سورہ نساء: آیت 167 - إن الذين كفروا وصدوا عن... - اردو

آیت 167 کی تفسیر, سورہ نساء

إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ وَصَدُّوا۟ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ قَدْ ضَلُّوا۟ ضَلَٰلًۢا بَعِيدًا

اردو ترجمہ

جو لوگ اِس کو ماننے سے خود انکار کرتے ہیں اور دوسروں کو خدا کے راستہ سے روکتے ہیں وہ یقیناً گمرا ہی میں حق سے بہت دور نکل گئے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna allatheena kafaroo wasaddoo AAan sabeeli Allahi qad dalloo dalalan baAAeedan

آیت 167 کی تفسیر

(آیت) ” نمبر 167 تا 169۔

یہ اوصاف اور یہ فیصلے ‘ باوجود اس کے کہ یہ عام ہیں ان کا اطلاق سب سے پہلے یہودیوں پر ہوتا ہے اور دین اسلام اور اس کے پیروکار ان کے ساتھ یہ موقف ان کا رہا ہے ۔ بلکہ یہودیوں نے ہر سچے دین کے ساتھ یہی رویہ اختیار کیا ۔ یہ یہودی وہ ہوں جو آغاز اسلام کے وقت مدینہ میں موجود تھے یا وہ ہوں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے وقت موجود تھے یا ان کے بعد آج تک وہ کبھی موجود رہے ہوں یا وہ جو آج ہمارے دور میں موجود ہیں ‘ ان میں سے شاذونادر ہی ایسے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے اپنے دل اسلام کیلئے کھول دیئین تھے اور ہدایت سے سرفراز ہوئے ۔

یہ یہودی ہوں یا وہ لوگ ہوں ‘ جن پر بھی صفت کفر اور دین اسلام کی راہ روکنے کی صفت کا اطلاق ہوتا ہے وہ یقینا گمراہ ہوگئے ہیں اور راہ حق سے بہت دور نکل گئے ہیں ‘ انہوں نے اس راہ کو بھلا دیا جس کی طرف اللہ نے ان کی راہنمائی کی تھی اور انہوں نے وہ رستہ ترک کردیا جو زندگی کا راہ مستقیم تھا ۔ وہ فکری ‘ تصوراتی اور اعتقادی لحاظ سے گمراہ ہوگئے ۔ وہ اپنے طرز عمل ‘ اپنے معاشرے اور اپنے اطوار کے لحاظ سے گمراہ ہوگئے ۔ وہ دنیا میں بھی گمراہ ہوگئے اور آخرت میں بھی گمراہ ہوگئے ۔ وہ اس قدر دور چلے گئے کہ انکی واپسی کی کوئی امید نہیں رہی ہے ۔ (آیت) ” ضلوا ضللا بعیدا “۔ (4 : 167) (وہ راہ حق سے بہت ہی دور نکل گئے ہیں)

(آیت) ” ان الذین کفروا وظلموا “۔ (4 : 168) ” جن لوگوں نے کفر کیا اور ظلم کرنے لگے ۔ “ کفر بذات خود ظلم ہے ۔ یہ حق کے ساتھ ظلم ہے ۔ یہ نفس انسانی کے ساتھ ظلم ہے اور تمام لوگوں کے ساتھ ظلم ہے ۔ قرآن کریم بعض اوقات کفر پر ظلم کا اطلاق بھی کرتا ہے ۔ مثلا (آیت) ” ان الشرک لظلم عظیم) ” بیشک شرک ایک بہت بڑا ظلم ہے ۔ “ اور دوسری جگہ ہے ۔ (آیت) ” ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الظلمون “ ۔ (جو اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہ ظالم ہیں ۔ “ اس آیت سے پہلی آیت میں ایسے لوگوں کے بارے میں کہہ دیا گیا تھا کہ جو اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ کافر ہیں ۔ (اس کے بارے میں تفصیلی بحث اس پارے کی سورة مائدہ میں ہوگی) ان لوگوں نے صرف شرک کے ظلم ہی کا ارتکاب نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ انہوں نے اللہ کی راہ روکنے کا ارتکاب بھی کیا ۔ اس طرح گویا یہ لوگ کفر میں بہت ہی دور نکل گئے یا ظلم میں حدوں سے نکل گئے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان کیلئے اخروی سزا بھی مقرر فرما دیتے ہیں ۔

(آیت) ” ان الذین کفروا وصدوا عن سبیل اللہ قد ضلوا ضللا بعیدا (167) ان الذین کفروا وظلموا لم یکن اللہ لیغفرلھم ولا لیھدیھم طریقا (168) الا طریق جھنم خلدین فیھا ابداء وکان ذلک علی اللہ یسیرا (169)

جو لوگ ان کو ماننے سے خود انکار کرتے ہیں اور دوسروں کو خدا کے راستے سے روکتے ہیں وہ یقینا گمراہی میں حق سے بہت دور نکل گئے ہیں ۔ اسی طرح جن لوگوں نے کفر وبغاوت کا طریقہ اختیار کیا اور ظلم وستم پر اتر آئے اللہ انکو ہر گز معاف نہ کرے گا اور انہیں کوئی راستہ ۔ بجز جہنم کے راستہ کے نہ دکھائے گا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ اللہ کیلئے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔ “

اللہ کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ ایسے لوگوں کو بخش دے ‘ جبکہ وہ بہت ہی دور نکل گئے ہیں اور انہوں نے اپنے اوپر خود رحمت ومغفرت کے دروازے بند کرلیے ہیں ۔ اب اللہ کی شان کے یہ لائق نہیں ہے کہ جہنم کی راہ کے سوا انہیں کسی اور راستے کی طرف راہنمائی کرے ۔ اس لئے کہ انہوں نے خود اپنے لئے ہدایت کے تمام راستے بند کرلیے ہیں اور انہوں نے ان تمام راستوں میں رکاوٹیں خود قائم کرلی ہیں اور صرف اپنے لئے جہنم کی راہ کھلی رکھی ہے ۔ اور جہنم کی راہپر بھی وہ بہت دور نکل گئے ہیں اور اس راہ کے اب وہ دائمی مسافر بن گئے ہیں ۔ یہ لوگ اسی پر چلتے رہیں گے اس لیے کہ انہوں نے کفر ‘ ظلم اور اللہ کی راہ کو روکنے کو اپنا مستقل مشغلہ بنا رکھا ہے اور ان سے اب صرف یہی توقع ہے کہ یہ لوگ صرف اسی راستے پر آگے جائیں گے ۔

(آیت) ” وکان ذلک علی اللہ یسیرا “۔ (4 : 169) ” اور اللہ کیلئے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے “۔ وہ اپنے بندوں پر پوری طرح حاوی ہے ۔ اس کے اور اس کے بندوں میں سے کسی کے درمیان نہ نسب ہے اور نہ رشتہ داری ہے۔ اس کے لئے سب کو سزا دینا بہت ہی آسان ہے ۔ کسی بندے کے پاس اللہ کے مقابلے میں نہ کوئی قوت ہے اور نہ کوئی تدبیر ‘ جس کے ذریعہ وہ اللہ کیلئے کوئی مشکلات پیدا کرسکے ۔

یہودی بھی عیسائیوں کی طرح یہ کہتے تھے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں ۔ اور وہ یہ بھی کہتے تھے (آیت) ” لن تمسنا النار الا ایاما معدودات) ” ہمیں آگ نہیں چھوئے گی مگر چند گنے چنے دن “ اور وہ یہ بھی کہتے تھے کہ ہم اللہ کی پسندیدہ قوم ہیں ۔ جب قرآن نازل ہوا تو اس نے ان تمام باتوں کی نفی کردی ۔ اور ہر کسی کو اپنے مقام پر کھڑا کردیا کہ سب بندے ہیں اگر انہوں نے اچھے کام کئے تو اس پر انہیں ثواب ملے گا اور اگر انہوں نے برے کام کئے اور توبہ و استغفار کا موقعہ نہ ملا تو انہیں عذاب دیا جائے گا اور یہ کام اللہ کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔

ان تصریحات کے بعد یہاں آکر پوری انسانیت کو دعوت عام دی جاتی ہے کہ یہ رسول تمہارے پاس ایک سچائی لیکر آیا ہے ۔ اگر اس پر کوئی ایمان لائے گا تو یہ خود اس کیلئے ایک قسم کی بھلائی ہوگی اور جو شخص کفر اختیار کرے گا تو اس سے اللہ کو کوئی نقصان نہ ہوگا ۔ وہ تو سب سے مستغنی ہے ۔ اس کی قدرت سب پر حاوی ہے ۔ اور زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے ‘ اسی کیلئے ہے ۔ وہ ہر چیز کو جانتا ہے اور تمام معاملات کو اپنے علم اور حکمت کے مطابق چلاتا ہے ۔

آیت 167 اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ قَدْ ضَلُّوْا ضَلٰلاً م بَعِیْدًا ۔اب آخری رسول ﷺ کے آنے کے بعد بھی جو لوگ کفر پر اڑے رہے ‘ اللہ کے راستے سے رکے رہے اور دوسروں کو بھی روکتے رہے ‘ وہ راہ حق سے بہک گئے ‘ بھٹک گئے ‘ اور اپنے بھٹکنے میں ‘ بہکنے میں ‘ گمراہی میں بہت دور نکل گئے ہیں۔

آیت 167 - سورہ نساء: (إن الذين كفروا وصدوا عن سبيل الله قد ضلوا ضلالا بعيدا...) - اردو