سورہ نساء: آیت 12 - ۞ ولكم نصف ما ترك... - اردو

آیت 12 کی تفسیر, سورہ نساء

۞ وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَٰجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ ٱلرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ ۚ مِنۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَآ أَوْ دَيْنٍ ۚ وَلَهُنَّ ٱلرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ ٱلثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ مِّنۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَآ أَوْ دَيْنٍ ۗ وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَٰلَةً أَوِ ٱمْرَأَةٌ وَلَهُۥٓ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَٰحِدٍ مِّنْهُمَا ٱلسُّدُسُ ۚ فَإِن كَانُوٓا۟ أَكْثَرَ مِن ذَٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَآءُ فِى ٱلثُّلُثِ ۚ مِنۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَىٰ بِهَآ أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَآرٍّ ۚ وَصِيَّةً مِّنَ ٱللَّهِ ۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ

اردو ترجمہ

اور تمہاری بیویوں نے جو کچھ چھوڑا ہو اس کا آدھا حصہ تمہیں ملے گا اگر وہ بے اولاد ہوں، ورنہ اولاد ہونے کی صورت میں ترکہ کا ایک چوتھائی حصہ تمہارا ہے جبکہ وصیت جو انہوں ں نے کی ہو پوری کر دی جائے، اور قرض جو اُنہوں نے چھوڑا ہو ادا کر دیا جائے اور وہ تمہارے ترکہ میں سے چوتھائی کی حق دار ہوں گی اگر تم بے اولاد ہو، ورنہ صاحب اولاد ہونے کی صورت میں اُن کا حصہ آٹھواں ہوگا، بعد اس کے کہ جو وصیت تم نے کی ہو وہ پوری کر دی جائے اور جو قرض تم نے چھوڑا ہو وہ ادا کر دیا جائے اور اگر وہ مرد یا عورت (جس کی میراث تقسیم طلب ہے) بے اولاد بھی ہو اور اس کے ماں باپ بھی زندہ نہ ہوں، مگر اس کا ایک بھائی یا ایک بہن موجود ہو تو بھائی اور بہن ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا، اور بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو کل ترکہ کے ایک تہائی میں وہ سب شریک ہوں گے، جبکہ وصیت جو کی گئی ہو پوری کر دی جائے، اور قرض جو میت نے چھوڑا ہو ادا کر دیا جائے، بشر طیکہ وہ ضرر رساں نہ ہو یہ حکم ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ دانا و بینا اور نرم خو ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walakum nisfu ma taraka azwajukum in lam yakun lahunna waladun fain kana lahunna waladun falakumu alrrubuAAu mimma tarakna min baAAdi wasiyyatin yooseena biha aw daynin walahunna alrrubuAAu mimma taraktum in lam yakun lakum waladun fain kana lakum waladun falahunna alththumunu mimma taraktum min baAAdi wasiyyatin toosoona biha aw daynin wain kana rajulun yoorathu kalalatan awi imraatun walahu akhun aw okhtun falikulli wahidin minhuma alssudusu fain kanoo akthara min thalika fahum shurakao fee alththuluthi min baAAdi wasiyyatin yoosa biha aw daynin ghayra mudarrin wasiyyatan mina Allahi waAllahu AAaleemun haleemun

آیت 12 کی تفسیر

اس کے بعد باقی حصص یوں متعین ہوتے ہیں ۔

(آیت) ” ولکم نصف ماترک ازواجکم ان لم یکن لھن ولد فان کان لھن ولد فلکم الربع مما ترکن من بعد وصیة یوصین بھا اودین ولھن الربع مما ترکتم ان لم یکن کم ولد فان کان لکم ولد فلھن الثمن مما ترکتم من بعد وصیة توصون بھا اودین “۔

ترجمہ : ” اگر خاوند بلا اولاد مر جائے تو بیوی کا حصہ چوتھائی ہے ‘ اگر اولاد ہو ‘ لڑکے یا لڑکیاں ایک یا متعدد ‘ اس عورت سے ہو یا کسی اور عورت سے ‘ یا حقیقی بیٹے کے لڑکے ہوں تو ان صورتوں میں بیوی کا حصہ چوتھائی سے آٹھواں ہوجائے گا ۔ قرض کی ادائیگی اور وصیت بہرحال پہلے ہوگی ۔

نیز دو بیویاں ‘ تین بیویاں اور چار بیویاں ایک ہی بیوی شمار ہوں گی ۔ وہ سب کی سب چہارم یا ہشتم میں شریک ہوں گی اور اب حکم میراث کے سلسلے میں آخری حکم ہے جو مسئلہ کلالہ کے نام سے مشہور ہے ۔

(آیت) ” وان کان رجل یورث کللة اوامراة ولہ اخ اواخت فلکل واحد منھما السدس ، فان کانوا اکثر من ذلک فھم شرکآء فی الثلث من بعد وصیة یوصی بھا اودین غیر مضآر “۔

کلالہ کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص اپنے جوانب سے میراث کا حقدار ہو ‘ حقدار کا سبب اصول میں سے ہونا یا فروع میں سے ہونا نہ ہو ‘ یعنی تعلق ضعیف ہو ‘ اس قدر قوی نہ ہو جس طرح اصول و فروع کا تعلق قوی ہوتا ہے ۔ کسی نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے کلالہ کے بارے میں سوال کیا تھا تو انہوں نے فرمایا :” میں اس سلسلے میں بات اپنی رائے کے مطابق کروں گا ‘ اگر یہ رائے درست ہو تو اللہ کی جانب سے ہوئی اور اگر غلط ہو تو شیطان کا القاء ہوگا ۔ اور اللہ اور رسول اللہ ﷺ اس کے ذمہ دار نہ ہوں گے ۔ کلالہ وہ ہے جس کی نہ اولاد ہو اور نہ والدین ہوں ۔ “ جو حضرت ابوبکر ؓ کے بعد حضرت عمر ؓ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے شرم آتی ہے کہ میں حضرت ابوبکر ؓ کی رائے کی مخالفت کروں “۔ (اس روایت کو ابن جریر نے شعبی سے نقل کیا ہے)

علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں ” حضرت علی ؓ ‘ ابن مسعود ؓ ‘ ابن عباس ؓ ’ زید بن ثابت ؓ ‘ سے منقول ہے ۔ شعبی ‘ نخعی ، حسن ؓ ‘ قتادہ ؓ ‘ جابر ؓ ‘ ابن زید ؓ ‘ اور حکم کی رائے بھی یہی ہے ۔ اہل مدینہ ‘ اہل کوفہ اہل بصرہ کی بھی یہی رائے ہے ۔ فقہائے سبعہ کی رائے بھی یہی ہے ۔ ائمہ اربعہ کی رائے بھی یہی ہے ۔ اور متقدمین ومتاخرین سب کا اس پر اتفاق ہے بلکہ بہت سے لوگوں سے منقول ہے کہ اس پر اجماع منعقد ہوگیا ہے ۔ “

(آیت) ” وان کان رجل یورث کللة اوامراة ولہ اخ اواخت فلکل واحد منھما السدس فان کانوا اکثر من ذلک فھم شرکاء فی الثلث “۔

ترجمہ : ” اور اگر وہ مرد یا عورت جس کی میراث تقسیم طلب ہے کلالہ ہو (بےاولاد ہو اور اس کے ماں باپ بھی زندہ نہ ہوں) مگر اس کا ایک بھائی یا بہن موجود ہو تو بھائی بہن ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا ۔ اور اگر بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو تو کل ترکہ کے ایک تہائی میں وہ سب شریک ہوں گے ۔

یہاں ” اس کا ایک بھائی اور ایک بہن “ سے مراد وہ بھائی اور بہن ہیں جو میت کے ساتھ صرف ماں کی جانب سے رشتہ رکھتے ہوں یعنی اخیافی بہن بھائی ۔ اگر حقیقی بہن بھائی ہوں یا یہ بہن بھائی صرف والد کی جانب سے ہوں تو ان کی وارثت اس سورت کی آخری آیت کے مطابق ہوگی اور اس میں بھائیوں کا حصہ بہن کے مقابلے میں دوگنا ہوگا اور اس آیت کی طرح نہ ہوگا کہ ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا چاہے مرد ہو یا عورت تو یہ حکم گویا اخیافی بہن بھائیوں کیلئے ہوگا ۔ اس لئے کہ اخیافی بہن بھائی صرف بحیثیت ذوالفروض (Sharer) یعنی ہر ایک کیلئے چھٹا حصہ میراث پاتے ہیں ‘ بطور عصبہ ان کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ ذوالعصبات وہ ہوتے ہیں جو تمام ترکہ یا وہ جو ذوالفروض (Sharer) سے بچ جائے کو بطور (Rosiduc) پاتے ہیں ۔

(آیت) ” وان کانوا اکثر من ذلک فھم شرکآء فی الثلث

ترجمہ : ” اور بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو کل ترکہ میں سے ایک تہائی میں شریک ہوں گے ۔ “

چاہے ان کی تعداد کتنی ہی زیادہ ہو ۔ اور معمول بہ قول یہی ہے کہ وہ بحیثیت شریک مساوی مساوی حصہ پائیں گے ۔ اگرچہ فقہاء میں سے بعض کا یہ قول بھی ہے کہ اس صورت میں وہ مساوی طور پر تقسیم نہ کریں گے بلکہ وہ عام اصول ” ایک مرد دو عورتوں کے برابر حصہ پائے گا ۔ “ کے مطابق تقسیم کریں گے ۔ لیکن پہلا معمول بہ قول ہی زیادہ درست معلوم ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ ایک بہن اور بھائی کی صورت میں اس آیت نے جو چھٹا حصہ ہر ایک کیلئے مقرر کیا ہے دوسرا قول اس کے ساتھ ہم آہنگ ہے ۔

اخیافی بھائی جو میت کے ساتھ صرف کے رشتے میں شریک ہوں ‘ دوسرے ورثاء کے مقابلے میں کچھ امتیازی حیثیت رکھتے ہیں ۔

(1) پہلی خصوصیت یہ ہے میراث میں ان کے مراد اور عورتوں کا حصہ برابر ہوتا ہے ۔

(2) انکو صرف اس صورت میں میراث ملتی ہے جب میت کلالہ ہو ‘ اس لئے اگر میت کا والد ‘ دادا ‘ لڑکا اور پوتا موجود ہو تو انہیں میراث میں سے کچھ بھی نہیں ملتا ۔

(3) یہ کہ ان کے حقوق ثلث سے زیادہ نہیں ہوتے اگرچہ انکی تعداد بہت بڑھ جائے ۔

(آیت) ” من بعد وصیة یوصی بھا اودین غیر مضار “۔ ” جبکہ وصیت جو کی گئی ہو پوری کردی جائے اور قرض جو میت نے چھوڑا ہو ادا کردیا جائے بشرطیکہ وہ ضرر رساں نہ ہو ۔ “ اس آیت کے ذریعہ متنبہ کیا گیا ہے کہ وصیت اس لئے نہ کی جائے کہ ورثاء کو نقصان پہنچ جائے ۔ بلکہ انصاف اور مصلحت کے مطابق وصیت ہونا چاہئے ۔ اور وصیت سے بھی پہلے قرض ادا ہو اور تقسیم وراثت سے پہلے بہرحال دونوں طے ہوں ‘ یعنی وصیت اور قرضہ ۔

اب دوسری آیت کے آخر میں بھی وہی اختتامیہ آتا ہے جو پہل آیت کے آخر میں آیا تھا ۔

(آیت) ” وصیة من اللہ ، واللہ علیم حلیم (21)

اختتامیہ کا یہ مضمون مکرر اس لئے لایا گیا ہے کہ نظام میراث کے بارے میں تاکید مزید مطلوب ہے ۔ اور احکام میراث کیلئے لفظ وصیت استعمال کیا گیا ہے ۔ اور یہ وصیت اللہ کی جانب سے ہے اور اس کا حساب و کتاب بھی اسی کے سامنے ہوگا ۔ نہ یہ وصیت کسی خواہش نفس کے مطابق ہے اور نہ ہی کسی کی خواہشات نفسانیہ کی پیروی میں ہے ۔ یہ حقیقی علم وآگاہی پر مبنی ہے ۔ اس لئے اس قانون میراث کی اطاعت فرض ہے ۔ کیونکہ اس کا ماخذ وہ ذات ہے جسے حق ہے کہ وہ انسانوں کیلئے قانون سازی اور ضابطہ بندی کرے ۔ اور اس کا نظام اور ضابطے کو انسانوں کی جانب سے قبول کرنا بھی لازمی ہے کیونکہ یہ علیم اور حلیم کی جانب سے ہے ۔ حکیمانہ ہے اور مشفقانہ ہے۔

اسلامی نظریہ حیات کا اصول اساسی یہ ہے کہ اس میں تمام قوانین کا ماخذ ذات باری ہے ۔ اس لئے اس پوری قانون سازی کے عمل کے دوران میں اس حقیقت کی بار بار تاکید کی جار رہی ہے ۔ اگر اس اصولی قاعدے کو تسلیم نہ کیا گیا تو یہ کفر نافرمانی اور دین سے خروج کے مترادف ہوگا آنے والی دونوں آیات اس بارے میں فیصلہ کردیتی ہیں ۔ اور یہ دونوں آیات اس سورت میں دیئے جانے والے پورے نظام میراث کے بارے میں زور دار اختتامیہ ہیں ۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ نظام میراث درحقیقت حدود الہیہ کے زمرے میں آتا ہے ۔

آیت 12 وَلَکُمْ نِصْفُ مَا تَرَکَ اَزْوَاجُکُمْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہُنَّ وَلَدٌ ج۔بیوی فوت ہوگئی ہے اور اس کے کوئی اولاد نہیں ہے تو جو وہ چھوڑ گئی ہے اس میں سے نصف شوہر کا ہوجائے گا۔ باقی جو نصف ہے وہ مرحومہ کے والدین اور بہن بھائیوں میں حسب قاعدہ تقسیم ہوگا۔ ِ فَاِنْ کَانَ لَہُنَّ وَلَدٌ فَلَکُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْنَ مِنْم بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْنَ بِہَآ اَوْ دَیْنٍ ط اگر مرنے والی نے اولاد چھوڑی ہو تو موجودہ شوہر کو مرحومہ کے مال سے ادائے دَین و انفاذ وصیت کے بعد کل مال کا چوتھائی حصہ ملے گا اور باقی تین چوتھائی دوسرے ورثاء میں تقسیم ہوگا۔وَلَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّکُمْ وَلَدٌج فَاِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ مِّنْم بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوْصُوْنَ بِہَآ اَوْ دَیْنٍ ط اگر مرنے والے نے کوئی اولاد نہیں چھوڑی تو ادائے دَین و انفاذ وصیت کے بعد اس کی بیوی کو اس کے ترکے کا چوتھائی ملے گا ‘ اور اگر اس نے کوئی اولاد چھوڑی ہے تو اس صورت میں بعد ادائے دَین و وصیت کے بیوی کو آٹھواں حصہ ملے گا۔ اگر بیوی ایک سے زائد ہے تو بھی مذکورہ حصہ سب بیویوں میں تقسیم ہوجائے گا۔وَاِنْ کَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ کَلٰلَۃً اَوِ امْرَاَۃٌ ایسی ہی کلالہ وہ مرد یا عورت ہے جس کے نہ تو والدین زندہ ہوں اور نہ اس کی کوئی اولاد ہو۔ وَّلَہٗ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ ج فَاِنْ کَانُوْآ اَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ فَہُمْ شُرَکَآءُ فِی الثُّلُثِ rّ مفسرین کا اجماع ہے کہ یہاں کلالہ کی میراث کے حکم میں بھائی اور بہنوں سے مراد اخیافی ماں شریک بھائی اور بہن ہیں۔ رہے عینی اور علاتی بھائی بہن تو ان کا حکم اسی سورت کے آخر میں ارشاد ہوا ہے۔ عربوں میں دراصل تین قسم کے بہن بھائی ہوتے ہیں۔ ایک عینیجن کا باپ بھی مشترک ہو اور ماں بھی ‘ جنہیں ہمارے ہاں حقیقیکہتے ہیں۔ دوسرے علاتیبہن بھائی ‘ جن کا باپ ایک اور مائیں جدا ہوں۔ اہل عرب کے ہاں یہ بھی حقیقی بہن بھائی ہوتے ہیں اور ان کا حکم وہی ہے جو عینیبہن بھائیوں کا ہے۔ وہ انہیں سوتیلا نہیں سمجھتے۔ ان کے ہاں سوتیلا وہ کہلاتا ہے جو ایک ماں سے ہو لیکن اس کا باپ دوسرا ہو۔ یہ اخیافیبہن بھائی کہلاتے ہیں۔ ایک شخص کی اولاد تھی ‘ وہ فوت ہوگیا۔ اس کے بعد اس کی بیوی نے دوسری شادی کرلی۔ تو اب اس دوسرے خاوند سے جو اولاد ہے وہ پہلے خاوند کی اولاد کے اخیافی بہن بھائی ہیں۔ تو کلالہ کی میراث کے حکم میں یہاں اخیافی بھائی بہن مراد ہیں۔مِنْم بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصٰی بِہَآ اَوْ دَیْنٍلا یہ دو شرطیں بہرصورت باقی رہیں گی۔ مرنے والے کے ذمے اگر کوئی قرض ہے تو پہلے وہ ادا کیا جائے گا ‘ پھر اس کی وصیت کی تعمیل کی جائے گی ‘ اس کے بعد میراث وارثوں میں تقسیم کی جائے گی۔ غَیْرَ مُضَآرٍّ ج۔یہ سارا کام ایسے ہونا چاہیے کہ کسی کو ضرر پہنچانے کی نیت نہ ہو۔وَصِیَّۃً مِّنَ اللّٰہِ ط یہ تاکید ہے اللہ کی طرف سے۔وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَلِیْمٌ rّاس کے حلم اور بردباری پر دھوکہ نہ کھاؤ کہ وہ تمہیں پکڑ نہیں رہا ہے۔ ع نہ جا اس کے تحمل پر کہ ہے بےڈھب گرفت اس کی !“ اس کی پکڑ جب آئے گی تو اس سے بچنا ممکن نہیں ہوگا : اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ البروج یقیناً تمہارے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے۔

وراثت کی مزید تفصیلات اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے مرد و تمہاری عورتیں جو چھوڑ کر مریں اگر ان کی اولاد نہ ہو تو اس میں سے آدھوں آدھ حصہ تمہارا ہے اور اگر ان کے بال بچے ہوں تو تمہیں چوتھائی ملے گا، وصیت اور قرض کے بعد۔ ترتیب اس طرح ہے پہلے قرض ادا کیا جائے پھر وصیت پوری کی جائے پھر ورثہ تقسیم ہو، یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر تمام علماء امت کا اجماع ہے، پوتے بھی اس مسئلہ میں حکم میں بیٹیوں کی ہی طرح ہیں بلکہ ان کی اولاد در اولاد کا بھی یہی حکم ہے کہ ان کی موجودگی میں خاوند کو چوتھائی ملے گا۔ پھر عورتوں کو حصہ بتایا کہ انہیں یا چوتھائی ملے گا یا آٹھواں حصہ چوتھائی تو اس حالت میں کہ مرنے والے خاوند کی اولاد نہ ہو، اور آٹھواں حصہ اس حالت میں کہ اولاد ہو، اس چوتھائی یا آٹھویں حصے میں مرنے والے کی سب بیویاں شامل ہیں چار ہوں تو ان میں یہ حصہ برابر برابر تقسیم ہوجائے گا تین یا دو ہوں تب بھی اور اگر ایک ہو تو اسی کا یہ حصہ ہے آیت (من بعد وصیتہ) کی تفسیر اس سے پہلی آیت میں گزر چکی ہے۔ (کلالہ) مشتق ہے اکلیل سے اکلیل کہتے ہیں اس تاج وغیرہ کو جو سر کو ہر طرف سے گھیر لے، یہاں مراد یہ ہے کہ اس کے وارث ارد گرد حاشیہ کے لوگ ہیں اصل اور فرع یعنی جڑیا شاخ نہیں، صرف ابوبکر صدیق ؓ سے کلالہ کا معنی پوچھا جاتا ہے تو آپ فرماتے ہیں میں اپنی رائے سے جواب دیتا ہوں اگر ٹھیک ہو تو اللہ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہو تو میری اور شیطان کی طرف سے ہے اور اللہ اور رسول ﷺ اس سے بری الذمہ ہیں، کلالہ وہ ہے جس کا نہ لڑکا ہو نہ باپ، حضرت عمر ؓ جب خلیفہ ہوئے تو آپ نے بھی اس سے موافقت کی اور فرمایا مجھے ابوبکر کی رائے سے خلاف کرتے ہوئے شرم آتی ہے (ابن جریر وغیرہ) ابن عباس فرماتے ہیں حضرت ﷺ کا سب سے آخری زمانہ پانے والا میں ہوں میں نے آپ ﷺ سے سنا فرماتے تھے بات وہی ہے جو میں نے کہی ٹھیک اور درست یہی ہے کہ کلالہ اسے کہتے ہیں جس کا نہ ولد ہو والد، حضرت علی، ابن مسعود، ابن عباس، زید بن ثابت رضوان اللہ علیہم اجمعین، شعبی، نخعی، حسن، قتادہ، جابر بن زید، حکم رحمتہ اللہ علیہم اجمعین بھی یہی فرماتے ہیں، اہل مدینہ اہل کوفہ اہل بصرہ کا بھی یہی قول ہے ساتوں فقہاء چاروں امام اور جمہور سلف و خلف بلکہ تمام یہی فرماتے ہیں، بہت سے بزرگوں نے اس پر اجماع نقل کیا ہے اور ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی آیا ہے، ابن لباب فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ کلالہ وہ ہے جس کی اولاد نہ ہو لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے اور ممکن ہے کہ راوی نے مراد سمجھی ہی نہ ہو پھر فرمایا کہ اس کا بھائی یا بہن ہو یعنی ماں زاد، جیسے کہ سعد بن وقاص وغیرہ بعض سلف کی قرأت ہے، حضرت صدیق وغیرہ سے بھی یہی تفسیر مروی ہے تو ان میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ ہے اگر زیادہ ہوں تو ایک ثلث میں سب شریک ہیں، ماں زاد بھائی باقی وارثوں سے کئی وجہ سے مختلف ہیں، ایک تو یہ کہ یہ باوجود اپنے ورثے کے دلانے والے کے بھی وارث ہوتے ہیں مثلاً ماں دوسرے یہ کہ ان کے مرد و عورت یعنی بہن بھائی میراث میں برابر ہیں تیسرے یہ کہ یہ اسی وقت وارث ہوتے ہیں جبکہ میت کلالہ ہو پس باپ دادا کی یعنی پوتے کی موجودگی میں یہ وارث نہیں ہوتے، چوتھے یہ کہ انہیں ثلث سے زیادہ نہیں ملتا تو گویہ کتنے ہی ہوں مرد ہوں یا عورت، حضرت عمر کا فیصلہ ہے کہ ماں زاد بہن بھائی کا ورثہ آپس میں اس طرح بٹے گا کہ مرد کے لئے دوہرا اور عورت کے لئے اکہرا، حضرت زہری فرماتے ہیں حضرت عمر ایسا فیصلہ نہیں کرسکتے تاوقتیکہ انہوں نے حضور ﷺ سے یہ سنا ہو، آیت میں اتنا تو صاف ہے کہ اگر اس سے زیادہ ہوں تو ثلث میں شریک ہیں، اس صورت میں علماء کا اختلاف ہے کہ اگر میت کے وارثوں میں خاوند ہو اور ماں ہو یا دادی ہو اور دو ماں زاد بھائی ہوں اور ایک یا ایک سے زیادہ باپ کی طرف سے بھائی ہوں تو جمہور تو کہتے ہیں کہ اس صورت میں خاوند کو آدھا ملے گا اور ماں یا دادی کو چھٹا حصہ ملے گا اور ماں زاد بھائی کو تہائی ملے گا اور اسی میں سگے بھائی بھی شامل ہوں گے قدر مشترک کے طور پر جو ماں زاد بھائی ہے، امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ کے زمانہ میں ایک ایسی ہی صورت پیش آئی تھی تو آپ نے خاوند کو آدھا دلوایا اور ثلث ماں زاد بھائیوں کو دلوایا تو سگے بھائیوں نے بھی اپنے تئیں پیش کیا آپ نے فرمایا تم ان کے ساتھ شریک ہو، حضرت عثمان سے بھی اسی طرح شریک کردینا مروی ہے، اور دو روایتوں میں سے ایک روایت ایسی ہے ابن مسعود اور زید بن ثابت اور ابن عباس ؓ سے بھی مروی ہے، حضرت سعید بن مسیب، قاضی شریح، مسروق، طاؤس، محمد بن سیرین، ابراہیم نخعی، عمر بن عبدالعزیز، ثوری اور شریک رحہم اللہ کا قول بھی یہی ہے، امام مالک اور امام شافعی اور امام اسحاق بن راھویہ بھی اسی طرف گئے ہیں، ہاں حضرت علی بن ابو طالب ؓ اس میں شرکت کے قائل نہ تھے بلکہ آپ اولاد ام کو اس حالت میں ثلث دلواتے تھے اور ایک ماں باپ کی اولاد کو کچھ نہیں دلاتے تھے اس لئے کہ یہ عصبہ ہیں اور عصبہ اس وقت پاتے ہیں جب ذوی الفرض سے بچ جائے، بلکہ وکیع بن جراح کہتے ہیں حضرت علی سے اس کے خلاف مروی ہی نہیں، حضرت ابی بن کعب حضرت ابو موسیٰ اشعری کا قول بھی یہی ہے، ابن عباس سے بھی مشہور یہی ہے، شعبی، ابن ابی لیلی، ابو حنیفہ، ابو یوسف، محمد بن حسن، حسن بن زیادہ، زفر بن ہذیل، امام احمد، یحییٰ بن آدم، نعیم بن حماد، ابو ثور، داؤد ظاہری بھی اسی طرف گئے ہیں ابو الحسن بن لبان فرضی نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے، ملاحظہ ہو ان کی کتاب الایجاز پھر فرمایا یہ وصیت کے جاری کرنے کے بعد ہے، وصیت ایسی ہو جس میں خلاف عدل نہ ہو کسی کو ضرر اور نقصان نہ پہنچایا گیا ہو نہ کسی پر جبر و ظلم کیا گیا ہو، کسی وارث کا نہ ورثہ مارا گیا ہو نہ کم و بیش کیا گیا ہو، اس کے خلاف وصیت کرنے والا اور ایسی خلاف شرع وصیت میں کوشش کرنے والا اللہ کے حکم اور اس کی شریعت میں اس کے خلاف کرنے والا اور اس سے لڑنے والا ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں وصیت میں کسی کو ضرر و نقصان پہنچانا کبیرہ گناہ ہے (ابن ابی حاتم) نسائی میں حضرت ابن عباس کا قول بھی اسی طرح مروی ہے بعض روایتوں میں حضرت ابن عباس سے اس فرمان کے بعد آیت کے اس ٹکڑے کی تلاوت کرنا بھی مروی ہے، امام ابن جریر کے قول کی مطابق ٹھیک بات یہی ہے کہ یہ مرفوع حدیث نہیں موقوف قول ہے، ائمہ کرام کا اس میں اختلاف ہے کہ وارث کے لئے جو اقرار میت کر جائے آیا وہ صحیح ہے یا نہیں ؟ بعض کہتے ہیں صحیح نہیں ہے اس لئے کہ اس میں تہمت لگنے کی گنجائش ہے، حدیث شریف میں بہ سند صحیح آچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق پہنچا دیا ہے اب وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں، مالک احمد بن حنبل ابوحنیفہ کا قول یہی ہے، شافعی کا بھی پہلا قول یہی تھا لیکن آخری قول یہ ہے کہ اقرار کرنا صحیح مانا جائے گا طاؤس حسن عمر بن عبدالعزیز کا قول بھی یہی ہے، حضرت امام بخاری ؒ بھی اسی کو پسند کرتے ہیں اور اپنی کتاب صحیح بخاری شریف میں اسی کو ترجیح دیتے ہیں، ان کی دلیل ایک یہ روایت بھی ہے کہ حضرت رافع بن خدیج ؓ نے وصیت کی کہ فزاریہ نے جس چیز پر اپنے دروازے بند کر رکھے ہوں وہ نہ کھولے جائیں، حضرت امام بخاری ؒ نے پھر فرمایا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں بہ سبب وارثوں کے ساتھ بدگمانی کے اسکا یہ اقرار جائز نہیں، لیکن میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے تو فرمایا ہے بدگمانی سے بچو بدگمانی تو سب سے زیادہ جھوٹ ہے، قرآن کریم میں فرمان اللہ موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ جس کی جو امانت ہو وہ پہنچا دو ، اس وارث اور غیر وارث کی کوئی تخصیص نہیں، یہ یاد رہے کہ یہ اختلاف اس وقت ہے جب اقرار فی الواقع صحیح ہو اور نفس الامر کے مطابق ہو اور اگر صرف حیلہ سازی ہو اور بعض وارثوں کو زیادہ دینے اور بعض کو کم پہنچانے کے لئے ایک بہانہ بنا لیا ہو تو بالاجماع اسے پورا کرنا حرام ہے اور اس آیت کے صاف الفاظ بھی اس کی حرمت کا فتویٰ دیتے ہیں (اقرار فی الواقع صحیح ہونے کی صورت میں اس کا پورا کرنا ضروری ہے جیسا کہ دوسری جماعت کا قول ہے اور جیسا کہ حضرت امام بخاری ؒ کا مذہب ہے۔ مترجم) پھر فرمایا یہ اللہ عزوجل احکام ہیں اللہ عظیم و اعلیٰ علم و حلم والا ہے۔

آیت 12 - سورہ نساء: (۞ ولكم نصف ما ترك أزواجكم إن لم يكن لهن ولد ۚ فإن كان لهن ولد فلكم الربع مما تركن...) - اردو