سورہ نباء: آیت 6 - ألم نجعل الأرض مهادا... - اردو

آیت 6 کی تفسیر, سورہ نباء

أَلَمْ نَجْعَلِ ٱلْأَرْضَ مِهَٰدًا

اردو ترجمہ

کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alam najAAali alarda mihadan

آیت 6 کی تفسیر

یہ سفر اس عظیم اور طویل و عریض کائنات کے اطراف و جوانب میں ہے ، اس سفر میں ہم بیشمار مناظر دیکھتے ہیں ، اور مشاہدے کرتے ہیں۔ یہ طویل مناظر اور بیشمار تخیلاتی تصاویر ہمارے سامنے نہایت ہی محدود اور مختصر الفاظ کے ذریعہ پیش کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہایت ہی محدود وقت میں ، محدود الفاظ کے ذریعہ جب یہ مناظر پردہ تخیل پر گزرتے ہیں تو فکر ونظر پر گہرے اثرات چھوڑتے ہیں۔ یوں نظر آتا ہے کہ عقل وخرد کی تاروں پر مضراب اپنا کام نہایت تیزی اور تسلسل کے ساتھ کررہا ہے۔ یہ سب تصورات ایک اثباتی استفہام کے انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ایک طاقتور ہاتھ ، نہایت ہی غفلت میں سوئے ہوئے لوگوں کو جگارہا ہے۔ جو ان کے قلب ونظر کو اللہ کی اس گوناگوں مخلوقات کے مشاہدے کی طرف متوجہ کررہا ہے۔ اور یہ دعوت دے رہا ہے کہ اس نظام کے پیچھے کام کرنے والی قوت مدبرہ پر ذرا غور کرو کہ کس طرح ہر چیز کو اس نے ایک مقدار کے مطابق رکھا ہوا ہے۔ کس طرح یہ کائنات پیدا کی گئی ہے ، پیدا ہورہی ہے۔ کیا کوئی عقل یہ سوچ سکتی ہے کہ یہ مخلوقات یونہی چھوڑ دی جائے گی اور کوئی حساب و کتاب نہ ہوگا بلکہ حساب و کتاب ہوگا اور یہ جب واقعہ ہوگا تو یہ وقت کی عظیم خبر ہوگی اور اس کی شہ سرخی لگے گی۔ مگر افسوس کہ اس عظیم حقیقت کے بارے میں بہ لوگ اختلاف رائے رکھتے ہیں ۔ اس سفر کے کئی مراحل ہیں ، پہلا مرحلہ اس زمین کے مطالعے کا ہے۔

الم نجعل .................... اوتادا (7:78) ” کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا ، اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا “۔ مہاد کے معنی ہیں سیروسیاحت کے لئے تیار کردہ۔ نیز گہوارے کی طرح نرم۔ دونوں مفہوم لفظ مہاد سے نکلتے ہیں اور باہم قریب ہیں۔ انسان علم ومعرفت کے جس مقام پر بھی ہو اور تہذیب و تمدن کے جس مرحلے میں بھی ہو ، وہ اس حقیقت کو سمجھتا ہے کہ زمین اس کے لئے گہوارہ ہے بطور حقیقت واقعہ اس چیز کو سمجھنے کے لئے کسی بڑی مقدار علم کی ضرورت نہیں۔ پہاڑوں کا میخ کی طرح مضبوطی سے جما ہوا ہونا بھی انسان کو ہمیشہ نظر آتا ہے۔ اگرچہ وہ پتھر کے دور میں ہو یا زمانہ حال کی علمی ترقی کے دور کا ہو ، یہ حقائق محسوسات ہیں۔ معمولی توجہ سے دریافت ہوسکتے ہیں۔

البتہ جس حقیقت کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے وہ پتھر کے دور کے انسان کے ابتدائی احساسات سے ذرا گہری ہے۔ انسان نے جوں جوں علم ومعرفت میں ترقی کی ، وہ اس کائنات کے حقائق کی گہرائیوں تک جاپہنچا۔ اور یہ حقائق انسان کی نفسیات پرچھاتے رہے۔ اور انسان نے اس بات کا ادراک کرلیا کہ اس کائنات کی پشت پر ایک گہری حکمت اور تدبیر کام کررہی ہے۔ اور اس کے اندر ایک پیچیدہ ٹیکنالوجی رکھ دی گئی ہے اور تمام مخلوقات اور موجودات باہم مربوط اور معاون ہیں۔ اور ایک دوسرے کی ضروریات پوری کررہے ہیں۔ اور یہ کہ اس زمین کو خصوصاً انسانی زندگی کے لئے ممدومعاون اور گہوارہ بنایا گیا ہے۔ اور یہ انسان اس کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہے اور اس کے اور ان کائناتی قوتوں کے درمیان ایک قسم کی مفاہمت ہے۔

زمین کو خصوصیت کے ساتھ انسانی حیات کے لئے گہوارہ بنایا گیا ہے ، اور یہ ایک ایسا ثبوت ہے جس کی حقانیت میں شک نہیں کیا جاسکتا ہے ، بشرطیکہ دیکھنے والا عقل وخرد سے بےبہرہ نہ ہو اور وہ اس ظاہری کائنات کی پشت پر بھی جھانک کر دیکھ سکتا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے اس زمین میں جو قوتیں پیدا کی ہیں ، اگر ان کی نسبت ترکیب کے اندر معمولی ردوبدل بھی کردیا جائے ، اور زمین کے ظروف واحوال وہ نہ رہیں جو ہیں ، یا اگر زمین کی تخلیق کے اندر ملحوظ عناصر کے درمیان میں سے کسی ایک عنصر ہی کو غائب کرکے اس مرکب کی نسبتوں کے اندر ذرا سا بھی اختلال واقع ہوجائے تو زمین جس کو انسان کے لئے گہوارہ بنایا گیا ہے ، انسان کے لئے موت کا کنواں بن جائے اور اس کے اندر سے وہ صفت مفقود ہوجائے جس کی طرف قرآن یہاں اشارہ کررہا ہے۔ قرآن نے تو اس بات کی طرف یہاں مجمل اشارہ فرمایا ہے۔ تفصیلات انسان پر چھوڑ دی ہیں تاکہ انسان اپنی عقل وخرد اور علم و تجربہ کے مطابق تفصیلات کا مطالعہ کرے۔

اور اللہ نے پہاڑوں کو زمین کے اندر میخوں کی طرح گاڑدیا۔ ہر انسان ایک سرسری نظر سے اس بات کو ظاہراً پاتا ہے کہ پہاڑ زمین کے اندر میخوں کی طرح گاڑے ہوئے ہیں۔ اس طرح جس طرح خیمے کی میخیں ہوتی ہیں ، اور پہاڑ خیموں کی طرح نظر آتے ہیں۔ لیکن ان کی حقیقت کیا ہے ، تو قرآن سے ہم یہ پاتے ہیں اور اس بات کا ادراک کرتے ہیں کہ یہ زمین کو مضبوط کرنے اور اس کا توازن قائم کرنے اور اسے قائم رکھنے کے لئے ازحد ضروری ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ پہاڑ اس لئے قائم کیے گئے ہوں تاکہ زمین پر سمندروں کی گہرائیوں اور پہاڑوں کی بلندیوں کی وجہ سے ایک توازن قائم ہوجائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی وجہ سے زمین کے اندرونی سکیڑ اور سطحی سکیڑ کے درمیان توازن قائم کیا گیا ہو۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان پہاڑوں کی وجہ سے زمین کے بعض حساس مقامات پر زلزلوں اور آتش فشانیوں کو روکا گیا ہو ، اور ان وجوہات کے علاوہ بعض دوسری نامعلوم وجوہات کے ناطے پہاڑوں کو میخیں کہا گیا ہو۔ جن کا ابھی تک انسان کو علم ہی نہ ہوا ہو ، کیونکہ قرآن نے کئی نامعلوم حقائق کی طرف اشارات اور واضح اشارات کیے تھے اور انسانوں نے ان کا ایک نہایت ہی محدود حصہ صدیوں بعد معلوم کیا ہے۔

دوسرا سفر دراصل انسانی نفسیات کی وادیوں میں ہے۔ نفس انسانی کے بعض پہلوﺅں کو لیا گیا ہے۔

آیت 6 - سورہ نباء: (ألم نجعل الأرض مهادا...) - اردو