سورہ نمل: آیت 2 - هدى وبشرى للمؤمنين... - اردو

آیت 2 کی تفسیر, سورہ نمل

هُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ

اردو ترجمہ

ہدایت اور بشارت اُن ایمان لانے والوں کے لیے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hudan wabushra lilmumineena

آیت 2 کی تفسیر

ھدی و بشریٰ للمئومنین (2)

یہ اسلوب اس سے زیادہ بلیغ ہے اگر کہا جاتا ” اس میں ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت و بشارت ہے۔ “ قرآن جو اسلوب اختیار کیا ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس کتاب کا مواد ہی بذات خود ہدایت و بشارت ہے۔ اس طرح قرآن کریم اہل ایمان کو ان کی زندگی کے ہر نشیب و فراز میں ہدایت دیتا ہے۔ ہر پہلو سے ہدایت ہے اور انسان کی دنیاوی اور اخروی دونوں زندگیوں کے لئے یہ کتاب بشارت اور خوشخبری ہے۔

یہ کتاب صرف مومنین کے لئے ہدایت اور بشارت ہے ؟ اس فقرے میں اللہ نے ایک عظیم اور گہری حقیقت کو سمو دیا ہے۔ یہ قرآن کوئی نظریاتی اور فلسفیانہ کتاب نہیں ہے کہ جو بھی اسے پڑھے اور اس کے مضامین کا انطباق کرے اور ان کو نافذ کر دے تو بس قرآن کا مقصد پورا ہوگیا۔ یہ کتاب سب سے پہلے انسان کے قلب و نظر کو مخاطب کرتی ہے تاکہ وہ اسے ایمان ، احترام اور یقین کے ساتھ قبول کرے۔ کھلے دل سے قبول کرے۔ پھر یہ کتاب اپنا نور ، اپنا خطر اور اپنی حکمت اس کے دل میں ڈال دیتی ہے اور جس قدر قاری کا دل ایمان کی تراوٹ رکھتا ہوگا اسی قدر وہ اس کے مٹھاس کو پائے گا۔ اس کے معانی اس پر کھلتے جائیں گے اور اس کی توجہات اور تاویلات اس کی سمجھ میں آئیں گی۔ کسی سنگدل اور خشک دل و دماغ رکھنے والے انسان پر اس کتاب کے راز نہیں کھلتے۔ اسی طرح ایک مومن صادق کو اس سے وہ ہدایات ملتی ہیں جو منکر حق اور سخت دل کو نہیں ملتیں اور اس کے نور سے وہ شخص ہدایت پاتا ہے جو مومن ہو اور وہ نہیں پاتا جس کا دل و دماغ مسخ ہوچکے ہوں۔

بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ ایک انسان کسی آیت اور کسی سورت کو بار بار پڑھتا ہے۔ وہ غفلت اور جلدی میں گزر جاتا ہے۔ اس کے پلے کچھ نہیں پڑتا۔ اچانک اس کے قلب میں روشنی کی ایک چمک اٹھتی ہے۔ اس کے ذہن میں معانی کے جہان روشن ہو کر آجاتے ہیں جن کے بارے میں کبھی اس نے سوچا بھی نہ تھا۔ یوں اشراق کے بن اوقات میں اس کی زندگی میں ایک انقلاب آجاتا ہے۔ وہ ایک منہاج سے دوسرا منہاج اور ایک راستہ اختیار کرلیتا ہے۔

غرض قرآن کے اندر جس نظام ، جس قانون اور جن اخلاق کی تعلیم دی گئی ہے اس کا دار و مدار ایمان پر ہے۔ لہٰذا جس شخص کے دل میں ایمان نہیں ہے اور وہ اس قرآن کریم کو منجانب اللہ وحی نہیں سمجھتا ہے اور یہ یقین نہیں رکھتا کہ اس کے اندر جو کچھ آیا ہے وہ ایک نظام ہے جسے اللہ تعالیٰ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ جو شخص قرآن کے بارے میں ایسا ایمان و یقین نہیں رکھتا وہ قرآن کریم سے کوئی ہدایت نہیں پا سکتا۔ نہ اس میں پھر اس کے لئے کوئی خوشخبری ہے اور نہ کوئی فائدہ۔

حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کے اندر ہدایت و معرفت اور تحریک اور راہنمائی کے عظیم المقدار خزانے پڑے ہوئے ہیں لیکن ان خزانوں کے دروازے کھولنے کی چابی ایمان ہے۔ یہ خزانے اس چابی کے بغیر کھل نہیں سکتے۔ جو لوگ صحیح طرح ایمان لے ٓتے ہیں۔ ان ہاتھوں پر ، اس قرآن کے ذریعے ایسے عظیم کارنامے صادر ہوتے ہیں جس طرح پیغمبروں کے معجزات لیکن اگر قرآن کی حیثیت یہ ہوجائے کہ اسے گانے والے ترنم سے گائیں تو اس صورت میں قرآن صرف کانوں کے پردوں سے ٹکراتا ہے ، دلوں تک نہیں اترتا۔ اور اس صورت میں قرآن پھر کوئی تبدیلی نہیں لاتا اور اس سے کسی کو کوئی فائدہ نہ ہوگا اور اس کی حیثیت اس خزانے کی سی ہوئی ، جس کی چابی نہ ہو۔

اس سورت میں ان مومنین کی تعریف بھی کی گئی جن کے ہاتھ میں قرآن کے خزانوں تک پہنچنے کی چابی ہوتی ہے ، یہ لوگ ایسے ہوتے ہیں۔

آیت 2 - سورہ نمل: (هدى وبشرى للمؤمنين...) - اردو