قال ……الیک طرفک
آپ کو معلوم ہے کہ سلیمان علیہ اسللام نے اس کے تحت کو اس کی جانب سے اطاعت قبول کرنے سے قبل کس غرض کے لئے منگوایا ؟ صحیح بات یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے یہ کام اس لئے کیا کہ وہ ملکہ سبا کو دکھائیں کہ کائنات کی معجزانہ قوتیں ان کی تائید کر رہی ہیں تاکہ ملکہ سبا ان سے متاثر ہوجائے اور ظاہری اختیار کے ساتھ ساتھ اس کے ایمان لانے کی راہ بھی ہموار ہوجائے۔
جنوں میں سے ایک دیوہیکل جن نے یہ پیشکش کی کہ وہ یہ تخت اس وقت تک حاضر کر دے گا جب تک یہ اجلاس جاری ہے۔ جیسا کہ روایات میں آتا ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) انتظامی اور عدالتی فصلہ کرنے کے لئے صبح سے ظہر تک بیٹھتے تھے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اس عرصے کو طویل سمجھے۔ یہ کہا کہ اس وقت تک تو بہت دیر ہوجائے گی۔ چناچہ ایک شخص جس کے پاس علم کتاب تھا۔
الذی عندہ علم من الکتب (82 : 03) ” جس شخص کے پاس کتاب کا علم تھا۔ “ اس نے کہا کہ پلک جھپکنے سے پہلے میں اسے لائے دیتا ہوں۔ یہاں اس شخص کا نام نہیں لیا گیا کہ وہ کون تھا اور نہ اس کتاب کا ذکر ہے جس کا علم اس کے پاس تھا۔ ہم سمجھے ہیں کہ یہ ایک مومن شخص تھا ، اللہ کے ساتھ اس کا اتصال تھا ، خدا رسیدہ شخص تھا اور وہ اللہ کی جانب سے ایسی قوتوں کے مالک تھے جن کے لئے غیب کے پردے اور دوریاں ختم ہوجاتی ہیں اور یہ ایسے امور اور کرامات ہیں جن کا صدور بعض اوقات خدا رسیدہ لوگوں سے ہوتا ہے اور جس کے اسرار و رموز سے عام لوگ واقف نہیں ہوتے۔ کیونکہ عام انسان جس دنیا میں رتے ہیں اور جن اسباب کے تحت وہ زندگی بسر کرتے ہیں اس سے یہ مختلف زندگی ہوتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ قصے کہانیوں اور داستانوں اور خرافات سے نکلنے کے لئے بس اس مقام پر یہی کہا جاسکتا ہے۔
بعض مفسرین اس شخص کے پیچھے پڑے ہیں کہ یہ شخص کون تھا ؟ اور کتاب کون سی تھی۔ کتاب کے بارے میں کہا کہ وہ تورات تھی اور بعض نے کہا کہ یہ شخص اسم اعظم کو جانتا تھا اور بعض مفسرین نے اور اقوال اختیار کئے ہیں۔ تمام اقوال کی پشت پر کوئی مستند دلیل نہیں ہے۔ اگر واقعیت پسندی سے کام لیا جائے تو یہ معاملہ بہت آسان ہے۔ اس کائنات کے ہزارہا ایسے راز ہیں جن کو ہم نہیں جانتے۔ بیشمار ایسی قوتیں ہیں جن کو ابھی تک ہم کام میں نہیں لا سکے۔ خود نفس انسانی کے اندر ایسے راز موجود ہیں جن تک ابھی ہماری رسائی نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ جب کسی ایک انسان کو ان اسرار سے واقف کردیتا ہے تو پھر دوسروں کے لئے ایک معجزہ صادر ہوجاتا ہے کیونکہ یہ معجزہ عام انسانوں کی طبیعی زندگی کے لخفا ہوتا ہے جبکہ یہ خارق عادت معجزہ بھی اللہ ہی کی قوتوں میں سے کسی قوت کے مطابق ہوتا ہے اور اللہ اس خارق عادت بات کو جس کے ہاتھ پر چاہتا ہے چلا دیتا ہے۔ (اس طرح وہ معجزہ اور کرامت ہوتی ہے۔ )
یہ شخص جس کے پاس علم کتاب تھا ، اس علم کی وجہ سے اس کا نفس اس کام کے لئے تیار تھا۔ اللہ نے بعض کائناتی راز اس شخص پر منکشف کردیئے تھے اور یوں یہ کرامت اس کے ہاتھ سے ظاہر ہوگئی کیونکہ علم کتاب کی وجہ سے یہ شخص خدا رسیدہ شخص تھا اور وہ روحانی طور پر اس کے لئے تیار تھا کہ اس پر بعض اسرار کھول دیئے جائیں۔
بعض مفسرین نے کہا یہ شخص خود سلیمان (علیہ السلام) تھے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ شخص حضرت سلیمان نہ تھے۔ ورنہ پھر اپنے آپ کو چھپانے کی ضرورت کیا تھی۔ قصہ خود انکا چل رہا تھا اور قصہ بھی ایسا کوئی نہ تھا کہ حضرت کا نام مخفی رکھا جائے۔ بعض نے یہ کہا ہے کہ اس کا نام آصف بن برقیا تھا۔ اس پر کوئی دلیل نہیں ہے۔
فلما راہ ……کریم (04)
تخت کی اچانک اور برق رفتار حاضری کا سلیمان (علیہ السلام) پر بےحد اثر ہوا۔ وہ ڈر گئے کہ اللہ نے کس طرح معجزاتی انداز میں ان کا مقصد پورا کردیا۔ انہوں نے سوچ لیا کہ یہ ایک عظیم نعمت خداوندی ہے اور اس کا فضل و کرم ہے۔ اور اس قدر عظیم کرم دراصل ایک عظیم ابتلا ہے۔ ایک خوفناک ابتلا ہے۔ اس لئے اس ابتلا سے وہ کامیابی کے ساتھ تب ہی گزر سکتے ہیں جب وہ ہر وقت بیدار رہیں اور اس آزمائش میں بھی کامیابی کے لئے اللہ کی مدد درکار ہے۔ اسے خدا خوفی کی ضرورت ہے ، نعمت خواندی کا احساس کرنا ضروری ہے۔ اور اللہ کے اس فضل پر شکر بجالانا ضروری ہے۔ تاکہ اللہ پر ثابت ہوجائے کہ میں شکر گزار ہوں جبکہ الل ہکو کسی کی جانب سے کسی شکر کی ضرورت نہیں ہے جو کوئی شکر کرتا ہے۔ وہ خود اپنے لئے کرتا ہے اور شکر سے زیادہ نعمت حاصل ہوتی ہے اور ابتلائے نعمت میں کامیابی حاصل ہوتی ہے اور اگر کوئی شکر نہیں کرتا ، ناشکری کرتا ہے تو اللہ تو عالم اور عال والوں سے مستغنی ہے۔ وہ تو کریم ہے۔ بغیر کسی احتیاج کے شکر کرنے والوں کو بخشتا ہے۔
شکر نعمت اور شکر کو ایک آزمائش تصور کرنے کے بعد حضرت سلیمان ملکہ کو حیران کن صورت حال سے دوچار کرنے کے لئے تیار کرتے ہیں۔
آیت 40 قَالَ الَّذِیْ عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْکَ طَرْفُکَ ط ”یعنی میں آپ علیہ السلام کے پلک جھپکنے سے پہلے اس کو حاضر کیے دیتا ہوں۔ یہ جس شخص کا ذکر ہے اس کے بارے میں مفسرین کہتے ہیں کہ وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے وزیر آصف بن برخیاہ تھے ‘ اور یہ کہ ان کے پاس کتب سماویہ اور اللہ تعالیٰ کے ناموں سے متعلق ایک خاص علم تھا جس کی تاثیر سے انہوں نے اس کام کو ممکن کر دکھایا۔ ہمارے پاس اس موضوع پر نہ تو کوئی مرفوع حدیث ہے اور نہ ہی ان اسمائے الہٰیہ میں ایسی کوئی تاثیر ثابت ہوتی ہے جو ہمیں حضور ﷺ کی طرف سے بتائے گئے ہیں۔ لہٰذا ہمارا ایمان ہے کہ قرآن میں یہ واقعہ جس طرح مذکور ہے بالکل ویسے ہی وقوع پذیر ہوا ہوگا۔ لیکن ساتھ ہی ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر اس کی تفصیلات میں دلچسپی لینا ہمارے لیے مفید ہوتا تو حضور ﷺ لازماً وضاحت فرما دیتے کہ اس شخصیت کے پاس کس کتاب کا کون سا علم تھا۔ اور اگر آپ ﷺ کی طرف سے ایسی کچھ ہدایات نہیں دی گئیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ہمیں اس بارے میں مزید کسی کھوج کرید میں نہیں پڑنا چاہیے۔ چناچہ اس اعتبار سے یہ آیت متشابہات میں سے ہے۔البتہ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ کے الفاظ میں سائنسی اور ٹیکنیکل علم کی طرف بھی اشارہ موجود ہے۔ ہوسکتا ہے انہیں کوئی ایسی ترکیب معلوم ہو جس کے ذریعے سے سائنسی طور پر ایسا کرنا ممکن ہوا ہو۔ بہر حال سائنسی نقطہ نظر سے ایسا ہونا کوئی ناممکن بات بھی نہیں ہے۔ آج سائنس جس انداز اور جس رفتار سے ترقی کر رہی ہے اس کے نتیجے میں ممکن ہے بہت جلد ایسی ٹیکنالوجی حاصل کرلی جائے جس کے ذریعے سے کسی مادی چیز کو atoms میں تحلیل کرنا اور پھر ان atoms کو چشم زدن میں دوسری جگہ منتقل کر کے ان سے اس چیز کو اسی حالت میں دوبارہ ٹھوس شکل دے دینا ممکن ہوجائے۔فَلَمَّا رَاٰہُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَہٗ ”یعنی وہ صاحب اپنے دعوے کے مطابق اس تخت کو واقعی پلک جھپکنے سے پہلے لے آئے اور جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسے اپنے سامنے دیکھا تو بےاختیار آپ اللہ کی حمد و ثنا کرنے لگے۔قَالَ ہٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْقف ”کوئی دنیا دار بادشاہ ہوتا تو اپنے وزیر کے کمال کو بھی اپنا ہی کمال قرار دیتا ‘ لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسے اللہ کا فضل قرار دیا اور اس کا شکر ادا کیا۔ بندگی کا کامل نمونہ بھی یہی ہے کہ انسان بڑی سے بڑی کامیابی کو اپنا کمال سمجھنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کا انعام جانے اور اس پر اس کا شکر ادا کرے۔