سورہ نحل: آیت 1 - أتى أمر الله فلا تستعجلوه... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورہ نحل

أَتَىٰٓ أَمْرُ ٱللَّهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ ۚ سُبْحَٰنَهُۥ وَتَعَٰلَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ

اردو ترجمہ

آ گیا اللہ کا فیصلہ، اب اس کے لیے جلدی نہ مچاؤ پاک ہے وہ اور بالا تر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ata amru Allahi fala tastaAAjiloohu subhanahu wataAAala AAamma yushrikoona

آیت 1 کی تفسیر

آیت نمبر 1 تا 2

مشرکین مکہ اس معاملے میں جلدی کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ جس طرح اقوام سابقہ کی ہلاکت کی بات کرتے ہیں ، ہم پر بھی دنیا یا آخرت کا عذاب لے آئیں۔ مکہ میں آپ ﷺ کی زندگی گزر رہی تھی اور جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے وہ اپنے اس مطالبے پر زیادہ زور دیتے۔ بلکہ مذاق کرنے لگتے اور خندہ و استہزاء میں بہت ہی آگے بڑھ جاتے۔ وہ اس تاثر کا اظہار کرتے کہ حضرت محمد ﷺ انہیں خواہ مخواہ ڈراتے ہیں ، جو ڈراوے وہ دیتے ہیں ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اس لیے وہ محض اوہام پر ایمان نہیں لا سکتے ہیں ، نہ ایسی چیز کے سامنے سر تسلیم خم کرسکتے ہیں جن کا وجود ہی نہ ہو۔ اللہ ان کو جو مہلت دے رہا تھا اور مواقع فراہم کر رہا تھا اس میں گہری حکمت اور رحمت تھی اور وہ اسے سمجھ نہیں پا رہے تھے۔ مزید یہ قرآن کریم جو آیات کونیہ پیش کر رہا تھا اور خود قرآن جو عقلی دلائل پیش کر رہا تھا وہ اس پر غوروفکر نہ کرتے تھے ، حالانکہ یہ دلائل قلب و نظر پر جو اثرات چھوڑتے تھے ، وہ تخویف بذریعہ عذاب سے زیادہ کارگر ہو سکتے تھے۔ انسان کو اللہ نے عقل و خرد سے نوازا ہے ، اس کے شایان شان تو یہ ہے کہ وہ ان دلائل پر غور کرے ، محض ڈراوے سے تسلیم کرنا تو ان لوگوں کے لئے ہے جو عقل و خرد کے پہلو سے کمزور ہوں۔ ذراوے سے حریت ارادہ پر بھی زد پڑتی ہے۔

ایسے حالات میں فرمایا :

اتی امر اللہ (16 : 1) “ اللہ کا فیصلہ آگیا ”۔ یعنی اللہ فیصلہ کرچکے ہیں ، ان کا ارادہ متوجہ ہوگیا ہے جو وقت صدور اللہ نے مقرر کیا ہے اس میں ان اوامرو احکام اور فیصلوں کا صدور ہوجائے گا۔ لہٰذا :

فلا تستعجلوہ (16 : 1) “ جلدی نہ مچاؤ ”۔ اللہ کے فیصلے اس کی مشیت کے مطابق ہوتے ہیں۔ تمہاری طرف سے شتابی کرنا اللہ کے فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ تمہاری طرف سے درازی مہلت کی امیدیں بھی ان کو موخر نہیں کرسکتیں۔ عذاب آتا ہے یا قیامت برپا ہوتی ہے ، اس کا فیصلہ ہوگیا ہے۔ اس فیصلے کا وقوع اور نفاذ اپنے مقررہ وقت پر بہرحال ہوگا۔ اس میں تقدیم و تاخیر ممکن نہیں ہے۔

ایک شخص اپنی حالت پر جس قدر جمنے کی کوشش بھی کرے یہ فیصلہ کن انداز گفتگو اسے بہرحال متاثر کرتا ہے ، چاہے وہ استکبار کی وجہ سے اپنے تاثر کو ظاہر نہ کرے۔ جس قدر انداز فیصلہ کن ہے اسی طرح یہ حقیقت بھی اٹل ہے کہ اللہ کا حکم جب آتا ہے تو وہ اٹل ہوتا ہے ۔ بس صرف اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ اللہ کا ارادہ کسی امر سے متعلق ہوجائے بس وہ امر واقع ہوجاتا ہے۔ چشم زدن میں وہ وجود میں آجاتا ہے۔ لہٰذا یہ زور دار انداز کلام کسی شاعرانہ مبالغہ آرائی پر بھی مبنی نہیں ہے۔ جس طرح انداز کلام شعور کو متاثر کرتا اسی طرح اللہ کے فیصلے واقعی صورت حالات میں انقلاب برپا کردیتے ہیں۔

رہے مشرکین مکہ کے اعمال شرکیہ اور عقائد شرکیہ اور ان کے وہ تمام تصورات جو اعمال شرکیہ اور عقائد شرکیہ پر مبنی ہیں تو اللہ کی ذات ان سے پاک ہے۔

سبحنہ وتعالیٰ عما یشرکون (16 : 1) “ پاک ہے وہ اور بالا و برتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں ”۔ اللہ تعالیٰ پاک ہے تمام ان مشرکوں سے جن میں یہ لوگ مبتلا ہیں۔ یادر ہے کہ شرک میں کوئی انسان تب ہی مبتلا ہوتا ہے جب وہ فکر اعتبار سے گرا پڑا ہو اور اس کے تصورات کسی دلیل پر مبنی نہ ہوں۔

اللہ کے احکام واوامر آگئے ، جو شرک سے پاک ہیں اور امر دینے والے باری تعالیٰ بھی شرک سے پاک ہیں اور اہل مکہ اللہ تعالیٰ کو جو مقام دیتے ہیں وہ اس سے بہت بلند ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے گمراہانہ خیالات میں ڈوبا ہوا نہیں چھوڑتے ۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں سے فرشتے بھیجتے ہیں اور یہ فرشتے ایسے پیغام کے حامل ہوتے ہیں جو انسانوں کی حیات نو اور نجات اخروی کے پروگرام پر مشتمل ہوتا ہے۔

ینزل الملئکۃ ۔۔۔۔۔۔ من عبادہ (16 : 2) “ وہ اس روح کو اپنے جس بندے پر چاہتا ہے اپنے حکم سے ملائکہ کے ذریعے نازل فرما دیتا ہے ” اور یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اللہ آسمانوں سے فقط بارش ہی نہیں برساتا جو ان کے جسم کے لئے سازو سامان فراہم کرتی ہے بلکہ وہ ملائکہ کو انسان کی روحانی غذا دے کر بھی بھیجتا ہے۔ قرآن کریم اور اسلام کو روح کہنا نہایت ہی معنی خیز ہے۔ پیغام قرآن ایک سوسائٹی کو اسی طرح زندہ کرتا ہے جس طرح ایک انسان کے جسم میں روح ڈال کر زندہ کیا جاتا ہے۔ اس پیغام سے نفس و ضمیر زندہ ہوتا ہے۔ عقل و شعور کو جلا ملتی ہے اور سوسائٹی اس طرح زندہ اور صحت مند ہوتی ہے کہ اس سے ہر قسم کے فساد ختم ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا آسمانوں سے انسانی زندگی کے لئے جو برکات و انعامات نازل ہوتے ہیں ، یہ ان میں سے اعلیٰ و افضل ہے۔ یہ نعمت عظمیٰ وہ مخلوق لے کر آتی ہے جو پاک طینت ہے۔ جو اللہ کے بندوں میں سے برگزیدہ افراد پر نازل ہوتی ہے ، جو افضل العباد ہوتے ہیں اور اس روح کائنات کا خلاصہ کیا ہے۔

لا الہ الا انا فاتقون (16 : 2) “ میرے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے لہٰذا تم مجھ ہی سے ڈرو ”۔

اللہ وحدہ لا شریک حاکم و معبود ہیں۔ یہ تمام عقیدہ عقائد کی روح ہے ، یہ نفس انسانی کی زندگی ہے ، یہ وہ تصور ہے جس سے سوسائٹی زندہ و توانا ہوتی ہے اور اس کے سوا جو تصورات ہیں انسانی سوسائٹی کے لئے مہلک اور تباہ کن ہیں۔ جو شخص اللہ وحدہ کی ذات پر ایمان نہیں رکھتا وہ حیران و پریشان ، تباہ و برباد ہوتا ہے۔ اسے ہر طرف سے ایک باطل عقیدہ اپنی طرف کھینچ رہا ہوتا ہے ، اوہام پر مبنی باہم تناقص تصورات ہر طرف سے دامن گیر ہوتے ہیں اور اس کا نفس ہر وقت وساوس ، ان جانے خوف اور وہم کی آماجگاہ بنا رہتا ہے اور وہ کبھی بھی کسی ایک سمت میں کسی متعین ہدف کی طرف نہیں بڑھ سکتا۔ افکار پریشان اور اعمال بےترتیب کے اندر گھرا ہوتا ہے۔

اسلام کی تعبیر روح سے کرنا دراصل ان تمام مفہومات کا اظہار ہے اور سورة کے آغاز میں جہاں اللہ تعالیٰ اپنے تمام انعامات کا ذکر فرماتے ہیں ، اسلام کو روح حیات قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی نظریہ حیات دراصل وہ نعمت عظمیٰ ہے ، جس کے بغیر انسان اللہ کی دوسرے نعمتوں سے بھی کماحقہ مستفید نہیں ہو سکتا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ نعمت کسی کو نہ دی گئی ہو تو اس کے لئے دوسرے انعامات بھی اپنی قدرو قیمت کھو دیتے ہیں کیونکہ یہ نعمت ہی دراصل انسان کو حیات جاوداں بخشتی ہے۔

اس آیت میں ڈراوے اور انذار کو وحی و رسالت کا اصل مشن قرار دیا گیا ہے اس لیے کہ اس سورة کے پورے مضامین مکذبین ، مشرکین اور اللہ کی نعمتوں کے منکر اور ناشکرے طبقات کے گرد گھومتے ہیں۔ نیز اس میں ان لوگوں پر بھی تنقید کی گئی ہے جو حلال کو حرام قرار دیتے ہیں جو بہت بڑا جرم ہے اور شرک ہے ، نیز اللہ کے ساتھ عہد کر کے توڑنے والوں پر بھی اس سورة میں تنقید ہے ، نیز جہاں ان لوگوں سے بھی بحث کی گئی ہے جو اسلام کو قبول کرنے کے بعد مرتد ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا آغاز سورة میں یہ کہنا کہ لوگوں کو ان گھناؤنے جرائم سے ڈراؤ، ایک مناسب آغاز کلام سے کہ لوگو احتیاط کرو ، اللہ سے ڈرو ، اور آخرت کا خوف کرو۔

٭٭٭

اس تمہید کے بعد لوگوں کے سامنے وہ دلائل و شواہد پیش کئے جاتے ہیں جو اس پوری کائنات میں بکھرے پڑے ہیں ، جو توحید باری تعالیٰ پر دلالت کرتے ہیں۔ پھر اللہ کے بعض انعامات کا ذکر ہے جو منعم حقیقی کے احسان پر دلالت کرتے ہیں۔ ان نشانات و انعامات کا ذکر بکثرت اور فوج در فوج ہے۔ آغاز تخلیق ارض و سما اور تخلیق حضرت انسان سے ہوتا ہے۔

آیت 1 اَتٰٓى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ جب ہم نے اپنا رسول بھیج دیا اور اس پر اپنا کلام بھی نازل کرنا شروع کردیا ہے تو گویا فیصلہ کن وقت آن پہنچا ہے۔ اب معاملہ صرف مہلت کے دورانیے کا ہے کہ ہمارے رسول اور ہمارے پیغام کا انکار کرنے والوں کو مشیت الٰہی کے مطابق کس قدر مہلت ملتی ہے۔ بہر حال اب جلدی مچانے کی ضرورت نہیں۔ اللہ کا عذاب بس اب آیا ہی چاہتا ہے ‘ اس کے لیے اب بہت زیادہ وقت نہیں رہ گیا۔

عذاب کا شوق جلد پورا ہو گا اللہ تعالیٰ قیامت کی نزدیکی کی خبر دے رہا ہے اور گو یا کہ وہ قائم ہوچکی۔ اس لئے ماضی کے لفظ سے بیان فرماتا ہے جیسے فرمان ہے لوگوں کا حساب قریب آچکا پھر بھی وہ غفلت کے ساتھ منہ موڑے ہوئے ہیں۔ اور آیت میں ہے قیامت آچکی۔ چاند پھٹ گیا۔ پھر فرمایا اس قریب والی چیز کے اور قریب ہونے کی تمنائیں نہ کرو۔ ہ کی ضمیر کا مرجع یا تو لفظ اللہ ہے یعنی اللہ سے جلدی نہ چاہو یا عذاب ہیں یعنی عذابوں کی جلدی نہ مچاؤ۔ دونوں معنی ایک دوسرے کے لازم ملزوم ہیں۔ جیسے اور آیت میں ہے یہ لوگ عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں مگر ہماری طرف سے اس کا وقت مقرر نہ ہوتا تو بیشک ان پر عذاب آجاتے لیکن عذاب ان پر آئے گا ضرور اور وہ بھی نا گہاں ان کی غفلت میں۔ یہ عذابو کی جلدی کرتے ہیں اور جہنم ان سب کافروں کو گھیر ہوئے ہے۔ ضحاک ؒ نے اس آیت کا ایک عجیب مطلب بیان کیا ہے یعنی وہ کہتے ہیں کہ مراد ہے کہ اللہ فرائض اور حدود نازل ہوچکے۔ امام ابن جریر نے اسے خوب رد کیا ہے اور فرمایا ہے ایک شخص بھی تو ہمارے علم میں ایسا نہیں جس نے شریعت کے وجود سے پہلے اسے مانگنے میں عجلت کی ہو۔ مراد اس سے عذابوں کی جلدی ہے جو کافروں کی عادت تھی کیونکہ وہ انہیں مانتے ہی نہ تھے۔ جیسے قرآن پاک نے فرمایا ہے آیت (يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِهَا 18؀) 42۔ الشوری :18) بےایمان تو اس کی جلدی مچا رہے ہیں اور ایما ندار ان سے لر زاں و ترساں ہیں کیونکہ وہ انہیں برحق مانتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ عذاب الہٰی میں شک کرنے والے دور کی گمراہی میں جا پڑتے ہیں۔ ابن ابی حاتم میں حضور ﷺ فرماتے ہے فرماتے ہیں قیامت کے قریب مغرب کی جانب سے ڈھال کی طرح کا سیاہ ابر نمودار ہوگا اور وہ بہت جلد آسمان پر چڑھے گا پھر اس میں سے ایک منا دی کرے گا لوگ تعجب سے ایک دو سرے سے کہیں گے میاں کچھ سنا بھی ؟ بعض ہاں کہیں گے اور بعض بات کو اڑا دیں گے وہ پھر دوبارہ ندا کرے گا اور کہے گا اے لوگو ! اب تو سب کہیں گے کہ ہاں صاحب آواز تو آئی۔ پھر وہ تیسری دفعہ منادی کرے گا اور کہے گا اے لوگو امر الہٰی آپہنچا اب جلدی نہ کرو۔ اللہ کی قسم دو شخص جو کسی کپڑے کو پھیلائے ہوئے ہوں گے سمیٹنے بھی نہ پائیں گے جو قیامت قائم ہوجائے گی کوئی اپنے حوض کو ٹھیک کر رہا ہوگا ابھی پانی بھی پلا نہ پایا ہوگا جو قیامت آئے گی دودھ دوہنے والے پی بھی نہ سکیں گے کہ قیامت آجائے گی ہر ایک نفسا نفسی میں لگ جائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے نفس کریم سے شرک اور عبادت غیر پاکیزگی بیان فرماتا ہے فی الواقع وہ ان تمام باتوں سے پاک بہت دور اور بہت بلند ہے یہی مشرک ہیں جو منکر قیامت بھی ہیں اللہ سجانہ و تعالیٰ ان کے شرک سے پاک ہے۔

آیت 1 - سورہ نحل: (أتى أمر الله فلا تستعجلوه ۚ سبحانه وتعالى عما يشركون...) - اردو