سورہ نساء: آیت 170 - يا أيها الناس قد جاءكم... - اردو

آیت 170 کی تفسیر, سورہ نساء

يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ قَدْ جَآءَكُمُ ٱلرَّسُولُ بِٱلْحَقِّ مِن رَّبِّكُمْ فَـَٔامِنُوا۟ خَيْرًا لَّكُمْ ۚ وَإِن تَكْفُرُوا۟ فَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۚ وَكَانَ ٱللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا

اردو ترجمہ

لوگو! یہ رسول تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق لے کر آگیا ہے، ایمان لے آؤ، تمہارے ہی لیے بہتر ہے، اور اگر انکار کرتے ہو تو جان لو کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ کا ہے اور اللہ علیم بھی ہے اور حکیم بھی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha alnnasu qad jaakumu alrrasoolu bialhaqqi min rabbikum faaminoo khayran lakum wain takfuroo fainna lillahi ma fee alssamawati waalardi wakana Allahu AAaleeman hakeeman

آیت 170 کی تفسیر

(آیت) ” نمبر 170۔

اس دعوت عامہ سے پہلے ‘ اہل کتاب کی تمام افترا بازیوں کا رد کیا گیا تھا اور یہودیوں کی فطرت اور ان کے منکرات اور ان کی تاریخی بداعمالیوں کا تذکرہ کیا گیا تھا اور یہ بتایا تھا کہ یہ لوگ ہمیشہ ہٹ دھرم رہے ہیں ۔ انہوں نے یہی سلوک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ بھی کیا حالانکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کے قائد عظیم نبی اور ان کے نجات دہندہ تھے ۔ نیز اس دعوت عامہ سے قبل اللہ تعالیٰ نے رسالت کی حقیقت بھی بیان کردی تھی اور یہ بھی بتادیا تھا کہ رسالت کے مقاصد کیا ہوتے ہیں ۔ ان مقاصد کیلئے رسولوں کا بھیجنا ضروری تھا اور یہ بھی ضروری تھا کہ سب سے آخر میں حضرت محمد ﷺ کو بھیجا جائے اس لئے کہ یہ آخری نبی تمام جہانوں کیلئے ہے ۔ آپ کی دعوت “ کافۃ للناس ‘ ہے جبکہ آپ سے قبل جتنے رسول آئے تھے وہ اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجے گئے تھے ۔ لیکن جب سلسلہ رسالت کا خاتمہ طے ہوا تو ضروری تھا کہ خاتم النبین تمام دنیاکیلئے پیغام لانے والے ہوں ۔ (آیت) ” لئلا یکون للناس علی اللہ حجۃ بعد الرسل (4 : 165) ” تاکہ رسولوں کو مبعوث کردینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت نہ رہے۔ “ اگر حضرت محمد ﷺ کی رسالت عام نہ ہوتی اور اس کا اطلاق پوری دنیا کے لوگوں پر نہ ہوتا تو آپ کے بعد جو لوگ اور جو اقوام آتیں ‘ قیامت تک کیلئے ان پر حجت تمام نہ ہوتی بلکہ ان کے ہاتھ اللہ کے خلاف یہ حجت آجاتی کہ ان تک تو کوئی رسول سرے سے بھیجا ہی نہیں گیا ۔ اس لئے حضور اکرم ﷺ کی رسالت کو تمام لوگوں اور تمام زمانوں کیلئے عام کر کے اور آخری رسالت قرار دے کر اس حجت کو تمام کردیا گیا ۔ چناچہ یہ بات کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا یا یہ کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا اللہ تعالیٰ کی صفت عدل و انصاف کے خلاف ہوگا ۔ کیونکہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ رسول بھیجنے کے بغیر ہی لوگوں کو جزا وسزا دین ۔ یہ بات ناقابل انکار ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے قبل کسی نبی اور رسول کی رسالت رسالت عامہ نہ تھی اس لئے رسالت عامہ کی ضرورت تھی ۔ یہ رسالت عامہ اللہ کی صفت عدل اور لوگوں کے ساتھ اس کی رحمت کا تقاضا تھی اور اللہ کی یہ بات سچ تھی کہ ہم نے آپکو رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا ہے ۔ آپ اس دنیا میں بھی رحمت تھے اور آخرت میں بھی رحمت ہوں گے ۔ جیسا کہ اس آیت کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے ۔

درس نمبر 44 ایک نظر میں :

اس سبق میں اہل کتاب میں سے نصاری کے ساتھ ایک راؤنڈ ہے جیسا کہ اس سے پہلے سبق میں یہودیوں کو لیا گیا تھا بہرحالت روئے سخن دونوں فرقوں کی طرف ہے جو مسیح اور مریم کے بارے میں افراط وتفریط میں مبتلا تھے ۔

اس سے پہلے سبق میں قرآن کریم نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کی جانب سے یہودیوں کی خرافات کا جواب دیا تھا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو صلیب پر چڑھانے کے بارے میں صحیح صورت حال بیان کی تھی ۔ یہودیوں ‘ انکے اقوال و عقائد اور ان کی ہٹ دھرمی کے مقابلے میں سچائی کی مدافعت کی گئی تھی۔

اس سبق میں بھی موضوع سخن سچائی ہے اور روئے سخن خود نصاری کی طرف ہے کہ وہ خود بھی حضرت مسیح (علیہ السلام) کے بارے میں غلو سے کام لیتے ہیں اور یہ کہ بعض اقوام کے اندر نصرانیت کے سادہ عقائد کے ساتھ ساتھ بت پرستی بھی انکے نظریات کا جزوبن گئی تھی ۔ جس وقت ان اقوام نے عیسائیت کو قبول کیا اور مضبوط تعلقات قائم ہوگئے تو خصوصا یونانی دیومالائی تصورات اور رومی قصے اور کہانیاں اور قدیم مصریوں کی توہم پرستی اور ہندوؤں کی بت پرستی وغیرہ انکے عقائد میں داخل ہوگئے ۔

قرآن کریم جس وقت نازل ہوا ‘ اس وقت اہل کتاب کے عقائد میں بےحد تحریفات ہوگئی تھیں ۔ انکے عقائد کے اندر جو دیومالائی قصے داخل ہوگئے تھے قرآن کریم نے ان کا بطلان کیا اور انکے تمام منحرف عقائد کی نشاند ہی کی ۔ اسی طرح دین ابراہیم (علیہ السلام) پر جو لوگ قائم تھے اور جو اپنے آپ کو دین حنیف پر سمجھتے تھے ‘ ان کے عقائد کے اندر بھی گہرا انحراف پیدا ہوگیا اور ان کے تصورات میں بھی قصے ‘ کہانیاں اور جاہلیت کے باطل طور طریقے داخل ہوگئے تھے ۔ یہ لوگ بھی جزیرۃ العرب میں موجود تھے ۔

اسلام اس لئے آیا کہ تمام انسانوں کیلئے ‘ انکے الہ کے بارے میں ان کے عقائد درست کر دے اور انسانوں کو ہر قسم کے انحراف اور خلل سے نجات دلائے ۔ عقائد کے اندر ہر قسم کے غلو اور افراط وتفریط کو ختم کر دے اور فکر انسانی کو سیدھی راہ پر ڈال دے ۔ اس طرح اسلام نے ارسطو کے تصور توحید میں اصلاح کی جو اس نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت سے پہلے یونان میں پیش کیا تھا ۔ اسی طرح اسکندریہ میں افلاطون نے ولادت مسیح کے بعد جو افکار پیش کئے ان میں بھی اصلاح کی ۔ نیز ان دونوں کے بعد الہیات کے میدان میں جو افکار بھی نام نہاد بڑے دماغوں نے پیش کئے وہ سب کے سب گمراہی اور مخبوط الحواسی کی واضح مثال تھے ۔ یہ انسانی عقل کا نتیجہ تھا اور یہ تمام افکار اس بات کے محتاج تھے کہ اللہ کی جانب سے ارسال کردہ پیغام ان کی راہنمائی کرے اور ان گم کردہ راہ لوگوں کو سراب سے نکالے ۔

یہاں جو مسئلہ پیش کیا جاتا ہے وہ تثلیت کا مسئلہ ہے ‘ جس میں عیسائیوں نے یہ کہانی گھڑی تھی کہ حضرت مسیح خدا کے بیٹے ہیں ‘ اس غلط عقیدے کی تردید کرکے درست اور سیدھے طریقے سے عقیدے توحید کو سمجھایا گیا ۔

جس وقت اسلام آیا اس وقت عیسائیوں کے مختلف فرقوں کے درمیان جو عقیدہ رائج تھا وہ یہ تھا کہ اللہ اقانیم ثلاثہ کے کے اندر ایک ہے ۔ باپ ‘ بیٹا اور روح القدس ۔ ان تینوں میں سے مسیح بیٹا تھا ۔ اس کے بعد مسیح کے بارے میں انکے مذاہب ومکاتب فکر مختلف تھے ۔ آیا وہ لاہوتی طبیعت رکھتے تھے یا ناسوتی طبیعت کے مالک تھے یا دونوں کا امتزاج تھے ۔ پھر ان کی اپنی حیثیت اختلاف طبعی کے باوجود ایک تھی یا مختلف حیثیات تھیں یا یہ کہ باپ کی طرح قدیم تھے یا نہیں وغیرہ وغیرہ ۔ ان اختلافی مذاہب فکر کے درمیان پھر تصادم بھی ہوتے رہے اور ایک دوسرے پر سخت مظالم بھی کئے گئے ۔ (اس کی تفصیلات اس سورة میں تشریح آیات کے وقت دی جائیں گی) تاریخی تحقیقات اس بات کی مظہر ہیں کہ عقیدہ تثلیث ‘ عقیدہ انبیت مسیح عقیدہ الوہیت مریم ‘ اور تثلیث کی متعدد شکلوں میں مریم کی شمولیت وغیرہ پہ تمام عقائد ابتدائی مسیحیت کا حصہ نہ تھے ۔ یہ عقائد تاریخ کے مختلف ادوار میں مسیحیت میں داخل ہوتے رہے ہیں اور مختلف بت پرست اقوام فوج در فوج مسیحیت میں داخل ہوتی رہیں اور بت پرستی ساتھ لاتی رہیں اس لئے کہ قبول عیسائیت کے ساتھ ان کی نظریاتی تطہیر نہ ہوسکی تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ تثلیث مصر کے بعض قدیم مذاہب سے لی گئی ہے مثلا ان میں ” اور زوریس ‘ ایزلیس اور حوریس “ اور ان مذاہب میں دوسری متعدد تثلیثات اس عقیدے کا ماخذ ہیں ۔

نصاری میں بھی عقیدہ توحید کے حامل فرقے ہمیشہ رہے ہیں اور پوری تاریخ مسیحیت میں ان موحدین پر سخت مظالم ہوتے رہے ہیں ۔ خصوصا رومی کلیسیا کی طرف سے اور ان لوگوں نے جیسا کہ ہمیشہ اہل توحید کا شیوہ رہا ہے ‘ ان مظالم کا بےجگری کے ساتھ مقابلہ کیا۔ یہ مقابلہ کیا ۔ یہ مظالم چھٹی صدی عیسوی تک مختلف سوسائیٹوں کی طرف سے ہوتے رہے جو حکومت کی حامی تھیں ۔ ان موحدین پر جو مظالم ڈھائے گئے ان قتل عام ‘ جلاوطنی اور تمام دوسرے مظالم شامل تھے ۔

آج تک نصاری کے عقلمند لوگوں کے ذہنوں میں عقیدہ تثلیث کے بارے میں ایک شدید خلجان موجود ہے ۔ اور اہل کنیسہ اسے مختلف طریقوں سے لوگوں کے ذہنوں میں بٹھاتے ہیں اور ان کا آخری حربہ یہ ہے کہ یہ لوگ اسے یکے از مجہولات قرار دیتے ہیں اور ان کا کہنا یہ ہے کہ ان کا صحیح انکشاف اس وقت ہوگا جب زمین و آسمان کے تمام راز کھول دیئے جائیں گے ۔

رسالہ ” اصول وقوع “ کے مدیر مسٹر پیٹر جو عقیدہ تثلیث کے شارحین میں سے ممتاز شخص ہیں ‘ وہ کہتے ہیں کہ ” ہم نے اپنی عقل کی حدود کی حد تک اس کو یوں ہی سمجھا ہے اور امید ہے کہ مستقبل میں ہم اس عقیدے کو اچھی طرح سمجھ سکیں جب اللہ تعالیٰ گے جب اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کے رازوں سے پردہ اٹھائیں گے ۔ “ (دیکھئے نصرانیت پہ معاملات ابوزہرہ)

اب اگلی آیات ایک طرح سے اس سورة کا حرف آخر ہیں۔آیت 170 یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَآءَ کُمُ الرَّسُوْلُ بالْحَقِّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَاٰمِنُوْا خَیْرًا لَّکُمْ ط بلکہ آخری الفاظ کا صحیح تر ترجمہ یہ ہوگا کہ ایمان لے آؤ ‘ اسی میں تمہاری خیریت ہے۔ اس آیت کے ایک ایک لفظ میں بہت زور اور جلال ہے اور اب بات بالکل دو ٹوک انداز اور حتمی طور پر کی جا رہی ہے۔ یعنی اب تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اللہ کی طرف سے کوئی راہنمائی نہیں کی گئی ‘ ہمیں کچھ پتا نہیں تھا ‘ ہم پر بات واضح نہیں ہوئی تھی۔ ہمارے آخری نبی ﷺ کے آجانے کے بعد تمہارا یہ بہانہ اب ختم ہوگیا۔وَاِنْ تَکْفُرُوْا فَاِنَّ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِط وَکَان اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا آگے اہل کتاب سے جو خطاب ہے اس کے مخاطب خاص طور پر عیسائی ہیں ‘ جو حضرت مسیح علیہ السلام کی عقیدت و محبت میں حد سے گزر گئے تھے۔

آیت 170 - سورہ نساء: (يا أيها الناس قد جاءكم الرسول بالحق من ربكم فآمنوا خيرا لكم ۚ وإن تكفروا فإن لله ما في السماوات...) - اردو