سورہ نجم: آیت 10 - فأوحى إلى عبده ما أوحى... - اردو

آیت 10 کی تفسیر, سورہ نجم

فَأَوْحَىٰٓ إِلَىٰ عَبْدِهِۦ مَآ أَوْحَىٰ

اردو ترجمہ

تب اُس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو وحی بھی اُسے پہنچانی تھی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faawha ila AAabdihi ma awha

آیت 10 کی تفسیر

آیت 10{ فَاَوْحٰٓی اِلٰی عَبْدِہٖ مَآ اَوْحٰی۔ } ”پھر اس نے وحی کی اللہ کے بندے کی طرف جو وحی کی۔“ ”اَوْحٰی“ کا فاعل اللہ تعالیٰ بھی ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں ترجمہ یوں ہوگا : ”پس اللہ نے وحی کی اپنے بندے کی طرف جو وحی کی۔“ جس وحی کا یہ ذکر ہے وہ ”وحی رسالت“ تھی ‘ جبکہ پہلی وحی جو سورة العلق کی ابتدائی آیات پر مشتمل تھی ”وحی نبوت“ تھی۔ اس وحی سے حضور ﷺ کی نبوت کا ظہور ہوا : { اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ۔ اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ۔ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۔ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ۔ } ان پانچ آیات میں نہ تو آپ ﷺ کو کوئی حکم دیا گیا تھا اور نہ ہی کوئی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ اس کے بعد کئی ماہ تک کوئی وحی نہیں آئی۔ اس عارضی وقفے کو ”فترتِ وحی“ کا دور کہا جاتا ہے۔ پھر ایک دن جب آپ ﷺ غارِ حرا سے واپس آ رہے تھے تو وہ واقعہ پیش آیا جس کا ذکر آیات زیر مطالعہ میں ہو رہا ہے۔ یعنی آپ ﷺ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو ان کی اصل ملکی شکل میں افق پر دیکھا۔ اس منظر سے آپ ﷺ خوفزدہ ہوگئے اور اسی گھبراہٹ کی حالت میں آپ ﷺ گھر پہنچے۔ گھر پہنچتے ہی آپ ﷺ نے حضرت خدیجہ رض کو کمبل اوڑھانے کا فرمایا۔ اس کیفیت میں جب آپ ﷺ کمبل اوڑھے لیٹے تھے تو یہ وحی نازل ہوئی ‘ جس میں آپ ﷺ کو رسالت کی ذمہ داری سونپ دی گئی : { یٰٓــاَیُّھَا الْمُدَّثِّرُ۔ قُمْ فَاَنْذِرْ۔ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ۔ } المدثر ”اے کمبل میں لپٹ کر لیٹنے والے ! اب کھڑے ہو جائو اور لوگوں کو خبردار کرو۔ اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو !“ یعنی آپ ﷺ کی اس دعوت کا نقطہ آغاز تو ”انذار“ ہے مگر دنیا میں اس کا ہدف ”تکبیر رب“ ہے۔ پس آپ ﷺ اپنے رب کی بڑائی بیان کریں ‘ اس کی بڑائی منوائیں اور اس کی بڑائی کو نافذ کریں۔

آیت 10 - سورہ نجم: (فأوحى إلى عبده ما أوحى...) - اردو