سورہ نحل: آیت 2 - ينزل الملائكة بالروح من أمره... - اردو

آیت 2 کی تفسیر, سورہ نحل

يُنَزِّلُ ٱلْمَلَٰٓئِكَةَ بِٱلرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِۦ عَلَىٰ مَن يَشَآءُ مِنْ عِبَادِهِۦٓ أَنْ أَنذِرُوٓا۟ أَنَّهُۥ لَآ إِلَٰهَ إِلَّآ أَنَا۠ فَٱتَّقُونِ

اردو ترجمہ

وہ اِس روح کو اپنے جس بندے پر چاہتا ہے اپنے حکم سے ملائکہ کے ذریعے نازل فرما دیتا ہے (اِس ہدایت کے ساتھ کہ لوگوں کو) "آگاہ کر دو، میرے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں ہے، لہٰذا تم مجھی سے ڈرو"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yunazzilu almalaikata bialrroohi min amrihi AAala man yashao min AAibadihi an anthiroo annahu la ilaha illa ana faittaqooni

آیت 2 کی تفسیر

يُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ بالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖٓ اَنْ اَنْذِرُوْٓا اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاتَّقُوْنِ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِہٖ سے مراد اللہ کی وحی ہے۔ یعنی حضرت محمد کو اللہ نے اپنی وحی کے لیے چن لیا اور آپ کی طرف حضرت جبرائیل وحی لے کر آئے۔ یہاں پر لفظ ”امر“ کی وضاحت بھی ضروری ہے۔ سورة الاعراف کی آیت 54 میں فرمایا گیا : اَلاَ لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ط ”آگاہ ہوجاؤ ‘ اسی کے لیے خلق ہے اور اسی کے لیے امر“۔ یعنی عالم خلق اور عالم امر دو الگ الگ عالم ہیں۔ عالم امر کا معاملہ یہ ہے کہ اس میں وقت کا عامل بالکل کارفرما نہیں۔ اس عالم میں کسی کام کے کرنے یا کوئی واقعہ وقوع پذیر ہونے میں وقت درکار نہیں ہوتا۔ بس اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہوتا ہے اور اس کے ”کُنْ“ فرمانے سے وہ کام ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ سورة یٰسٓ میں فرمایا گیا : اِنَّمَآ اَمْرُہٓٗ اِذَآ اَرَادَ شَیْءًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ ”اس کا امر تو یہی ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو بس یہی ہوتا کہ وہ اسے کہتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے۔“ اس کے برعکس عالم خلق میں کسی کام کے پایہ تکمیل تک پہنچنے میں وقت درکار ہوتا ہے۔ جیسے قرآن میں متعدد بار فرمایا گیا کہ اللہ نے زمین و آسمان چھ دنوں میں تخلیق کیے۔ اسی طرح دنیا کا سارا نظام عالم خلق کے اصولوں پر چل رہا ہے۔ مثلاً آم کی گٹھلی سے کو نپلیں پھوٹتی ہیں ‘ پھر بڑھتی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ ایک تناور درخت بن جاتا ہے۔ اس سارے عمل میں وقت درکار ہوتا ہے۔ یہاں پر روح کے ذکر کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ روح کا تعلق عالم امر سے ہے۔ عالم امر کی صرف تین چیزیں ہی ہمارے علم میں ہیں۔ ملائکہ ‘ روح اور وحی۔ قرآن میں ملائکہ کو بھی روح کہا گیا ہے۔ جیسے حضرت جبرائیل کے لیے روح القدس اور روح الامین کے الفاظ آئے ہیں۔ سورة الشعراء میں فرمایا گیا : نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ جبکہ سورة البقرۃ کی آیت 87 میں ارشاد ہوا : وَاَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ۔ اسی طرح قرآن میں وحی کو بھی روح کہا گیا ہے ‘ اور یہ وحی نازل بھی روح پر ہوتی ہے۔ جب محمد رسول اللہ پر وحی نازل ہوتی تو آپ اس کا ادراک طبعی حواس خمسہ سے نہیں کرتے تھے ‘ بلکہ وحی براہ راست آپ کے قلب مبارک پر نازل ہوتی تھی۔ اس لیے کہ قلب محمدی روح محمدی کا مسکن تھا : نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ الشعراء۔ چناچہ وحی بھی روح ہے ‘ اس کو لانے والے جبرائیل امین بھی روح ہیں اور اس کا نزول بھی روح محمدی پر ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں جگر مراد آبادی کا یہ شعر ان کی کسی خاص کیفیت کا مظہر معلوم ہوتا ہے نغمہ وہی ہے نغمہ کہ جس کو روح سنے اور روح سنائے !

وحی کیا ہے ؟ روح سے مراد یہاں وحی ہے جیسے آیت (وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا ۭ مَا كُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِيْمَانُ وَلٰكِنْ جَعَلْنٰهُ نُوْرًا نَّهْدِيْ بِهٖ مَنْ نَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِنَا ۭ وَاِنَّكَ لَـــتَهْدِيْٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ 52؀ۙ) 42۔ الشوری :52) ہم نے اسی طرح تیری طرف اپنے حکم سے وحی نازل فرمائی حالانکہ تجھے تو یہ بھی پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کی ماہیت کیا ہے ؟ ہاں ہم نے اسے نور بنا کر جسے چاہا اپنے بندوں میں سے راستہ دکھا دیا۔ یہاں فرمان ہے کہ ہم جن بندوں کو چاہیں پیغبری عطا فرماتے ہیں ہمیں ہی اس کا پورا علم ہے کہ اس کے لائق کون ؟ ہم ہی فرشتوں میں سے بھی اس اعلیٰ منصب کے فرشتے چھانٹ لیتے ہیں اور انسانوں میں سے بھی۔ اللہ اپنی وحی اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا تارتا ہے تاکہ ملاقات کے دن سے ہوشیار کردیں جس دن سب کے سب اللہ کے سا منے ہوں گے کوئی چیز اس سے مخفی نہ ہوگی۔ اس دن ملک کس کا ہوگا ؟ صرف اللہ واحد وقہار کا۔ یہ اس لئے کہ وہ لوگوں میں وحدانیت رب کا اعلان کردیں اور پارسائی سے دور مشرکوں کو ڈرائیں اور لوگوں کو سمجھائیں کہ وہ مجھ سے ڈرتے رہا کریں۔

آیت 2 - سورہ نحل: (ينزل الملائكة بالروح من أمره على من يشاء من عباده أن أنذروا أنه لا إله إلا أنا فاتقون...) - اردو