سورہ نباء: آیت 17 - إن يوم الفصل كان ميقاتا... - اردو

آیت 17 کی تفسیر, سورہ نباء

إِنَّ يَوْمَ ٱلْفَصْلِ كَانَ مِيقَٰتًا

اردو ترجمہ

بے شک فیصلے کا دن ایک مقرر وقت ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna yawma alfasli kana meeqatan

آیت 17 کی تفسیر

لوگ عبث پیدا نہیں کیے گئے اور نہ ہی وہ شتر بےمہار ہیں۔ ان کی زندگی کے اندازے اور نظام ، جس کا ذکر آیات ماقبل میں کیا گیا ہے ، اور پھر اس کائنات کا نظام جس میں وہ رہ رہے ہیں ، دونوں نظام پوری طرح ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہیں ، ان پر اچھی طرح غور کرنے کے بعد ہر دانش مند آدمی اس نتیجے تک پہنچتا ہے کہ انسان مہمل اور غیر ذمہ دار نہیں ہیں کہ زمین پر اچھے کام کریں یا برے کام کریں اور پھر مرکر مٹی ہوجائیں۔ راہ ہدایت پر ہوں یا راہ ضلالت پر ہوں ، ان سے پوچھنے والا کوئی نہ ہو ، زمین پر عدل کرلیا ، یا ظلم ، کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔

بہرحال ایک دن فیصلے کا ضرور ہے ، جس دن تمام گزرے ہوئے معاملات کے فیصلے ہوں گے۔ یہ طے شدہ ، متعین دن ہے ، جس کے رسم اور قواعد طے شدہ ہیں اور اس کا وقت بھی اللہ کے ہاں طے شادہ ہے ۔ اور مقرر و متعین ہے۔

ان یوم .................... میقاتا (17:78) ” بیشک فیصلے کا دن ایک مقرر وقت ہے “۔ اس دن اس کائنات کا نظام بدل جائے گا اور اس نظام کی بندش کھل جائے گی۔

آیت 17{ اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ کَانَ مِیْقَاتًا۔ } ”یقینا فیصلے کا دن ایک معین وقت ہے۔“ یہ ہے وہ اصل بات جس کے لیے بطور تمہید گزشتہ آیات میں اللہ کی رنگا رنگ نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ مطلب یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے لیے اپنی نعمتوں کا اس قدر وسیع دستر خوان بچھایا ہے تو اس نے انسانوں پر لازماً کچھ ذمہ داریاں بھی ڈالی ہوں گی۔ جب خود انسانوں کے ہاں اصول ہے کہ ذمہ داریاں responsibilities اور مراعات privileges ایک ساتھ چلتی ہیں تو یہ بھلا کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان پر اپنی عطائوں کی بارش تو کرتا رہے اور اس پر ذمہ داری کوئی بھی نہ ڈالے۔ اس لیے تم لوگ یہ مت سمجھو کہ تم من مانی زندگی گزارتے رہو گے اور تم سے کوئی جوابدہی نہیں ہوگی۔ نہیں ‘ تم سے ایک ایک ذمہ داری اور ایک ایک نعمت کا حساب ہوگا اور اس کے لیے ہم نے فیصلے کا ایک دن پہلے سے مقرر کر رکھا ہے۔

جماعت در جماعت حاضری یعنی قیامت کا دن ہمارے علم میں مقرر دن ہے، نہ وہ آگے ہو، نہ پیچھے ٹھیک وقت پر آجائے گا۔ کب آئے گا اس کا صحیح علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو نہیں۔ جیسے اور جگہ ہے۔ آیت (وَمَا نُؤَخِّرُهٗٓ اِلَّا لِاَجَلٍ مَّعْدُوْدٍ01004ۭ) 11۔ ھود :104) نہیں ڈھیل دیتے ہم انہیں لیکن وقت مقرر کے لئے، اس دن صور میں پھونک ماری جائے گی اور لوگ جماعتیں جماعتیں بن کر آئیں گے، ہر ایک امت اپنے اپنے نبی کے ساتھ الگ الگ ہوگی جیسے فرمایا آیت (يَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۢ بِاِمَامِهِمْ ۚ فَمَنْ اُوْتِيَ كِتٰبَهٗ بِيَمِيْنِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ يَقْرَءُوْنَ كِتٰبَهُمْ وَلَا يُظْلَمُوْنَ فَتِيْلًا 71؀) 17۔ الإسراء :71) جس دن ہم تمام لوگوں کو ان کے اماموں سمیت بلائیں گے، صحیح بخاری شریف میں حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں دونوں صور کے درمیان چالیس ہوں گے، لوگوں نے پوچھا چالیس دن ؟ کہا میں نہیں کہہ سکتا، پوچھا چالیس مہینے ؟ کہا مجھے خبر نہیں پوچھا چالیس سال ؟ کہا میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا۔ پھر اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی برسائے گا اور جس طرح درخت اگتے ہیں لوگ زمین سے اگیں گے، انسان کا تمام بدن گل سڑ جاتا ہے لیکن ایک ہڈی اور وہ کمر کی ریڑھ کی ہڈی ہے اسی سے قیامت کے دن مخلوق مرکب کی جائے گی، آسمان کھول دیئے جائیں گے اور اس میں فرشتوں کے اترنے کے راستے اور دورازے بن جائیں گے، پہاڑ چلائے جائیں گے اور بالکل ریت کے ذریعے بن جائیں گے، جیسے اور جگہ ہے آیت (وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَّهِىَ تَمُــرُّ مَرَّ السَّحَابِ ۭ صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِيْٓ اَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ ۭ اِنَّهٗ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَفْعَلُوْنَ 88؀) 27۔ النمل :88) ، یعنی تم پہاڑوں کو دیکھ رہے ہو جان رہے ہو وہ پختہ مضبوط اور جامد ہیں لیکن یہ بادلوں کی طرح چلنے پھرنے لگیں اور جگہ ہے آیت (وتکون الجبال کالعھن المنفوش) پہاڑ مثل دھنی ہوئی اون کے ہوجائیں گے، یہاں فرمایا پہاڑ سراب ہوجائیں گے یعنی دیکھنے والا کہتا ہے کہ وہ کچھ ہے حالانکہ دراصل کچھ نہیں۔ آخر میں بالکل برباد ہوجائیں گے، نام و نشان تک نہ رہے گا جیسے اور جگہ ہے (وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّيْ نَسْفًا01005ۙ) 20۔ طه :105) ، لوگ تجھ سے پہاڑوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں تو کہہ انہیں میرا رب پراگندہ کر دے گا اور زمین بالکل ہموار میدان میں رہ جائے گی جس میں نہ کوئی موڑ ہوگا نہ ٹیلا اور جگہ سے (وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الْاَرْضَ بَارِزَةً ۙ وَّحَشَرْنٰهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ اَحَدًا 47؀ۚ) 18۔ الكهف :47) جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور تو دیکھے گا کہ زمین بالکل کھل گئی، پھر فرماتا ہے سرکش، نافرمان، مخالفین رسول کی تاک میں جہنم لگی ہوئی ہے یہی ان کے لوٹنے اور رہنے سہنے کی جگہ ہے۔ اس کے معنی حضرت حسن اور حضرت قتادہ ؒ نے یہ بھی کئے ہیں کہ کوئی شخص جنت میں بھی نہیں جاسکتا، جب تک جہنم پر سے نہ گزرے، اگر اعمال ٹھیک ہیں تو نجات پا لی اور اگر اعمال بد ہیں تو روک لیا گیا اور جہنم میں جھونک دیا گیا، حضرت سفیان ثوری فرماتے ہیں اس پر تین تین پل ہیں، پھر فرمایا وہ اس میں مدتوں اور قرنوں پڑے کریں گے احقاب جمع ہے حقب کی ایک لمبے زمانے کو حقب کہتے ہیں بعض کہتے ہیں حقب اسی سال کا ہوتا ہے سال بارہ ماہ کا۔ مہینہ تیس دن اور ہر دن ایک ہزار سال کا، بہت سے صحابہ اور تابعین سے یہ مروی ہے، بعض کہتے ہیں ستر سال کا حقب ہوتا ہے، کوئی کہتا ہے چالیس سال کا ہے، جس میں ہر دن ایک ہزار سال کا، بشیر بن کعب تو کہتے ہیں ایک ایک دن اتنا بڑا اور ایسے تین سو ساٹھ سال کا ایک حقب، ایک مرفوع حدیث میں ہے حقب مہینہ کا، مہینہ تیس دن کا، سال بارہ مہینوں کا، سال کے دن تین سو ساٹھ ہر دن تمہاری گنتی کے اعتبار سے ایک ہزار سال کا (ابن ابی حاتم) لیکن یہ حدیث سخت منکر ہے اس کے راوی قاسم جو جابر بن زبیر کے لڑکے ہیں، یہ دونوں متروک ہیں، ایک اور روایت میں ہے کہ ابو مسلم بن علاء نے سلیمان تیمی سے پوچھا کہ کیا جہنم میں سے کوئی نکلے گا بھی ؟ تو جواب دیا کہ میں نے نافع سے انہوں نے ابن عمر سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم جہنم میں سے کوئی بھی بغیر مدت دراز رہے نہ نکلے گا پھر کہا اسی سے اوپر کچھ سال کا ہوتا ہے اور ہر سال تین سو ساٹھ دن کا جو تم گنتے ہو، سدی کہتے ہیں سات سو حقب رہیں گے ہر حقب ستر سال کا ہر سال تین سو ساٹھ دن کا اور ہر دن دنیا کے ایک ہزار سال کے برابر کا، حضرت مقاتل بن حیان فرماتے ہیں یہ آیت قدوقوا کی آیت سے منسوخ ہوچکی ہے، خالد بن معدان فرماتے ہیں کہ یہ آیت اور آیت الاماشاء ربک یعنی جہنمی جب تک اللہ چاہے جہنم میں رہیں گے، یہ دونوں آیتیں توحید والوں کے بارے میں ہیں، امام ابن جریر فرماتے ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ احقاب تک رہنا متعلق ہو آیت حمیماوغساقا کے ساتھ یعنی وہ ایک ہی عذاب گرم پانی اور بہتی پیپ کا مدتوں رہے گا، پھر دوسری قسم کا عذاب شروع ہوگا لیکن صحیح یہی ہے کہ اس کا خاتمہ ہی نہیں حضرت حسن سے جب یہ سوال ہوا تو کہا کہ احقاب سے مراد ہمیشہ جہنم میں رہنا ہے لیکن حقب کہتے ہیں ستر سال کو جس کا ہر دن دنیا کے ایک ہزار برس کے برابر ہوتا ہے۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ احقاب کبھی ختم نہیں ہوتے ایک حقب ختم ہوا دوسرا شروع ہوگیا ان احقاب کی صحیح مدت کا اندازہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے، ہاں یہ ہم نے سنا ہے کہ ایک حقب اسی سال کا، ایک سال تین سو ساٹھ دن کا ہر دن دنیا کے ایک ہزار سال کا، ان دوزخیوں کو نہ تو کلیجے کی ٹھنڈک ہوگی نہ کوئی اچھا پانی کا ملے گا، ہاں ٹھنڈے کے بدلے گرم کھولتا ہوا پانی ملے گا اور کھانے پینے کی چیز بہتی ہوئی پیپ ملے گی، حمیم اس سخت گرم کو کہتے ہیں جس کے بعد حرارت کا کوئی درجہ نہ ہو، اور غساق کہتے ہیں جہنمی لوگوں کے لہو پیپ پسینہ آنسو اور زخموں سے بہہ ہوئے خون پیپ وغیرہ کو اس گرم چیز کے مقابلہ میں یہ اس قدر سرد ہوگی جو بجائے خود عذاب ہے اور بیحد بدبو دار ہے۔ سورة ص میں غساق کی پوری تفسیر بیان ہوچکی یہ اب یہاں دوبارہ اس کے بیان کی چنداں ضرورت نہیں، اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں اپنے ہر عذاب سے بچائے، بعض نے کہا ہے برد سے مراد نیند ہے، عرب شاعروں کے شعروں میں بھی برد نیند کے معنی میں پایا جاتا ہے۔ پھر فرمایا یہ ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ ہے، ان کی بد اعمالیاں بھی تو دیکھو کہ ان کا عقیدہ تھا کہ حساب کا کوئی دن آنے ہی کا نہیں، ہم نے جو جو دلیلیں اپنے نبی پر نازل فرمائی تھیں یہ ان سب کو جھٹلاتے تھے۔ کذاباً مصدر ہے اس وزن پر اور مصدر بھی آتے ہیں، پھر فرمایا کہ ہم نے اپنے بندوں کے تمام اعمال و افعال کو گن رکھا ہے اور شمار کر رکھا ہے وہ سب ہمارے پاس لکھے ہوئے ہیں اور سب کا بدلہ بھی ہمارے پاس تیار ہے۔ ان اہل جہنم سے کہا جائے گا کہ اب ان عذابوں کا مزہ چکھو، ایسے ہی اور اس سے بھی بدترین عذاب تمہیں بکثرت ہوتے رہیں گے، حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں دوزخیوں کے لئے اس سے زیادہ سخت اور مایوس کن اور کوئی آیت نہیں۔ ان کے عذاب ہر وقت بڑھتے ہی رہیں گے، حضرت ابو بردہ اسلمی سے سوال ہوا کہ دوزخیوں کے لئے اس سے زیادہ سخت اور مایوس کن اور کوئی آیت نہیں۔ فرمایاحضور ﷺ نے اس آیت کو پڑھ کر فرمایا ان لوگوں کو اللہ کی نافرمانیوں نے تباہ کردیا، لیکن اس حدیث کے راوی جسر بن فرقد بالکل ضعیف ہیں۔

آیت 17 - سورہ نباء: (إن يوم الفصل كان ميقاتا...) - اردو