سورہ نازیہ: آیت 15 - هل أتاك حديث موسى... - اردو

آیت 15 کی تفسیر, سورہ نازیہ

هَلْ أَتَىٰكَ حَدِيثُ مُوسَىٰٓ

اردو ترجمہ

کیا تمہیں موسیٰؑ کے قصے کی خبر پہنچی ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hal ataka hadeethu moosa

آیت 15 کی تفسیر

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ قرآن کریم میں بار بار آیا ہے۔ اور اس کی بہت تفصیلات دی گئی ہیں۔ اس سے قبل کی سورتوں میں اس کی تفصیلات گزر چکی ہیں۔ ہر جگہ اس قصے کا حصہ آیا ہے۔ مختلف انداز اور مختلف اسلوب بیان میں آیا ہے۔ ہر جگہ قصے کا وہ حصہ اور اس انداز میں آیا ہے ، جس کی ضرورت ہو اور جو موضوع ومحل کے مناسب ہو۔ اس قصے کے بیان میں قرآن کریم کا اسلوب بیان اپنے عروج پر ہوتا ہے اور یہ قرآن کریم کا مخصوص انداز ہے کہ وہ قصے کو نہایت برمحل اور مناسب انداز میں پیش کرتا ہے۔

یہاں یہ قصہ نہایت اختصار کے ساتھ آیا ہے ، اس کے مناظر جھلکیوں کی شکل میں بڑی تیزی سے گزرجاتے ہیں۔ کوہ طور کی وادی مقدس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پکارا جاتا ہے۔ اور انہیں فرعون کی طرف تبلیغی مشن پر جانے کے احکامات دیئے جاتے ہیں اس کی سرکشی اور پھر دنیا وآخرت میں اس کے انجام بد اور اللہ کی گرفت کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یوں اس کا انجام اس سورت کے موضوع اور مضمون کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہوجاتا ہے کیونکہ سورت کا بنیادی موضوع ہے حشرونشر اور حساب و کتاب ہے۔ چند مختصر آیات میں ، الف کے ساتھ طویل مد کے ترنم کے ساتھ اس قصے کی جھلکیاں بڑی تیزی کے ساتھ گزر جاتی ہیں۔ یوں اس کا انداز اور اس کا اثر اس سورت کے مزاج کے مطابق ہوجاتا ہے۔

ان مختصر آیات میں نہایت تیزی اور سرعت کے ساتھ اس قصے کے کئی پہلو دکھائے گئے ہیں۔

اس کا آغاز حضور اکرم ﷺ کو مخاطب کرکے کیا جاتا ہے۔

ھل اتک ................ موسیٰ (15:79) ” کیا تمہیں موسیٰ کے قصے کی خبر پہنچی ہے ؟ “۔ یہ سوالیہ انداز اس لئے اختیار کیا گیا ہے تاکہ مخاطب پوری توجہ سے قصے کو سننے کے لئے ہمہ تن گوش ہوجائے اور پوری طرح اخذ کرلے۔

اس کے بعد پھر واقعات کی تفصیلات آتی ہیں۔ اس قصے کو لفظ حدیث (بات) سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ قصہ دراصل ہے ہی موسیٰ اور رب کا مکالمہ۔ اس لئے لفظ حدیث لانا نہایت واقعیت پسندی ہے۔ چناچہ سوال و جواب اور رب کے ساتھ مناجات۔

معفرت دل حق کا مطیع و فرماں بردار ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے رسول حضرت محمد ﷺ کو خبر دیتا ہے کہ اس نے اپنے بندے اور رسول حضرت موسیٰ ؑ کو فرعون کی طرف بھیجا اور معجزات سے ان کی تائید کی، لیکن باوجود اس کے فرعون اپنی سرکشی اور اپنے کفر سے باز نہ آیا بالاخر اللہ کا عذاب اترا اور برباد ہوگیا، اسی طرح اے پیغمبر آخر الزمان ﷺ آپ کے مخالفین کا بھی حشر ہوگا۔ اسی لئے اس واقعہ کے خاتمہ پر فریاد ڈر والوں کے لئے اس میں عبرت ہے، پس فرماتا ہے کہ تجھے خبر بھی ہے ؟ موسیٰ ؑ کو اس کے رب نے آواز دی جبکہ وہ ایک مقدس میدان میں تھے جس کا نام طویٰ ہے۔ اس کا تفصیل سے بیان سورة طہ میں گزر چکا ہے، آواز دے کر فرمایا کہ فرعون نے سرکشی تکبر، تجبر اور تمرد اختیار کر رکھا ہے تم اس کے پاس پہنچو اور اسے میرا یہ پیغام دو کہ کیا تو چاہتا ہے کہ میری بات مان کر اس راہ پر چلے جو پاکیزگی کی راہ ہے، میری سن میری مان، سلامتی کے ساتھ پاکیزگی حاصل کرلے گا، میں تجھے اللہ کی عبادت کے وہ ریقے بتاؤں گا جس سے تیرا دل نرم اور روشن ہوجائے اس میں خشوع و خضع پیدا ہو اور دل کی سختی اور بدبختی دور ہو۔ حضرت موسیٰ فرعون کے پاس پہنچے اللہ کا فرمان پہنچایا، حجت ختم کی دلائل بیان کئے یہاں تک کہ اپنی سچائی کے ثبوت میں معجزات بھی دکھائے لیکن وہ برابر حق کی تکذیب کرتا رہا اور حضرت موسیٰ کی باتوں کی نافرمانی پر جما رہا چونکہ دل میں کفر جاگزیں ہوچکا تھا اس سے طبیعت نہ ہٹی اور حق واضح ہوجانے کے باوجود ایمان و تسلیم نصیب نہ ہوئی، یہ اور بات ہے کہ دل سے جانتا تھا کہ یہ حق برحق نبی ہیں اور ان کی تعلیم بھی برحق ہے لیکن دل کی معرفت اور چیز ہے اور ایمان اور چیز ہے دل کی معرفت پر عمل کرنے کا نام ایمان ہے کہ حق کا تابع فرمان بن جائے اور اللہ رسول کی باتوں پر عمل کرنے کے لئے جھک جائے۔ پھر اس نے حق سے منہ موڑ لیا اور خلاف حق کوشش کرنے لگا جادو گروں کو جمع کر کے ان کے ہاتھوں حضرت موسیٰ کو نیچا دکھانا چاہا۔ اپنی قوم کو جمع کیا اور اس میں منادی کی کہ تم سب میں بلند وبالا میں ہی ہوں، اس سے چالیس سال پہلے وہ کہہ چکا تھا کہ آیت (مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرِيْ 38؀) 28۔ القصص :38) یعنی میں نہیں جانتا کہ میرے سوا تمہارا معبود کوئی اور بھی ہو، اب تو اس کی طغیانی حد سے بڑھ گئی اور صاف کہہ دیا کہ میں ہی رب ہوں، بلندیوں والا اور سب پر غالب میں ہی ہوں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے بھی اس سے وہ اتنقام لیا جو اس جیسے تمام سرکشوں کے لئے ہمیشہ ہمیشہ سبب عبرت بن جائے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی جس کے بدترین عذاب تو ابھی باقی ہیں، جیسے فرمایا آیت (وَجَعَلْنٰهُمْ اَىِٕمَّةً يَّدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ لَا يُنْصَرُوْنَ 41؀) 28۔ القصص :41) یعنی ہم نے انہیں جہنم کی طرف بلانے والے پیش رو بنائے قیامت کے دن یہ مدد نہ کئے جائیں گے، پس صحیح تر معنی آیت کے یہی ہیں کہ آخرت اور اولیٰ سے مراد دنیا اور آخرت ہے، بعض نے کہا ہے اول آخر سے مراد اس کے دونوں قول ہیں یعنی پہلے یہ کہنا کہ میرے علم میں میرے سوا تمہارا کوئی اللہ نہیں، پھر یہ کہنا کہ تمہارا سب کا بلند رب میں ہوں، بعض کہتے ہیں مراد کفر و نافرمانی ہے، لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں، اس میں ان لوگوں کے لئے عبرت و نصیحت ہے جو نصیحت حاصل کریں اور باز آجائیں۔

آیت 15 - سورہ نازیہ: (هل أتاك حديث موسى...) - اردو