سورہ نحل: آیت 5 - والأنعام خلقها ۗ لكم فيها... - اردو

آیت 5 کی تفسیر, سورہ نحل

وَٱلْأَنْعَٰمَ خَلَقَهَا ۗ لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ وَمَنَٰفِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ

اردو ترجمہ

اس نے جانور پیدا کیے جن میں تمہارے لیے پوشاک بھی ہے اور خوراک بھی، اور طرح طرح کے دوسرے فائدے بھی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaalanAAama khalaqaha lakum feeha difon wamanafiAAu waminha takuloona

آیت 5 کی تفسیر

آیت نمبر 5 تا 8

جس معاشرے میں قرآن مجید نازل ہوا ، مثلاً سب سے پہلے مکہ مکرمہ میں ، اور اس قسم کے تمام معاشرے جو آج بھی موجود ہیں ، خصوصاً وہ سوسائٹیاں جن کی معیشت زراعت پر مبنی ہے۔ ایسے معاشروں میں انسان کی زندگی کا تصور بھی ان جانوروں کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ جزیرۃ العرب میں متعارف جانور یہی تھے ، اونٹ ، گائے بھینس اور بھیڑ بکریاں کھانے پینے کے لئے اور گھوڑے اور خچر اور گدھے سواریوں اور زینت کے لئے۔ گھوڑوں کے بارے میں فقہی اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اس کا کھانا حرام سمجھتے ہیں کہ بعض احادیث میں اس سے منع کیا گیا ہے نیز قرآن نے اسے رکوب کے لئے بتایا ہے جبکہ دوسرے ائمہ جائز سمجھتے ہیں کیونکہ صحیح احادیث میں گھوڑوں کا گوشت کھانا جائز بتایا گیا ہے۔

قرآن کریم نے یہاں ان جانوروں کو بطور نعمت پیش کیا ہے ، اس لیے کہ ان میں بعض کے ساتھ انسان کی مادی ضروریات وابستہ ہیں اور بعض انسان کے لئے زینت ہیں۔ نیز ان کی جلد سے انسان اپنے لیے لباس بناتا ہے ، ان کی اون اور بالوں سے مختلف مصنوعات تیار ہوتی ہیں ، ان کا دودھ ، گوشت وغیرہ استعمال ہوتا ہے۔ گھی اور چربی اور ہڈیاں تک کام میں آتی ہیں۔ یہ جانور بار برداری کا کام کرتے ہیں کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ تک انسان خود بھی سامان پہنچا سکتا ہے مگر بہت بڑی مشقت کے ساتھ۔ نیز صبح جب تم مویشی نکالتے ہو چرنے کے لئے اور شام کو واپس لاتے ہو ، تو یہ تمہارے لئے ایک جمال ہے۔ تم انہیں دیکھ کر خوش ہوتے ہو۔ جب وہ خوبصورت اور موٹے تازے تمہاری نگاہوں کے سامنے آتے ہیں ، شام کے وقت جب خوب پھلے پھولے واپس آتے ہیں ۔ دیہاتی لوگ ان آیات کا مفہوم ، شہریوں کی نسبت زیادہ گہرائی تک سمجھتے ہیں۔ گھوڑے ، خچر اور گدھے زیادہ تر بار برداری کے کام آتے ہیں ۔ ان کو سواری کے طور پر بہت خوبصورت بھی بنایا جاتا ہے۔

لترکبوھا وزینۃ (16 : 8) “ تا کہ ان پر سوار ہو اور تمہاری زندگی کی رونق بنیں ”۔ لفظ زینہ یہاں زیادہ توجہ کے قابل ہے۔ اس سے زندگی کے بارے میں اسلام اور قرآن کا نقطہ نظر سامنے آتا ہے۔ اسلامی زاویہ سے جمال اور حسن زندگی کا اصلی جزو ہے۔ نعمت کا مفہوم ضروریات زندگی ، کھانے پینے اور سواری تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ انسانی شوق اور تفریح بھی ضروریات زندگی میں سے ہے ۔ حسن و جمال کی حس ، تفریح اور مسرت کا شعور اور اعلیٰ انسانی ذوق ، محض حیوانی ضروریات و حاجات سے ، اسلام کی نظر میں زیادہ اہم ہے۔

ان ربکم لرؤف رحیم (16 : 7) “ تمہارا رب بڑا شفیق و مہربان ہے ”۔ یہ تعقیب اس حقیقت پر ہے کہ باربرداری کا کام اگر خود انسان کو کرنا پڑے تو یہ بہت ہی مشقت کا کام ہے۔ لہٰذا اللہ نے باربرداری کے لئے جو جانور پیدا کئے ہیں وہ اللہ کی رحمت بےپایاں اور نعمت عظیم ہے۔

ویخلق ما لا تعلمون (16 : 8) “ اور وہ بہت سی چیزیں پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں ”۔ یہ تعقیب ہے اس پر کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے جانور پیدا کئے جنہیں تم کھاتے بھی ہو۔ باربرداری کا کام بھی ان سے لیتے ہو اور وہ تمہارے لیے زینت اور خوشی اور مسرت کا سامان بھی ہیں۔ یہاں مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض ایسی چیزوں کی تخلیق بھی کرتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں۔ لہٰذا ان مقاصد تک رسائی حاصل کرنے کے لئے انسانی سوچ کو کھلا رکھا گیا ہے کیونکہ دور جدید میں حمل ونقل کے نئے نئے ذرائع بھی تخلیقات الہٰیہ میں آتے ہیں ، نیز زیب وزینت اور تفریح و مسرت کے نئے نئے ذرائع بھی تم پیدا کرسکتے ہو۔ لہٰذا اس تصور کو ابتدائی معاشرہ جس میں قرآن مجید نازل ہوا ، اسی تک محدود نہیں کردیا گیا۔ کیونکہ اسلامی تعلیمات زمان و مکان میں مقید نہیں۔ ہر دور اور ہر زمان و مکان کے آگے مزید دور اور مزید زمان ومکان آتے ہیں اور ان میں ضرورت و مسرت کے جدید ذرائع ہو سکتے ہیں۔ لوگوں کو یہ امید دی جاتی ہے کہ وہ مزید تخلیقات الٰہیہ کی توقع رکھیں۔ اگر توفیق الٰہی سے انسان کوئی جدید سہولت اور زینت ایجاد کرتا ہے تو وہ اسے قبول کرنے کے لئے تیار ہوں ، یہ نہ ہو کہ وہ اس کی مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوں۔ اور جدید انکشافات و ایجادات سے فائدہ نہ اٹھائیں اور یہ نہ کہیں کہ ہمارے آباؤ اجداد تو مذکورہ بالا جانوروں ہی سے ضرورت پوری کرتے تھے۔ گھوڑے ، خچر اور گدھوں ہی سے باربرداری کا کام لیتے تھے لہٰذا ہم جدید ذرائع حمل ونقل کو کام میں نہیں لاتے اور نہ ہی ان سے استفادہ کرتے ہیں اور یہ کہ چونکہ قرآن نے صرف مذکورہ بالا اقسام کی تصریح کردی ہے لہٰذا ان کے سوا سہولیات ، خوراک اور زیبائش حرام ہے اسی لیے کہا گیا کہ تخلیقات کا دائرہ وسیع ہے۔

اسلام ایک ایسا نظریہ ہے جو کھلا اور لچکدار ہے۔ وہ زندہ کی تمام قوتوں اور صلاحیتوں سے استفادہ کرتا ہے اس لیے قرآن کریم مسلمانوں کے ذہن کو آنے والے ادوار کی قوتوں اور علوم کی فراہم کردہ سہولیات سے استفادے کے لئے تیار کرتا ہے۔ ایک مسلمان کا ذہن اس قدر کھلا ہوتا ہے کہ وہ مستقبل کے تمام انکشافات کو دینی ذہن کے ساتھ قبول کرتا ہے اور اسے از عجائبات الٰہی اور عجائبات علوم میں سے سمجھتا ہے اور زندگی کا ایک حصہ سمجھتا ہے۔

دور جدید میں حمل ، نقل اور سواری کے نئے نئے وسائل ایجاد ہوگئے ہیں۔ سہولیات کے ساتھ ساتھ یہ وسائل زیب وزینت کے بھی اعلیٰ ذرائع ہیں۔ نزول قرآن کے دور کے لوگ ان کے بارے میں تصور بھی نہ کرسکتے تھے۔ نیز آئندہ ایسے وسائل بھی ایجاد ہوں گے جن کے بارے میں ہمارے دور کے لوگ سوچ نہیں سکتے۔ ایسے ہی حالات کے لیے قرآن کریم لوگوں کو فکری زاویہ سے تیار کرتا ہے کہ ان کا ذہن منجمد نہ ہو۔ یہی ہے مفہوم ویخلق ما لا تعلمون (16 : 8) کا۔

یہاں بحث یہ تھی کہ اللہ نے انسان کے لئے ذرائع نقل و حمل پیدا کئے۔ ان ذرائع کو استعمال کر کے انسان بڑے بڑے فاصلے طے کرتا ہے۔ کہیں سے کہیں پہنچ جاتا ہے ، موضوع کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ روحانی راستے اور روحانی سفر اور ان کے ذرائع نقل و حمل کی طرف بھی اشارہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی طرف جانے کے بھی راستے ہیں۔ اللہ تک پہنچنے کا راستہ بالکل سیدھا راستہ ہے۔ دنیا میں اللہ تک پہنچانے کے لئے بعض ٹیڑھے راستے بھی ہیں ، جو در حقیقت اللہ تک نہیں پہنچا سکتے۔ اللہ تک پہنچنے کا راستہ خود اللہ ہی بتا تا ہے۔ اس راستے کو معلوم کرنے کے لئے اللہ نے اس کائنات میں نشانات رکھے ہوئے ہیں ان پر تدبر کیا جانا چاہئے اسی لئے خود انسانوں میں سے بعض افراد کو رسول بنا کر بھیجا گیا ہے کہ وہ بھی اس راستے کی نشاندہی کردیں۔

آیت 5 وَالْاَنْعَامَ خَلَقَهَا ۚ لَكُمْ فِيْهَا دِفْءٌ وَّمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَاْكُلُوْنَ بعض جانوروں کی اون سے تم لوگ لباس بنتے ہو جو سردی کے موسم میں تمہیں گرمی پہنچاتا ہے بعض جانوروں کے بالوں سے بہت سی دوسری چیزیں بناتے ہو۔ اسی طرح یہ جانور اور بھی بہت سی صورتوں میں تمہارے لیے مفید اور مددگار ہوتے ہیں حتیٰ کہ تمہاری خوراک کی بیشتر ضروریات بھی انہی سے پوری ہوتی ہیں۔

چوپائے اور انسان جو چوپائے اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں اور انسان ان سے مختلف فائدے اٹھا رہا ہے اس نعمت کو رب العالمین فرما رہا ہے جیسے اونٹ گائے بکری۔ جس کا مفصل بیان سورة انعام کی آیت میں آٹھ قسموں سے کیا ہے۔ ان کے بال اون صوف وغیرہ کا گرم لباس اور جڑاول بنتی ہے دودھ پیتے ہیں گوشت کھاتے ہیں۔ شام کو جب وہ چر چگ کر واپس آتے ہیں، بھری ہوئی کو کھوں والے، بھرے ہوئے تھنوں والے، اونچی کوہانوں والے، کتنے بھلے معلوم ہوتے ہیں اور جب چراگاہ کی طرف جاتے ہیں کیسے پیارے معلوم ہوتے ہیں پھر تمہارے بھاری بھاری بوجھ ایک شہر سے دوسرے شہر تک اپنی کمر پر لاد کرلے جاتے ہیں کہ تمہارا وہاں پہنچنا بغیر آدھی جان کئے مشکل تھا۔ حج وعمرہ کے، جہاد کے، تجارت کے اور ایسے ہی اور سفر انہیں پر ہوتے ہیں تمہیں لے جاتے ہیں تمہارے بوجھ ڈھوتے ہیں۔ جیسے آیت (وَاِنَّ لَكُمْ فِي الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۭ نُسْقِيْكُمْ مِّمَّا فِيْ بُطُوْنِهٖ مِنْۢ بَيْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَاۗىِٕغًا لِّلشّٰرِبِيْنَ 66؀) 16۔ النحل :66) میں ہے کہ یہ چوپائے جانور بھی تمہاری عبرت کا باعث ہیں ان کے پیٹ ہم تمہیں دودھ پلاتے ہیں اور ان سے بہت سے فائدے پہنچاتے ہیں ان کا گوشت بھی تم کھاتے ہو ان پر سواریاں بھی کرتے ہو۔ سمندر کی سواری کے لئے کشتیاں ہم نے بنادی ہیں۔ اور آیت میں ہے آیت (اَللّٰهُ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَنْعَامَ لِتَرْكَبُوْا مِنْهَا وَمِنْهَا تَاْكُلُوْنَ 79؀ۡ) 40۔ غافر :79) اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے چوپائے پیدا کئے ہیں کہ تم ان پر سواری کرو انہیں کھاؤ نفع اٹھاؤ دلی حاجتیں پوری کرو اور تمہیں کشتیوں پر بھی سوار کرایا اور بہت سی نشانیاں دکھائیں پس تم ہمارے کس کس نشان کا انکار کرو گے ؟ یہاں بھی اپنی یہ نعمتیں جتا کر فرمایا کہ تمہارا وہ رب جس کا مطیع بنادیا ہے وہ تم پر بہت ہی شفقت و رحمت والا ہے جیسے سورة یاسین میں فرمایا کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے ان کیلئے اپنے ہاتھوں چوپائے بنائے اور انہیں انکا مالک بنادیا اور انیں انکا مطیع بنادیا کہ بعض کو کھائیں بعض پر سوار ہوں اور آیت میں (وَالَّذِيْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّهَا وَجَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْفُلْكِ وَالْاَنْعَامِ مَا تَرْكَبُوْنَ 12 ۙ) 43۔ الزخرف :12) اس اللہ نے تمہارے لئے کشتیاں بنادیں اور چوپائے پیدا کردیئے کہ تم ان پر سوار ہو کر اپنے رب کا فضل و شکر کرو اور کہو وہ پاک ہے جس نے انہیں ہمارا ماتحت کردیا حالانکہ ہم میں یہ طاقت نہ تھی ہم مانتے ہیں کہ ہم اسی کی جانب لوٹیں گے۔ دف کے معنی کپڑا اور منافع سے مراد کھانا پینا، نسل حاصل کرنا، سواری کرنا، گوشت کھانا، دودھ پینا ہے۔

آیت 5 - سورہ نحل: (والأنعام خلقها ۗ لكم فيها دفء ومنافع ومنها تأكلون...) - اردو