سورہ نساء: آیت 176 - يستفتونك قل الله يفتيكم في... - اردو

آیت 176 کی تفسیر, سورہ نساء

يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ ٱللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِى ٱلْكَلَٰلَةِ ۚ إِنِ ٱمْرُؤٌا۟ هَلَكَ لَيْسَ لَهُۥ وَلَدٌ وَلَهُۥٓ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ ۚ وَهُوَ يَرِثُهَآ إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَتَا ٱثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا ٱلثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ ۚ وَإِن كَانُوٓا۟ إِخْوَةً رِّجَالًا وَنِسَآءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ ٱلْأُنثَيَيْنِ ۗ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمْ أَن تَضِلُّوا۟ ۗ وَٱللَّهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمٌۢ

اردو ترجمہ

لوگ تم سے کلالہ کے معاملہ میں فتویٰ پوچھتے ہیں کہو اللہ تمہیں فتویٰ دیتا ہے اگر کوئی شخص بے اولاد مر جائے اور اس کی ایک بہن ہو تو وہ اس کے ترکہ میں سے نصف پائے گی، اور اگر بہن بے اولاد مرے تو بھائی اس کا وارث ہوگا اگر میت کی وارث دو بہنیں ہوں تو وہ ترکے میں سے دو تہائی کی حقدار ہوں گی، اور اگر کئی بھائی بہنیں ہوں تو عورتوں کا اکہرا اور مردوں کا دوہرا حصہ ہوگا اللہ تمہارے لیے احکام کی توضیح کرتا ہے تاکہ تم بھٹکتے نہ پھرو اور اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yastaftoonaka quli Allahu yufteekum fee alkalalati ini imruon halaka laysa lahu waladun walahu okhtun falaha nisfu ma taraka wahuwa yarithuha in lam yakun laha waladun fain kanata ithnatayni falahuma alththuluthani mimma taraka wain kanoo ikhwatan rijalan wanisaan falilththakari mithlu haththi alonthayayni yubayyinu Allahu lakum an tadilloo waAllahu bikulli shayin AAaleemun

آیت 176 کی تفسیر

(آیت) ” نمبر 176۔

یہ اس سورة کا آخری سبق ہے اس سورة کا آغاز خاندانی تعلقات کی استواری سے ہوا تھا ۔ افراد خاندان کے درمیان تعلقات کی درستی سے ہوا تھا اور اس کے درمیان بعض اہم اجتماعی معاملات کا بیان بھی ہوا تھا ۔ اب یہ آخری سبق میراث کلالہ کے بارے میں ۔ حضرت ابوبکر ؓ اور دوسرے اصحاب کے مطابق کلالہ وہ ہے جس کی کوئی اولاد نہ ہو اور نہ اس کے والدین ہوں ۔

کلالہ کے بارے میں بعض احکام سورة کے آغاز میں بیان میراث کے وقت آگئے تھے ۔ مثلا یہ کہ اگر کلالہ کے عصبات نہ ہوں اور اس کی میراث کے حقدار صرف ماں کی طرف سے بہن بھائی ہوں ۔ وہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا ۔

(آیت) ” وان کان رجل یورث کللۃ اوامراۃ ولہ اخ او اخت فلکل واحد منھما السدس فان کانوا اکثر من ذلک فھم شرکآء فی الثلث من بعد وصیۃ یوصی بھا اودین غیر مضآر وصیۃ من اللہ ، واللہ علیم حلیم “۔ ( سورة نمبر 12 آیت نمبر 12 آخری حصہ)

” اور اگر وہ مرد یا عورت جس کی میراث تقسیم طلب ہے بےاولاد ہو اور اس کے ماں باپ بھی زندہ نہ ہوں مگر اس کا ایک بھائی یا بہن موجود ہو تو بھائی بہن ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا ۔ اور اگر بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو تو کل ترکہ کے ایک تہائی میں وہ سب شریک ہوں گے ۔ جب کہ وصیت جو کی گئی ہو پوری کردی جائے اور قرض جو میت نے چھوڑا ہو ادا کردیا جائے بشرطیکہ وہ ضرر رساں نہ ہو ۔ یہ حکم ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ دانا اور بینا اور نرم خو ہے ۔ “ (آیت) ” 11 ‘ 12)

اب کلالہ کی دوسری شکل کا بیان کیا جاتا ہے جو وہاں نہ کیا گیا تھا ۔ اگر متوفی کے والدین اور اولاد نہ ہو اور صرف ایک حقیقی بہن ہو یا باپ کی طرف سے بہن ہو تو وہ نصف ترکہ کی حقدار ہوگی ۔ لیکن اگر ایسی بہن مر جائے تو اس کا تمام ترکہ یہ بھائی لے گا۔ اصحاب قروض کے حصص کے سوا اگر اس عورت کے والدین اور اولاد نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں اگر میت کی ایک کے بجائے دو بہنیں ہوں حقیقی ہوں یا صرف باپ کی طرف سے ہوں تو وہ دو تہائی کی حقدار ہوں گی ۔ اگر بہت سے بھائی بہن موجود ہوں تو مطابق اصول مرد کا حصہ عورت کے دو حصوں کے برابر ہوگا ۔ ہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اگر حقیقی بہن بھائی موجود ہوں تو پھر صرف باپ میں شریک بہن یا بھائی محروم ہوجائیں گے ۔

یہ آیت میراث ختم ہوجاتی ہے اور اس پر اس سورة کا بھی خاتمہ ہوجاتا ہے ۔ اور آخر میں وہی قرآنی تنبیہ اور اختتامیہ آتا ہے کہ تمام باتوں کا مآل اور مرجع اللہ ہی کی طرف ہے اس طرح تمام حقوق واوجبات اور تمام مالی اور غیر مالی امور میں شریعت کی پابندی کو لازمی کردیا جاتا ہے ۔

(آیت) ” یبین اللہ لکم ان تضلوا ، واللہ بکل شیء علیم (4 : 176) ” اللہ تمہارے لئے احکام کی توضیح کرتا ہے کہ تم بھٹکتے نہ پھرو اور اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے “۔ یہ نہایت ہی جامع آیت ہے ۔ اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے میراث میراث کا بھی اور دوسرے امور کا بھی ، خاندانی تعلقات کا بھی اور اجتماعی امور کا بھی ۔ احکام کا بھی اور قانون سازی کا بھی ، یا تو تم ہر معاملے میں اللہ کے احکام کی تابعداری کرو گے یا پھر گمراہی میں پڑو گے ۔ تمہارے زندگی بسر کرنے کے صرف دو طریقے ہیں ۔ کوئی تیسر اطریقہ نہیں ہے ۔ یا تو طریقہ ہدایت ہے ۔ جو اللہ نے بیان کیا ہے اور یا کوئی دوسرا طریقہ ہے جو گمراہی ہے ۔ اللہ نے سچ کہا ہے ۔ (آیت) ” فما ذا بعد الحق الا الضلال “ ” سچائی کے علاوہ گمراہی کے سوا اور کیا ہے “۔

اس آخری آیت میں پھر ایک استفتاء ہے۔ آیت 12 میں قانون وراثت کے ضمن میں ایک لفظ آیا تھا کلالہ ‘ یعنی وہ مرد یا عورت جس کے نہ تو والدین زندہ ہوں اور نہ اس کی کوئی اولاد ہو۔ اس کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ اگر اس کے بہن بھائی ہوں تو اس کی وراثت کا حکم یہ ہے۔ لیکن وہ حکم لوگوں پر واضح نہیں ہوسکا تھا۔ لہٰذا یہاں اس حکم کی مزید وضاحت کی گئی ہے۔ آیت 12 کے حکم کو صرف اخیافی بہن بھائیوں کے ساتھ مخصوص مان لینے کے بعد اس توضیحی حکم میں کلالہ کی وراثت کا ہر پہلو واضح ہوجاتا ہے۔آیت 176 یَسْتَفْتُوْنَکَط قُلِ اللّٰہُ یُفْتِیْکُمْ فِی الْْکَلٰلَۃِ ط اِنِ امْرُؤٌ ہَلَکَ لَیْسَ لَہٗ وَلَدٌ وَّلَہٓٗ اُخْتٌ فَلَہَا نِصْفُ مَا تَرَکَج ایسی صورت میں اس کی بہن ایسے ہی ہے جیسے ایک بیٹی ہو تو اسے ترکے میں سے آدھا حصہ ملے گا۔وَہُوَ یَرِثُہَآ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہَا وَلَدٌ ط۔یعنی اگر کلالہ عورت تھی جس کی کوئی اولاد نہیں ‘ کوئی والدین نہیں تو اس کا وارث اس کا بھائی بن جائے گا ‘ اس کی پوری وراثت اس کے بھائی کو چلی جائے گی۔ فَاِنْ کَانَتَا اثْنَتَیْنِ فَلَہُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَکَ ط وَاِنْ کَانُوْٓا اِخْوَۃً رِّجَالاً وَّنِسَآءً فَلِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ط یعنی بھائی کو بہن سے دو گنا ملے گا۔ البتہ یہ بات اہم ہے کہ آیت 12 میں جو حکم دیا گیا تھا وہ اخیافی بہن بھائیوں کے بارے میں تھا۔ یعنی ایسے بہن بھائی جن کی ماں ایک ہو اور باپ علیحدہ علیحدہ ہوں۔ اس زمانے کے عرب معاشرے میں تعدّ دازواج کے عام رواج کی وجہ سے ایسے مسائل معمولات کا حصہ تھے۔ باقی عینی یا علاتی بہن بھائیوں جن کے ماں اور باپ ایک ہی ہوں یا مائیں الگ الگ ہوں اور باپ ایک ہی ہو کا وہی عام قانون ہوگا جو بیٹے اور بیٹی کا ہے۔ جس نسبت سے بیٹے اور بیٹی میں وراثت تقسیم ہوتی ہے ایسے ہی ان بہن بھائیوں میں ہوگی۔ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اَنْ تَضِلُّوْاط واللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ ۔تعارف قرآن کے دوران میں نے بتایا تھا کہ قرآن حکیم کی ایک تقسیم سات احزاب یا منزلوں کی ہے۔ اس اعتبار سے سورة النساء پر پہلی منزل ختم ہوگئی ہے۔ فالحمد للّٰہ علی ذٰلک !

عصبہ اور کلالہ کی وضاحت ! مسائل وراثت حضرت براء ؓ فرماتے ہیں سورتوں میں سب سے آخری سورت سورة برأت اتری ہے اور آیتوں میں سب سے آخری آیت (یستفتونک) اتری ہے، حضرت جابر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں " میں بیماری کے سبب بیہوش پڑا تھا کہ اللہ کے رسول ﷺ میری عیادت کے لئے تشریف لائے، آپ نے وضو کیا اور وہی پانی مجھ پر ڈالا، جس سے مجھے افاقہ ہوا اور میں نے کہا حضور ﷺ وارثوں کے لحاظ سے میں کلالہ ہوں، میری میراث کیسے بٹے گی ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت فرائض نازل فرمائی (بخاری و مسلم) اور روایت میں بھی اسی آیت کا اترنا آیا ہے۔ پس اللہ فرماتا ہے کہ لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں یعنی کلالہ کے بارے میں۔ پہلے یہ بیان گذر چکا ہے کہ لفظ کلالہ اکیل سے ماخوذ ہے جو کہ سر کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہوتا ہے۔ اکثر علماء نے کہا ہے کہ کلالہ وہ ہے جس میت کے لڑکے پوتے نہ ہوں اور بعض کا قول یہ بھی ہے کہ جس کے لڑکے نہ ہوں، جیسے کہا آیت میں ہے آیت (ولیس لہ ولد) حضرت عمر بن خطاب ؓ کے سامنے جو مشکل مسائل آئے تھے، ان میں ایک یہ مسئلہ بھی تھا۔ چناچہ بخاری و مسلم میں ہے کہ آپ نے فرمایا تین چیزوں کی نسبت میری تمنا رہ گئی کہ رسول اللہ ﷺ ان میں ہماری طرف کوئی ایسا عہد کرتے کہ ہم اسی کی طرف رجوع کرتے دادا کی میراث، کلالہ اور سود کے ابو اب اور روایت میں ہے، آپ فرماتے یہیں کہ کلالہ کے بارے میں میں نے جس قدر سوالات حضور ﷺ سے کئے، اتنے کسی اور مسئلہ میں نہیں کئے یہاں تک کہ آپ نے اپنی انگلی سے میرے سینے میں کچوکا لگا کر فرمایا کہ تجھے گرمیوں کی وہ آیت کافی ہے، جو سورة نساء کے آخر میں ہے اور حدیث میں ہے اگر میں نے حضور ﷺ سے مزید اطمینان کرلیا ہوتا تو وہ میرے لئے سرخ اونٹوں کے ملنے سے زیادہ بہتر تھا۔ حضور ﷺ کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ یہ آیت موسم گرما میں نازل ہوئی ہوگی واللہ اعلم اور چونکہ حضور ﷺ نے اس کے سمجھنے کی طرف رہنمائی کی تھی اور اسی کو مسئلہ کا کافی حل بتایا تھا، لہذا فاروق اعظم اس کے معنی پوچھنے بھول گئے، جس پر اظہار افسوس کر رہے ہیں۔ ابن جریر میں ہے کہ جناب فاروق نے حضور سے کلالہ کے بارے میں سوال کیا پس فرمایا " کیا اللہ نے اسے بیان نہیں فرمایا۔ " پس یہ آیت اتری۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ اپنے خطبے میں فرماتے ہیں جو آیت سورة نساء کے شروع میں فرائض کے بارے میں ہے، وہ ولد و والد کے لئے ہے اور دوسری آیت میاں بیوی کے لئے ہے اور ماں زاد بہنوں کے لئے اور جس آیت سے سورة نساء کو ختم کیا ہے وہ سگے بہن بھائیوں کے بارے میں ہے جو رحمی رشتہ عصبہ میں شمار ہوتا ہے (ابن جریر) اس آیت کے معنی ھلک کے معنی ہیں مرگیا، جیسے فرمان ہے حدیث (كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ) 28۔ القصص :88) یعنی ہر چیز فنا ہونے والی ہے سوائے ذات الٰہی کے جو ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ جیسے اور آیت میں فرمایا آیت (كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ 26ښ وَّيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ 27ۚ) 55۔ الرحمن :26۔ 27) یعنی ہر ایک جو اس پر ہے فانی یہ اور تیرے رب کا چہرہ ہی باقی رہے گا جو جلال و اکرام والا ہے۔ پھر فرمایا اس کا ولد نہ ہو، اس سے بعض لوگوں نے دلیل لی ہے کہ کلالہ کی شرط میں باپ کا نہ ہونا نہیں بلکہ جس کی اولاد نہ ہو وہ کلالہ ہے، بروایت ابن جریر حضرت عمر بن خطاب سے بھی یہی مروی ہے لیکن صحیح قول جمہور کا ہے اور حضرت صدیق اکبر ؓ کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ کلالہ وہ ہے جس کا نہ ولد ہو، نہ والد اور اس کی دلیل آیت میں اس کے بعد کے الفاظ سے بھی ثابت ہوتی ہے جو فرمایا آیت (وَّلَهٗٓ اُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ) 4۔ النسآء :176) یعنی اس کی بہن ہو تو اس کے لئے کل چھوڑے ہوئے، مال کا آدھوں آدھ ہے اور اگر بہن باپ کے ساتھ ہو تو باپ اسے ورثہ پانے سے روک دیتا ہے اور اسے کچھ بھی اجماعاً نہیں ملتا، پس ثابت ہوا کہ کلالہ وہ ہے جس کا ولد نہ ہو جو نص سے ثابت ہے اور باپ بھی نہ ہو یہ بھی نص سے ثابت ہوتا ہے لیکن قدرے غور کے بعد، اس لئے کہ بہن کا نصف حصہ باپ کی موجودگی میں ہوتا ہی نہیں بلکہ وہ ورثے سے محروم ہوتی ہے۔ حضرت زید بن ثابت ؓ سے مسئلہ پوچھا جاتا ہے کہ ایک عورت مرگئی ہے اس کا خاوند ہے اور ایک سگی بہن ہے تو آپ نے فرمایا آدھا بہن کو دے دو اور آدھا خاوند کو جب آپ سے اس کی دلیل پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا میری موجودگی میں رسول اللہ ﷺ نے ایسی صورت میں یہی فیصلہ صادر فرمایا تھا (احمد) حضرت ابن عباس اور حضرت ابن زبیر ؓ سے ابن جریر میں منقول ہے کہ ان دونوں کا فتویٰ صادر فرمایا تھا (احمد) حضرت ابن عباس اور حضرت ابن زبیر ؓ سے ابن جریر میں منقول ہے کہ ان دونوں کا فتویٰ اس میت کے بارے میں جو ایک لڑکی اور ایک بہن چھوڑ جائے، یہ تھا کہ اس صورت میں بہن محروم رہے گی، اسے کچھ بھی نہ ملے گا، اسی لئے کہ قرآن کی اس آیت میں بہن کو آدھا ملنے کی صورت یہ بیان کی گئی ہے کہ میت کی اولاد نہ ہو اور یہاں اولاد ہے۔ لیکن جمہور ان کے خلاف ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس صورت میں بھی آدھا لڑکی کو ملے گا اور بہ سبب فرض اور عصبہ آدھا بہن کو بھی ملے گا۔ ابراہیم اسود کہتے ہیں ہم میں حضرت معاذ بن جبل ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں فیصلہ کیا کہ آدھا لڑکی کا اور آدھا بہن کا۔ صحیح بخاری کی ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ ؓ نے لڑکی اور پوتی اور بہن کے بارے میں فتویٰ دیا کہ آدھا لڑکی کو اور آدھا بہن کو پھر فرمایا ذرا ابن مسعود ؓ کے پاس بھی ہو آؤ وہ بھی میری موافقت ہی کریں گے، لیکن جب حضرت ابن مسعود ؓ سے سوال ہوا اور حضرت ابو موسیٰ کا فیصلہ بھی انہیں سنایا گیا تو آپ نے فرمایا ان سے اتفاق کی صورت میں گمراہ ہوجاؤں گا اور راہ یافتہ لوگوں میں میرا شمار نہیں رہے گا، سنو میں اس بارے میں وہ فیصلہ کرتا ہوں جو رسول اللہ ﷺ نے کیا ہے آدھا تو بیٹی کو اور چھٹا حصہ پوتی کو تو دو ثلث پورے ہوگئے اور جو باقی بچا وہ بہن کو۔ ہم پھر واپس آئے اور حضرت ابو موسیٰ کو یہ خبر دی تو آپ نے فرمایا جب تک یہ علامہ تم میں موجود ہیں، مجھ سے مسائل نہ پوچھا کرو۔ پھر فرمان ہے کہ یہ اس کا وارث ہوگا اگر اس کی اولاد نہ ہو، یعنی بھائی اپنی بہن کے کل مال کا وارث ہے جبکہ وہ کلالہ مرے یعنی اس کی اولاد اور باپ نہ ہو، اس لئے کہ باپ کی موجودگی میں تو بھائی کو ورثے میں سے کچھ بھی نہ ملے گا۔ ہاں اگر بھائی کے ساتھ ہی اور کوئی مقررہ حصے والا اور وارث ہو جیسے خاوند یا ماں جایا بھائی تو اسے اس کا حصہ دے دیا جائے گا اور باقی کا وارث بھائی ہوگا۔ صحیح بخاری میں ہےحضور ﷺ فرماتے ہیں فرائض کو ان کے اہل سے ملا دو ، پھر جو باقی بچے وہ اس مرد کا ہے جو سب سے زیادہ قریب ہو۔ پھر فرماتا ہے اگر بہنیں دو ہوں تو انہیں مال متروکہ کے دو ثلث ملیں گے۔ یہی حکم دو سے زیادہ بہنوں کا بھی ہے، یہیں سے ایک جماعت نے دو بیٹیوں کا حکم لیا ہے۔ جیسے کہ دو سے زیادہ بہنوں کا حکم لڑکیوں کے حکم سے لیا ہے جس آیت کے الفاظ یہ ہیں آیت (فَاِنْ كُنَّ نِسَاۗءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَھُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ) 4۔ النسآء :11) پھر فرماتا ہے اگر بہن بھائی دونوں ہوں تو ہر مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے، یہی حکم عصبات کا ہے خواہ لڑکے ہوں یا پوتے ہوں یا بھائی ہوں، جب کہ ان میں مرد و عورت دونوں موجود ہوں۔ تو جتنا دو عورتوں کو ملے گا اتنا ایک مرد کو۔ اللہ اپنے فرائض بیان فرما رہا ہے، اپنی حدیں مقرر کر رہا ہے، اپنی شریعت واضح کر رہا ہے۔ تاکہ تم بہک نہ جاؤ۔ اللہ تعالیٰ تمام کاموں کے انجام سے واقف اور ہر مصلحت سے دانا، بندوں کی بھلائی برائی کا جاننے والا، مستحق کے استحقاق کو پہچاننے والا ہے۔ ابن جریر کی روایت میں ہے کہ حضور ﷺ اور صحابہ کہیں سفر میں جا رہے تھے۔ حذیفہ کی سواری کے دوسرے سوار کے پاس تھا جو یہ آیت اتری پس حضور ﷺ نے حضرت حذیفہ کو سنائی اور حضرت حذیفہ نے حضرت فاروق اعظم کو اس کے بعد پھر حضرت عمر نے جب اس کے بارے میں سوال کیا تو کہا واللہ تم بےسمجھ ہو، اس لئے کہ جیسے مجھے حضور ﷺ نے سنائی ویسے ہی میں نے آپ کو سنا دی، واللہ میں تو اس پر کوئی زیادتی نہیں کرسکتا، پس حضرت فاروق فرمایا کرتے تھے الٰہی اگرچہ تو نے ظاہر کردیا ہو مگر مجھ پر تو کھلا نہیں۔ لیکن یہ روایت منقطع ہے اسی روایت کی اور سند میں ہے کہ حضرت عمر نے دوبارہ یہ سوال اپنی خلافت کے زمانے میں کیا تھا اور حدیث میں ہے کہ حضرت عمر نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا تھا کہ کلالہ کا ورثہ کس طرح تقسیم ہوگا ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری لیکن چونکہ حضرت کی پوری تشفی نہ ہوئی تھی، اس لئے اپنی صاحبزادی زوجہ رسول ﷺ حضرت حفصہ سے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ خوشی میں ہوں تو تم پوچھ لینا۔ چناچہ حضرت حفصہ نے ایک روز ایسا ہی موقعہ پا کر دریافت کیا تو آپ نے فرمایا شاید تیرے باپ نے تجھے اس کے پوچھنے کی ہدایت کی ہے میرا خیال ہے کہ وہ اسے معلوم نہ کرسکیں گے۔ حضرت عمر نے جب یہ سنا تو فرمانے لگے جب حضور ﷺ نے یہ فرما دیا تو بس میں اب اسے جان ہی نہیں سکتا اور روایت میں ہے کہ حضرت عمر کے حکم پر جب حضرت حفصہ نے سوال کیا تو آپ نے ایک کنگھے پر یہ آیت لکھوا دی، پھر فرمایا کیا عمر نے تم سے اس کے پوچھنے کو کہا تھا ؟ میرا خیال ہے کہ وہ اسے ٹھیک ٹھاک نہ کرسکیں گے۔ کیا انہیں گرمی کی وہ آیت جو سورة نساء میں ہے کافی نہیں ؟ وہ آیت (وَاِنْ كَانَ رَجُلٌ يُّوْرَثُ كَلٰلَةً) 4۔ النسآء :12) ہے پھر جب لوگوں نے حضور ﷺ سے سوال کیا تو وہ آیت اتری جو سورة نساء کے خاتمہ پر ہے اور کنگھی پھینک دی۔ یہ حدیث مرسل ہے۔ ایک مرتبہ حضرت عمر نے صحابہ کو جمع کر کے کنگھے کے ایک ٹکڑے کو لے کر فرمایا میں کلالہ کے بارے میں آج ایسا فیصلہ کر دونگا کہ پردہ نشین عورتوں تک کو معلوم رہے، اسی وقت گھر میں سے ایک سانپ نکل آیا اور سب لوگ ادھر ادھر ہوگئے، پس آپ نے فرمایا اگر اللہ عزوجل کا ارادہ اس کام کو پورا کرنے کا ہوتا تو اسے پورا کرلینے دیتا۔ اس کی اسناد صحیح ہے، مستدرک حاکم میں ہے حضرت عمر نے فرمایا کاش میں تین مسئلے رسول مقبول ﷺ سے دریافت کرلیتا تو مجھے سرخ اونٹوں کے لنے سے بھی زیادہ محبوب ہوتا۔ ایک تو یہ کہ آپ کے بعد خلیفہ کون ہوگا ؟ دوسرے یہ کہ جو لوگ زکوٰۃ کے ایک تو قائل ہوں لیکن کہیں کہ ہم تجھے ادا نہیں کریں گے ان سے لڑنا حلال ہے یا نہیں ؟ تیسرے کلالہ کے بارے میں ایک اور حدیث میں بجائے زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کے سودی مسائل کا بیان ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں حضرت عمر کے آخری وقت میں نے آپ سے سنا فرماتے تھے قول وہی ہے جو میں نے کہا، تو میں نے پوچھا وہ کیا ؟ فرمایا یہ کہ کلالہ وہ ہے جس کی اولاد نہ وہ۔ ایک اور روایت میں ہے حضرت فاروق فرماتے ہیں میرے اور حضرت صدیق کے درمیان کلالہ کے بارے میں اختلاف ہوا اور بات وہی تھی جو میں کہتا تھا۔ حضرت عمر نے سگے بھائیوں اور ماں زاد بھائیوں کو جبکہ وہ جمع ہوں، ثالث میں شریک کیا تھا اور حضرت ابوبکر اس کے خلاف تھے۔ ابن جریر میں ہے کہ خلیفتہ المومنین جناب فاروق نے ایک رقعہ پر دادا کے ورثے اور کلالہ کے بارے میں کچھ لکھا پھر استخارہ کیا اور ٹھہرے رہے اور اللہ سے دعا کی کہ پروردگار اگر تیرے علم میں اس میں بہتری ہے تو تو اسے جاری کر دے پھر جب آپ کو زخم لگایا گیا تو آپ نے اس رقعہ کو منگوا کر مٹا دیا اور کسی کو علم نہ ہوا کہ اس میں کیا تحریر تھا پھر خود فرمایا کہ میں نے اس میں دادا کا اور کلالہ کا لکھا تھا اور میں نے استخارہ کیا تھا پھر میرا خیال یہی ہوا کہ تمہیں اسی پر چھوڑ دوں جس پر تم ہو۔ ابن جریر میں ہے میں اس بارے میں ابوبکر کے خلاف کرتے ہوئے شرماتا ہوں اور ابوبکر کا فرمان تھا کہ کلالہ وہ ہے جس کا ولد و والد نہ ہو۔ اور اسی پر جمہور صحابہ اور تابعین اور ائمہ دین ہیں اور یہی چاروں اماموں اور ساتوں فقہاء کا مذہب ہے اور اسی پر قرآن کریم کی دلالت ہے جیسے کہ باری تعالیٰ عزاسمہ نے اسے واضح کر کے فرمایا اللہ تمہارے لئے کھول کھول کر بیان فرما رہا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہوجاؤ اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے، واللہ اعلم۔

آیت 176 - سورہ نساء: (يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة ۚ إن امرؤ هلك ليس له ولد وله أخت فلها نصف ما ترك ۚ...) - اردو