “ میں داخل ہیں ۔

(3) ماں اور باپ کے فروع جس قدر نیچے چلتے جائیں ۔ بہن ‘ بھانجی ‘ بھتیجی اور ان کی اولاد یہ (آیت) ” اخواتکم بنات الاخ اور (آیت) ” بنات الاخت “ میں داخل ہیں ۔

(4) نانا دادا کی پھوپھیاں اور خالائیں بھی حرام ہوں گی وغیرہ یہ سب (آیت) ” عمتکم وخلتکم “۔ میں داخل ہیں۔ لیکن اجداد کی وہ اولاد جو براہ راست نہ ہو درمیان واسطہ آجائے تو وہ جائز ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ چچا زاد بہن ‘ خالہ زاد ‘ پھوپی زاد کے ساتھ نکاح جائز ہے اور ان کی اولاد کے ساتھ بھی ۔

مصاہرت کی بنا پر پانچ قسم کی عورتیں حرام ہیں۔

(1) بیوی کے اصول ‘ جہاں تک اوپر کی طرف چلتے جائیں ۔ چناچہ بیوی کی ماں ‘ بیوی کی دادی ‘ بیوی کی نانی ‘ جہاں تک اوپر چلے جائیں حرام ہیں ۔ اور یہ حرمت نکاح کرتے ہیں قائم ہوجاتی ہے ۔ چاہے دخول ہوا ہو یا نہیں ۔ اور یہ (آیت) ” وامھات نسآئکم “ میں داخل ہیں۔

(2) بیوی کی فروعات جس قدر بھی نیچے جائیں ۔ مثلا بیوی کی لڑکی حرام ہے ‘ اس کی اولاد حرام ہے ‘ مرد ہو یا عورت ۔ لیکن یہ حرمت اس وقت قائم ہوتی ہے جب بیوی کے ساتھ مباشرت ہوگئی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔

(آیت) ” وربآئبکم التی فی حجورکم من نسآئکم التی دخلتم بھن فان لم تکونوا دخلتم بھن فلا جناح علیکم “۔

”‘ اور تمہاری بیویوں کی لڑکیاں جنہوں نے تمہاری گودوں میں پڑورش پائی ہو ان بیویوں کی لڑکیاں جن سے تمہارا تعلق زن وشو ہوچکا ہو ورنہ اگر تعلق زن وشو نہ ہوا تو تم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے ۔

(3) باپ دادا اور نانا کی بیویاں ‘ جس قدر اوپر چلے جائیں ۔ چناچہ باپ کی بیوی ‘ دادا ‘ اور نانا کی بیوی سے نکاح حرام ہے ۔ (آیت) ” ولا تنکحوا ما نکح ابآء کم من النسآء الا ما قدسلف “ ” اور جن عورتوں سے تمہارے باپ نکاح کرچکے ہیں ان سے نکاح نہ کرو ۔ مگر جو پہلے ہوچکا ۔ “ یعنی جاہلیت میں جو ہوچکا سو ہوچکا ‘ اس لئے کہ جاہلیت میں یہ جائز تھا ۔

(4) بیٹوں کی بیویاں اور پوتوں کی بیویاں جس قدر نیچے کو چلتے جائیں ۔ اس لئے ایک شخص کے لئے اپنے صلبی بیٹے کی بیوی سے نکاح حرام ہے ۔ اسی طرح صلبی پوتے کی بیوی کے ساتھ نکاح حرام ہے ۔ اسی طرح لڑکی کے لڑکے کی بیوی کے ساتھ نکاح بھی حرام ہوگا ۔ جس قدر نیچے چلتے جائیں ۔ (آیت) ” وحلآئل ابنائکم الذین من اصلابکم “ ” اور ان بیٹوں کی بیویاں جو تمہارے صلب سے ہوں “۔ اصلابکم کی شرط اس لئے عائد کی گئی ہے کہ جاہلیت میں منہ بولے بیٹے کی بیوی بھی حرام سمجھی جاتی تھی ‘ اس لئے اس کو صلبی بیٹے پوتے کے ساتھ مخصوص کردیا گیا ۔ اور حکم دیا گیا کہ منہ بولے بیٹوں کو ان کے والدین کی طرف نسبت دو ۔ ( سورة احزاب)

(5) بیوی کی بہن بھی حرام ہے لیکن یہ تحریم وقتی ہے ۔ اگر بیوی زندہ ہو اور اس کے نکاح میں ہو ۔ حرام یہ ہے کہ بیک وقت دو بہنوں کو نکاح میں رکھا جائے ۔ (آیت) ” وان تجمعوا بین الاختین الا ما قد سلف ” اور یہ بھی تم پر حرام کیا گیا ہے کہ ایک نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرو مگر جو پہلے ہوگیا سو ہوگیا ۔ “ اس پر مواخذہ نہ ہوگا ‘ اس لئے کہ نظام جاہلیت کے اندر وہ جائز تھا ۔

اسی طرح رضاعت کے ذریعہ بھی وہ تمام عورتیں حرام ہوجاتی ہیں جو نسب اور مصاہرت کی وجہ سے حرام ہوجاتی ہیں اور یہ فہرست تو محرمات پر مشتمل ہے ۔

(1) دودھ پلانے والی ماں اور اس کی دادی نانی جس قدر بھی اوپر چلتے جائیں ۔ (آیت) ” وامھاتکم التی ارضعنکم “۔ ” اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو ۔ “

(2) رضاعی بیٹی اور اس کی بیٹیاں جس قدر بھی نیچے چلتے جائیں ۔ رضاعی بیٹی وہ ہوتی ہے جسے کسی کی بیوی نے دودھ پلایا ہو اور وہ بیوی اس کے نکاح میں ہو ۔

(3) رضاعی بہن اور اس کی بیٹیاں جس قدر نیچے بھی ہوں ۔ (آیت) ” واخواتکم من الرضاعة “۔ ’ اور تمہاری دودھ شریک بہنیں ۔ “۔

(4) رضاعی چچی اور رضاعی خالہ ۔ رضاعی خالہ دودھ پلانے والی کی بہن ہوتی ہے اور رضاعی چچی دودھ پلانے والی کے خاوند کی بہن ہوتی ہے ۔

(5) بیوی کی رضاعی ماں ۔ یہ وہ عورت ہے جس نے بیوی کو بچپن میں دودھ پلایا ۔ اس طرح اس ماں کی اصول یعنی دادی نانی جس قدر بھی اوپر کو جائیں اور یہ تحریم محض نکاح سے قائم ہوجاتی ہے ‘ جس طرح نسب میں ہوتی ہے ۔

(6) بیوی کی رضاعی بیٹی ‘ یعنی وہ لڑکی جس کی بیوی نے اس شخص کے ساتھ نکاح کرنے سے پہلے دودھ پلایا ہو ۔ اسی طرح اس کی تمام پوتیاں جس قدر بھی نیچے چلیں ۔ البتہ یہ تحریم تب جاری ہوگی جب بیوی کی ساتھ مجامعت ہوگئی ہو ۔

(7) یعنی رضاعی باپ اور دادا کی بیوی حرام ہے ۔ رضاعی باپ وہ ہے جس کی بیوی نے دودھ پلایا ہو ‘ اس لئے صرف وہ عورت ہی حرام نہ ہوگی جس نے دودھ پلایا وہ رضاعی ماں ہوگئی بلکہ اس کے رضاعی باپ کی منکوحہ یعنی رضاعی ماں کی سوکن بھی حرام ہوگی ۔

(8) رضاعی بیٹے کی بیوی ‘ جس قدر نیچے چلے جائیں۔

(9) اسی طرح بیوی اور بیوی کی رضاعی بہن بھی حرام ہوگئی ‘ بیوی کی رضاعی چچی اور خالہ بھی حرام ہوگئی یا ہر ہو عورت جو اس کے لئے رضاعت کی وجہ سے حرام ہوئیں ۔

ان محرمات میں سے قسم اول اور قسم ثالث کے بارے میں تو صراحت اس آیت میں آگئی ہے ۔ باقی فہرست حضور اکرم ﷺ کی اس حدیث میں روشنی میں مرتب کی گئی ہے جس میں ہے ۔ ” رضاعت وہی محرمات ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہیں ۔ “

” یحرم من الرضاعة ما یحرم من النسب (مسلم بخاری)

یہ تو ہیں وہ حرام عورتیں جو شریعت نے حرام کی ہیں ۔ آیت میں اس حرمت کے لئے کوئی علت اور حکمت نہیں دی گئی ۔ نہ عام اور نہ کوئی خاص حکمت وعلت جن لوگوں نے مختلف وجوہات واسباب کا ذکر کیا ہے وہ ان کی جانب سے اجتہاد اور غوروفکر پر مبنی رائے ہے ۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان تمام محرمات کے لئے ایک ہی علت اور سبب ہو ‘ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعض محرمات کے لئے انکے مخصوص اسباب ہوں ‘ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کئی اقسام کا باہم مشترکہ سبب بھی ہو ۔ مثلا قریبی رشتہ داروں کے اندر شادیوں کی وجہ سے بعض اوقات بچے کمزور ہوتے ہیں اور مرور زمانہ کے ساتھ ایک ضعیف نسل وجود میں آتی ہے یعنی موروثی کمزوریاں نسلا بعد نسل جمع ہوتی رہتی ہیں ۔ اس کے مقابلے میں اگر دور اقوام اور نسلوں میں شادیاں کی جائیں تو ان کے نتیجے میں ایک صحت مند نسل وجود میں آتی ہے اور دونوں کی صلاحیتیں ایک جگہ جمع ہوجاتی ہیں۔

یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ بعض محرمات کے ساتھ نہایت ہی محبت ‘ رواداری ‘ احترام اور وقار کے تعلقات مطلوب ہوتے ہیں۔ اس لئے ان روابط کو میاں بیوی کے نازک تعلق سے دور رکھنا ضروری تھا تاکہ طلاق اور جدائی کی صورت میں تلخی پیدا نہ ہو ‘ اور وہ جذبات مجروح نہ ہوں جنہیں شریعت دائما رکھنا چاہتی ہے ۔ مثلا مائیں ، بیٹیاں ، بہنیں ، خالائیں ، پھوپھیاں ، بھانجیاں ، بھتیجیاں ، اور ان کے بالمقابل وہی رشتے رضاعت کی وجہ سے ۔ یہ سب اسی زمرے میں آتی ہیں ۔

یہ بھی کہا جاسکتا ہے بعض محرمات مثلا بیوی کی بیٹی ‘ بہنوں کا اجتماع ‘ باپ کی منکوحہ ‘ ان میں اگرچہ رشتے داری کے جذبات اور تعلقات میں کشیدگی کا احتمال نہیں ہے لیکن تعلقات کشیدہ ہو سکتے ہیں ۔ مثلا ماں کو یہ خدشہ ہوگا کہ اس کی بیٹی بھی سوکن بن سکتی ہے ۔ بہن اور اس کی بیٹی ایک جگہ اگر سوکن بن جائیں ۔ اسی طرح باپ کے اندر یہ شعور جاگ سکتا ہے کہ اس کے بعد اسکا بیٹا اس کا شریک ہو سکتا ہے یہی بات بہو کے بارے میں ہو سکتی ہے ۔

یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ قریبی رشتہ داروں کے باہم خاندانی تعلقات تو پہلے سے موجود ہوتے ہیں ۔ شریعت کا مقصد یہ ہے کہ دور دراز خاندانوں میں رشتے ناطے ہوں اور یوں خاندانی تعلقات کا دائرہ مزید وسیع ہوجائے اور رشتہ داروں کے اندر صرف اس حد پر جا کر اجازت دی گئی ہے جہاں خاندانی رشتہ کمزور ہوجاتا ہے ۔ (Remote)

غرض جو علت بھی ہو ‘ بہرحال ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو بھی قانون بنایا ہے ‘ وہ ہر گز خالی از حکمت نہ ہوگا ۔ اس میں انسانوں کی مصلحت اور بھلائی ہوگی ، رہی ہماری دانست کی بات تو کبھی ہمیں اس کا علم ہوگا اور کبھی نہ ہوگا ۔ ہماری دانش وعلم کا اثر اللہ کی شریعت پر نہیں پڑتا ۔ نہ شریعت کے نفاذ اور اس کی اطاعت پر کوئی فرق پڑتا ہے ۔ ہمیں تسلیم ورضا کے ساتھ شریعت کی اطاعت کرنا ہے ۔ اس لئے کہ ایمان صرف دل ہی میں نہیں ہوتا ۔ اس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اللہ کی شریعت کی حکمرانی قائم کی جائے اور ہم مکمل طور پر سرتسلیم خم کردیں اور ہمارے دلوں میں شریعت کے احکام کے بارے میں کوئی خلجان نہ ہو ۔

اب آخری بات اور آیات کی تشریح باقی رہ گئی ‘ وہ یہ ہے کہ یہ محرمات دو کو چھوڑ کر سب کی سب جاہلیت کے رواج میں بھی محرمات تھیں ۔ جاہلیت میں ایک منکوحہ اب کے ساتھ نکاح کرلیا جاتا تھا ‘ دوسرے یہ کہ دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں رکھنا جائز سمجھا جاتا تھا ۔ اگرچہ جاہلی معاشرہ میں انہیں مکروہ سمجھتا تھا ۔ لیکن اسلام نے انہیں اس لئے نہیں حرام قرار دیا کہ دور جاہلیت میں ایسا ہوا کرتا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس حرمت کو اپنے حق حاکمیت کے حوالے سے پیش فرمایا (آیت) ” حرمت علیکم “ ’ تم پر میری جانب سے حرام کی گئی ہیں ۔ “

یہ معاملہ محض الفاظ کا نہیں ہے ‘ یہ صرف شکل و صورت کا ہے بلکہ یہ پورے دین کا معاملہ ہے ۔ اس کے عقدہ کو حل کرلینے سے پوری دین کی حقیقت سمجھ میں آجاتی ہے ۔ اور وہ اصول ہمارے ہاتھ آجاتا ہے جس پر یہ دین قائم ہے ۔ یعنی حاکمیت صرف اللہ وحدہ کا خاصہ ہے ۔

اس دین کا فیصلہ یہ ہے کہ حرام اور حلال کی حدود کے تعین کا اختیار صرف اللہ کو ہے ۔ اس لئے کہ حاکمیت الہیہ کی یہ ایک نہایت ہی بنیادی خصوصیت ہے ۔ اس لئے حلال و حرام کے تین کے لئے ضروری ہے کہ اس پر اللہ کی جانب سے کوئی سلطان و ثبوت ہو ۔ یہ وہی ذات ہے جو لوگوں کے لئے بعض چیزوں کو حرام کردیتی ہے اور بعض کو حلال کردیتی ہے اور اس ذات کے سوا کسی اور کو یہ اختیار اس نے نہیں دیا ہے ۔ نہ یہ حق کوئی اپنے لئے مخصوص کرسکتا ہے ۔ اس لئے کہ اگر حاکمیت کے اس حق کا کوئی اپنے لئے مدعی ہوگا تو وہ گویا الوہیت کا دعوی کرے گا ۔

یہی وجہ ہے کہ ہر جاہلی نظام اپنے لئے حلال و حرام خود مقر کرتا ہے ۔ اور اسلامی نظریہ حیات کے مطابق اس کے مقرر کردہ یہ حلال و حرام ابتداء ہی سے باطل (Void) اور کالعدم ہیں ۔ اس لئے جب اسلام آتا ہے تو وہ جاہلیت کے تمام ضابطوں کو کالعدم کردیتا ہے جس میں حلال بھی شامل ہیں اور حرام بھی ۔ اور ان میں سے کسی چیز کو قائم نہیں رکھتا ۔ اس لئے کہ یہ حلال و حرام اگر درست بھی ہوں ‘ لیکن ان لوگوں نے مقرر کئے تھے جنہیں اس کا اس اختیار (Jurasdiction) نہ تھا ۔ ان میں سے کوئی بھی نہ الہ ہے ۔ اس منسوخی کے بعد اسلام از خود حلال و حرام کا تعین کرتا ہے ۔ اگر جاہلیت میں کوئی چیز حلال قرار دی گئی تھی تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔ وہی حلال ہے جسے اسلام حلال کر دے اور وہی حرام ہے جسے اسلام حرام کر دے ۔ از جانب اللہ ۔

اسلام کا یہ نظریہ حلال و حرام اس کائنات کی تمام اشیاء اور ان انسان کے تمام افعال وسرگرمیوں پر حاوی ہے ۔ اس کے دائرہ سے کوئی چیز باہر نہیں ہے ۔ اس لئے کہ اللہ کے سوا کسی اور کو حلال و حرام کے تعین کا اختیار ہی نہیں ہے ۔ نکاح و طلاق میں ‘ کھانے وپینے میں ‘ لباس و صورت میں ‘ عمل و حرکت میں ‘ تعلقات ومعاملات میں ‘ رسم و رواج میں اور قانون وجوابط میں ‘ غرض تمام معاملات میں مصدر قانون ذات باری ہے ۔

اللہ کے علاوہ جس مصدر اور جس ادارے سے بھی حلال و حرام کا تعین ہوگا وہ اپنی اصلیت کے اعتبار سے باطل (Void) ہے نہ اس کا اجراء ہوسکتا ہے نہ اس کی تصحیح (Validation) ہوسکتی ہے ۔ کیا اسلامی شریعت نے جاہلیت کے بعض احکام کو جاری رکھا ہے ؟ نہیں یہ سوچ درست نہیں ہے ۔ شریعت نے ہر چیز اپنی طرف سے از سر نو جاری کی ہے ۔ اور اس کا اجراء اللہ کی طرف سے ہوا ہے ۔ یہ سوچ درست نہیں ہے کہ بعض احکام جاہلیت کا تسلسل ہیں بلکہ اس نے از سر نو اپنے احکام جاری کئے تمام رسوم و رواج جاری کئے اور اللہ تعالیٰ کے اختیار حاکمیت کے تحت جاری کئے ۔

قرآن کریم نے اس نظریہ کی بار بار تاکید کی ہے اور اس معاملے میں وہ اہل جاہلیت کے ساتھ بار بار بحث کرتا ہے ۔ وہ بار بار چیلنج کرتا ہے کہ تمہیں کیا اختیار ہے کہ تم حلال و حرام کرتے پھرتے ہو ، کون ہے حرام کرنے والا ؟ (آیت) ” قل من حرم زینة اللہ التی اخرج لعبادہ والطیبات من الرزق “۔ ” پوچھو کون ہے جس نے اللہ کے سامان زینت کو حرام کیا ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کیا ہے اور پاکیزہ خوراک کو ۔ (آیت) ” قل تعالوا اتل ما حرم ربکم علیکم “۔ ” کہہ دو آو میں پڑھ کر سناوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کیا ہے ۔ “

(آیت) ” قل لا اجد فیما اوحی الی محرما علی طاعم یطعمہ الا ان یکون میتة او دما مسفوحا او لحم خنزیر “۔

” کہہ دو ‘ جو کچھ میری طرف وحی کیا گیا ہے میں تو اس میں کوئی چیز نہیں پاتا ‘ جو کسی کھانے والے پر حرام کی گئی ہو ‘ جو اس چیز کو کھاتا ہے ‘ سوائے اس کے کہ وہ چیز بہا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو ۔ “

اس بحث و تکرار کے ذریعہ قرآن کریم اہل جاہلیت کو اس اصول کی طرف لوٹا رہا تھا کہ حلال و حرام کے حدود کے تعین کا اعتبار صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ۔ اور کسی انسان کو یہ اختیارات حاصل نہیں ہیں ۔ نہ کسی فرد کو ‘ نہ کسی طبقے کو نہ کسی قوم کو اور نہ تمام دنیا کی آبادی کو ۔ یہ اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار حاکمیت کے تحت ہی استعمال ہوسکتا ‘ اس کی شریعت کے مطابق استعمال ہو سکتا ہے ۔ شریعت تو نام ہی اجازت وممانعت کا ہے ۔ یہی تو دین اسلام ہے ‘ اس لئے جو حرام و حلال مقرر کرتا ہے گویا وہ دین کا مالک ہے ۔ اگر یہ حلال و حرام کرنے والا اللہ ہے تو پھر لوگ جو اس کو مانتے ہیں ‘ ہم کہیں گے کہ وہ اللہ کے دین پر ہیں ‘ تو پھر وہ دین اسلام میں داخل ہوں گے ۔ اگر حلال و حرام کی حدیں کسی معاشرے میں کوئی اور مقرر کررہا ہے تو ہم کہیں گے یہ لوگ اس شخص کے دین پر ہیں ۔ تو وہ پھر اس کے دین میں داکل ہوں گے ۔ دین اسلام میں داخل نہ ہوں گے ۔

یہ مسئلہ اپنے اس فریم ورک میں اللہ کی حاکمیت اور الوہیت کا مسئلہ ہے ۔ یہ دین اور اس کے مفہوم کا مسئلہ ہے ۔ یہ ایمان اور ھدود ایمان کا مسئلہ ہے ۔ میں پورے عالم اسلام میں مسلمانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اس نقطہ نظر سے اپنی پوزیشن متعین کریں کہ وہ کہاں کھڑے ہیں ، ان کا دین سے تعلق کیا ہے ؟ ان کا اسلام سے کیا تعلق رہا ہے ؟ کیا اس کے باوجود یہ دعوی کرتے ہیں چلے جائیں گے کہ وہ مسلمان ہیں

وَاُمَّہٰتُ نِسَآءِکُمْ جن کو ہم ساس یا خوش دامن کہتے ہیں۔وَرَبَآءِبُکُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِکُمْ مِّنْ نِّسَآءِکُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِہِنَّز فَاِنْ لَّمْ تَکُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِہِنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ ز ربیبہبیوی کی اس لڑکی کو کہا جاتا ہے جو اس کے سابق شوہر سے ہو۔ اگر موجودہ شوہر اس بیوی سے تعلق زن و شو قائم ہونے کے بعد اس کو طلاق دے دے تو ربیبہ کو اپنے نکاح میں نہیں لاسکتا ‘ یہ اس کے لیے حرام ہے۔ لیکن اگر اس بیوی کے ساتھ تعلق زن و شو قائم نہیں ہوا اور اسے طلاق دے دی تو پھر ربیبہ کے ساتھ نکاح ہوسکتا ہے۔ چناچہ فرمایا کہ اگر تم نے ان بیویوں کے ساتھ مقاربت نہ کی ہو تو پھر انہیں چھوڑ کر ان کی لڑکیوں سے نکاح کرلینے میں تم پر کوئی گناہ نہیں۔ ِ وَحَلَآءِلُ اَ بْنَآءِکُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلاَبِکُمْ لا جن کو ہم بہوئیں کہتے ہیں۔ اپنے صلبی بیٹے کی بیوی سے نکاح حرام ہے۔ البتہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ بیوی سے نکاح میں کوئی حرج نہیں۔ وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا جو پہلے ہوگیا سو ہوگیا۔ اب گڑے مردے تو اکھاڑے نہیں جاسکتے۔ لیکن آئندہ کے لیے یہ محرمات ابدیہ ہیں۔ اس میں رسول اللہ ﷺ نے اضافہ کیا ہے کہ جس طرح دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں نہیں رکھ سکتے اسی طرح خالہ بھانجی کو اور پھوپھی بھتیجی کو بھی بیک وقت نکاح میں نہیں رکھ سکتے۔ یہ محرمات ابدیہ ہیں کہ جن کے ساتھ کسی حال میں ‘ کسی وقت شادی نہیں ہوسکتی۔ اب وہ محرمات بیان ہو رہی ہیں جو عارضی ہیں۔

کون سی عورتیں مردوں پر حرام ہیں ؟ نسبی، رضاعی اور سسرالی رشتے سے جو عورتیں مرد پر حرام ہیں ان کا بیان آیہ کریمہ میں ہو رہا ہے، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں سات عورتیں بوجہ نسب حرام ہیں اور سات بوجہ سسرال کے پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی جس میں بہن کی لڑکیوں تک نسبی رشتوں کا ذکر ہے جمہور علماء کرام نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ زنا سے جو لڑکی پیدا ہوئی وہ بھی اس زانی پر حرام ہے کیونکہ یہ بھی بیٹی ہے اور بیٹیاں حرام ہیں، یہی مذہب ابوحنیفہ مالک اور احمد بن حنبل کا ہے، امام شافعی سے کچھ اس کی اباحت میں بھی بحث کی گئی ہے اس لئے کہ شرعاً یہ بیٹی نہیں پس جیسے کہ ورثے کے حوالے سے یہ بیٹی کے حکم سے خارج ہے اور ورثہ نہیں پاتی اسی طرح اس آیت حرمت میں بھی وہ داخل نہیں ہے واللہ اعلم، (صحیح مذہب وہی ہے جس پر جمہور ہیں۔ (مترجم) پھر فرماتا ہے کہ جس طرح تم پر تمہاری سگی ماں حرام ہے اسی طرح رضاعی ماں بھی حرام ہے بخاری و مسلم میں ہے کہ رضاعت بھی اسے حرام کرتی ہے جسے ولادت حرام کرتی ہے صحیح مسلم میں ہے رضاعت سے بھی وہ حرام ہے جو نسب سے ہے، بعض فقہاء نے اس میں سے چار صورتیں بعض نے چھ صورتیں مخصوص کی ہیں جو احکام کی فروع کی کتابوں میں مذکور ہیں لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ اس میں سے کچھ بھی مخصوص نہیں اس لئے کہ اسی کے مانند بعض صورتیں نسبت میں بھی پائی جاتی ہیں اور ان صورتوں میں سے بعض صرف سسرالی رشتہ کی وجہ سے حرام ہیں لہذا حدیث پر اعتراض خارج از بحث ہے والحمد للہ۔ آئمہ کا اس میں بھی اختلاف ہے کہ کتنی مرتبہ دودھ پینے سے حرمت ثبات ہوتی ہے، بعض تو کہتے ہیں کہ تعداد معین نہیں دودھ پیتے ہی حرمت ثابت ہوگئی امام مالک یہی فرماتے ہیں، ابن عمر سعید بن مسیب عروہ بن زبیر اور زہری کا قول بھی یہی ہے، دلیل یہ ہے کہ رضاعت یہاں عام ہے بعض کہتے ہیں تین مرتبہ جب پئے تو حرمت ثابت ہوگئی، جیسے کہ صحیح مسلم میں ہے حضور ﷺ نے فرمایا ایک مرتبہ کا چوسنا یا دو مرتبہ کا پی لینا حرام نہیں کرتا یہ حدیث مختلف الفاظ سے مروی ہے، امام احمد، اسحاق بن راہویہ، ابو عبیدہ، ابو ثور بھی یہی فرماتے ہیں، حضرت علی، حضرت عائشہ، حضرت ام الفضل، حضرت ابن زبیر، سلیمان بن یسار، سعید بن جبیر رحمہم اللہ سے بھی یہی مروی ہے بعض کہتے ہیں پانچ مرتبہ کے دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوتی ہے اس سے کم نہیں، اس کی دلیل صحیح مسلم کی یہ روایت ہے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتے ہیں کہ پہلے قرآن میں دس مرتبہ کی دودھ پلائی پر حرمت کا حکم اترا تھا پھر وہ منسوخ ہو کر پانچ رہ گئے حضور ﷺ کے فوت ہونے تک وہ قرآن میں پڑھا جاتا رہا دوسری دلیل سہلہ بنت سہیل کی روایت ہے کہ ان کو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ حضرت سالم کو جو حضرت ابو حذیفہ کے مولی تھے پانچ مرتبہ دودھ پلا دیں، حضرت عائشہ اسی حدیث کے مطابق جس عورت کے گھر کسی کا آنا جانا دیکھتیں اسے یہی حکم دیتیں، امام شافعی اور ان کے اصحاب کا فرمان بھی یہی ہے کہ پانچ مرتبہ دودھ پینا معتبر ہے (مترجم کی تحقیق میں بھی راجح قول یہی ہے واللہ اعلم) یہ بھی یاد رہے کہ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ یہ رضاعت دودھ چھٹنے سے پہلے یعنی دو سال کے اندر اندر کی عمر میں ہو، اس کا مفصل بیان آیت (حولین کاملین) کی تفسیر میں سورة بقرہ میں گزر چکا ہے، پھر اس میں بھی اختلاف ہے کہ اس رضاعت کا اثر رضاعی ماں کے خاوند تک بھی پہنچے گا یا نہیں ؟ تو جمہور کا اور آئمہ اربعہ کا فرمان تو یہ ہے کہ پہنچے گا اور بعض سلف کا قول ہے کہ صرف دودھ پلانے والی تک ہی رہے گا اور رضاعی باپ تک نہیں پہنچے گا اس کی تفصیل کی جگہ احکام کی بڑے بڑی کتابیں ہیں نہ کہ تفسیر (صحیح قول جمہور کا ہے واللہ اعلم۔ مترجم) پھر فرماتا ہے ساس حرام ہے جس لڑکی سے نکاح ہوا مجرد نکاح ہونے کے سبب اس کی ماں اس پر حرام ہوگئی خواہ صحبت کرے یا نہ کرے، ہاں جس عورت کے ساتھ نکاح کرتا ہے اور اس کی لڑکی اس کے اگلے خاوند سے اس کے ساتھ ہے تو اگر اس سے صحبت کی تو وہ لڑکی حرام ہوگی اگر مجامعت سے پہلے ہی اس عورت کو طلاق دے دی تو وہ لڑکی اس پر حرام نہیں، اسی لئے اس آیت میں یہ قید لگائی بعض لوگوں نے ضمیر کو ساس اور اس کی پرورش کی ہوئی لڑکیوں دونوں کی طرف لوٹایا ہے وہ کہتے ہیں کہ ساس بھی اس وقت حرام ہوتی ہے جب اس کی لڑکی سے اس کے داماد نے خلوت کی ورنہ نہیں، صرف عقد سے نہ تو عورت کی ماں حرام ہوتی ہے نہ عورت کی بیٹی، حضرت علی فرماتے ہیں کہ جس شخص نے کسی لڑکی سے نکاح کیا پھر دخول سے پہلے ہی طلاق دے دی تو وہ اس کی ماں سے نکاح کرسکتا ہے جیسے کہ ربیبہ لڑکی سے اس کی ماں کو اسی طرح کی طلاق دینے کے بعد نکاح کرسکتا ہے حضرت زید بن ثابت سے بھی یہی منقول ہے ایک اور روایت میں بھی آپ سے مروی ہے آپ فرماتے تھے جب وہ عورت غیر مدخولہ مرجائے اور یہ خاوند اس کی میراث لے لے تو پھر اس کی ماں کو لانا مکروہ ہے ہاں اگر دخول سے پہلے طلاق دے دی ہے تو اگر چاہے نکاح کرسکتا ہے حضرت ابوبکر بن کنانہ فرماتے ہیں کہ میرا نکاح میرے باپ نے طائف کی ایک عورت سے کرایا ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ اس کا باپ میرا چچا فوت ہوگیا اس کی بیوی یعنی میری ساس بیوہ ہوگئی وہ بہت مالدار تھیں میرے باپ نے مجھے مشورہ دیا کہ اس لڑکی کو چھوڑ دوں اور اس کی ماں سے نکاح کرلوں میں نے حضرت ابن عباس سے یہ مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا تمہارے لئے یہ جائز ہے پھر میں نے حضرت ابن عمر سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا یہ جائز نہیں میں نے اپنے والد سے ذکر کیا انہوں نے تو امیر معاویہ کو ہی سوال کیا حضرت امیر معاویہ نے تحریر فرمایا کہ میں نہ تو حرام کو حلال کروں نہ حلال کر حرام تم جانو اور تمہارا کام تم حالت دیکھ رہے ہو معاملہ کے تمام پہلو تمہاری نگاہوں کے سامنے ہیں۔ عورتیں اس کے علاوہ بھی بہت ہیں۔ غرض نہ اجازت دی نہ انکار کیا چناچہ میرے باپ نے اپنا خیال اس کی ماں کی طرف سے ہٹا لیا حضرت عبداللہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ عورت کی لڑکی اور عورت کی ماں کا حکم ایک ہی ہے اگر عورت سے دخول نہ کیا ہو تو یہ دونوں حلال ہیں، لیکن اس کی اسناد میں مبہم راوی ہے، حضرت مجاہد کا بھی یہی قول ہے، ابن جبیر اور حضرت ابن عباس بھی اسی طرف گئے ہیں، حضرت معاویہ نے اس میں توقف فرمایا ہے شافعیوں میں سے ابو الحسن احمد بن محمد بن صابونی سے بھی بقول رافعی یہی مروی ہے حضرت عبداللہ بن مسعود سے بھی اسی کے مثل مروی ہے لیکن پھر آپ نے اپنے اس قول سے رجوع کرلیا ہے طبرانی میں ہے کہ قبیلہ فزارہ کی شاخ قبیلہ بنو کمخ کے ایک شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا پھر اس کی بیوہ ماں کے حسن پر فریفتہ ہوا تو حضرت ابن مسعود سے مسئلہ پوچھا کہ کیا مجھے اس کی ماں سے نکاح کرنا جائز ہے آپ نے فرمایا ہاں چناچہ اس نے اس لڑکی کو طلاق دے کر اس کی ماں سے نکاح کرلیا اس سے اولاد بھی ہوئی پھر حضرت ابن مسعود مدینہ آئے اور اس مسئلہ کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ حلال نہیں چناچہ آپ واپس کوفے گئے اور اس سے کہا کہ اس عورت کو الگ کر دے یہ تجھ پر حرام ہے اس نے اس فرمان کی تعمیل کی اور اسے الگ کردیا جمہور علماء اس طرف ہیں لڑکی تو صرف عقد نکاح سے حرام نہیں ہوتی تاوقتیکہ اس کی ماں سے مباشرت نہ کی ہو ہاں ماں صرف لڑکی کے عقد نکاح ہوتے ہی حرام ہوجاتی ہے گو مباشرت نہ ہوئی ہو، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو دخول سے پہلے طلاق دے دے یا وہ عورت مرجائے تو اس کی ماں اس پر حلال نہیں چونکہ مبہم ہے اس لئے اسے ناپسند فرمایا، حضرت ابن مسعود، عمران بن حصین، مسروق، طاؤس، عکرمہ، عطا، حسن، مکحول، ابن سیرین، قتادہ اور زہری سے بھی اسی طرح مروی ہے، چاروں اماموں ساتوں فقہاء اور جمہور علماء سلف و خلف کا یہی مذہب ہے والحمد للہ امام ابن جریج فرماتے ہیں ٹھیک قول انہی حضرات کا ہے جو ساس کو دونوں صورتوں میں حرام بتلاتے ہیں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی حرمت کے ساتھ دخول کی شرط نہیں لگائی جیسے کہ لڑکی کی ماں کے لئے یہ شرط لگائی ہے پھر اس پر اجماع ہے جو ایسی دلیل ہے کہ اس کا خلاف کرنا اس وقت جائز ہی نہیں جب کہ اس پر اتفاق ہو اور ایک غریب حدیث میں بھی یہ مروی ہے گو اس کی سند میں کلام ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جبکہ کوئی مرد کسی عورت سے نکاح کرے اگر اس نے اس کی ماں سے نکاح کیا ہے پھر ملنے سے پہلے ہی اسے طلاق دے دی ہے تو اگر چاہے اس کی لڑکی سے نکاح کرسکتا ہے، گو اس حدیث کی سند کمزور ہے لیکن اس مسئلہ پر اجماع ہوچکا ہے جو اس کی صحت پر ایسا گواہ ہے جس کے بعد دوسری گواہی کی ضرورت نہیں، (ٹھیک مسئلہ یہی ہے واللہ اعلم۔ مترجم) پھر فرماتا ہے تمہاری پرورش کی ہوئی وہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہوں وہ بھی تم پر حرام ہیں بشرطیکہ تم نے ان سوتیلی لڑکیوں کی ماں سے صحبت کی ہو جمہور کا فرمان ہے کہ خواہ گود میں پلی ہوں حرام ہیں چونکہ عموماً ایسی لڑکیاں اپنی ماں کے ساتھ ہی ہوتی ہیں اور اپنے سوتیلے باپوں کے ہاں ہی پرورش پاتی ہیں اس لئے یہ کہہ دیا گیا ہے یہ کوئی قید نہیں جیسے اس آیت میں ہے آیت (ولا تکرہوا فتیاتکم علی البغاء ان اردن تحصنا) یعنی تمہاری لونڈیاں اگر پاکدامن رہنا چاہتی ہوں تو تم انہیں بدکاری پر بےبس نہ کرو، یہاں بھی یہ قید کہ اگر وہ پاکدامن رہنا چاہیں صرف بااعتبار واقعہ کے غلبہ کے ہے یہ نہیں کہ اگر وہ خود ایسی نہ ہوں تو انہیں بدکاری پر آمادہ کرو، اسی طرح اس آیت میں ہے کہ گود میں چاہے نہ ہوں پھر بھی حرام ہی ہیں۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت ام حبیبہ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ آپ میری بہن ابو سفیان کی لڑکی عزہ سے نکاح کرلیجئے۔ آپ نے فرمایا کیا تم یہ چاہتی ہو ؟ ام المومنین نے کہا ہاں میں آپ کو خالی تو رکھ نہیں سکتی پھر میں اس بھلائی میں اپنی بہن کو ہی کیوں نہ شامل کروں ؟ آپ نے فرمایا ان کی وہ بیٹی جو ام سلمہ سے ہے ؟ کہا ہاں۔ فرمایا اولاً تو وہ مجھ پر اس وجہ سے حرام ہے کہ وہ میری ربیبہ ہے جو میرے ہاں پرورش پا رہی ہے دوسری یہ کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو بھی وہ مجھ پر حرام تھیں اس لئے کہ وہ میرے دودھ شریک بھائی کی بیٹی میری بھتیجی ہیں۔ مجھے اور اس کے باپ ابو سلمہ کو ثوبیہ نے دودھ پلایا ہے۔ خبردار اپنی بیٹیاں اور اپنی بہنیں مجھ پر پیش نہ کرو، بخاری کی روایت ہے یہ الفاظ ہیں کہ اگر میرا نکاح ام سلمہ جسے نہ ہوا ہوتا تو بھی وہ مجھ پر حلال نہ تھیں، یعنی صرف نکاح کو آپ نے حرمت کا اصل قرار دیا، یہی مذہب چاروں اماموں ساتوں فقیہوں اور جمہور سلف و خلف کا ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر وہ اس کے ہاں پر پرورش پاتی ہو تو بھی حرام ہے ورنہ نہیں، حضرت مالک بن اوس بن حدثان فرماتے ہیں میری بیوی اولاد چھوڑ کر مرگئیں مجھے ان سے بہت محبت تھی اس وجہ سے ان کی موت کا مجھے بڑا صدمہ ہوا حضرت علی سے میری اتفاقیہ ملاقات ہوئی تو آپ نے مجھے مغموم پا کر دریافت کیا کہ کیا بات ہے ؟ میں نے واقعہ سنایا تو آپ نے فرمایا تجھ سے پہلے خاوند سے بھی اس کی کوئی اولاد ہے ؟ میں نے کہا ہاں ایک لڑکی ہے اور وہ طائف میں رہتی ہے فرمایا پھر اس سے نکاح کرلو میں نے قرآن کریم کی آیت پڑھی کہ پھر اس کا کیا مطلب ہوگا ؟ آپ نے فرمایا یہ تو اس وقت ہے جبکہ اس نے تیرے ہاں پرورش پائی ہو اور وہ بقول تمہارے طائف میں رہتی ہے تیرے پاس ہے ہی نہیں گو اس کی اسناد صحیح ہے لیکن یہ قول بالکل غریب ہے، حضرت امام مالک کا بھی یہی قول بتایا ہے، ابن حزم نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے، ہمارے شیخ حافظ ابو عبداللہ نسبی نے ہم سے کہا کہ میں نے یہ بات شیخ امام تقی الدین ابن تیمیہ کے سامنے پیش کی تو آپ نے اسے بہت مشکل محسوس کیا اور توقف فرمایا واللہ اعلم۔ حجور سے مراد گھر ہے جیسے کہ حضرت ابو عبیدہ سے مروی ہے کہ ہاں جو کنیز ملکیت میں ہو اور اس کے ساتھ اس کی لڑکی ہو اس کے بارے میں حضرت عمر سے سوال ہوا کہ ایک کے بعد دوسری جائز ہوگی یا نہیں ؟ تو آپ نے فرمایا اسے پسند نہیں کرتا، اس کی سند منقطع ہے، حضرت ابن عباس ؓ نے ایسے ہی سوال کے جواب میں فرمایا ہے ایک آیت سے یہ حلال معلوم ہوتی ہے دوسری آیت سے حرام اس لئے میں تو ایسا ہرگز نہ کروں، شیخ ابو عمر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ علماء میں اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں کہ کسی کو حلال نہیں کہ کسی عورت سے پھر اس کی لڑکی سے بھی اسی ملکیت کی بنا پر وطی کرے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے نکاح میں بھی حرام قرار دے دیا ہے یہ آیت ملاحظہ ہو اور علماء کے نزدیک ملکیت احکام نکاح کے تابع ہے مگر جو روایت حضرت عمر اور حضرت ابن عباس سے کی جاتی ہے لیکن آئمہ فتاویٰ اور ان کے تابعین میں سے کوئی بھی اس پر متفق نہیں۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں ربیبہ کی لڑکی اور اس لڑکی کی لڑکی اس طرح جس قدر نیچے یہ رشتہ چلا جائے سب حرام ہیں، حضرت ابو العالیہ سے بھی اسی طرح یہ روایت قتادہ مروی ہے آیت (دخلتم بہن) سے مراد حضرت ابن عباس تو فرماتے ہیں ان سے نکاح کرنا ہے حضرت عطا فرماتے ہیں کہ وہ رخصت کر دئے جائیں کپڑا ہٹا دیا جائے چھیڑ ہوجائے اور ارادے سے مرد بیٹھ جائے ابن جریج نے سوال کیا کہ اگر یہ کام عورت ہی کے گھر میں ہوا ہو فرمایا وہاں یہاں دونوں کا حکم ایک ہی ہے ایسا اگر ہوگیا تو اس کی لڑکی اس پر حرام ہوگئی۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ صرف خلوت اور تنہائی ہوجانے سے اس کی لڑکی کی حرمت ثابت نہیں ہوتی اگر مباشرت کرنے اور ہاتھ لگانے سے اور شہوت سے اس کے عضو کی طرف دیکھنے سے پہلے ہی طلاق دے دی ہے تو تمام کے اجماع سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ لڑکی اس پر حرام نہ ہوگی تاوقتیکہ جماع نہ ہوا ہو۔ پھر فرمایا تمہاری بہوئیں بھی تم پر حرام ہیں جو تمہاری اولاد کی بیویاں ہوں یعنی لے پالک لڑکوں کی بیویاں حرام نہیں، ہاں سگے لڑکے کی بیوی یعنی بہو اپنے کسر پر حرام ہے جیسے اور جگہ ہے آیت (فلما قضی زید منہا وطرا زوجنکہا لکیلا یکون علی المومنین حرج فی ازواج ادعیائہم الخ، یعنی جب زید نے اس سے اپنی حاجت پوری کرلی تو ہم نے اسے تیرے نکاح میں دے دیا تاکہ مومنوں پر ان کے لے پالک لڑکوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی تنگی نہ رہے، حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ ہم سنا کرتے تھے کہ جب آنحضرت ﷺ نے حضرت زید کی بیوی سے نکاح کرلیا تو مکہ کے مشرکوں نے کائیں کائیں شروع کردی اس پر یہ آیت اور آیت (وَمَا جَعَلَ اَدْعِيَاۗءَكُمْ اَبْنَاۗءَكُمْ) 33۔ الاحزاب :4) اور آیت (مَا كَانَ مُحَـمَّـدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ ۭ وَكَان اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا) 33۔ الاحزاب :40) نازل ہوئیں یعنی بیشک صلبی لڑکے کی بیوی حرام ہے۔ تمہارے لئے پالک لڑکے شرعاً تمہاری اولاد کے حکم میں نہیں آنحضرت ﷺ میں سے کسی مرد کے باپ نہیں، حسن بن محمد فرماتے ہیں کہ یہ آیتیں مبہم ہیں جیسے تمہارے لڑکوں کی بیویاں تمہاری ساسیں، حضرت طاؤس ابراہیم زہری اور مکحول سے بھی اسی طرح مروی ہے میرے خیال میں مبہم سے مراد عام ہیں۔ یعنی مدخول بہا اور غیر مدخول دونوں ہی شامل ہیں اور صرف نکاح کرتے ہی حرمت ثابت ہوجاتی ہے۔ خواہ صحبت ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو اس مسئلہ پر اتفاق ہے اگر کوئی شخص سوال کرے کہ رضاعی بیٹے کی حرمت کیسے ثابت ہوگی کیونکہ آیت میں تو صلبی بیٹے کا ذکر ہے تو جواب یہ ہے کہ وہ حرمت آنحضرت ﷺ کی اس حدیث سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا رضاعت سے وہ حرام ہے جو نسبت سے حرام ہے۔ جمہور کا مذہب یہی ہے کہ رضاعی بیٹے کی بیوی بھی حرام ہے بعض لوگوں نے تو اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ پھر فرماتا ہے دو بہنوں کا نکاح میں جمع کرنا بھی تم پر حرام ہے اسی طرح ملکیت کی لونڈیوں کا حکم ہے کہ دو بہنوں سے ایک ہی وقت وطی حرام ہے مگر جاہلیت کے زمانہ میں جو ہوچکا اس سے ہم درگزر کرتے ہیں پس معلوم ہوا کہ اب یہ کام آئندہ کسی وقت جائز نہیں، جیسے اور جگہ ہے آیت (لَا يَذُوْقُوْنَ فِيْهَا الْمَوْتَ اِلَّا الْمَوْتَةَ الْاُوْلٰى ۚ وَوَقٰىهُمْ عَذَابَ الْجَحِيْمِ) 44۔ الدخان :56) یعنی وہاں موت نہیں آئے گی ہاں پہلی موت جو آنی تھی سو آچکی تو معلوم ہوا کہ اب آئندہ کبھی موت نہیں آئے گی، صحابہ تابعین ائمہ اور سلف و خلف کے علماء کرام کا اجماع ہے کہ دو بہنوں سے ایک ساتھ نکاح کرنا حرام ہے اور جو شخص مسلمان ہو اور اس کے نکاح میں دو بہنیں ہوں تو اسے اختیار دیا جائے گا کہ ایک کو رکھ لے اور دوسری کو طلاق دے دے اور یہ اسے کرنا ہی پڑے گا حضرت فیروز فرماتے ہیں میں جب مسلمان ہوا تو میرے نکاح میں دو عورتیں تھیں جو آپس میں بہنیں تھیں پس آنحضرت ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ ان میں سے ایک کو طلاق دے دو (مسند احمد) ابن ماجہ ابو داؤد اور ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے ترمذی میں بھی یہ ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ان میں سے جسے چاہو ایک کو رکھ لو اور ایک کو طلاق دے دو ، امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں، ابن ماجہ میں ابو خراش کا ایسا واقعہ بھی مذکور ہے ممکن ہے کہ ضحاک بن فیروز کی کنیت ابو خراش ہو اور یہ واقعہ ایک ہی ہو اور اس کے خلاف بھی ممکن ہے حضرت دیلمی نے رسول مقبول صلعم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ میرے نکاح میں دو بہنیں ہیں آپ نے فرمایا ان سے جسے چاہو ایک کو طلاق دے دو (ابن مردویہ) پس دیلمی سے مراد ضحاک بن فیروز ہیں ؓ یہ یمن کے ان سرداروں میں سے تھے جنہوں نے اسود عنسی متنبی ملعون کو قتل کیا چناچہ دو لونڈیوں کو جو آپس میں سگی بہنیں ہوں ایک ساتھ جمع کرنا ان سے وطی کرنا بھی حرام ہے، اس کی دلیل اس آیت کا عموم ہے جو بیویوں اور اور لونڈیوں پر مشتمل ہے حضرت ابن مسعود سے اس کا سوال ہوا تو آپ نے مکروہ بتایا سائل نے کہا قرآن میں جو ہے آیت (اِلَّا مَامَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ) 4۔ النسآء :24) یعنی وہ جو جن کے تمہارے دائیں ہاتھ مالک ہیں اس پر حضرت ابن مسعود نے فرمایا تیرا اونٹ بھی تو تیرے داہنے ہاتھ کی ملکیت میں ہے جمہور کا قول بھی یہی مشہور ہے اور آئمہ اربعہ وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں گو بعض سلف نے اس مسئلہ میں توقف فرمایا ہے حضرت عثمان بن عفان سے جب یہ مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا ایک آیت اسے حلال کرتی ہے دوسری حرام میں تو اس سے منع کرتا سائل وہاں سے نکلا تو راستے میں ایک صحابی سے ملاقات ہوئی اس نے ان سے بھی یہی سوال کیا انہوں نے فرمایا اگر مجھے کچھ اختیار ہوتا تو میں ایسا کرنے والے کو عبرت ناک سزا دیتا، حضرت امام مالک فرماتے ہیں میرا گمان ہے کہ یہ فرمانے والے غالباً علی کا نام اس لئے نہیں لیا کہ وہ عبدالملک بن مروان کا مصاحب تھا اور ان لوگوں پر آپ کا نام بھاری پڑتا تھا حضرت الیاس بن عامر کہتے ہیں میں نے حضرت علی بن ابی طالب سے سوال کیا کہ میری ملکیت میں دو لونڈیاں ہیں دونوں آپس میں سگی بہنیں ہیں ایک سے میں نے تعلقات قائم کر رکھے ہیں اور میرے ہاں اس سے اولاد بھی ہوئی ہے اب میرا جی چاہتا ہے کہ اس کی بہن سے جو میری لونڈی ہے اپنے تعلقات قائم کروں تو فرمائیے شریعت کا اس میں کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا پہلی لونڈی کو آزاد کر کے پھر اس کی بہن سے یہ تعلقات قائم کرسکتے ہو، اس نے کہا اور لوگ تو کہتے ہیں کہ میں اس کا نکاح کرا دوں پھر اس کی بہن سے مل سکتا ہوں، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا دیکھو اس صورت میں بھی خرابی ہے وہ یہ کہ اگر اس کا خاوند اسے طلاق دے دے یا انتقال کر جائے تو وہ پھر لوٹ کر تمہاری طرف آجائے گی، اسے تو آزاد کردینے میں ہی سلامتی ہے، پھر آپ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا سنو آزاد عورتوں اور لونڈیوں کے احکام حلت و حرمت کے لحاظ سے یکساں ہیں ہاں البتہ تعداد میں فرق ہے یعنی آزاد عورتیں چار سے زیادہ جمع نہیں کرسکتے اور لونڈیوں میں کوئی تعداد کی قید نہیں اور دودھ پلائی کے رشتہ سے بھی اس رشتہ کی وہ تمام عورتیں حرام ہوجاتی ہیں جو نسل اور نسب کی وجہ سے حرام ہیں (اس کے بعد تفسیر ابن کثیر کے اصل عربی نسخے میں کچھ عبارت چھوٹی ہوئی ہے بہ ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ عبارت یوں ہوگی کہ یہ روایت ایسی ہے کہ اگر کوئی شخص مشرق سے یا مغرب سے صرف اس روایت کو سننے کے لئے سفر کر کے آئے اور سن کے جائے تو بھی اس کا سفر اس کے لئے سود مند رہے گا اور اس نے گویا بہت سستے داموں بیش بہا چیز حاصل کی۔ واللہ اعلم۔ مترجم) یہ یاد رہے کہ حصرت علی سے بھی اسی طرح مروی ہی جس طرح حصرت عثمان سے مروی ہے چناچہ ابن مردونیہ میں ہے کہ آپ نے فرمایا دو لونڈیوں کو جو آپس میں بہنیں ہوں ایک ہی وقت جمع کر کے ان سے مباشرت کرنا ایک آیت سے حرام ہوتا ہے اور دوسری سے حلال حضرت ابن عباس فرماتے ہیں لونڈیاں مجھ پر میری قرابت کی وجہ سے جو ان سے ہے بعض اور لونڈیوں کو حرام کردیتی ہیں لیکن انہیں خود آپس میں جو قرابت ہو اس سے مجھ پر حرام نہیں ہوتیں، جاہلیت والے بھی ان عورتوں کو حرام سمجھتے تھے جنہیں تم حرام سمجھتے ہو مگر اپنے باپ کی بیوی کو جو ان کی سگی ماں نہ ہو اور دو بہنوں کو ایک ساتھ ایک وقت میں نکاح میں جمع کرنا وہ حرام نہیں سمجھتے تھے لیکن اسلام نے آکر ان دونوں کو بھی حرام قرار دیا اس وجہ سے ان دونوں کی حرمت کے بیان کے ساتھ ہی فرما دیا کہ جو نکاح ہوچکے وہ ہوچکے حضرت ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ جو آزاد عورتیں حرام ہیں وہی لونڈیاں بھی حرام ہیں ہاں تعداد میں حکم ایک نہیں یعنی آزاد عورتیں چار سے زیادہ جمع نہیں کرسکتے لونڈیوں کے لئے یہ حد نہیں، حضرت شعی بھی یہی فرماتے ہیں ابو عمرو فرماتے ہیں حضرت عثمان ؓ نے اس بارے میں جو فرمایا ہے وہی سلف کی ایک جماعت بھی کہتی ہے جن میں سے حضرت ابن عباس بھی ہیں لیکن اولاً تو اس کی نقل میں خود انہی حضرات سے بہت کچھ اختلاف ہوا ہے دوسرے یہ کہ اس قول کی طرف سمجھدار پختہ کار علماء کرام نے مطلقاً توجہ نہیں فرمائی اور نہ اسے قبول کیا حجاز عراق شام بلکہ مشرق و مغرب کے تمام فقہاء اس کے خلاف ہیں سوائے ان چند کے جنہوں نے الفاظ کو دیکھ، سوچ سمجھ اور غور و خوض کئے بغیر ان سے علیحدگی اختیار کی ہے اور اس اجماع کی مخالفت کی ہے کامل علم والوں اور سچی سمجھ بوجھ والوں کا تو اتفاق ہے کہ دو بہنوں کو جس طرح نکاح میں جمع نہیں کرسکتے دو لونڈیوں کو بھی جو آپس میں بہنیں ہوں بہ وجہ ملکیت کے ایک ساتھ نکاح میں نہیں لاسکتے اسی طرح مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اس آیت میں ماں بیٹی بہن وغیرہ حرام کی گئی ہیں ان سے جس طرح نکاح حرام ہے اسی طرح اگر یہ لونڈیاں بن کر ما تحتی میں ہوں تو بھی جنسی اختلاط حرام ہے غرض نکاح اور ملکیت کے بعد کی دونوں حالتوں میں یہ سب کی سب برابر ہیں، نہ ان سے نکاح کر کے میل جول حلال نہ ملکیت کے بعد میل جول حلال اسی طرح ٹھیک یہی حکم ہے کہ دو بہنوں کے جمع کرنے ساس اور دوسرے خاوند سے اپنی عورت کی لڑکی ہو اس کے بارے میں خود ان کے جمہور کا بھی یہی مذہب ہے اور یہی دلیل ان چند مخالفین پر پوری سند اور کامل حجت ہے الغرض دو بہنوں کو ایک وقت نکاح میں رکھنا بھی حرام اور دو بہنوں کو بطور لونڈی کہہ کر ان سے ملنا جلنا بھی حرام۔

آیت 23 - سورہ نساء: (حرمت عليكم أمهاتكم وبناتكم وأخواتكم وعماتكم وخالاتكم وبنات الأخ وبنات الأخت وأمهاتكم اللاتي أرضعنكم وأخواتكم من الرضاعة وأمهات نسائكم وربائبكم...) - اردو