سورہ نصر: آیت 1 - إذا جاء نصر الله والفتح... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورہ نصر

إِذَا جَآءَ نَصْرُ ٱللَّهِ وَٱلْفَتْحُ

اردو ترجمہ

جب اللہ کی مدد آ جائے اور فتح نصیب ہو جائے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Itha jaa nasru Allahi waalfathu

آیت 1 کی تفسیر

“۔ اس سورت کی پہلی آیت ہی میں ایک متعین اشارہ ہے ، اور یہ اشارہ کائناتی واقعات کے بارے میں ایک خاص تصویر پیدا کرتا ہے اور اس تصور میں یہ بتلایا جاتا ہے کہ ان واقعات میں اہل ایمان کا کردار کیا ہے اور نبی کریم ﷺ کا کردار کیا ہے۔ اور انسانی زندگی اور ان کائناتی واقعات وحادثات میں اہل ایمان اور نبی کے دائرہ کار کی حد کیا ہے۔ یہ اشارہ اس فقرے میں ہے۔

اذا جآء ........................ والفتح (1:110) ” جب اللہ کی مدد پہنچ جائے “ میں ہے۔ تمام دارومدار اللہ کی نصرت پر ہے اور اللہ کا وقت مقرر ہے ، جس شکل میں نصرت آئے گی وہ بھی متعین ہے ، جس مقصد کے لئے یہ نصرت ہوگی وہ بھی مقرر ہے۔ نبی اور اس کے ساتھیوں کا اس کی آمد کے سلسلے میں کوئی اختیار نہیں ہے۔ اور نہ ان کا نصرت الٰہیہ میں کچھ کردار ہے۔ نہ اس نصرت کے سلسلے میں ان کی ذاتی کمائی کا کوئی دخل ہے۔ نہ ان کی ذاتوں کا کوئی حصہ ہے۔ یہ نصرت ایک ایسا واقعہ ہے جو اللہ کے فیصلے کے مطابق ان کی شخصیات سے نہیں ، باہر سے آتی ہے۔ ان کے لئے یہی اعزاز کافی ہے کہ اللہ یہ نصرت بظاہر ان کے ذریعہ لاتا ہے اور ان کو اس نصرت کا چوکیدار مقرر کرتا ہے اور اس نصرت اور فتح کے امین ہوتے ہیں۔ پس فتح ونصرت میں ان کا حصہ یہی ہوتا ہے کہ لوگ جوق درجوق دین اسلام میں داخل ہوتے ہیں۔ وہ بھی اور دوسرے لوگ بھی۔

اس اشارے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے فکر کی روشنی میں ۔ اس اعزاز اور تکریم کے حوالے سے جو ان کے ہاتھوں نصرت اور فتح کے ظہور کے سلسلے میں ہوا۔ رسول اللہ اور آپ کے ساتھیوں کی حیثیت کا تعین ہوجاتا ہے۔ ان کی شان اور حیثیت اب یہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوکر سراسر سپاس بن جائیں۔ اللہ کی حمدوثنا کریں اور اپنی کوتاہیوں پر مغفرت کی دعا کریں۔ یہ حمدوثنا اور شکر اس بات پر کہ اللہ نے ان کو اسلامی انقلاب کا امین اور نگراں بنایا اور اپنے دین کی نصرت فرما کر اور اسے غالب فرما کر پوری انسانیت پر احسان فرمایا۔ رسول اللہ فاتح ہوئے ، لوگ فوج درفوج اس خبرکثیر میں داخل ہوئے حالانکہ اس سے قبل وہ اندھے تھے ، گمراہ تھے اور سخت خسارے میں تھے۔

استغفار کس لئے ، یہ ان نفسیاتی عوامل کے لئے ہے جو نہایت لطیف انداز میں دلوں میں داخل ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔ جب کوئی قوت ایک طویل اور انتھک جدوجہد کے بعد برسراقتدار آتی ہے تو فتح و کامرانی کے نشے میں اس کی نفسیات میں ایک قسم کا غرور چپکے سے داخل ہوجاتا ہے ، پھر مشکلات اور قربانیوں کے بعد انسان سے خوشیوں میں کچھ کو تاہیاں بھی ہوجاتی ہیں ، ان خفیہ نفسیاتی وائرس سے صرف توبہ و استغفار کے ذریعہ بچا جاسکتا ہے ، اس لئے یہاں استغفار کا حکم دیا گیا ہے۔

یہ استغفار اس لئے بھی ہے کہ طویل جدوجہد کے زمانے میں انتھک حالات کے نتیجے میں شدید مشکلات اور نہایت گہرے کربناک حالات کی وجہ سے انسانی قلب میں گھٹن آجاتی ہے۔ انسان سمجھتا ہے کہ اللہ کی نصرت کے پہنچے میں دیر ہوگئی ہے ، اور داعی کو ہلامارا جاتا ہے۔ جیسا کہ بقرہ (114) میں کہا گیا ہے۔

ام حسبتم .................................... اللہ قریب (214:2) ” کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاﺅ گے حالانکہ ابھی تمہیں ان حالات سے سابقہ پیش نہیں آیا جن سے تم سے پہلے اہل ایمان کو سابقہ پیش آیا تھا۔ وہ فقر وفاقہ اور شدائد وآلام سے دوچار ہوئے اور ہلا مارے گئے یہاں تک کہ رسول اور ان کے ساتھ کے اہل ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ، سنو اللہ کی مدد قریب ہے “۔ اس لئے حکم دیا گیا کہ استغفار کرو۔

استغفار کا حکم اس لئے بھی دیا گیا کہ اللہ کی حمدوثنا میں انسان سے تقصیر ہوجاتی ہے۔ پس انسان کی جدوجہد جس قدر بھی زیادہ ہو ، وہ محدود ہوتی ہے اور انسان ضعیف ہے۔ اور اللہ کی نعمتیں ہمیشہ بیشمار ہیں اور اس کا فیض عام ہے۔

وان تعدو ........................ تحصوھا (34:14) ” اگر تم اللہ کے احسانات کو شمار کرو تو تم ان کا استعصا اور احاطہ نہیں کرسکتے “۔ لہٰذا اس تقصیر پر استغفار کا حکم دیا گیا۔

فتح و کامرانی کے موقعہ پر تسبیح و استغفار میں ایک لطیف نکتہ یہ بھی ہے کہ فخر ومباہات کے مقام پر نفس کے اندر یہ شعور پیدا کیا جائے کہ انسان تو ہمیشہ عجز اور تقصیر کے مقام پر ہوتا ہے۔ لہٰذا اسے چاہئے کہ وہ بڑوں کی سطح سے ذرا نیچے اتر آئے۔ اور اپنے رب سے اپنی تقصیرات کی معافی طلب کرے۔ اس طرح انسانی شعور اور انسانی نفسیات سے فخرومباہات کے میلانات کا صفایا ہوجاتا ہے۔

اگر ایک فاتح کے دل میں یہ شعور بیٹھ جائے کہ وہ عجز اور تقصیر کا پتلا ہے اور اسے اپنی تقصیرات پر اللہ سے دعائے مغفرت کرنا چاہئے تو ایسا فاتح کبھی بھی مفتوح لوگوں پر ظلم اور تعدی کا ارتکاب نہیں کرسکتا۔ ایسا شخص تو یوں سوچتا ہے کہ یہ تو اللہ کی ذات ہے جس کی نصرت کی وجہ سے وہ ان لوگوں پر مقتدر اعلیٰ بن گیا ہے۔ اگر اللہ کی نصرت نہ ہوتی تو وہ توبندہ ناچیز دیر تقصیر ہے اور اللہ نے جو اس کو اقتدار دیا ہے تو یہ اس لئے دیا ہے کہ اللہ مفتوح لوگوں کے بارے میں کوئی خیر اور بھلائی چاہتا ہے۔ درحقیقت فتح تو اللہ کی نصرت سے میسر ہوتی ہے۔ نصرت بھی اس کی ہے اور فتح بھی اس کی ہے اور یہ فاتح کی فتح نہیں بلکہ اللہ کے دین کی فتح ہے۔ اور تمام امور کا انجام اللہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور تمام فیصلے اللہ کی طرف لوٹتے ہیں۔

یہ ہے وہ روش اور بلند مرتبہ افق ، جس کے اوپر نظریں مرکوز کرنے کے لئے قرآن پوری انسانیت کو دعوت دیتا ہے کہ وہ درجہ بدرجہ اس بلند افق تک بلند ہوتی چلی جائے۔ جو شرافت اور نیکی کا اعلیٰ مرتبہ ہے۔ اس تک پہنچ کر انسان بڑا بن جاتا ہے۔ اس لئے کہ وہ اپنی بڑائی سے دستکش ہوجاتا ہے۔ یہاں اس کی روح آزاد ہوکر مسرت حاصل کرتی ہے۔ اس لئے کہ وہ اللہ کی غلامی اختیار کرلیتی ہے۔

غرض یہ ایک آزادی ہے جس میں انسان اپنی ذاتی اور مادی بندھنوں سے آزاد ہوجاتا ہے اور انسان اللہ کی روحانی مخلوق میں سے ایک مخلوق بن جاتا ہے اور یہ ایک ایسے مقام تک جا پہنچتا ہے کہ اللہ کی رضا اس کی رضا بن جاتی ہے اور یہ مقام حاصل کرنے کے بعد پھر وہ مجاہد بن جاتا ہے اور اس کی جدوجہد کا رخ یہ ہوتا ہے کہ وہ اسلامی نظام کی صورت میں بھلائی کی نصرت کرے اور حق کو حقیقت بنادے اور پھر اسلامی نظام کے قیام کے بعد وہ اس زمین کو ایسی ترقی دے اور دنیا کو ایسی قیادت فراہم کرے کہ دنیا شروفساد سے پاک ہوجائے۔ یہ قیادت صالح ، پاک اور تعمیری ہو۔ اور اس کا مقصد ہر بھلائی کو پھیلانا اور ترقی دینا ہو۔ اور اس طرح تمام امور کا رخ اللہ کی طرف پھیر دے۔

انسان اگر اپنی ذات کے محدود کنویں کا مینڈک ہو اور اس میں قید ہو تو پھر اس کی آزادی کی مساعی عبث بن جاتی ہیں۔ وہ آزادی کے بعد اپنی خواہشات کا غلام ہوتا ہے ۔ شہوات اور خواہشات میں گرفتار ہوتا ہے ۔ انسان اگر خواہشات نفسانیہ کے دائرہ نشیب سے آزاد نہ ہو تو دوسری آزادیاں عبث ہیں ۔ اسلام چاہتا ہے کہ دوسری آزادیوں کے ساتھ انسان نفسانی خواہشات سے بھی آزاد ہوجائے تاکہ وہ اللہ کو یاد کرے اور اس کا غلام ہو ۔

یہ ہیں آداب نبوت ، جو نبوت کے ساتھ لازم رہے ہیں اور اللہ کی مرضی یہ ہے کہ انسانیت ان آداب نبوت کے آفاق تک بلند ہوجائے ۔ اور اگر وہاں تک نہ بھی پہنچ سکے تو اس کی نظریں اس افق پر ہوں ۔ دیکھئے یوسف (علیہ السلام) اس مقام تک پہنچے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ مصر کے تمام خزائن اقتدار ان کے ہاتھ میں آچکے ہیں ۔ ان کا خواب سچا ہوچکا ہے ۔ انہوں نے جب والدین کو اپنے تخت پر اٹھایا تو بھائیوں نے ان کے سامنے سجدہ کیا ، اور حضرت یوسف (علیہ السلام) نے والدین سے کہا کہ باپ ! یہ ہے میری خواب کی تعبیر ، اللہ نے اسے حقیقت بنادیا ۔ اللہ کا احسان دیکھئے کہ اس نے مجھے قید سے نکالا ، آپ لوگوں کو دیہات سے مصر لایا حالانکہ شیطان نے میرے بھائیوں کے درمیان نزاع ڈال دیا تھا۔ بیشک میرا رب لطیف تدابیر اختیار کرتا ہے اور وہ حکم وخبیر ہے۔

غرض ایسے موقعہ پر حضرت یوسف (علیہ السلام) بلندی ، سرفرازی اور خوشی اور انبساط کے ماحول سے نکل آتے ہیں اور ذکر وفکر مشغول ہوکر اپنے رب کی حمدوثنا کرتے ہیں۔ وہ اقتدار کے عروج پر ہیں ان کے تمام خواب حقیقت بن گئے ہیں لیکن ان کی دعوت یہ ہے :

رب قداتیتنی .................................... بالصلحین (101:12) ” اے میرے رب ! تو نے مجھے اقتدار بھی دیا ، اور مجھے باتوں کی تہہ تک پہنچنے کا علم بھی دیا۔ اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے تو ہی دنیا وآخرت میں میرا کار ساز ہے۔ مجھے اسلام پر موت دے اور نیکوکاروں کے زمرے میں مجھے شامل کر “۔ یہاں جاہ واقتدار پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ اہل و عیال اور بہن بھائیوں کا یہ اجتماع اور ایک عرصہ بعد رشتہ داروں اور والدین کی ملاقات کی خوشی کافور ہوجاتی ہے۔ اب اس آخری منظر میں ہمیں ایک ایسا فرد نظر آتا ہے جو رب تعالیٰ کے سامنے گڑگڑا رہا ہے اور سوال یہ ہے کہ میرا اسلام محفوظ ہو اور میری سوسائٹی صالحین کے ساتھ ہو۔ اور یہ مرتبہ اللہ کے فضل وکرم سے ہی مل سکتا ہے۔

اب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے آداب زندگی ملاحظہ ہوں۔ وہ بھی ایسے حالات میں ہیں کہ طرفتہ العین میں ملکہ سبا کا تخت ان کے سامنے ہے۔ دیکھئے قرآن ایسے حالات میں قوت وجاہ کے حالات میں ان کی کیفیات کس طرح ریکارڈ کرتا ہے۔

فلما راہ ............................................ غنی کریم (40:27) ” جب سلیمان نے تخت کو اپنے پاس رکھا ہوا پایا۔ تو وہ پکار اٹھے یہ میرے رب کے فضل وکرم سے ہے۔ یہ اس لئے کہ وہ مجھے آزمائے کہ میں اس کا شکر ادا کرتا ہوں یا کفران نعمت کا مرتکب ہوتا ہوں۔ اور جو کوئی شکر کرے گا اپنے ہی لئے کرے گا اور جو ناشکری کرے گا میرا رب غنی اور بزرگ ہے “۔

اور یہی تھی حضرت محمد ﷺ کی روش۔ آپ کو اپنی پوری زندگی میں یہی ادب اختیار کیا اور نصرت وفتح کے موقعہ پر جسے اللہ نے آپ کے لئے خاص علامت قرار دیا تھا۔ تو حضور اپنی سواری کے اوپر جھکے ہوئے جارہے تھے۔ آپ مکہ میں اسی طرح سرجھکائے ہوئے داخل ہوئے۔ آج آپ اس مکہ میں جس نے آپ کو اذیتیں دی تھیں ، جس نے آپ کو گھر سے نکالا تھا۔ جس نے آپ کے ساتھ پے درپے جنگیں لڑیں ، جو آپ کی دعوت کی راہ میں معاندانہ طور پر ڈٹ گیا تھا۔ جب آپ کو نصرت اور فتح نصیب ہوئی تو آپ نے فتح و کامرانی کے شادیانے نہ بجائے۔ آپ رب کا شکر ادا کرتے ہوئے جھکے جارہے تھے۔ حمدوثنا میں مشغول تھے اور جس طرح رب تعالیٰ نے آپ کو تلقین کی تھی۔ آپ تسبیح وتہلیل اور استغفار کررہے تھے۔ جیسا کہ آثار میں آتا ہے کہ آپ کے بعد آپ کے صحابہ ؓ کا رویہ بھی ایسا ہی رہا۔ اللہ ان سے راضی ہو۔

یوں بشریت ایمان کے ذریعہ سر بلند ہوئی۔ انسانیت کا چہرہ روشن ہوگیا۔ وہ صاف و شفاف ہوگئی۔ اب انسانیت عظمت ، قوت اور آزادی کے مقام بلندتک پہنچ گئی۔

٭٭٭٭٭

گناہوں کی بخشش مانگو اور اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کرو :حضرت عبداللہ بن عباس ؓ ما فرماتے ہیں کہ بڑی عمر والے مجاہدین کے ساتھ ساتھ حضرت عمر فاروق ؓ مجھے بھی شامل کرلیا کرتے تھے تو شاید کسی کے دل میں اس کی کچھ ناراضگی پیدا ہوگئی اس نے کہا کہ یہ ہمارے ساتھ نہ آیا کریں ان جتنے تو ہمارے بچے ہیں خلیقۃ المسلمین ؓ نے فرمایا کہ تم انہیں خوب جانتے ہو ایک دن سب کو بلایا اور مجھے بھی یاد فرمایا میں سمجھ گیا کہ آج انہیں کچھ بتانا چاہتے ہیں جب ہم سب جا پہنچے تو امیرا لمومنین ؓ نے ہم سے پوچھا کہ سورة اذا جآء کی نسبت تمہیں کیا علم ہے بعض نے کہا اس میں ہمیں اللہ کی حمدو ثناء بیان کرنے اور گناہوں کی بخشش چاہنے کا حکم کیا گیا ہے کہ جب مدد اللہ آجائے اور ہماری فتح ہو تو ہم یہ کریں اور بعض بالکل خاموش رہے تو آپ نے میری طرف توجہ فرمائی اور کہا کیا تم بھی یہی کہتے ہو میں نے کہا نہیں فرمایا پھر اور کیا کہتے ہو میں نے کہا یہ رسول اللہ ﷺ کے انتقال کا پیغام ہے آپ کو معلوم کرایا جا رہا ہے کہ اب آپ کی دنیوی زندگی ختم ہونے کو ہے آپ تسبیح حمد اور استفغار میں مشغول ہوجائیے حضرت فاروق نے فرمایا یہی میں بھی جانتا ہوں بخاری جب یہ سورت اتری تو حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ اب اسی سال میرا انتقال ہوجائیگا مجھے میرے انتقال کی خبر دی گئی ہے مسند احمد مجاہد ابو العالیہ ضحاک وغیرہ بھی یہی تفسیر بیان کرتے ہیں ایک روایت میں ہے کہ حضور ﷺ مدینہ شریف میں تھے فرمانے لگے اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ کی مدد آگئی اور فتح بھی یمن والے آگئے پوچھا گیا حضور ﷺ یمن والے کیسے ہیں فرمایا وہ نرم دل لوگ ہیں سلجھی ہوئی طبیعت والے ہیں ایمان تو اہل یمن کا ہے اور سمجھ بھی اہل یمن کی ہے اور حکمت بھی اہل یمن والوں کی ہے ابن جریر ابن عباس کا بیان ہے کہ جب یہ سوت اتری چونکہ اس میں آپ کے انتقال کی خبر تھی تو آپ نے اپنے کاموں میں اور کمر کس لی اور تقریبا وہی فرمایا جو اوپر گزرا طبرانی حضرت ابن عباس ؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ سورتوں میں پوری سورت نازل ہونے کے اعتبار سے سب سے آخری سورت یہی ہے طبرانی اور حدیث میں ہے کہ جب یہ سورت اتری آپ نے اس کی تلاوت کی اور فرمایا لوگ ایک کنارہ ہیں میں اور میرے اصحاب ایک کنارہ میں ہیں سنو فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں البتہ جہاد اور نیت ہے مروان کو جب یہ حدیث حضرت ابو سعید خدری نے سنائی تو یہ کہنے لگا جھوٹ کہتا ہے اس وقت مروان کیساتھ اس کے تخت پر حضرت رافع بن خدیج اور حضرت زید بن ثابت بھی بیٹھے تھے تو حضرت ابو سعید فرمانے لگے ان دونوں کو بھی اس حدیث کی خبر ہے یہ بھی اس حدیث کو بیان کرسکتے ہیں لیکن ایک کو تو اپنی سرداری چھن جانے کا خوف ہے اور دوسرے کو زکوٰۃ کی وصولی کے عہدے سے سبکدوش ہوجانے کا ڈر ہے مروان نے یہ سن کر کوڑا اٹھا کر حضرت ابو سعید کو مارنا چاہا ان دونوں بزرگوں نے جب یہ دیکھا تو کہنے لگے مروان سن حضرت ابو سعید نے سچ بیان فرمایا مسند احمد یہ حدیث ثابت ہے حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہحضور ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا ہجرت نہیں رہی ہاں جہاد اور نیت ہے جب تمہیں چلنے کو کہا جائے اٹھ کھڑے ہوجایا کرو صحیح بخاری اور صحیح مسلم شریف میں یہ حدیث موجود ہے ہاں یہ بھی یاد رہے کہ جن بعض صحابہ نے حضرت فاروق اعظم ؓ کے سامنے اس سورت کا یہ مطلب بیان کیا کہ جب ہم پر اللہ تعالیٰ شہر اور قلعے فتح کر دے اور ہماری مدد فرمائے تو ہمیں حکم مل رہا ہے کہ ہم اس کی تعریفیں بیان کریں اس کا شکر کریں اور اس کی پاکیزگی بیان کریں نماز ادا کریں اور اپنے گناہوں کی بخشش طلب کریں یہ مطلب بھی بالکل صحیح ہے اور یہ تفسیر بھی نہایت پیاری ہے دیکھو رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ والے دن ضحی کے وقت آٹھ رکعت نماز ادا کی گو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ ضحی کی نماز تھی لیکن ہم کہہ سکتے ہیں کہ ضحی کی نماز آپ ہمیشہ نہیں پڑھتے تھے پھر اس دن جبکہ شغل اور کام بہت زیادہ تھا مسافرت تھی یہ کیسے پڑھی ؟ آپ کی اقامت فتح کے موقعہ پر مکہ شریف میں رمضان شریف کے آخر تک انیس دن رہی آپ فرض نماز کو بھی قصر کرتے رہے روزہ بھی نہیں رکھا اور تمام لشکر جو تقریبا دس ہزار تھا اسی طرح کرتا رہا ان حقائق سے یہ بات صاف ثابت ہوجاتی ہے کہ یہ نماز فتح کے شکریہ کی نماز تھی اسی لیے سردار لشکر امام وقت پر مستحب ہے کہ جب کوئی شہر فتح ہو تو داخل ہوتے ہی دو رکعت نماز ادا کرے حضرت سعد بن ابی وقاص نے فتح مدائن والے دن ایسا ہی کیا تھا ان آٹھ رکعات کو دو دو رکعت کر کے ادا کرے گو بعض کا یہ قول بھی ہے کہ آٹھوں ایک ہی سلام سے پڑھ لے لیکن ابو داؤد کی حدیث صراحتا مروی ہے کہ حضور ﷺ نے اس نماز میں ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرا ہے دوسری تفسیر بھی صحیح ہے جو ابن عباس وغیرہ نے کی ہے کہ اس میں آپ کو آپ کے وصال کی خبر دی گئی کہ جب آپ اپنی بستی مکہ فتح کرلیں جہاں سے ان کفار نے آپ کو نکل جانے پر مجبور کیا تھا اور آپ اپنی آنکھوں اپنی محنت کا پھل دیکھ لیں کہ فوجوں کی فوجیں آپ کے جھنڈے تلے آجائیں جوق در جوق لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوجائیں تو ہماری طرف آنے کی اور ہم سے ملاقات کی تیاریوں میں لگ جاؤ سمجھ لو کہ جو کام ہمیں تم سے لینا تھا پورا ہوچکا اب آخرت کی طرف نگاہیں ڈالو جہاں آپ کے لیے بہت بہتری ہے اور اس دنیا سے بہت زیادہ بھلائی آپ کے لیے وہاں ہے وہیں آپ کی مہمانی تیار ہے اور مجھ جیسا میزبان ہے تم ان نشانات کو دیکھ کر بکثرت میری حمدو ثناء کرو اور توبہ استغفار میں لگ جاؤ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ اپنے رکوع سجدے میں بہ کثرت سبحانک اللھم وبحمدک اللھم اغفرلی پڑھا کرتے تھے آپ قرآن کی اس آیت فسبح الخ پر عمل کرتے تھے اور روایت میں ہے کہ حضور ﷺ اپنی آخری عمر میں ان کلمات کا اکثر ورد کرتے تھے سبحان اللہ وبحمدہ استغفر اللہ واتوب الیہ اللہ کی ذات پاک ہے اسی کے لیے سب تعریفیں مختص ہیں میں اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور اس کی طرف جھکتا ہوں اور فرمایا کرتے تھے کہ میرے رب نے مجھے حکم دے رکھا ہے کہ جب میں یہ علامت دیکھ لوں کہ مکہ فتح ہوگیا اور دین اسلام میں فوجیں کی فوجیں داخل ہونے لگیں تو میں ان کلمات کو بہ کثرت کہوں چناچہ بحمد اللہ میں اسے دیکھ چکا لہذا اب اس وظیفے میں مشغول ہوں (مسند احمد) ابن جریر میں حضرت ام سلمہ ؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ اپنی آخری عمر میں بیٹھتے اٹھتے چلتے پھرتے آتے جاتے سبحان اللہ وبحمدہ پڑھا کرتے میں نے ایک مرتبہ پوچھا کہ حضور ﷺ اس کی کیا وجہ ہے تو آپ نے اس سورت کی تلاوت کی اور فرمایا مجھے حکم الٰہی یہی ہے کسی مجلس میں بیٹھیں پھر وہ مجلس برخاست ہو تو کیا پڑھنا چاہیے اسے ہم اپنی ایک مستقل تصنیف میں لکھ چکے ہیں مسند احمد میں ہے کہ جب یہ سورت اتری تو حضور ﷺ اسے اکثر اپنی نماز میں تلاوت کرتے اور رکوع میں تین مرتبہ یہ پڑھتے سبحانک اللھم ربنا وبحمدک اللھم اغفرلی انک انت التواب الرحیم فتح سے مراد یہاں فتح مکہ ہے اس پر اتفاق ہے عموما عرب قبائل اسی کے منتظر تھے کہ اگر یہ اپنی قوم پر غالب آجائیں اور مکہ ان کے زیر نگیں آجائے تو پھر ان کے نبی ہونے میں ذرا سا بھی شبہ نہیں اب جبکہ اللہ نے اپنے حبیب کے ہاتھوں مکہ فتح کرا دیا تو یہ سب اسلام میں آگئے اس کے بعد دو سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ سارا عرب مسلمان ہوگیا اور ہر ایک قبیلے میں اسلام اپنا راج کرنے لگا فالحملد اللہ صحیح بخاری شریف میں بھی حضرت عمر بن سلمہ کا یہ مقولہ موجود ہے کہ مکہ فتح ہوتے ہی ہر قبیلے نے اسلام کی طرف سبقت کی ان سب کو اسی بات کا انتظار تھا اور کہتے تھے کہ انہیں اور ان کی قوم کو چھوڑو دیکھو اگر یہ نبی برحق ہیں تو اپنی قوم پر غالب آجائیں گے اور مکہ پر ان کا جھنڈا نصب ہوجائیگا، " ہم نے غزوہ فتح مکہ کا پورا پورا واقعہ تفصیل کے ساتھ اپنی سیرت کی کتاب میں لکھا ہے جو صاحب تفصیلات دیکھنا چاہیں وہ اس کتاب کو دیکھ لیں " فالحمد اللہ مسند احمد میں ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کے پڑوسی جب اپنے کسی سفر سے واپس آئے تو حضرت جابر ان سے ملاقات کرنے کے لیے گئے انہوں نے لوگوں کی پھوٹ اور ان کے اختلاف کا حال بیان کیا اور ان کی نو ایجاد بدعتوں کا تذکرہ کیا تو صحابی رسول ﷺ کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور روتے ہوئے فرمانے لگے کہ میں نے اللہ کے حبیب شافع روز جزاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ فداہ ابی وامی ﷺ سے سنا ہے کہ لوگوں کی فوجوں کی فوجیں اللہ کے دین میں داخل ہوئیں لیکن عنقریب جماعتوں کی جماعتیں ان میں سے نکلنے بھی لگ جائیں گی اس سورت کی تفسیر ختم ہوئی فالحمدللہ علی احسانہ۔

آیت 1 - سورہ نصر: (إذا جاء نصر الله والفتح...) - اردو