سورہ نجم: آیت 1 - والنجم إذا هوى... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورہ نجم

وَٱلنَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ

اردو ترجمہ

قسم ہے تارے کی جبکہ وہ غروب ہوا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalnnajmi itha hawa

آیت 1 کی تفسیر

اس پیراگراف میں ہم نہایت ہی بلند روشن اور پھڑپھڑانے والے افق پر ہیں جہاں حضرت محمد ﷺ کے قلب مبارک نے چند خوبصورت اور نورانی لمحات عالم بالا کے ساتھ گزارے۔ ایک نہایت ہی نرم ، دھیمی موجوں پر مشتمل اور ترکیب پانے والے ترنم ہیں۔ ہم ان پر کیف لمحات کے رنگ ڈھنگ اور اشارات سنتے ہیں۔ الفاظ ان کی موسیقیت اور ماحول سب ہی پر کیف ہیں۔

یہ واردات قلب محمد ﷺ کے وہ وہ لمحات ہیں جن میں آپ کی نظروں کے سامنے سے تمام حجابات ہٹا دیئے گئے ہیں اور آپ عالم بالا سے ہدایات اور وحی لے رہے ہیں ، دیکھ رہے ہیں اور سن رہے ہیں۔ آپ کا قلب حفظ کررہا ہے۔ یہ لمحات کیسے تھے اس کا صحیح احساس تو صیقل شدہ قلب محمد ہی کو ہوگا لیکن اللہ کا کرم کہ اس نے ہم بندوں کے لئے اس واردات کو الفاظ میں بیان کردیا۔ نہایت ہی موثر انداز میں ایسی موسیقی کے ساتھ جو پانی کی طرح بہتی ہے جس میں تلمیحات کے رنگ ڈھنگ اور ماحول اور اشارات کو ہماری طرف منتقل کیا گیا ہے۔ یہ اس صیقل شدہ دل کا سفر تھا اور عالم بالا کی وسعتوں میں تھا۔ ایک ایک قدم کی تصویر ہماری نظروں میں آرہی ہے۔ ایک ایک منظر ، ایک ایک قدم اور اس انداز میں کہ گویا ہم ابھی دیکھ رہے ہیں۔

آغاز ایک قسم سے ہوتا ہے۔

والنجم اذا ھوی (35 : 7) ” قسم ہے تارے کی جب غروب ہو “ ستارہ غروب ہوتا ہے زمین کے قریب ہو کر اس کی قسم ہے اور جس بات پر قسم ہے وہ یہ ہے کہ حضرت جبرائیل یوں تھے۔

وھو بالافق ........ ما اوحی (35 : 01) ” جبکہ وہ بالائی افق پر تھا پھر قریب آیا اور اوپر معلق ہوگیا۔ یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے کچھ فاصلے پر رہ گیا۔ تب اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو وحی بھی اس نے پہنچائی “ تو ستارے کی حرکت اور حضرت جبرائیل کی حرکت کے درمیان نہایت ہم آہنگی اور یکرنگی ہے۔ یوں اس منظر میں ماحول ، حرکت اور موزونیت ابتدا ہی سے چلتی ہیں۔

والنجم اذاھوی (35 : 1) ” قسم ہے ستارے کی جب غروب ہوا “ کی تفسیر میں مختلف تفسیریں نقل کی گئی ہیں۔ زیادہ فریب الفہم یہ تفسیر ہے کہ اس سے شعریٰ ستارہ مراد ہے کیونکہ بعض عرب اسے پوجتے تھے اور بعد میں اس سورة میں اس کا ذکر بھی آیا ہے۔

وانہ ھو ........ الشعری (35 : 94) ” اور وہی شعری کا رب ہے “ پرانے لوگ شعری ستارے کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ یہ مشہور ہے کہ پرانے مصری یہ کہتے تھے کہ جب شعری اعلی افلاک کو عبور کرے تو نیل میں پانی کا طوفان آجاتا تھا۔ اس لئے وہ شعری کو دیکھتے رہتے تھے اور اس کی حرکت کو نوٹ کرتے تھے۔ ایرانیوں اور عربوں دونوں کی روایات میں اس کے بیشمار افسانے مشہور ہیں۔ لہٰذا یہاں ستارے سے مراد یہی شعری ہے اور یہاں قسم اور مقسم علیہ کے درمیان ہم رنگی بھی مقصود ہے جو اس ستارے کے غروب سے ظاہر ہے۔ پھر یہاں یہ اشارہ بھی دینا مقصود ہے کہ ستارہ اگر بہت بڑا ہی کیوں نہ ہو ، وہ غروب اور غائب ہونے والا ہے۔ معبود تو وہ ہونا چاہئے جسے زوال و غروب نہ ہو۔ یہ تو تھی قسم جس بات پر قسم اٹھالی گئی ہے وہ یہ ہے۔

آیت 1{ وَالنَّجْمِ اِذَا ہَوٰی۔ } ”قسم ہے ستارے کی جبکہ وہ گرتا ہے۔“ ھَوٰی یَھْوِیْ ھَوِیًّا کا اصل معنی ہے اوپر سے نیچے گرنا۔ یہاں اس سے ستاروں کا افق سے غائب ہونا ‘ ڈوب جانا یا فنا ہوجانا مراد ہوسکتا ہے۔ اس پر قدرے تفصیلی بحث سورة الواقعہ میں ”مَوَاقِعِ النُّجُوْم“ کے ضمن میں آئے گی۔ الْھَوِیَّۃ گہرے کنویں کو اور ھَاوِیَۃ دوزخ کو کہا جاتا ہے۔ جبکہ اسی مادہ سے ھَوِیَ یَھْوٰی ھَوًی کا معنی ہے خواہش کرنا۔ یہ لفظ الھَوٰی آگے آیت 3 میں آ رہا ہے۔

حضرت شعبی فرماتے ہیں خالق تو اپنی مخلوق میں سے جس کی چاہے قسم کھالے لیکن مخلوق سوائے اپنے خالق کے کسی اور کی قسم نہیں کھا سکتی (ابن ابی حاتم) ستارے کے جھکنے سے مراد فجر کے وقت ثریا کے ستارے کا غائب ہونا ہے۔ بعض کہتے ہیں مراد زہرہ نامی ستارہ ہے۔ حضرت ضحاک فرماتے ہیں مراد اس کا جھڑ کر شیطان کی طرف لپکنا ہے اس قول کی اچھی توجیہ ہوسکتی ہے مجاہد فرماتے ہیں اس جملے کی تفسیر یہ ہے کہ قسم ہے قرآن کی جب وہ اترے۔ اس آیت جیسی ہی آیت (فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ 75 ۙ) 56۔ الواقعة :75) ہے۔ پھر جس بات پر قسم کھا رہا ہے اس کا بیان ہے کہ آنحضرت ﷺ نیکی اور رشد و ہدایت اور تابع حق ہیں وہ بےعلمی کے ساتھ کسی غلط راہ لگے ہوئے یا باوجود علم کے ٹیڑھا راستہ اختیار کئے ہوئے نہیں ہیں۔ آپ گمراہ نصرانیوں اور جان بوجھ کر خلاف حق کرنے والے یہودیوں کی طرح نہیں۔ آپ کا علم کامل آپ کا عمل مطابق علم آپکا راستہ سیدھا آپ عظیم الشان شریعت کے شارع، آپ اعتدال والی راہ حق پر قائم۔ آپ کا کوئی قول کوئی فرمان اپنے نفس کی خواہش اور ذاتی غرض سے نہیں ہوتا بلکہ جس چیز کی تبلیغ کا آپکو حکم الہٰی ہوتا ہے آپ اسے ہی زبان سے نکالتے ہیں جو وہاں سے کہا جائے وہی آپ کی زبان سے ادا ہوتا ہے کمی بیشی زیادتی نقصان سے آپ کا کلام پاک ہوتا ہے، مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک شخص کی شفاعت سے جو نبی نہیں ہیں مثل دو قبیلوں کے یا دو میں سے ایک قبیلے کی گنتی کے برابر لوگ جنت میں داخل ہوں گے۔ قبیلہ ربیعہ اور قبیلہ مضر اس پر ایک شخص نے کہا کیا ربیعہ مضر میں سے نہیں ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا میں تو وہی کہتا ہوں جو کہتا ہوں۔ مسند کی اور حدیث میں ہے حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں میں حضور ﷺ سے جو کچھ سنتا تھا اسے حفظ کرنے کے لئے لکھ لیا کرتا تھا پس بعض قریشیوں نے مجھے اس سے روکا اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ ایک انسان ہیں کبھی کبھی غصے اور غضب میں بھی کچھ فرما دیا کرتے ہیں چناچہ میں لکھنے سے رک گیا پھر میں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ نے فرمایا لکھ لیا کرو اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری زبان سے سوائے حق بات کے اور کوئی کلمہ نہیں نکلتا یہ حدیث ابو داؤد اور ابن ابی شیبہ میں بھی ہے بزار میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں تمہیں جس امر کی خبر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دوں اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہوتا مسند احمد میں ہے کہ آپ نے فرمایا میں سوائے حق کے اور کچھ نہیں کہتا۔ اس پر بعض صحابہ نے کہا حضور ﷺ کبھی کبھی ہم سے خوش طبعی بھی کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا اس وقت بھی میری زبان سے ناحق نہیں نکلتا۔

آیت 1 - سورہ نجم: (والنجم إذا هوى...) - اردو