سورہ نساء: آیت 165 - رسلا مبشرين ومنذرين لئلا يكون... - اردو

آیت 165 کی تفسیر, سورہ نساء

رُّسُلًا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى ٱللَّهِ حُجَّةٌۢ بَعْدَ ٱلرُّسُلِ ۚ وَكَانَ ٱللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا

اردو ترجمہ

یہ سارے رسول خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ اُن کو مبعوث کردینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلہ میں کوئی حجت نہ رہے اور اللہ بہرحال غالب رہنے والا اور حکیم و دانا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Rusulan mubashshireena wamunthireena lialla yakoona lilnnasi AAala Allahi hujjatun baAAda alrrusuli wakana Allahu AAazeezan hakeeman

آیت 165 کی تفسیر

آیت 165 رُسُلاً مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ لِءَلاَّ یَکُوْنَ للنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌم بَعْدَ الرُّسُلِ ط یہاں پر ایک طرف للِنَّاسِ کا ’ ل ‘ نوٹ کیجئے اور دوسری طرف عَلَی اللّٰہِ کا عَلٰی۔ یہ دونوں حروف متضاد معانی پیدا کر رہے ہیں۔ لِلنَّاسِ کے معنی ہیں لوگوں کے حق میں حجت ‘ جبکہ عَلَی اللّٰہِ کے معنی ہیں اللہ کے خلاف حجت۔وَکَان اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا۔ اب آپ آخرت کے احتساب کے فلسفے کو سمجھئے۔ قیامت کے دن ہر کسی کا امتحان ہوگا اور امتحان سے پھر نتائج نکلیں گے ‘ کوئی پاس ہوگا اور کوئی فیل۔ لیکن امتحان سے پہلے کچھ پڑھایا جانا بھی ضروری ہے ‘ کسی کو جانچنے سے پہلے اسے کچھ دیا بھی جاتا ہے۔ چناچہ ہمیں دیکھنا ہے کہ قیامت کے امتحان کے لیے ہمیں کیا پڑھایا گیا ہے ؟ اس آخری جانچ پڑتال سے پہلے ہمیں کیا کچھ دیا گیا ہے ؟ قرآن مجید کے بنیادی فلسفہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انسان کو سمع ‘ بصر اور عقل تین بڑی چیزیں دی ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر روح بھی و دیعت کی ہے اور نفس انسانی میں خیر اور شرکا علم بھی رکھا ہے۔ ان باتوں کی بنا پر انسان وحئ الٰہی کی راہنمائی کے بغیر بھی اللہ کے حضور جواب دہ accountable ہے کہ جب تمہاری فطرت میں نیکی اور بدی کی تمیز رکھ دی گئی تھی تو تم بدی کی طرف کیوں گئے ؟ تو گویا اگر کوئی نبی یا رسول نہ بھی آتا ‘ کوئی کتاب نازل نہ بھی ہوتی ‘ تب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے محاسبہ ناحق نہیں تھا۔ اس لیے کہ وہ بنیادی چیزیں جو امتحان اور احتساب کے لیے ضروری تھیں وہ اللہ تعالیٰ انسان کو دے چکا تھا۔ البتہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ رہی ہے کہ وہ پھر بھی انسانوں پر اتمام حجت کرتا ہے۔ اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ حجت کیا ہے ؟ بنیادی حجت تو عقل ہے جو اللہ نے ہمیں دے رکھی ہے : اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓءِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْءُوْلاً بنی اسرائیل۔ انسانی نفس کے اندر نیکی اور بدی کی تمیز بھی ‘ ودیعت کردی گئی ہے : وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰٹہَا فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰٹہَا۔ الشمس پھر انسان کے اندر اللہ تعالیٰ کی طرف سے روح پھونکی گئی ہے۔ ان تمام صلاحیتوں اور اہلیتوں کی بنا پر جوابدہی ‘ accountability کا جواز برحق ہے۔ کوئی نبی آتا یا نہ آتا ‘ اللہ کی یہ حجت تمام انسانوں پر بہر حال قائم ہے۔ اس کے باوجود بھی اللہ تعالیٰ نے اتمام حجت کرنے کے لیے اپنے نبی اور رسول بھیجے۔ یہ اضافی شے ہے کہ اللہ نے تم ہی میں سے کچھ لوگوں کو چنا ‘ جو بڑے ہی اعلیٰ کردار کے لوگ تھے۔ تم جانتے تھے کہ یہ ہمارے ہاں کے بہترین لوگ ہیں ‘ ان کے دامن کردار پر کوئی داغ دھبہ نہیں ہے ‘ ان کی سیرت و اخلاق کھلی کتاب کی مانند تمہارے سامنے تھے۔ ان کے پاس اللہ نے اپنی وحی بھیجی اور واضح طور پر بتادیا کہ انسان کو کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔ اس طرح اس نے تمہارے لیے اس امتحان کو آسان کردیا ‘ تاکہ اب کسی کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہ جائے ‘ کوئی یہ دلیل پیش نہ کرسکے کہ مجھے تو علم ہی نہیں تھا۔ پروردگار ! میں تو بےدین ماحول میں پیدا ہوگیا تھا ‘ وہاں سب کے سب اسی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ پروردگار ! میں تو اپنی دو وقت کی روٹی کے دھندے میں ہی ایسا مصروف رہا کہ مجھے کبھی ہوش ہی نہیں آیا کہ دین و ایمان اور اللہ و آخرت کے بارے میں سوچتا۔ لیکن جب رسول علیہ السلام آجاتے ہیں اور رسولوں کے آنے کے بعد حق کھل کر سامنے آجاتا ہے ‘ حق و باطل کے درمیان امتیاز بالکل واضح طور پر قائم ہوجاتا ہے تو پھر کوئی عذر باقی نہیں رہتا۔ لوگوں کے پاس اللہ کے سامنے محاسبہ کے مقابلے میں پیش کرنے کے لیے کوئی حجت باقی نہیں رہتی۔ تو یہ ہے اتمام حجت کا فلسفہ اور طریقہ اللہ کی طرف سے۔ رسول علیہ السلام اس کے علاوہ اور کیا کرسکتے ہیں ؟ کسی کو زبردستی تو ہدایت پر نہیں لاسکتے۔ ہاں جن کے اندر احساس جاگ جائے گا وہ رسول علیہ السلام کی تعلیمات کی طرف متوجہ ہوں گے ‘ ان سے فائدہ اٹھائیں گے ‘ سیدھے راستے پر چلیں گے۔ ان کے لیے اللہ کے رسول مبشرہوں گے ‘ اللہ کے فضل اور جنت کی نعمتوں کی بشارت دینے والے : فَرَوْحٌ وَّرَیْحَانٌلا وَّجَنَّتُ نَعِیْمٍ الواقعہ ۔ 1 ور جو لوگ اس کے بعد بھی غلط راستوں پر چلتے رہیں گے ‘ تعصبّ میں ‘ ِ ضد اور ہٹ دھرمی میں ‘ مفادات کے لالچ میں ‘ اپنی چودھراہٹیں قائم رکھنے کے لالچ میں ‘ ان کے لیے رسول علیہ السلام نذیر ہوں گے۔ ان کو خبر دار کریں گے کہ اب تمہارے لیے بد ترین انجام کے طور پر جہنم تیار ہے۔ تو رسولوں علیہ السلام کی بعثت کا بنیادی مقصد یہی ہے ‘ یعنی تبشیر اور انذار۔اس ساری وضاحت کے بعد اب دوبارہ آیت کے الفاظ کو سامنے رکھیے : رُُسُلاً مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ رسول بھیجے گئے بشارت دینے والے اور خبردار کرنے والے بنا کر یہ تبشیر اور انذار کس لیے ؟ لِءَلاَّ یَکُوْنَ للنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌم بَعْدَ الرُّسُلِ ط تاکہ باقی نہ رہ جائے لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت ‘ کوئی عذر ‘ کوئی بہانہ ‘ رسولوں کے آنے کے بعد۔ وَکَان اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا۔ اور اللہ زبردست ہے ‘ حکیم ہے۔ وہ عزیز ہے ‘ غالب ہے ‘ زبردست ہے ‘ بغیر رسولوں کے بھی محاسبہ کرسکتا ہے ‘ اس کا اختیار مطلق ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ حکیم بھی ہے ‘ اس نے محاسبۂ اخروی کے لیے یہ مبنی بر حکمت نظام بنایا ہے۔ اس ضمن میں ایک بات اور نوٹ کرلیجئے کہ رسالت کا ایک تکمیلی مقصد بھی ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ پر کامل ہوا ‘ اور وہ ہے روئے ارضی پر اللہ کے دین کو غالب کرنا۔ آپ ﷺ نے دعوت کا آغاز اسی تبشیر اور انذار ہی سے فرمایا ‘ جیسا کہ سورة الاحزاب میں ارشاد ہے : یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا وَّدَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا بحیثیت رسول ﷺ یہ آپ ﷺ کی رسالت کے بنیادی مقصد کا اظہار ہے ‘ لیکن اس سے بلند تر درجے میں آپ ﷺ کی رسالت کی تکمیلی حیثیت کا اظہار سورة التوبہ آیت 33 ‘ سورة الفتح آیت 28 اور سورة الصف آیت 9 میں ایک جیسے الفاظ میں ہوا ہے : ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وہی ہے اللہ جس نے بھیجا اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو الہدیٰ قرآن حکیم اور دین حق دے کر تاکہ وہ اسے غالب کر دے پورے دین پر۔ تمام انبیاء و رسل علیہ السلام میں یہ آپ ﷺ کی امتیازی شان ہے۔ میری کتاب نبی اکرم ﷺ کا مقصد بعثت میں اس موضوع پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔

آیت 165 - سورہ نساء: (رسلا مبشرين ومنذرين لئلا يكون للناس على الله حجة بعد الرسل ۚ وكان الله عزيزا حكيما...) - اردو