سورہ نازیہ: آیت 30 - والأرض بعد ذلك دحاها... - اردو

آیت 30 کی تفسیر, سورہ نازیہ

وَٱلْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَىٰهَآ

اردو ترجمہ

اِس کے بعد زمین کو اس نے بچھایا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalarda baAAda thalika dahaha

آیت 30 کی تفسیر

والارض ........................ ارسھا (32:79) ” اس کے بعد زمین کو اس نے بچھایا ، اس کے اندر سے اس کا پانی اور چارہ نکالا اور پہاڑ اس میں گاڑ دیئے “۔

دحوالارض کے معنی ہیں زمین کو تیار کرنا اور اس کے چھلکے کو بچھانا ہے۔ اس طرح کہ انسان اس کے اوپر چل بھی سکیں۔ اس کے اوپر جمع ہونے والی مٹی نباتات اگانے کے قابل ہو۔ اور اس کے اوپر پہاڑوں کا جمانا ، یہ سب امور اسی طرح انجام پائے کہ اللہ سطح زمین کو اس اس طرح سکون وقرار عطا کیا اور اس کے اوپر درجہ حرارت اس مقدار میں پیدا کیا کہ یہاں حیوانی اور نباتاتی زندگی ممکن ہوئی۔ اور اللہ نے زمین سے پانی نکالا ، چاہے اس سے مراد وہ پانی ہو جو چشموں کی صورت میں نکلتا ہے یا آسمانوں سے برستا ہے اور ندیوں کی صورت میں بہتا ہے۔ اور اللہ نے اس کے ذریعہ وہ تمام نباتات اگائے جس سے انسانی خوراک اور حیوانوں کی خوراک نکلی۔ بعض جانور براہ راست اس سے کھاتے ہیں اور بعض بالواسطہ۔

یہ سب انتظام اس وقت ہوا ، جب اللہ نے زمین و آسمان کا موجودہ نظام تعمیر کیا۔ رات اور دن کو پیدا کیا۔ زمین و آسمان کے بارے میں جدید نظریات اس آیت کے مفہوم کی مکمل تائید کرتے ہیں کہ زمین پر کئی سال گزرے اور اسی طرح گردش لیل ونہار کا نظام جاری رہا اور بعد میں وہ جاکر انسانی زندگی اور زراعت کے قابل بنی اور اس کا چھلکا سخت ہوا اور سکڑ کر پہاڑ نمودار ہوئے۔

آیت 31{ اَخْرَجَ مِنْہَا مَآئَ ہَا وَمَرْعٰٹہَا۔ } ”اس میں سے نکالا اس کا پانی اور اس کا چارہ۔“ یہاں یہ نکتہ خصوصی طور پر لائق توجہ ہے کہ اس وقت دنیا میں جتنا پانی موجود ہے اس کا منبع خود زمین ہے۔ آج سائنسی معلومات کی روشنی میں ہم اس کی وضاحت یوں کرسکتے ہیں کہ ابتدا میں زمین آگ کا ایک گولا تھی۔ جوں جوں یہ ٹھنڈی ہوتی گئی اس کے بخارات نکل کر فضا میں جمع ہوتے رہے۔ اس طرح زمین کے ارد گرد مختلف گیسوں پر مشتمل ایک غلاف سا بن گیا ‘ جسے آج ہم فضا atmosphere کہتے ہیں۔ پھر کسی مرحلے پر فضا میں ہائیڈروجن اور آکسیجن کے ملاپ سے پانی بنا۔ یہ پانی فضا سے بارش کی شکل میں سالہا سال تک زمین پر برستا رہا۔ اس کے بعد سورج کی تپش سے بخارات اٹھنے ‘ بادل بننے اور بارش برسنے کے معمول پر مشتمل پانی کا وہ مربوط نظام بنا جسے آج کی سائنس نے واٹر سائیکل water cycle کا نام دیا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے ایک خاص مقدار کے مطابق دنیا میں پانی پیدا فرما کر زمین پر موجود ”زندگی“ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کی رسد اور ترسیل کا ایک خوبصورت نظام cycle تشکیل دے دیا ہے۔ اس نظام کے تحت سمندروں کے بخارات سے بادل بنتے ہیں۔ ان بادلوں سے اللہ تعالیٰ کی مشیت اور حکمت کے تحت مختلف علاقوں میں بارش برستی ہے اور برفباری ہوتی ہے۔ پھر پہاڑوں پر برف کے وسیع ذخائر سے نالوں اور دریائوں کے ذریعے نشیبی علاقوں کو سارا سال پانی کی سپلائی جاری رہتی ہے۔ گویا بارشوں اور پہاڑی گلیشیرز کے overhead tanks سے حاصل ہونے والے پانی سے پوری دنیا میں زیرزمین پانی کے ذخیرے کو رسد بھی مہیا ہوتی رہتی ہے اور ہر طرح کی ”زندگی“ کی تمام ضروریات بھی پوری ہوتی ہیں۔ اس کے بعد جو پانی بچ رہتا ہے وہ واپس سمندر میں چلا جاتا ہے۔

آیت 30 - سورہ نازیہ: (والأرض بعد ذلك دحاها...) - اردو