درس نمبر 121 ایک نظر میں
مسئلہ توحید کا یہ تسیرا دور ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اس کائنات کا خدا صرف ایک خدا ہے۔ اس سبق کا آغاز اس مفہوم سے ہوتا ہے کہ اللہ ایک ہے جو وحدہ مالک اور منعم ہے۔ پہلی تین آیات میں یہی مفہوم بیان ہوا ہے۔ یہاں ایک بہترین تمثیل دی گئی ہے کہ ایک مالک ہے ، رازق ہے اور دوسرا شخص غلام اور مملوک اور محتاج ہے۔ جس کا کوئی اختیار نہیں ۔ اور جس کی ملکیت میں کچھ بھی نہیں ہے۔ کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ تو پھر اللہ جو خالق مالک اور رازق ہے وہ اور تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریک کس طرح برابر ہو سکتے ہیں جو نہ مالک ہیں اور نہ رازق۔ کس طرح ہم دونوں کو کہہ سکتے ہیں کہ یہ بھی الٰہ ہے اور یہ بھی !
اس سبق میں لوگوں کا ایک نمونہ یہ بھی پیش کیا گیا ہے کہ جب وہ کسی مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں تو اللہ وحدہ کو پکارتے ہیں لیکن جب مصیبت دور ہوجاتی ہے تو پھر شرک کرنے لگ جاتے ہیں۔
اس سبق میں بت پرستی کے اوہام و خرافات کی کئی صورتیں بھی دی گئی ہیں۔ یہ لوگ اپنے بنائے ہوئے الہٰوں کے لئے بعض جانوروں کو مخصوص کرتے ہیں۔ حالانکہ خود ان کی حالت یہ ہے کہ اپنے مملوکات میں سے کسی چیز کو وہ اپنے غلاموں کے دائرۂ اختیار میں دینے کے لئے تیار نہیں۔ نہ کوئی چیز ان کے ساتھ تقسیم کرنے کے لئے تیار ہیں۔ خود تو لڑکیوں کو بےحد ناپسند کرتے ہیں لیکن فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں کہتے ہیں۔
واذا بشر۔۔۔۔۔۔۔ وھو کظیم (16 : 57) ” اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے اور وہ نہایت ہی کبیدہ خاطر ہوتا ہے “۔ یہ لوگ اللہ کے لئے تو وہ چیز تجویز کرتے ہیں جسے یہ خود ناپسند کرتے ہیں لیکن ان کی زبانوں پر یہ دعویٰ ہر وقت رہتا ہے کہ ان کے لئے تو اچھائی ہی مقرر ہے اور یہ کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں اس کا نتیجہ اچھا ہی رہے گا۔ یہ اوہام و خرافات ان کو اپنے آباؤ اجداد سے ورثے میں ملے ہیں اور رسول اللہ ﷺ تو مبعوث ہی اس لیے ہوئے ہیں کہ آپ ﷺ ان کے سامنے ان کی حقیقت کھول کر بیان کردیں۔ چناچہ آپ ﷺ اہل ایمان کے لئے صاحب ہدایت اور باعث رحمت ہیں۔
اس کے بعد حقیقی خدا کی پیدا کردہ بعض چیزوں کی نمونے دئیے جاتے ہیں اور اگر ان میں انسان ذرا بھی غوروفکر کرے تو وہ بہت کچھ نصیحت اور عبرت حاصل کرسکتا ہے۔ کیونکہ ان چیزوں کی ایجاد پر صرف وحدہ قادر ہے اور یہ چیزیں اللہ کی خدائی اور آپ کی برتری کے دلائل ہیں۔ مثلاً یہ کہ اللہ نے آسمانوں سے بارشیں برسانے کا انتظام فرمایا جس کے ذریعے مردہ زمین تروتازہ ہوجاتی ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے پانی کے علاوہ لوگوں کے پینے کے لئے نہایت ہی خوشگوار اور لذیذ دودھ پیدا کیا اور یہ دودھ جانور کے گوبر اور خون کے درمیان سے پیدا ہوتا ہے۔ پھر اللہ نے کھجور اور انگور پیدا کئے تم لوگ نشہ آور چیز بھی بناتے ہو اور رزق حسن بھی۔ پھر اس نے شہد کی مکھی کو یہ وحی کی کہ پہاڑوں میں گھر بنا ، درختوں میں گھر بنا ، اور ٹٹیوں پر چڑھائی ہوئی بیلوں میں گھر بنا اور اس میں سے شہد پیدا ہوتا کہ وہ لوگوں کے لئے شفا ہو۔ اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا۔ بعض کو وہ جلدی بلا لیتا ہے اور بعض دوسرے طویل عمر پاتے ہیں۔ وہ علم کو بھول جاتے ہیں اور اس قدر سادہ ہوجاتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں جانتے ۔ پھر اللہ نے بعض لوگوں کو دوسروں پر رزق میں فضیلت دی۔ پھر بعض کو بیویاں اور لڑکے اور پوتے دئیے۔ ان حقائق کے باوجود بعض لوگ ایسے شرکاء کی بندگی کرتے ہیں جو زمین و آسمان میں لوگوں کو کسی قسم کا رزق دینے پر قدرت نہیں رکھتے اور اس کے ساتھ وہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو مشابہ اور مماثل قرار دیتے ہیں۔
احساس دلانے والے یہ دلائل جو نفس انسانی اور اس کے ماحول میں بکھرے ہوئے ہیں ، اس کی طرف قرآن انسان کو متوجہ کرتا ہے تا کہ وہ اللہ کی قدرت کو پاسکیں جو ان کی ذات ، ان کے رزق ، ان کے کھانے ، ان کے پینے اور ان کے اردگرد ان کے افادے کی ہر چیز میں متحرک ہے۔ اس سبق کا خاتمہ پھر ان دو مثالوں پر ہوتا ہے جن کی طرف ہم نے اشارہ کردیا ہے۔ یہ گویا انسانی عقل و وجدان کو احساس دلانے کی ایک مفید کوشش ہے ، جس کے گہرے اثرات ہیں اور اس میں نفس انسانی کے رباب کے نہایت ہی حساس تاروں کو چھیڑا گیا ہے لہٰذا ممکن نہیں کہ نفس انسانی اس سے متاثر نہ ہو اور لبیک نہ کہے۔
آیت نمبر 51 تا 55
اللہ کا یہ فرمان ہے کہ دو الٰہ نہ بناؤ۔ خدا تو بس ایک ہی ہے۔ اس بات کے لئے اسلوب نہایت ہی فیصلہ کن اور مثبت اختیار کیا گیا۔ اللہ کے بعد دو کا لفظ آیا ہے اور دوسرے فقرے میں نہایت تاکیدی مصرع کہ ” اللہ تو بس ایک ہی ہے ، اور ان دونوں فقروں کے بعد ایک دوسرا مصرع ہے ” لہٰذا تم مجھی سے ڈرو “۔ اور میرے سوا کسی اور سے نہ ڈرو۔ کسی کے ساتھ ڈرنے کا ایسا طرز عمل اختیار نہ کرو جس طرح مجھ سے ڈرنا ہوتا ہے ۔ فارھبون اس لیے کہا گیا کہ مجھ سے زیادہ سے زیادہ ڈرو۔ اسلامی نظریہ حیات میں عقیدۂ توحید ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ اسلامی نظریہ حیات قائم ہی عقیدۂ توحید پر ہے۔ جب تک توحید نہ ہو ایمان قائم ہی نہیں ہو سکتا اور ایمان کے بغیر اسلام کا نظریہ حیات قائم ہی نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا یہ مسئلہ انسان کے قلب و دماغ میں اس قدر واضح ہونا چاہئے کہ اس میں کوئی التباس نہ ہو اور کوئی پیچیدگی نہ ہو۔
اور جب خالق ومالک و الٰہ وہی ہے تو پھر اس زمین و آسمان اور کائنات کا مالک بھی وہی ہے۔
ولہ ما فی السموت والارض (16 : 56) ” وہ سب کچھ جو آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اسی کا ہے “۔
ولہ الدین واصباً (16 : 52) ” خالصتاً اسی کا دین چل رہا ہے “۔ یعنی جب سے یہ کائنات اور دین وجود میں آئے ہیں اسی کا دین مسلسل چل رہا ہے اور منعم بھی وہی اللہ ہے۔
وما بکم من نعمۃ فمن اللہ (16 : 53) ” تم کو جو نعمت بھی حاصل ہے ، اللہ ہی کی طرف سے ہے “۔ یہ بات تمہاری فطرت کے اندر رکھی ہوئی ہے کہ جب کوئی مشکل وقت آتا ہے تو تمہاری فطرت پکار اٹھتی ہے کہ صرف کو پکارو۔ اس مشکل وقت میں پھر کوئی وہمی مددگار یا بت انسان کو یاد نہیں رہتا۔
ثم اذا مسکم الضر فالیہ تجئرون (16 : 53) ” پھر جب کوئی سخت وقت تم پر آتا ہے تو تم لوگ خود اپنی فریادیں لے کر اسی کی طرف دوڑتے ہو “۔ اور تم اس وقت پھر چیخ چیخ کر پکارتے ہو کہ وہ تمہیں اس مشکل سے نجات دے۔ یوں قرآن کریم اللہ تعالیٰ کو خدائی ، حاکمیت ، ملک ، قانون سازی ، نعمت اور ہدایت اور نظام زندگی دینے کا واحد سر چشمہ قرار دیتا ہے۔ انسانی فطرت اس بات کی تصدیق یوں کرتی ہے کہ جب انسان کسی عظیم مصیبت میں گرفتار ہوتا ہے تو اس وقت انسان کی حقیقی فطرت تمام شرک کے تمام شائیوں اور آلائشوں سے پاک ہوجاتی ہے۔ لیکن بعض لوگ پھر بھی ایسے کج دماغ ہوتے ہیں کہ جب یہ مہیب خطرہ ان سے ٹل جاتا ہے تو یہ لوگ اچانک شرک کرنے لگتے ہیں۔ یوں وہ اللہ کے انعامات کی ناشکری کرتے اور اللہ کی ہدایات سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ لیکن دنیا کا یہ مختصر دور جلد ختم ہوگا اور ذرا انتظار کرو کہ آخرت میں ان کو مصیبت سے دوچار ہونا پڑے گا۔
فتمتعوا فسوف تعلمون (16 : 55) ” اچھا مزے کرلو عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا “۔ یہ نمونہ مخلوقات جس کے خدو خال قرآن مجید نے یہاں نقش کئے۔
ثم اذا مسکم الضر ۔۔۔۔۔۔۔ یشرکون (16 : 54) ” پھر جب کوئی سخت وقت تم پر آتا ہے تو پھر تم لوگ خود اپنی فریادیں لے کر اسی کی طرف دوڑتے ہو۔ مگر جب اللہ اس وقت کو ٹال دیتا ہے تو یکایک تم میں سے ایک گروہ اپنے رب کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے لگتا ہے۔ اس طرز کے لوگ انسانوں میں ہمیشہ پائے جاتے ہیں۔ مشکلات میں دل اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں کیونکہ انسان بتقاضائے فطرت اس بات کو جانتا ہے کہ اللہ کے سوا بچانے والا کوئی نہیں ہے۔ عافیت کے زمانہ میں انسان عیش و عشرت میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے اس لیے اس کا تعلق باللہ کمزور پڑجاتا ہے۔ اس میں کئی رنگ کی کج رویاں پائی جاتی ہیں ، ان میں سب سے بڑی کج روی اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے ، نیز انسان بعض رسوم اور اقدار کو بھی خدائی درجہ دے دیتا ہے ، اگرچہ ان کو وہ الٰہ نہیں کہتا۔
بعض اوقات اس کا انحراف بہت ہی شدید ہوجاتا ہے اور فطرت پوری طرح بگڑ جاتی ہے کہ بعض لوگ نہایت ہی شدید حالات میں بھی اللہ کو نہیں پکارتے بلکہ وہ بعض دوسری ہستیوں کو بچاؤ، نجات اور امداد کے لئے پکارتے ہیں۔ ان کا بہانہ یہ ہوتا ہے کہ یہ ہستیاں اللہ کے ہاں جاہ و منزلت رکھتی ہیں اور بعض اوقات بعض لوگ اس تصور کے سوا بھی دوسری ہستیوں کو پکارتے ہیں۔ مثلاً بعض لوگ اولیاء اللہ کو مصیبت کے وقت پکارتے ہیں۔ ان لوگوں کی یہ حرکت مشرکین جاہلیت کے شرک سے بھی بدتر ہے کیونکہ مشرکین جاہلیت کے بارے میں تو قرآن یہ کہتا ہے کہ سخت مشکلات میں یہ لوگ صرف اللہ کو پکارتے تھے۔
ہر چیز کا واحد مالک وہی ہے اللہ واحد کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، وہ لا شریک ہے، وہ ہر چیز کا خالق ہے، مالک ہے، پالنہار ہے۔ اسی کی خالص عبادت دائمی اور واجب ہے۔ اس کے سو دوسروں کی عبادت کے طر یقے نہ اختیار کرنے چاہئیں۔ آسمان و زمین کی تمام مخلوق خوشی یا نا خوشی اس کی ماتحت ہے۔ سب کو لوٹایا جانا اسی کی طرف ہے، خلوص کے ساتھ اسی کی عبادت کرو۔ اسکے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے سے بچو۔ دین خالص صرف اللہ ہی کا ہے آسمان و زمین کی ہر چیز کا مالک وہی تنہا ہے۔ نفع نقصان اسی کے اختیار میں ہے، جو کچھ نعمتیں بندوں کے ہاتھ میں ہیں سب اسی کی طرف سے ہیں، رزق نعمتیں عافیت تصرف اسی کی طرف سے ہے، اسی کے فضل و احسان بدن پر ہیں۔ اور اب بھی ان نعمتوں کے پالنے کے بعد بھی تم اس کے ویسے ہی محتاج ہو مصیبتیں اب بھی سر پر منڈلا رہی ہیں۔ سختی کے وقت وہی یاد آتا ہے اور گڑ گڑا کر پوری عاجزی کے ساتھ کٹھن وقت میں اسی کی طرف جھکتے ہو۔ خود مشرکین مکہ کا بھی یہی حال تھا کہ جب سمندر میں گھر جاتے باد مخالف کے جھونکے کشتی کو پتے کی طرح ہچکو لے دینے لگتے تو اپنے ٹھاکروں، دیوتاؤں، بتوں، فقیروں، ولیوں، نبیوں سب کو بھول جاتے اور خالص اللہ سے لو لگا کر خلوص دل سے اس سے بچاؤ اور نجات طلب کرتے۔ لیکن کنارے پر کشتی کے پار لگتے ہی اپنے پرانے اللہ سب یاد آجاتے اور معبود حقیقی کے ساتھ پھر ان کی پوجا پاٹ ہونے لگتی۔ اس سے بڑھ کر بھی ناشکری کفر اور نعمتوں کی فراموشی اور کیا ہوسکتی ہے ؟ یہاں بھی فرمایا کہ مطلب نکل جاتے ہی بہت سے لوگ آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ لیکفروا کا لام لام عاقبت ہے اور لام تعلیل بھی کہا گیا ہے یعنی ہم نے یہ خصلت ان کی اس لئے کردی ہے کہ وہ اللہ کی نعمت پر پردے ڈالیں اور اس کا انکار کریں حالانکہ دراصل نعمتوں کا دینے والا، مصیبتوں کا دفع کرنے والا اس کے سوا کوئی نہیں۔ پھر انہیں ڈراتا ہے کہ اچھا دنیا میں تو اپنا کام چلا لو، معمولی سا فائدہ یہاں کا اٹھا لو لیکن اس کا انجام ابھی ابھی معلوم ہوجائے گا۔