سورہ نساء: آیت 11 - يوصيكم الله في أولادكم ۖ... - اردو

آیت 11 کی تفسیر, سورہ نساء

يُوصِيكُمُ ٱللَّهُ فِىٓ أَوْلَٰدِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ ٱلْأُنثَيَيْنِ ۚ فَإِن كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ ٱثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۖ وَإِن كَانَتْ وَٰحِدَةً فَلَهَا ٱلنِّصْفُ ۚ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَٰحِدٍ مِّنْهُمَا ٱلسُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُۥ وَلَدٌ ۚ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُۥ وَلَدٌ وَوَرِثَهُۥٓ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ ٱلثُّلُثُ ۚ فَإِن كَانَ لَهُۥٓ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ ٱلسُّدُسُ ۚ مِنۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِى بِهَآ أَوْ دَيْنٍ ۗ ءَابَآؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۚ فَرِيضَةً مِّنَ ٱللَّهِ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا

اردو ترجمہ

تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ: مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے، اگر (میت کی وارث) دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو انہیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے، اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے اگر میت صاحب اولاد ہو تواس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملنا چاہیے اور اگر وہ صاحب اولاد نہ ہو اور والدین ہی اس کے وارث ہو ں تو ماں کو تیسرا حصہ دیا جائے اور اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹے حصہ کی حق دار ہوگی (یہ سب حصے اُس وقت نکالے جائیں) جبکہ وصیت جو میت نے کی ہو پوری کر دی جائے اور قرض جو اُس پر ہو ادا کر دیا جائے تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تمہاری اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تم سے قریب تر ہے یہ حصے اللہ نے مقرر کر دیے ہیں، اور اللہ یقیناً سب حقیقتوں سے واقف اور ساری مصلحتوں کا جاننے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yooseekumu Allahu fee awladikum lilththakari mithlu haththi alonthayayni fain kunna nisaan fawqa ithnatayni falahunna thulutha ma taraka wain kanat wahidatan falaha alnnisfu waliabawayhi likulli wahidin minhuma alssudusu mimma taraka in kana lahu waladun fain lam yakun lahu waladun wawarithahu abawahu faliommihi alththuluthu fain kana lahu ikhwatun faliommihi alssudusu min baAAdi wasiyyatin yoosee biha aw daynin abaokum waabnaokum la tadroona ayyuhum aqrabu lakum nafAAan fareedatan mina Allahi inna Allaha kana AAaleeman hakeeman

آیت 11 کی تفسیر

(آیت) ” یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین “ اور اس فقرے کے بعد پھر تمام وارثوں کے حصص کا بیان ہوتا ہے ۔ اور یہ تقسیم اور تقرری اس عمومی اصول کے تحت ہے کہ یہ اللہ کی جانب سے ہدایت اور وصیت ہے ۔ اس کی تفصیلات دو طویل آیات میں دی گئی ہیں ۔ پہلی آیت میں اصول اور فروع کے درمیان تقسیم میراث ہے ۔ یعنی آیا اور اولاد کے درمیان ‘ اور دوسری آیت میں ازدواجی رشتہ اور کلالہ کے حصص میراث کا بیان ہے ۔ اور پھر بعض تتمہ احکام اس سورت کے آخر میں کلالہ کے بارے میں آتے ہیں (تفصیلات آرہی ہیں ۔ )

(آیت) ” یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین فان کن نسآء فوق اثنتین فلھن ثلثا ما ترک وان کانت واحدة فلھا النصف ولابویہ لکل واحد منھما السدس مما ترک ان کان لہ ولد ، فان لم یکن لہ ولد وورثہ ابوہ فلامہ الثلث فان کان لہ اخوة فلامہ السدس من بعد وصیة یوصی بھا او دین ابآوکم وابنآوکم لاتدرون ایھم اقرب لکم نفعا فریضة من اللہ ان اللہ کان علیما حکیما (11) ولکم نصف ماترک ازواجکم ان لم یکن لھن ولد فان کان لھن ولد فلکم الربع مما ترکن من بعد وصیة یوصین بھا اودین ، ولھن الربع مما ترکتم ان لم یکن لکم ولد ، فان کان لکم ولد فلھن الثمن مما ترکتم من بعد وصیة توصون بھا دین ، وان کان رجل یورث کللة اوامراة ولہ اخ او اخت فلکل واحد منھما السدس فان کانوا اکثر من ذلک فھم شرکآء فی الثلث من بعد وصیة یوصی بھا اودین غیر مضآر وصیة من اللہ ، واللہ علیم حلیم “۔ (21)

ترجمہ :” تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمہیں ہدایت اور اللہ دانا وبینا اور نرم خو ہے “۔

یہ دو آیات اور اس سورت کی تیسری آیت میں علم میراث کے اصولی قواعد کو منضبط کیا گیا ہے ، اس سورت کی تیسری آیت یہ ہے ۔

(آیت) ” یستفتونک قل اللہ یفتیکم فی الکللة ان امرو¿ا ھلک لیس لہ ولد ولہ اخت فلھا نصف ما ترک وھو یرثھا ان لم یکن لھا ولد فان کانتا اثنتین فلھما الثلثن مما ترک وان کانوا اخوة رجالا ونسآء فللذکر مثل حظ الانثیین ، یبین اللہ لکم ان تضلوا ، واللہ بکل شیء علیم (671)

ترجمہ : ” لوگ تم سے کلالہ کے معاملے میں فتوی پوچھتے ہیں ‘ کہو اللہ تمہیں فتوی دیتا ہے ‘ اگر کوئی شخص بےاولاد مر جائے اور اس کی ایک بہن ہو تو وہ اس کے ترکہ میں سے نصف پائے گی اور اگر بہن بےاولاد مر جائے تو بھائی اس کا وارث ہوگا ۔ اگر میت کی وارث دو بہنیں ہوں تو وہ ترکے میں سے دو تہائی کی حقدار ہوں گی اور اگر بھائی اور بہنیں ہوں تو عورتوں کا اکہرا اور مردوں کا دوہرا حصہ ہوگا ۔ اللہ تمہارے لئے احکام کی توضیح کرتا ہے تاکہ تم بھٹکتے نہ پھرو اور اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے ۔ “

ان تین آیات میں علم میراث کے اصولوں کو منضبط کردیا گیا ہے ۔ ان اصولوں کے مزید فروعی مسائل کی وضاحت سنت رسول ﷺ میں اور اقوال صحابہ میں کی گئی ہے ۔ اور اس کے بعد ان اصول و فروع سے فقہائے کرام نے اجتہاد کر کے تفصیلی مسائل بیان کئے ہیں ۔ ان فروعی مسائل کی تفصیلات کے ذکر کی یہاں گنجائش نہیں ہے ۔ تفصیلات کا مطالعہ کتب فقہ میں کیا جاسکتا ہے ۔ یہاں فی ضلال القرآن میں ہم فقط ان آیات کی تشریح کریں گے ۔ نیز ان آیات کے آخر میں جو تعقیبات ہیں اور ان میں اسلامی نظام زندگی کے جو اصولی نظریات بیان ہوئے ہیں ہم انکی تشریح کریں گے ۔

(آیت) ” یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین “۔ ” تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں اللہ وصیت کرتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہوگا ۔ “

اس افتتاحی آیت سے معلوم ہوتا ہے جیسا کہ اس سے پہلے ہم کہہ آئے ہیں کہ علم میراث کا یہ اصل الاصول ہے ۔ اور یہ کہ اس علم کا منبع کیا ہے ۔ اور یہ کہ یہ علم کس مصدر سے نکلا ہے ۔ اور اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے ساتھ وادین سے بھی زیادہ رحیم اور شفیق ہے ۔ اور اس نے ان کیلئے جو حصص تجویز کئے ہیں تو یہی ان کے مفاد میں ہیں ۔ اور اس قسم کی تقسیم خود والدین بھی نہیں کرسکتے ۔ یہ دونوں مفہوم ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں اور ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں ۔

اللہ ہی ہے جو وصیت کرتا ہے ۔ وہی حصص مقرر کرتا ہے اور اور وہی لوگوں کے درمیان میراث تقسیم بھی کرتا ہے بعینہ اسی طرح وہ ہر معاملے میں وصیت بھی کرتا ہے ۔ اور فرائض وواجبات بھی مقرر کرتا ہے اور اسی طرح وہ اس کائنات کے اندر مخلوقات کی روزی بھی تقسیم کرتا ہے ۔ اور یہ تمام ضابطے اور شرائع وقوانین بھی اسی کی جانب سے آتے ہیں ۔ یہ اللہ ہی ہے جس سے لوگ ان کے تمام حالات زندگی میں ضابطے اخذ کرتے ہیں ۔ اور ان میں سے ایک حال لوگوں کے درمیان ترکے کی تقسیم بھی ہے ۔ خود ان کی اولاد کے درمیان اور یہی دین اسلام ہے ۔ اور اگر لوگ اپنی زندگی کے تمام حالات میں اللہ تعالیٰ کی وصیت اور ضابطوں کو قبول نہیں کرتے تو یہ دین نہ ہوگا ۔ اور یہ حالت اسلامی حالت نہ ہوگی کہ وہ اپنے امور حیات میں ‘ چاہے وہ بڑے امور ہوں یا چھوٹے امور ہوں ‘ کسی دوسرے ماخذ سے ضابطے اخذ کریں ۔ یہ صورت حال یا شرک ہوگی یا کفر صریح ہوگی ، اور یہ پھر وہی جاہلیت ہوگی جس کی جڑیں عوام الناس کی زندگیوں سے اکھاڑنے کیلئے اس دنیا میں اسلام آیا تھا ۔

یہاں اللہ جس چیز کی وصیت فرما رہے ہیں جسے فرض فرما رہے ہیں اور حکم دے رہے ہیں کہ لوگوں کی زندگیوں میں اس کے مطابق حکم چلے ‘ وہ تمام احکام لوگوں کیلئے نہایت نفع بخش اور مفید ہیں ۔ خصوصا وہ چیزیں جو ان کی مخصوص شخص امور کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں مثلا ان کی دولت کی تقسیم اور اس میں ان کی اولاد کے حصص وغیرہ اور یہ تقسیم ان تقسیمات سے زیادہ مفید ہے جو وہ آپس میں خود کر رہے ہیں ۔ اور جن چیزوں کو وہ اپنی اولاد کیلئے پسند کرتے ہیں ۔ اس لئے کہ لوگوں کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ یہ کہیں کہ ہم اپنے لئے خود جو چاہیں اختیار کریں گے اور یہ کہ ہم خوب جانتے ہیں کہ ہمارے لئے کیا مفید ہے اور کیا غیر مفید ہے ۔ اس لئے کہ یہ بات علاوہ اس کے کہ فی نفسہ باطل ہے ‘ یہ بےجا جسارت ہے ‘ خود سری ہے اور اللہ جل شانہ کے مقابلے میں زیادہ علم کا دعوی ہے ۔ اور یہ ایک ایسا ” ادعاء “ ہے جو نہایت بےباک اور جاہل شخص ہی کرسکتا ہے ۔

عوفی نے حضرت ابن عباس ؓ سے (آیت) ” یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین “ کے بارے میں ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جب احکام میراث نازل ہوئے اور ان میں اللہ تعالیٰ نے جو حصص مقرر کئے وہ کردیئے ، بیٹے کا حصہ ‘ بیٹی کا حصہ اور والدین کا حصہ تو لوگوں نے اسے بہت ہی برا مانا ۔ یا بعض لوگوں نے اسے ناپسند کیا ۔ ان کا اعتراض یہ تھا کہ عورت کو چہارم اور ہشتم دیا جاتا ہے اور بیٹی کو نصف دیا جاتا ہے ، اور چھوٹے بچے کا حصہ بھی مقرر ہوگیا حالانکہ ان لوگوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو لڑائی کے وقت کام آتا ہو اور کوئی بھی نہیں ہے جو لڑائی کے بعد مال غنیمت ہتھیا سکتا ہو ، ان احکام کے بارے میں بالکل خاموش ہو جاو شاید رسول اللہ ﷺ ان احکام کو بھول جائیں یا ہم ان کے بارے میں آپ ﷺ سے سفارش کریں اور آپ ان میں تبدیلی کردیں ۔ چناچہ انہوں نے کہا : اے رسول خدا ! ﷺ آپ ایک لڑکی کو باپ کے ترکے میں سے نصف دیتے ہیں ‘ حالانکہ وہ گھوڑے پر سوار نہیں ہوتی اور نہ وہ جنگ میں حصہ لیتی ہے ۔ پھر ایک نابالغ بچے کو میراث دی جارہی ہے اور وہ ہمارے لئے کچھ بھی نہیں کرسکتا ۔ اور جاہلیت میں تو وہ اس طرح کرتے تھے کہ وہ میراث صرف ان لوگوں کو دیتے تھے جو جنگ میں حصہ لیتا تھا اور وہ تقسیم میں سب سے بڑے کو اس کے بعد جس کا نمبر ہو اس کو دیتے تھے ۔ (روایت ابن ابی حاتم وابن جریر)

غرض عربی جاہلیت کی منطق یہ تھی ‘ اس لئے قانون میراث کے احکامات ان میں سے بعض لوگوں کو کھٹکتے تھے ۔ یہ لوگ اللہ کے فرائض اور اس کی عادلانہ تقسیم کے مقابلے میں آگئے حالانکہ یہ تقسیم نہایت حکیمانہ تھی ۔ اور آج کی جاہلیت جدیدہ کی بھی یہی منطق ہے جو بعض لوگوں کے دل میں خلجان پیدا کرتی ہے ۔ اس لئے یہ منطق بھی اللہ کے فرائض اور تقسیم کے مقابلے میں سامنے آتی ہے ۔ اگرچہ جاہلیت جدیدہ بعض پہلووں سے جاہلیت عربیہ سے مختلف نوعیت رکھتی ہے ۔ آج کی جاہلیت کی منطق یہ ہے کہ ہم ترکہ ان لوگوں کو تقسیم کرکے کیوں دیں جنہوں نے اس ترکے کی کمائی میں کوئی محنت ومشقت نہیں کی ، اور نہ اس میں کوئی تکلیف برداشت کی ۔ اور یہ ذہنیت بھی ایسی ہے ‘ جس نے حکمت الہیہ کو نہیں پایا ۔ نیز یہ منطق بھی دراصل سخت گستاخی اپنے اندر لئے ہوئے اور گستاخی اور جسارت میں جاہلیت قدیمہ اور جدیدہ دونوں برابر ہیں ۔

(آیت) ” للذکر مثل حظ الانثیین “۔ ” مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہوگا ۔ یعنی اگر مرد کی وارث صرف اس کی اولاد ہو بیٹے اور بیٹیاں تو سب ترکہ انہیں ملے گا اور مرد کا حصہ عورتوں کے حصے میں دوگنا ہوگا ۔ یعنی لڑکی کا ایک حصہ اور لڑکے کے دو حصے ۔

یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ ان دونوں کے حصوں میں یہ فرق و امتیاز اس لئے نہیں کیا گیا کہ کسی صنف کو دوسرے پر فضیلت ہے بلکہ حصص کا یہ فرق اس لئے روا رکھا گیا ہے کہ اسلامی نظام نے عائلی زندگی میں مرد اور عورت پر جو ڈیوٹیاں رکھی ہیں یہ فرق حصص ان کے مطابق نہایت ہی متوازن اور عادلانہ ہے ۔

عائلی زندگی سے آگے اسلامی معاشرے کے اجتماعی امور میں بھی عورت کے مقابلے میں مرد پر زیادہ فرائض عائد کئے گئے ہیں ۔ ایک مرد عورت کے ساتھ نکاح کرتا ہے اور وہ اس کا نفقہ بھی دیتا ہے ۔ اس کی اولاد کا نفقہ بھی دیتا ہے ۔ اور یہ ذمہ داریاں اس وقت بھی اس کے ساتھ لگی ہوئی ہوتی ہیں ۔ جب یہ مرد اس عورت کو طلاق بھی دے دیتا ہے ۔ رہی عورت تو وہ یا تو خود اپنی ضروریات کی ذمہ دار ہوتی اور یا یہ صورت ہوتی ہے کہ شادی سے پہلے بھی اور شادی کے بعد بھی اس کے نفقے کا ذمہ دار مرد ہی ہوتا ہے ۔ اور وہ خاوند اور اپنی اولاد کے نفقات کی کسی صورت میں بھی ذمہ دار نہیں ہوتی ۔ اب صورت یہ ہے کہ مرد عورت کے مقابلے میں خاندان کی ضروریات کے دو حصے کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔ اسی طرح اجتماعی معاملات میں بھی مرد کی ذمہ داریاں عورت کے مقابلے میں دو گنا ہیں ۔ اس لئے اللہ کے مقرر کردہ یہ حصص ایک طرف عادلانہ بھی ہیں اور دوسری جانب بمصداق حصہ بقدر جسہ یہ تقسیم منصفانہ بن جاتی ہے ۔ اور اس تقسیم پر ہر اعتراض یا تو جہالت پر مبنی ہے اور یا یہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بےجا جسارت اور گستاخی کی وجہ سے وارد کیا گیا ہے ، نیز اس سے مقصد یہ ہے کہ اسلام کے اجتماعی اور خاندانی نظام کی بنیادوں کو اکھیڑ دیا جائے اور پرسکون زندگی کے اندر افراتفری پیدا کردی جائے ۔

تقسیم کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ باپ دادا کی میراث اولاد پر کس طرح تقسیم ہوگی فرماتے ہیں ۔

(آیت) ” فان کن نسآء فوق اثنتین فلھن ثلثا ما ترک وان کانت واحدة فلھا النصف “۔

ترجمہ : ” اگر میت کی وارث دو سے زیادہ لڑکیاں ہوں تو انہیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے ۔ “

یعنی اگر صرف دو یا دو سے زیادہ لڑکیاں ہوں اور لڑکے نہ ہوں تو انہیں دو تہائی دیا جائے گا ۔ اور اگر صرف ایک لڑکی ہو اور لڑکا نہ ہو تو پھر نصف اس کا ہوگا بقایا عصبات کو ملے گا ۔ قریب ترین عصبہ کو ۔ عصبات یہ لوگ ہیں باپ ‘ دادا ‘ بھائی حقیقی باپ شریک بھائی ‘ چچا اور پھر باپ داد کی اولاد ‘ اس آیت کی عبارت یہ ہے کہ ” اگر وارث دو سے زیادہ لڑکیاں ہوں تو ان کے دو تہائی ہے ۔ “ سوال یہ ہے کہ اگر دو ہوں تو ان کیلئے حکم کیا ہے ۔ ان کا حصہ بھی دو تہائی ہے ‘ جو حدیث سے ثابت ہے ۔ نیز وہ ان دو بہنوں کے حصے پر قیاس کر کے بھی ثابت ہوتا جس کا ذکر اس سورت کی آخری آیت میں مسئلہ کلالہ میں ذکر ہوا ۔

ابو داود ‘ ترمذی اور ابن ماجہ نے عبداللہ ابن محمد ابن عقیل کی روایت حضرت جابر سے نقل کی ہے ۔ کہتے ہیں حضور ﷺ کے پاس سعد ابن ربیع کی بیوی آئی اور عرض کیا حضور ﷺ یہ سعد ابن ربیع کی دو لڑکیاں ہیں ۔ وہ آپ کے ساتھ احد میں شہید ہوگئے ہیں ۔ ان کے چچا نے سب مال لے لیا ہے ‘ اگر ان کے پاس مال نہ ہوگا تو ان کے ساتھ شادی کون کرے گا ؟ آپ نے فرمایا ” اللہ اس کے بارے میں ضرور کوئی فیصلہ کرے گا ۔ “ اس موقعہ پر آیت میراث نازل ہوئی ۔ حضور ﷺ نے ان کے چچا کو بلا بھیجا اور حکم دیا سعد کی دو بیٹیوں کو دو تہائی دیدو اور بیوی کو آٹھواں دیدو اور باقی تمہارا ہے ۔ یہ خود حضور ﷺ کی تقسیم ہے ۔ آپ ﷺ نے دو لڑکیوں کو دو تہائی دیا ۔ اس لئے اگر دو یا دو سے زیادہ لڑکیاں ہوں تو ان کو دو ثلث ملیں گے ۔

رہا سورت کی آخری آیت پر قیاس تو اس میں بہنوں کے بارے میں ہے ۔

(آیت) ” فان کانتا اثنتین فلھما الثلثن مما ترک “

ترجمہ ” اور اگر وہ بہنیں دو ہیں تو انہیں ترکے میں سے دو تہائی ملے گا ۔ “

لہذا کسی باپ کی اگر دو لڑکیاں ہو تو انہیں بطریق اولی دو تہائی ملے گا ۔ دو بہنوں پر قیاس کرتے ہوئے ۔ اس لئے کہ اگر ایک لڑکی ہے تو بھی نصف حصہ ہے ۔ اور اگر ایک بہن (کلالہ میں) تو بھی نصف حصہ ہے ۔ اور دو لڑکیوں کا حصہ بھی وہی ہوگا جو دو بہنوں کا ہوگا ۔

اولاد کے حصہ کے بیان کے بعد اب والدین کے حصص کا ذکر شروع ہوتا ہے ۔ بشرطیکہ وہ موجود ہوں ۔ یہ حصص اولاد میت کی موجودگی اور عدم موجودگی کی صورت میں مختلف ہیں ۔

” اگر میت صاحب اولاد ہو تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملنا چاہئے اور اگر وہ صاحب اولاد نہ ہو اور والدین ہی اس کے وارث ہوں تو مال کا تیسرا حصہ دیا جائے گا ۔ “

میراث میں والدین کے حالات متعدد ہوتے ہیں پہلا حال یہ ہوتا ہے کہ والدین بھی ہوں اور میت کی اولاد بھی ہو۔ اس صورت میں دونوں کو چھٹا چھٹا حصہ ملے گا ۔ بقیہ میت کے لڑکے یا لڑکے لڑکیوں میں حسب حصص تقسیم ہوگا ۔ مرد کا حصہ عورت کے مقابلے میں دو گنا ہوگا ۔ اب اگر میت کی اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو اسے بقیہ کا نصف ملے گا اور والدین میں سے ہر ایک کو چھٹا ملے گا ۔ اب بقیہ (61) والد کو بطور عصبہ مل جائے گا اس صورت میں اولاد بطور ذوالفروض بھی حصہ پائے گا اور بطور عصبہ بھی حصہ پائے گا ۔ ہاں اگر میت کی دو یا دو سے زیادہ لڑکیاں ہوں تو وہ تو انہیں دو ثلث اور والدین میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا ۔

دوسری صورت یہ ہے کہ میت کی اولاد ‘ بھائی بہن اور خاوند بیوی نہ ہوں ‘ اس صورت میں والدہ بطور ذوالفروض ثلث کی حقدار ہوگی اور باقی سب والد کو بطور عصبہ ملے گا ۔ اس صورت میں والد کا حصہ والدہ سے دو گناہ ہوجائے گا ۔ اب اگر والدین کے علاوہ خاوند بھی ہو یا بیوی بھی ہو ‘ تو خاوند کا نصف ہوگا ‘ اور اگر بیوی ہو تو اس کا چہارم ہوگا اور والدہ کا ثلث ہوگا ۔ (یا تو تمام ترکہ کا ثلث ہوگا یا بقیہ ترکہ یعنی خاوند یا بیوی کا حصہ نکال کر بقیہ کا ثلث ہوگا ‘ جیسا کہ فقہا کے دو اقوال ہیں) اور ماں کے بعد جو بچے گا وہ والد کا ہوگا بطور عصبہ بشرطیکہ کہ والد کا حصہ والدہ سے کم نہ ہوگا ۔

اور تیسری صورت یہ ہے کہ ماں باپ اور میت کے بھائی بہنوں کے ساتھ پائے جائیں ۔ یہ بھائی ماں اور باپ دونوں میں شریک ہوں یا باپ میں شریک یا صرف ماں میں شریک ہوں ۔ اس صورت میں باپ کی موجودگی میں ان بھائیوں کو کچھ نہ ملے گا اور یہ محروم ہوں گے ۔ اس لئے کہ لڑکے کے بعد میت کیلئے والد قریب ترعصبہ ہیں اور قریب کی موجودگی میں دور کو نہیں ملتا ۔ لیکن محروم ہونے کے باوجود یہ بھائی میت کی ماں پر اثر انداز ہوں گے اور اس کا حصہ ثلث سے چھٹے تک گھٹ جائے گا ۔ اس صورت میں والدہ کو چھٹا حصہ ملے گا ۔ اور بقیہ سب کچھ والد کو ملے گا ‘ بشرطیکہ کہ میت کا خاوند یا بیوی نہ ہوں ۔ ہاں اگر بھائی فقط ایک ہو تو والدہ کا حصہ ثلث ہی رہے گا ‘ جس طرح اس صورت میں تھا جس میں میت کی اولاد اور بھائی نہ ہوں ۔

لیکن والدین کے یہ حصص قرضے کی ادائیگی اور وصیت پورا کرنے کے بعد ہوں گے ۔

(آیت) ” من بعد وصیة یوصی بھا او دین “۔

ترجمہ : ” یہ سب حصے اس وقت نکالے جائیں گے جبکہ وصیت جو میت نے کی ہو پوری کردی جائے اور جو قرض اس پر ہو ادا کردیا جائے ۔ “

علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے ۔ ” علمائے جدید وقدیم نے اس بات پر اجماع کرلیا ہے کہ قرضہ وصیت پر مقدم ہے ۔ ” اور وصیت پر قرضے کو مقدم کرنے کی حکمت بہرحال واضح ہے ۔ اس لئے کہ قرضے میں ایک تیسرے شخص کے حقوق کا سوال ہوتا ہے ‘ اس لئے کہ میت کے مال میں سے اس کی ادائیگی لازمی ہے ‘ کیونکہ خود اس نے قرضہ لیا ہوتا ہے ۔ بشرطیکہ میت کا مال موجود ہو ‘ یہ اس لئے کہ شریعت نے میت کو قرضے کی ذمہ داریوں سے بری الذمہ کرنے کی بہت تاکید کی ہے تاکہ معاشرے کی اجتماعی زندگی میں باہم اعتماد بحال رہے اور سوسائٹی کے اندر باہم اعتماد کی فضا باقی رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک شخص کی وفات کے بعد بھی شریعت اس کے ذمہ واجب الادا قرضوں کو موقوف نہیں کردیتی ۔

حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے ‘ وہ فرماتے ہیں ایک شخص نے کہا : ” حضور بتائیے اگر میں مارا گیا تو میرے سب گناہ معام ہوں گے “ تو حضور ﷺ نے فرمایا : ” ہاں اگر آپ قتل ہوجائیں ‘ جبکہ آپ مشکلات پر صبر کر رہے ہوں ۔ آپ کی نیت ٹھیک ہو اور آپ آگے بڑھ رہے ہوں ‘ بھاگ نہ رہے ہوں ۔ “ اسکے بعد اس شخص نے دو بار پوچھا ‘ آپ ﷺ نے کیا فرمایا تو حضور ﷺ نے دوبارہ اسی بات کو دہرایا اور مزید یہ فرمایا ‘ ” ماسوائے قرضے کے جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھے اس کی اطلاع دی ہے “ (روایت مسلم ‘ مالک ‘ ترمذی اور نسائی)

ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے ۔ حضور کے پاس ایک شخص کو لایا گیا ‘ آپ ﷺ نے فرمایا ” اس کا جنازہ تم لوگ پڑھو ‘ اس پر تو قرضہ واجب ہے ۔ “ میں نے اس پر کہا ’ ” حضور ﷺ یہ قرضہ مجھ پر ہوا ۔ “ تو حضور ﷺ نے فرمایا پورا کرو گے ۔ “ میں نے عرض کیا ” میں پورا کروں گا ۔ “

اور وصیت کا پورا کرنا اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ میت کا ارادہ اس کے ساتھ متعلق ہوگیا ہے ۔ وصیت کی گنجائش شریعت نے اس لئے رکھی ہے کہ بعض حالات میں بعض رشتہ دار محروم ہوجاتے ہیں ۔ اور یہ محرومی بعض دوسرے رشتہ داروں کی موجودگی کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ بعض اوقات یہ محروم لوگ معذور اور مستحق ہوتے ہیں یا ان کو کچھ نہ کچھ دینے میں پورے خاندان کی مصلحت ہوتی ہے اور بعض اوقات اس کی وجہ سے حسد ‘ کینہ اور خاندان کے اندر نزاع پیدا ہونے سے رک جاتے ہیں ۔ البتہ یہ اصول مسلم ہے کہ کسی وارث کے حق میں وصیت معتبر نہیں ہے ۔ اور وصیت محدود بھی ترکہ کی ایک تہائی تک ہے ۔ ان دو باتوں کی وجہ سے میت بھی کسی وارث کو محروم نہیں کرسکتا ۔

(آیت) ” ابآوکم وابنآوکم لا تدرون ایھم اقرب لکم نفعا ، فریضة من اللہ ان اللہ کان علیما حکیما “۔

ترجمہ : ” تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تمہارے ماں باپ اور تمہاری اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تم سے قریب تر ہے ۔ یہ حصے اللہ نے مقرر کردیئے ہیں اور اللہ یقینا سب حقیقتوں سے واقف ہے ‘ ساری مصلحتوں کو جاننے والا ہے ۔

اس آیت کے آخر میں مختلف المقاصد ٹچ دیئے گئے ہیں پہلا ٹچ اس مقصد کیلئے ہے جسے محسوس کرکے قرآن کریم کی جانب سے ‘ حصص کے اس الاٹمنٹ سے خوش ہوجائیں اور اسے بطیب خاطر قبول کرلیں ‘ ہو سکتا ہے کہ بعض لوگ محبت کے جذبے سے مغلوب ہو کر باپ کے مقابلے میں اولاد کو ترجیح دیں ، کیونکہ بچوں کی طرف ہر انسان کا فطری رجحان زیادہ ہوتا ہے ۔ اور بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا اپنے والدین کی نسبت اخلاقی اور آداب کا شعور زیادہ پختہ ہوتا اور وہ اولاد کے مقابلے میں والدین کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں ۔ بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو والدین کے پاس ادب اور بچوں کی طرف فطری میلان کے درمیان فیصلہ نہیں کر پاتے ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک خاندان رسم و رواج کی ذہنیت کی وجہ سے ایک متعین لائن اختیار کرلیتا ہے ‘ جس طرح نزول قرآن کے وقت مروج قانون میراث میں صرف خاندانی ذہنیت اس وقت کے رسم و رواج کے تحت کام کر رہی تھی ۔ اس سے پہلے ہم عربوں کے بعض رواجوں کا تذکرہ کرچکے ہیں ۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے مناسب سمجھا کہ اہل ایمان کے دلوں کو تسلیم ورضا اور امن و سکون سے بھر دیں تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ان احکامات کو خوشی خوشی قبول کرتے چلے جائیں ۔ اللہ انہیں یہ شعور دیتے ہیں کہ ہر چیز کا مکمل علم اللہ کی ذات ہی کے پاس ہے ۔ اور یہ کہ انہیں بات کا پورا علم نہیں ہے کہ اقرباء میں سے کون ان کیلئے زیادہ مفید ہے اور کون کم ‘ نہ انہیں اس بات کا علم ہے کہ کونسی تقسیم زیادہ مفید ہے ۔

(آیت) ” ابآوکم وابنآوکم لاتدرون ایھم اقرب لکم نفعا “

ترجمہ : ” تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تمہاری اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تم سے قریب تر ہے ۔ “

دوسرا ٹچ جو اس مضمون کو دیا گیا وہ یہ ہے کہ اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کون تمہارے لئے مفید اور کون مفید تر ہے ۔ اصل مسئلہ دین ‘ نظام قانون اور شریعت کا ہے اور یہ جو حصص مقرر ہو رہے ہیں یہ (آیت) ” فریضة من اللہ “۔ ” یہ حصص تو اللہ نے مقرر کردیئے ہیں ۔ ’ اللہ وہ ذات ہے جس نے ماں باپ کو بھی پیدا کیا اور اولاد کو بھی پیدا کیا ۔ وہی ہے جو مال و دولت دینے والا ہے ۔ وہ فرائض وحصص عائد کرنیوالا ہے اور وہی تقسیم کنندہ ہے ۔ اور وہی ہے جسے قانون بنانے کا حق ہے انسان کو تو یہ اختیار ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے لئے کوئی قانون بنائیں نہ وہ اس میں آزاد ہیں کہ وہ اپنی خواہشات کے مطابق نظام حکومت تجویز کریں ‘ اس لئے کہ وہ نہیں جانتے کہ کس میں ان کی مصلحت ہے یہ تو صرف وہی ہے ۔

(آیت) ” ان اللہ کان علیما حکیما “۔

ترجمہ : ” جو سب حقیقتوں سے واقف ہے ۔

یہ تیسری ٹچ ہے جو اس تبصرے کے اندر دی گئی ہے ، کہ باوجود اس امر کے یہ قانون ایک خدائی فیصلہ ہے اور ہر حال میں بھی ان کیلئے واجب الاطاعت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ گہری حکمت اور وسیع تر مصلحت پر بھی مبنی ہے ۔ اور اللہ نے یہ حکم اپنے وسیع علم کی بنا پر دیا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں انسان کا علم محدود ہے ۔ اس میں اس کی گہری حکمت کار فرما ہے جبکہ انسان محض خواہش نفس کے پیرو ہوا کرتے ہیں ۔

اس قانون سازی کے اندر بار بار تبصرہ ہوتا ہے کہ معاملے کو اپنی اصل مدار کی طرف لوٹانا چاہئے اور اس کی اصل مدار نظریاتی ہے ۔ اور یہ نظریاتی اساس دین کے اس مفہوم پر مبنی ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اپنے تمام فیصلے اللہ سے کرائے جائیں اور اس کی حکمت پر راضی ہو کر فرائض اسی سے اخذ کئے جائیں ۔ ” یہ حصے اللہ نے مقرر کردیئے ہیں اور اللہ یقینا سب حقیقتوں سے واقف ہے اور سب مصلحتوں کا جاننے والا ہے ۔ “

سورة النساء کا دوسرا رکوع بڑا مختصر ہے اور اس میں صرف چار آیات ہیں ‘ لیکن معنوی طور پر ان میں ایک قیامت مضمر ہے۔ یہ قرآن حکیم کا اعجاز ہے کہ چار آیتوں کے اندر اسلام کا پورا قانون وراثت بیان کردیا گیا ہے جس پر پوری پوری جلدیں لکھی گئی ہیں۔ گویا جامعیت کی انتہا ہے۔آیت 11 یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَوْلاَدِکُمْ ق لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِج فَاِنْ کُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ ج وَاِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَہَا النِّصْفُ ط۔ظاہر ہے اگر ایک ہی بیٹا ہے تو وہ پورے ترکے کا وارث ہوجائے گا۔ لہٰذا جب بیٹی کا حصہ بیٹے سے آدھا ہے تو اگر ایک ہی بیٹی ہے تو اسے آدھی وراثت ملے گی ‘ آدھی دوسرے لوگوں کو جائے گی۔ وہ ایک علیحدہ معاملہ ہے۔وَلِاَبَوَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنْ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ ج۔اگر کوئی شخص فوت ہوجائے اور اس کے والدین یا دونوں میں سے کوئی ایک زندہ ہو تو اس کی وراثت میں سے ان کا بھی معین حصہ ہے۔ اگر وفات پانے والا شخص صاحب اولاد ہے تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کے لیے وراثت میں چھٹا حصہ ہے۔ یعنی میت کے ترکے میں سے ایک تہائی والدین کو چلا جائے گا اور دو تہائی اولاد میں تقسیم ہوگا۔ ّ فَاِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَہٗ اَبَوٰہُ فَلاُِمِّہِ الثُّلُثُج ۔اگر کوئی شخص لاولد فوت ہوجائے تو اس کے ترکے میں سے اس کی ماں کو ایک تہائی اور باپ کو دو تہائی ملے گا۔ یعنی باپ کا حصہ ماں سے دو گنا ہوجائے گا۔فَاِنْ کَانَ لَہٗ اِخْوَۃٌ فَلاُِمِّہِ السُّدُسُ اگر مرنے والا بےاولاد ہو لیکن اس کے بہن بھائی ہوں تو اس صورت میں ماں کا حصہ مزید کم ہو کر ایک تہائی کے بجائے چھٹا حصہ رہ جائے گا اور باقی باپ کو ملے گا ‘ لیکن بہن بھائیوں کو کچھ نہ ملے گا۔ وہ باپ کی طرف سے وراثت کے حق دار ہوں گے۔ لیکن ساتھ ہی فرما دیا :مِنْم بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْ بِہَآ اَوْ دَیْنٍ ط۔وراثت کی تقسیم سے پہلے دو کام کرلینے ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ اگر اس شخص کے ذمے کوئی قرض ہے تو وہ ادا کیا جائے۔ اور دوسرے یہ کہ اگر اس نے کوئی وصیت کی ہے تو اس کو پورا کیا جائے۔ پھر وراثت تقسیم ہوگی۔اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْج لاَ تَدْرُوْنَ اَیُّہُمْ اَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعًا ط فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ ط تم اپنی عقلوں کو چھوڑو اور اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حصوں کے مطابق وراثت تقسیم کرو۔ کوئی آدمی یہ سمجھے کہ میرے بوڑھے والدین ہیں ‘ میری وراثت میں خواہ مخواہ ان کے لیے حصہ کیوں رکھ دیا گیا ہے ؟ یہ تو کھاپی ‘ چکے ‘ زندگی گزار چکے ‘ وراثت تو اب میری اولاد ہی کو ملنی چاہیے ‘ تو یہ سوچ بالکل غلط ہے۔ تمہیں بس اللہ کا حکم ماننا ہے۔اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا ۔اس کا کوئی حکم علم اور حکمت سے خالی نہیں ہے۔

مزید مسائل میراث جن کا ہر مسلمان کو جاننا فرض ہے یہ آیت کریمہ اور اس کے بعد کی آیت اور اس سورت کے خاتمہ کی آیت علم فرائض کی آیتیں ہیں، یہ پورا علم ان آیتوں اور میراث کی احادیث سے استنباط کیا گیا ہے، جو حدیثیں ان آیتوں کی گویا تفسیر اور توضیح ہیں، یہاں ہم اس آیت کی تفسیر لکھتے ہیں باقی جو میراث کے مسائل کی پوری تقریر ہے اور اس میں جن دلائل کی سمجھ میں جو کچھ اختلاف ہوا ہے اس کے بیان کرنے کی مناسب جگہ احکام کی کتابیں ہیں نہ کہ تفسیر، اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرمائے، علم فرائض سیکھنے کی رغبت میں بہت سی حدیثیں آئی ہیں، ان آیتوں میں جن فرائض کا بیان ہے یہ سب سے زیادہ اہم ہیں، ابو داؤد اور ابن ماجہ میں ہے علم دراصل تین ہیں اور اس کے ماسوا فضول بھرتی ہے، آیات قرآنیہ جو مضبوط ہیں اور جن کے احکام باقی ہیں، سنت قائمہ یعنی جو احادیث ثابت شدہ ہیں اور فریضہ عادلہ یعنی مسائل میراث جو ان دو سے ثابت ہیں۔ ابن ماجہ کی دوسری ضعیف سند والی حدیث میں ہے کہ فرائض سیکھو اور دوسروں کو سکھاؤ۔ یہ نصف علم ہے اور یہ بھول بھول جاتے ہیں اور یہی پہلی وہ چیز ہے جو میری امت سے چھن جائے گی، حضرت ابن عینیہ ؒ فرماتے ہیں اسے آدھا علم اس لئے کہا گیا ہے کہ تمام لوگوں کو عموماً یہ پیش آتے ہیں، صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے مروی ہے کہ میں بیمار تھا آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ میری بیمار پرسی کے لئے بنو سلمہ کے محلے میں پیادہ پا تشریف لائے میں اس وقت بیہوش تھا آپ نے پانی منگوا کر وضو کیا پھر وضو کے پانی کا چھینٹا مجھے دیا جس سے مجھے ہوش آیا، تو میں نے کہا حضور ﷺ میں اپنے مال کی تقسیم کس طرح کروں ؟ اس پر آیت شریفہ نازل ہوئی، صحیح مسلم شریف نسائی شریف وغیرہ میں بھی یہ حدیث موجود ہے، ابو داؤد ترمذی ابن ماجہ مسند امام احمد بن حنبل وغیرہ میں مروی حے کہ حضرت سعد بن ربیع ؓ کی بیوی صاحبہ ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور کہا یا رسول اللہ ﷺ یہ دونوں حضرت سعد کی لڑکیاں ہیں، ان کے والد آپ کے ساتھ جنگ احد میں شریک تھے اور وہیں شہید ہوئے ان کے چچا نے ان کا کل مال لے لیا ہے ان کے لئے کچھ نہیں چھوڑا اور یہ ظاہر ہے کہ ان کے نکاح بغیر مال کے نہیں ہوسکتے، آپ نے فرمایا اس کا فیصلہ خود اللہ کرے گا چناچہ آیت میراث نازل ہوئی، آپ نے ان کے چچا کے پاس آدمی بھیج کر حکم بھیجا کہ دو تہائیاں تو ان دونوں لڑکیوں کو دو اور آٹھواں حصہ ان کی ماں کو دو اور باقی مال تمہارا ہے، بہ ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت جابر کے سوال پر اس سورت کی آخری آیت اتری ہوگی جیسے عنقریب آ رہا ہے انشاء اللہ تعالیٰ اس لئے کہ ان کی وارث صرف ان کی بہنیں ہی تھیں لڑکیاں تھیں ہی نہیں وہ تو کلالہ تھے اور یہ آیت اسی بارے میں یعنی حضرت سعد بن ربیع کے ورثے کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس کے راوی بھی خود حضرت جابر ہیں ہاں حضرت امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو اسی آیت کی تفسیر میں وارد کیا ہے اس لئے ہم نے بھی ان کی تابعداری کی، واللہ اعلم مطلب آیت کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں عدل سکھاتا ہے، اہل جاہلیت تمام مال لڑکوں کو دیتے تھے اور لڑکیاں خالی ہاتھ رہ جاتی تھیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کا حصہ بھی مقرر کردیا ہاں دونوں کے حصوں میں فرق رکھا، اس لئے کہ مردوں کے ذمہ جو ضروریات ہیں وہ عورتوں کے ذمہ نہیں مثلاً اپنے متعلقین کے کھانے پینے اور خرچ اخراجات کی کفالت تجارت اور کسب اور اسی طرح کی اور مشقتیں تو انہیں ان کی حاجت کے مطابق عورتوں سے دوگنا دلوایا، بعض دانا بزرگوں نے یہاں ایک نہایت باریک نکتہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہ نسبت ماں باپ کے بھی زیادہ مہربان ہے، ماں باپ کو ان کی اولادوں کے بارے میں وصیت کر رہا ہے، پس معلوم ہوا کہ ماں باپ اپنی اولاد پر اتنے مہربان نہیں جتنا مہربان ہمارا خالق اپنی مخلوق پر ہے۔ چناچہ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ قیدیوں میں سے ایک عورت کا بچہ اس سے چھوٹ گیا وہ پاگلوں کی طرح اسے ڈھونڈتی پھرتی تھی اور جیسے ہی ملا اپنے سینے سے لگا کر اسے دودھ پلانے لگی آنحضرت ﷺ نے یہ دیکھ کر اپنے اصحاب سے فرمایا بھلا بتاؤ تو کیا یہ عورت باوجود اپنے اختیار کے اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی ؟ لوگوں نے کہا یارسول اللہ ﷺ ہرگز نہیں آپ نے فرمایا اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ مہربان ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ پہلے حصہ دار مال کا صرف لڑکا تھا، ماں باپ کو بظور وصیت کے کچھ مل جاتا تھا اللہ تعالیٰ نے اسے منسوخ کیا اور لڑکے کو لڑکی سے دوگنا دلوایا اور ماں باپ کو چھٹا چھٹا حصہ دلوایا اور تیسرا حصہ بھی اور بیوی کو آٹھواں حصہ اور چوتھا حصہ اور خاوند کو آدھا اور پاؤ۔ فرماتے ہیں میراث کے احکام اترنے پر بعض لوگوں نے کہا یہ اچھی بات ہے کہ عورت کو چوتھا اور آٹھواں حصہ دلوایا جا رہا ہے اور لڑکی کو آدھوں آدھ دلوایا جا رہا ہے اور ننھے ننھے بچوں کا حصہ مقرر کیا جا رہا ہے حالانکہ ان میں سے کوئی بھی نہ لڑائی میں نکل سکتا ہے، نہ مال غنیمت لاسکتا ہے اچھا تم اس حدیث سے خاموشی برتو شاید رسول اللہ ﷺ کو یہ بھول جائے ہمارے کہنے کی وجہ سے آپ ان احکام کو بدل دیں، پھر انہوں نے آپ سے کہا کہ آپ لڑکی کو اس کے باپ کا آدھا مال دلوا رہے ہیں حالانکہ نہ وہ گھوڑے پر بیٹھنے کے لائق نہ دشمن سے لڑنے کے قابل، آپ بچے کو ورثہ دلا رہے ہیں بھلا وہ کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے ؟ یہ لوگ جاہلیت کے زمانہ میں ایسا ہی کرتے تھے کہ میراث صرف اسے دیتے تھے جو لڑنے مرنے کے قابل ہو سب سے بڑے لڑکے کو وارث قرار دیتے تھے (اگر مرنے والے کے لڑکے لڑکیاں دونوں ہو تو تو فرما دیا کہ لڑکی کو جتنا آئے اس سے دوگنا لڑکے کو دیا جائے یعنی ایک لڑکی ایک لڑکا ہے تو کل مال کے تین حصے کر کے دو حصے لڑکے کو اور ایک حصہ لڑکی کو دے دیا جائے اور اگر صرف لڑکی کو دے دیا جائے اب بیان فرماتا ہے کہ اگر صرف لڑکیاں ہوں تو انہیں کیا ملے گا ؟ مترجم) لفظ فوق کو بعض لوگ زائد بتاتے ہیں جیسے آیت (فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَاضْرِبُوْا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ) 8۔ الانفال :12) آیت میں لفظ فوق زائد ہے لیکن ہم یہ نہیں مانتے نہ اس آیت میں نہ اس آیت میں، کیونکہ قرآن میں کوئی ایسی زائد چیز نہیں ہے جو محض بےفائدہ ہو اللہ کے کلام میں ایسا ہونا محال ہے، پھر یہ بھی خیال فرمائیے کہ اگر ایسا ہی ہوتا تو اس کے بعد آیت (فلہن) نہ آتا بلکہ (فلہما) آتا۔ ہاں اسے ہم جانتے ہیں کہ اگر لڑکیاں دو سے زیادہ نہ ہوں یعنی صرف دو ہوں تو بھی یہی حکم ہے یعنی انہیں بھی دو ثلث ملے گا کیونکہ دوسری آیت میں دو بہنوں کو دو ثلث دلوایا گیا ہے اور جبکہ دو بہنیں دو ثلث پاتی ہیں تو دو لڑکیوں کو دو ثلث کیوں نہ ملے گا ؟ ان کے لئے تو دو تہائی بطور اولی ہونا چاہئے، اور حدیث میں آچکا ہے دو لڑکیوں کو رسول اللہ ﷺ نے دو تہائی مال ترکہ کا دلوایا جیسا کہ اس آیت کی شان نزول کے بیان میں حضرت سعد کی لڑکیوں کے ذکر میں اس سے پہلے بیان ہوچکا ہے پس کتاب و سنت سے یہ ثابت ہوگیا اسی طرح اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ ایک لڑکی اگر ہو یعنی لڑکا نہ ہونے کی صورت میں تو اسے آدھوں آدھ دلوایا گیا ہے پس اگر دو کو بھی آدھا ہی دینے کا حکم کرنا مقصود ہوتا تو یہیں بیان ہوجاتا جب ایک کو الگ کردیا تو معلوم ہوا کہ دو کا حکم وہی ہے جو دو سے زائد کا ہے واللہ اعلم۔ پھر ماں باپ کا حصہ بیان ہو رہا ہے ان کے ورثے کی مختلف صورتیں ہیں، ایک تو یہ کہ مرنے والے کی اولاد ایک لڑکی سے زیادہ ہو اور ماں باپ بھی ہوں تو تو انہیں چھٹا چھٹا حصہ ملے گا یعنی چھٹا حصہ ماں کو اور چھٹا حصہ باپ کو، اگر مرنے والے کی صرف ایک لڑکی ہی ہے تو آدھا مال تو وہ لڑکی لے لے گی اور چھٹا حصہ ماں لے لے گی چھٹا حصہ باپ کو ملے گا اور چھٹا حصہ جو باقی رہا وہ بھی بطور عصبہ باپ کو مل جائے گا پس اس حالت میں باپ فرض اور تنصیب دونوں کو جمع کرلے گا یعنی مقررہ چھٹا حصہ اور بطور عصبہ بچت کا مال دوسری صورت یہ ہے کہ صرف ماں باپ ہی وارث ہوں تو ماں کو تیسرا حصہ مل جائے گا اور باقی کا کل ماں باپ کو بطور عصبہ کے مل جائے گا تو گویا دو ثلث مال اس کے ہاتھ لگے گا یعنی بہ نسبت مال کے دگنا باپ کو مل جائے گا اب اگر مرنے والی عورت کا خاوند بھی ہے مرنے والے مرد کی بیوی ہے یعنی اولاد نہیں صرف ماں باپ ہیں اور خاوند سے یا بیوی تو اس پر تو اتفاق ہے کہ خاوند کو آدھا اور بیوی کو پاؤ ملے گا، پھر علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ ماں کو اس صورت میں اس کے بعد کیا ملے گا ؟ تین قول ہیں ایک تو یہ کہ جو مال باقی رہا اس میں سے تیسرا حصہ ملے گا دونوں صورتوں میں یعنی خواہ عورت خاوند چھوڑ کر مری ہو خواہ مرد عورت چھوڑ کر مرا ہو اس لئے کہ باقی کا مال ان کی نسبت سے گویا کل مال ہے اور ماں کا حصہ باپ سے آدھا ہے تو اس باقی کے مال سے تیسرا حصہ یہ لے لے اور وہ تیسرے حصے جو باقی رہے وہ باپ لے لے گا حضرت عمر حضرت عثمان اور بہ اعتبار زیادہ صحیح روایت حضرت علی ؓ کا یہی فیصلہ ہے، حضرت ابن مسعود اور حضرت زید بن ثابت ؓ کا یہی قول ہے، ساتوں فقہاء اور چاروں اماموں اور جمہور علماء کا بھی فتویٰ ہے دوسرا قول یہ ہے کہ ان دونوں صورتوں میں بھی ماں کو کل مال کا ثلث مل جائے گا، اس لئے کہ آیت عام ہے خاوند بیوی کے ساتھ ہو تو اور نہ ہو تو عام طور پر میت کی اولاد نہ ہونے کی صورت میں ماں کو ثلث دلوایا گیا ہے، حضرت ابن عباس کا یہی قول ہے، حضرت علی اور حضرت معاذ بن جبل سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ حضرت شریح اور حضرت داؤد ظاہری بھی یہی فرماتے ہیں، حضرت ابو الحسین بن لبان بصری بھی اپنی کتاب ایجاز میں جو علم فرائض کے بارے میں ہے اسی قول کو پسند کرتے ہیں، لیکن اس قول میں نظر ہے بلکہ یہ قول ضعیف ہے کیونکہ آیت نے اس کا یہ حصہ اس وقت مقرر فرمایا ہے جبکہ کل مال کی وراثت صرف ماں باپ کو ہی پہنچتی ہو، اور جبکہ زوج یا زوجہ سے اور وہ اپنے مقررہ حصے کے مستحق ہیں تو پھر جو باقی رہ جائے گا بیشک وہ ان دونوں ہی کا حصہ ہے تو اس میں ثلث ملے گا، کیونکہ اس عورت کو کل مال کی چوتھائی ملے گی اگر کل مال کے بارہ حصے کئے جائیں تو تین حصے تو یہ لے گی اور چار حصے ماں کو ملے گا باقی بچے پانچ حصے وہ باپ لے لے گا لیکن اگر عورت مری ہے اور اس کا خاوند موجود ہے تو ماں کو باقی مال کا تیسرا حصہ ملے گا اگر کل مال کا تیسرا حصہ اس صورت میں بھی ماں کو دلوایا جائے تو اسے باپ سے بھی زیادہ پہنچ جاتا ہے مثلاً میت کے مال کے چھ حصے کئے تین تو خاوند لے گیا دو ماں لے گئی تو باپ کے پلے ایک ہی پڑے گا جو ماں سے بھی تھوڑا ہے، اس لئے اس صورت میں چھ میں سے تین تو خاوند کو دئے جائیں گے ایک ماں کو اور دو باپ کو، حضرت امام ابن سیرین ؒ کا یہی قول ہے، یوں سمجھنا چاہئے کہ یہ قول دو قولوں سے مرکب ہے، ضعیف یہ بھی ہے اور صحیح قول پہلا ہی ہے واللہ اعلم، ماں باپ کے احوال میں سے تیسرا حال یہ ہے کہ وہ بھائیوں کے ساتھ ہوں خواہ وہ سگے بھائی ہوں یا صرف باپ کی طرف سے یا صرف ماں کی طرف سے تو وہ باپ کے ہوتے ہوئے اپنے بھائی کے ورثے میں کچھ پائیں گے نہیں لیکن ہاں ماں کو تہائی سے ہٹا کر چھٹا حصہ دلوائیں گے اور اگر کوئی اور وارث ہی نہ ہو اور صرف ماں کے ساتھ باپ ہی ہو تو باقی مال کل کا کل باپ لے لے گا اور بھائی بھی شریعت میں بہت سے بھائیوں کے مترادف ہیں جمہور کا یہی قول ہے، ہاں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ آپ نے ایک مرتبہ حضرت عثمان ؓ سے کہا کہ دو بھائی ماں کو ثلث سے ہٹا کر سدس تک نہیں لے جاتے قرآن میں اخوۃ جمع کا لفظ ہے دو بھائی اگر مراد ہوتے اخوان کہا جاتا خلیفہ ثالث نے جواب دیا کہ پہلے ہی سے یہ چلا آتا ہے اور چاروں طرف یہ مسئلہ اسی طرح پہنچا ہوا ہے تمام لوگ اس کے عامل ہیں میں اسے نہیں بدل سکتا، اولاً تو یہ اثر ثابت ہی نہیں اس کے راوی حضرت شعبہ کے بارے میں حضرت امام مالک کی جرح موجود ہے پھر یہ قول ابن عباس کا نہ ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ خود حضرت ابن عباس کے خاص اصحاب اور اعلی شاگرد بھی اس کے خلاف ہیں حضرت زید فرماتے ہیں دو کو بھی اخوۃ کہا جاتا ہے، الحمد للہ میں نے اس مسئلہ کو پوری طرح ایک علیحدہ رسالے میں لکھا ہے حضرت سعید بن قتادہ سے بھی اسی طرح مروی ہے، ہاں میت کا اگر ایک ہی بھائی ہو تو ماں کو تیسرے حصے سے ہٹا نہیں سکتا، علماء کرام کا فرمان ہے کہ اس میں حکمت یہ ہے کہ میت کے بھائیوں کی شادیوں کا اور کھانے پینے وغیرہ کا کل خرچ باپ کے ذمہ ہے نہ کہ ماں کے ذمے اس لئے متقضائے حکمت یہی تھا کہ باپ کو زیادہ دیا جائے، یہ توجیہ بہت ہی عمدہ ہے، لیکن حضرت ابن عباس سے بہ سند صحیح مروی ہے کہ یہ چھٹا حصہ جو ماں کا کم ہوگیا انہیں دیدیا جائے گا یہ قول شاذ ہے امام ابن جریر فرماتے ہیں حضرت عبداللہ کا یہ قول تمام امت کے خلاف ہے، ابن عباس کا قول ہے کہ کلالہ اسے کہتے ہیں جس کا بیٹا اور باپ نہ ہو۔ پھر فرمایا وصیت اور قرض کے بعد تقسیم میراث ہوگی، تمام سلف خلف کا اجماع ہے کہ قرض وصیت پر مقدم ہے اور فحوائے آیت کو بھی اگر بغور دیکھا جائے تو یہی معلوم ہوتا ہے، ترمذی وغیرہ میں ہے حضرت علی بن ابو طالب ؓ فرماتے ہیں تم قرآن میں وصیت کا حکم پہلے پڑھتے ہو اور قرض کا بعد میں لیکن یاد رکھنا کہ رسول اللہ ﷺ نے قرض پہلے ادا کرایا ہے، پھر وصیت جاری کی ہے، ایک ماں زاد بھائی آپس میں وارث ہوں گے بغیر علاتی بھائیوں کے، آدمی اپنے سگے بھائی کا وارث ہوگا نہ اس کا جس کی ماں دوسری ہو، یہ حدیث صرف حضرت حارث سے مروی ہے اور ان پر بعض محدثین نے جرح کی ہے، لیکن یہ حافظ فرائض تھے اس علم میں آپ کو خاص دلچسپی اور دسترس تھی اور حساب کے بڑے ماہر تھے واللہ اعلم۔ پھر فرمایا کہ ہم نے باپ بیٹوں کو اصل میراث میں اپنا اپنا مقررہ حصہ لینے والا بنایا اور جاہلیت کی رسم ہٹا دی بلکہ اسلام میں بھی پہلے بھی ایسا ہی حکم تھا کہ مال اولاد کو مل جاتا ماں باپ کو صرف بطور وصیت کے ملتا تھا جیسے حضرت ابن عباس سے پہلے بیان ہوچکا یہ منسوخ کر کے اب یہ حکم ہوا تمہیں یہ نہیں معلوم کہ تمہیں باپ سے زیادہ نفع پہنچے گا یا اولاد نفع دے گی امید دونوں سے نفع کی ہے یقین کسی پر بھی ایک سے زیادہ نہیں، ممکن ہے باپ سے زیادہ بیٹا کام آئے اور نفع پہنچائے اور ممکن ہے بیٹے سے زیادہ باپ سے نفع پہنچے اور وہ کام آئے، پھر فرماتا ہے یہ مقررہ حصے اور میراث کے یہ احکام اللہ کی طرف سے فرض ہیں اس میں کسی کمی پیشی کی کسی امید یا کسی خوف سے گنجائش نہیں نہ کسی کو محروم کردینا لائق سے نہ کسی کو زیادہ دلوا دینا، اللہ تعالیٰ علیم و حکیم ہے جو جس کا مستحق ہے اسے اتنا دلواتا ہے ہر چیز کی جگہ کو وہ بخوبی جانتا ہے تمہارے نفع نقصان کا اسے پورا علم ہے اس کا کوئی کام اور کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں تمہیں چاہئے کہ اس کے احکام اس کے فرمان مانتے چلے جاؤ۔

آیت 11 - سورہ نساء: (يوصيكم الله في أولادكم ۖ للذكر مثل حظ الأنثيين ۚ فإن كن نساء فوق اثنتين فلهن ثلثا ما ترك ۖ...) - اردو