سورہ نباء: آیت 14 - وأنزلنا من المعصرات ماء ثجاجا... - اردو

آیت 14 کی تفسیر, سورہ نباء

وَأَنزَلْنَا مِنَ ٱلْمُعْصِرَٰتِ مَآءً ثَجَّاجًا

اردو ترجمہ

اور بادلوں سے لگاتار بارش برسائی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waanzalna mina almuAAsirati maan thajjajan

آیت 14 کی تفسیر

وانزلنا .................... ثجاجا (14:78) ” اور بادلوں سے لگاتار بارش برسائی “۔ یعنی قوانین قدرت سے ان بادلوں کو نچوڑتے ہیں اور ان کا پانی زمین پر گرتا ہے۔ یہ پانی کس طرح نچوڑا جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہواﺅں کے ذریعہ بادلوں سے پانی نچوڑا جاتا ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بادلوں کے باہم ٹکرانے سے بجلی کی پیدائش کے عمل سے پانی نکل آتا ہو ، لیکن ان تمام اسباب کے پیچھے کوئی تو مسبب الاسباب ہے جو ان تمام اسباب اور اثرات ڈالنے والی چیزوں کا خالق ہے۔ اس سورج کو چراغ اس لئے کہا گیا ہے کہ اس میں جلنے کا عمل اور روشنی ہوتی ہے اور یہی کام سورج کے اندر ہورہا ہے کہ اس میں جلنے کا عمل اور روشنی بکھیرنے کا عمل ہورہا ہے۔ لہٰذا سورج اور چراغ پوری طرح ایک ہی عمل کررہے ہیں۔

اللہ کے روشن چراغ سے ہم پر گرم شعاعوں اور روشنی کی بارش ہوتی ہے اور بادلوں سے لگاتار بارش نچوڑی جاتی ہے۔ اور یہ بجلی کی کڑک کے عمل سے بار بار برستی ہے اور اس بارش اور اس گرمی ہی سے اس کرہ ارض پر ہر قسم کے نباتات پیدا ہوتے ہیں اور ان نباتات سے وہ تمام نباتات پیدا ہوتے جن کو انسان استعمال کرتے ہیں اور وہ تمام گھنے باغات پیدا ہوتے ہیں۔ الفاف سے مراد وہ گھنے درخت جو ایک دوسرے کے ساتھ لپٹے ہوئے ہوں اور ایک درخت کی ٹہنی دوسرے میں گھسی ہوئی ہو۔

اس کائنات کی تخلیق میں یہ اہم آہنگی ، اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے پیچھے ایک حکیمانہ ہاتھ کام کررہا ہے۔ نہایت حکمت کے ساتھ اس کی ہر چیز اندازے کے ساتھ بنائی گئی ہے۔ اور یہی ارادہ اس کو چلارہا ہے اور اس حقیقت کو ہر انسان پاتا ہے ، اگر وہ اپنی عقل اور اپنے شعور کو اس طرف متوجہ کرے ، لیکن دور جدید میں جب انسان نے علم ومعرفت میں ترقی کرلی ، تو اس نے معلوم کیا کہ اس کائنات کی تخلیق میں کیا کیا تدابیر اختیار کی گئی ہیں اور اس کی ہر ہر چیز کس طرح ایک فارمولے کے مطابق بنایا گیا ہے۔ یہ فارمولے اس قدر عجیب اور حیران کن ہیں کہ ان کو دیکھ کر عقل چکرانے لگتی ہے۔ اور علم ومعرفت رکھنے والا جدید انسان اور سائنس دان اس بات کو احمقانہ تصور کرتا ہے کہ یہ کائنات یونہی بخت واتفاق سے پیدا ہوگئی ہے اور جو لوگ اس کائنات کے کسی مدبر اور خالق کو تسلیم کرنے سے فرار اختیار کرتے ہیں۔ وہ لوگ دراصل محض ہٹ دھرمی اور ضد میں مبتلا ہیں۔ اور ان کے اس رویے کو اب احترام کی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا۔

حقیقت یہ ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے۔ اور اس کائنات کے پیچھے ایک قوت مدبرہ کام کررہی ہے جس نے ہر چیز کو نہایت ہی حساس سکیل کے ساتھ پیدا کیا ہے اور کائنات کی تمام قوتیں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ اور پیوست ہیں۔ اور قرآن کریم نے اس آیت میں اسی تنظیم ، ہم آہنگی اور تقدیر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ زمین کو گہوارہ بنایا ہے اور پہاڑوں کو میخوں کی شکل دی ہے اور لوگوں کو جوڑے جوڑے بنایا ، نیند کو باعث سکون بنایا ، اور رات کو سب کے لئے چھپنے اور آرام کرنے کا ذریعہ بنایا ، اور سورج کے ذریعہ گرمی اور روشنی کا انتظام کیا۔ اور ہواﺅں اور بادلوں کے ذریعہ بارشوں کا انتظام کیا ، جن کے نتیجے میں سبزیاں ، حیوانات اور پھل نکالے گئے۔ یہ تمام حقائق جس انداز سے بیان کیے گئے ہیں۔ سائنسی زاویہ سے بھی یہ باہم متوافق اور ہم آہنگ ہیں اور ان کے اندر گہرا تعلق سبب اور مسبب کا ہے۔ اور یہ تعلق ہی بتاتا ہے کہ اس کائنات کا ایک ایسا خالق ہے جو اس کے نظام کو نہایت ہی خوبصورتی اور حکمت سے ملارہا ہے اور وہ حکیم وقدیر ہے۔ ان سائنسی اور مشاہداتی حقائق کو اگر کھلی آنکھوں سے پڑھاجائے تو اس سے انسان کو حکمت و دانش کا ایک بہت بڑا پیغام ملتا ہے اور اس کے بعد پھر وہ ایک عظیم پیغام پاتا ہے اور اس کی یہ شہ سرخی لگتی ہے کہ ایک فیصلے کا دن آنے والا ہے۔

یہ تمام مخلوقات یہاں تمہارے استفادے کے لئے ہیں ، کھاﺅ اور پیو اور عیش کرو ، مگر ایک دن بھی آنے والا ہے ، یہ دن یوم الفصل ہے ، یہ دن فیصلوں کا دن ہے۔

آیت 14{ وَّاَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرٰتِ مَآئً ثَجَّاجًا۔ } ”اور ہم نے اتار دیا نچڑنے والی بدلیوں سے چھاجوں پانی۔“ یعنی ہم پانی سے لبریز بادلوں سے موسلا دھار بارش برساتے ہیں۔

آیت 14 - سورہ نباء: (وأنزلنا من المعصرات ماء ثجاجا...) - اردو