سورہ نازیہ: آیت 1 - والنازعات غرقا... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورہ نازیہ

وَٱلنَّٰزِعَٰتِ غَرْقًا

اردو ترجمہ

قسم ہے اُن (فرشتوں کی) جو ڈوب کر کھینچتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaalnnaziAAati gharqan

آیت 1 کی تفسیر

ان کلمات کی تفسیر میں یہ کہا گیا ہے کہ ان سے مراد فرشتے ہیں ، یعنی وہ جو انسانوں کی ارواح کو نہایت شدت سے کھینچتے ہے۔ ناشطات کے معنی ہیں چست اور کام کے لئے تیار ہیں۔ اور اس کائنات کے اطراف واکناف میں تیرتے پھرتے ہیں۔ اور جو رب تعالیٰ کی اطاعت اور احکام کی بجا آوری میں ایک دوسرے سے سبقت لے جاتے ہیں اور اس کائنات کے تمام امور کے انتظام اور انصرام میں لگے ہوئے ہیں۔

دوسری تفسیر یہ کی گئی ہے کہ ان سے مراد ستارے ہیں جو اپنے مداروں اور کائنات کی فضاﺅں میں ڈوب جاتے ہیں اور پھر نکلتے ہیں۔ بڑی تیزی سے گردش کرتے ہیں۔ ایک منزل سے دوسری میں داخل ہوتے ہیں۔ اس فضائے کائنات میں وہ معلق ہیں۔ اور رفتار میں بعض تیز ہیں اور بعض سست۔ لہٰذا ایک دوسرے سے سبقت لے جاتے ہیں اور دست قدرت نے ازروئے فطرت ان کو جو احکامات دیئے ہیں وہ سر انجام دیتے ہیں ، اور زمین اور اس کے باشندوں کو متاثر کرتے ہیں ، یوں وہ اس زمین کا انتظام وانصرام کرتے ہیں۔

بعض تفاسیر کے مطابق نازعات ، ناشطات ، سابحات اور سابقات سے مراد ستارے ہیں اور مدبرات فرشتے ہیں اور بعض حضرات نے یہ تفسیر بیان کی ہے کہ نازعات ، ناشطات اور سابحات سے مراد ستارے ہیں اور سابقات اور مدبرات سے مراد ملائکہ ہیں۔

ان آیات وکلمات کا مفہوم جو بھی ہو ، لیکن قرآنی فضا میں زندگی بسر کرتے ہوئے میرا احساس یہ ہے کہ اس پیرائے میں گفتگو اور ان الفاظ کے لانے سے مراد انسانی احساس کو بیدار کرنا ، انسانی شعور کے اندر تجسس اور آنے والے پرخطر اور ہنگامہ خیز حالات کے بارے میں خبردار اور بیدار کرنا ہے۔ یہ الفاظ اور یہ مفہوم ہمیں اس بات کے لئے تیار کرتے ہیں کہ آگے جو بات آرہی ہے وہ ایک عظیم واقعہ ہے ، جسے الطامتہ الکبریٰ راجفہ اور رادفہ کے الفاظ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ اگر ہم ان الفاظ کے تفصیلی معانی میں نہ الجھیں کہ ان سے حقیقی مراد کیا ہے ؟ تو اس طرح ہم قرآن کریم کے فطری انداز پر اکتفا کرکے زیادہ فائدہ حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ قرآن کریم کا حقیقی ہدیف یہ ہے کہ وہ دلوں کو ہلائے اور گرمائے اور اس مقصد کے لئے قرآن کریم موثر سے موثر اسلوب اختیار کرتا ہے۔ ہمارے ساتھ حضرت عمر ؓ کا انداز مطالعہ بھی ہے۔ آس سورة عبس وتولیٰ پڑھ رہے تھے جب

وفاکھة وابا (31:80) ” تک پہنچے تو آپ نے فرمایا کہ ” فاکھہ “ تو ہمیں معلوم ہے لیکن “ ابا “ کیا ہے۔ اور اس کے بعد کہا ، اے عمر تیری جان کی قسم ، یہ محض تکلف ہوگا۔ اگر تم اللہ کی کتاب کے مفہوم میں سے کسی بات کو نہ سمجھو تو کیا قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ اور ایک دوسری روایت میں انہوں نے فرمایا کہ یہ سب کچھ ہم جانتے ہیں۔ اگر ہم ” اب “ کا مفہوم نہ جانیں تو کیا ہے ؟ اس کے بعد انہوں نے اس عصا کو توڑ دیا جو ان کے ہاتھ میں تھا ، اور ھپر کہا عمر یہ تو محض تکلف ہے عمر کی ماں کے بیٹے کیا ہوجائے گا اگر تو ” اب “ کے مفہوم کو نہ جانے۔ ” لوگو ! قرآن میں سے جو تم جانتے ہو ، اس پر عمل کرو اور جو نہیں جانتے اسے چھوڑ دو “۔ یہ ایسی بات ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام قرآن کریم کے سامنے کس قدر سہمے رہتے تھے اور کس قدر احترام کرتے تھے۔ جس طرح ایک بندہ اپنے مالک کے احکام کا احترام کرتا ہے اور فوراً تعملیل کرتا ہے۔ قرآن کریم کے کچھ کلمات اگر منعلق اور غامض ہوں تو بھی ان کا ایک مقصد ہوتا ہے۔

مطلع میں جن باتوں پر قسم اٹھائی گئی ہے اس کا جواب درج ذیل آیات ہے یعنی جو اب قسم کی ان الفاظ میں تصویر کشی کی گئی ہے۔

آیت 1{ وَالنّٰزِعٰتِ غَرْقًا۔ } ”قسم ہے ان فرشتوں کی جو غوطہ لگا کر کھینچتے ہیں۔“ نزع کے معنی سختی سے کھینچنے کے ہیں۔ یعنی ان فرشتوں کی قسم جو انسان کے وجود کی گہرائی میں اتر کر بڑی سختی اور شدت سے اس کی جان کو کھینچ نکالتے ہیں۔

فرشتے موت اور ستارے اس سے مراد فرشتے ہیں جو بعض لوگوں کی روحوں کو سختی سے گھسیٹتے ہیں اور بعض روحوں کو بہت آسانی سے نکالتے ہیں جیسے کسی کے بند کھول دیئے جائیں، کفار کی روحیں کھینچی جاتی ہیں پھر بند کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم میں ڈبو دیئے جاتے ہیں، یہ ذکر موت کے وقت کا ہے، بعض کہتے ہیں والنازعات غرقاً سے مراد موت ہے، بعض کہتے ہیں، دونوں پہلی آیتوں سے مطلب ستارے ہیں، بعض کہتے ہیں مراد سخت لڑائی کرنے والے ہیں، لیکن صحیح بات پہلی ہی ہے، یعنی روح نکالنے والے فرشتے، اسی طرح تیسری آیت کی نسبت بھی یہ تینوں تفسیریں مروی ہیں یعنی فرشتے موت اور ستارے۔ حضرت عطاء فرماتے ہیں مراد کشتیاں ہیں، اسی طرح سابقات کی تفسیر میں بھی تینوں قول ہیں، معنی یہ ہیں کہ ایمان اور تصدیق کی طرف آگے بڑھنے والے، عطا فرماتے ہیں مجاہدین کے گھوڑے مراد ہیں، پھر حکم اللہ کی تعمیل تدبیر سے کرنے والے اس سے مراد بھی فرشتے ہیں، جیسے حضرت علی وغیرہ کا قول ہے، آسمان سے زین کی طرف اللہ عز و جل کے حکم سے تدبیر کرتے ہیں، امام ابن جریر نے ان اقوال میں کوئی فیصلہ نہیں کیا، کانپنے والی کے کانپنے اور اس کے پیچھے آنے والی کے پیچھے آنے سے مراد دونوں نفخہ ہیں، پہلے نفخہ کا بیان اس آیت میں بھی ہے (یوم ترجف الارض والجبال) جس دن زمین اور پہاڑ کپکپا جائیں گے، دوسرے نفخہ کا بیان اس آیت میں ہے (وحملت الارض والجبال فدکتا دکتہ واحدۃ) اور زمین اور پہاڑ اٹھا لئے جائیں گے، پھر دونوں ایک ہی دفعہ چور چور کردیئے جائیں گے، مسند احمد کی حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کا پنے والی آئے گی اس کے پیچھے ہی پیچھے آنے والی ہوگی یعنی موت اپنے ساتھ اپنی آفتوں کو لئے ہوئے آئے گی، ایک شخص نے کہا حضور ﷺ اگر میں اپنے وظیفہ کا تمام وقت آپ پر درود پڑھنے میں گزاروں تو ؟ آپ نے فرمایا پھر تو اللہ تعالیٰ تجھے دنیا اور آخرت کے تمام غم و رنج سے بچا لے گا۔ ترمذی میں ہے کہ وہ تہائی رات گزرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوتے اور فرماتے لوگو اللہ کو یاد کرو کپکانے والی آرہی ہے پھر اس کے پیچھے ہی اور آرہی ہے، موت اپنے ساتھ کی تمام آفات کو لئے ہوئے چلی آرہی ہے، اس دن بہت سے دل ڈر رہے ہوں گے، ایسے لوگوں کی نگاہیں ذلت و حقارت کے ساتھ پست ہوں گی کیونکہ وہ اپنے گناہوں اور اللہ کے عذاب کا معائنہ کرچکے ہیں، مشرکین جو روز قیامت کے منکر تھے اور کہا کرتے تھے کہ کیا قبروں میں جانے کے بعد بھی ہم زندہ کئے جائیں گے ؟ وہ آج اپنی اس زندگی کو رسوائی اور برائی کے ساتھ آنکھوں سے دیکھ لیں گے، حافرۃ کہتے ہیں قبروں کو بھی، یعنی قبروں میں چلے جانے کے بعد جسم کے ریزے ریزے ہوجانے کے بعد، جسم اور ہڈیوں کے گل سڑ جانے اور کھوکھلی ہوجانے کے بعد بھی کیا ہم زندہ کئے جائیں گے ؟ پھر تو یہ دو بار کی زندگی خسارے اور گھاٹے والی ہوگی، کفار قریش کا یہ مقولہ تھا، حافرۃ کے معنی موت کے بعد کی زندگی کے بھی مروی ہیں اور جہنم کا نام بھی ہے اس کے نام بہت سے ہیں جیسے جحیم، سقر، جہنم، ہاویہ، حافرہ، لظی، حطمہ وغیرہ اب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس چیز کو یہ بڑی بھاری، ان ہونی اور ناممکن سمجھے ہوئے ہیں وہ ہماری قدرت کاملہ کے ماتحت ایک ادنیٰ سی بات ہے، ادھر ایک آواز دی ادھر سب زندہ ہو کر ایک میدان میں جمع ہوگئے، یعنی اللہ تعالیٰ حضرت اسرافیل کو حکم دے گا وہ صور پھونک دیں گے بس ان کے صور پھونکتے ہی تمام اگلے پچھلے جی اٹھیں گے اور اللہ کے سامنے ایک ہی میدان میں کھڑے ہوجائیں گے، جیسے اور جگہ ہے آیت (يَوْمَ يَدْعُوْكُمْ فَتَسْتَجِيْبُوْنَ بِحَمْدِهٖ وَتَظُنُّوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِيْلًا 52؀) 17۔ الإسراء :52) ، جس دن وہ تمہیں پکارے گا اور تم اس کی تعریفیں کرتے ہوئے اسے جواب دو گے اور جان لو گے کہ بہت ہی کم ٹھہرے اور جگہ فرمایا آیت (وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍۢ بِالْبَصَرِ 50؀) 54۔ القمر :50) ہمارا حکم بس ایسا ایک بارگی ہوجائے گا جیسے آنکھ کا جھپکنا اور جگہ ہے آیت (وَمَآ اَمْرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ هُوَ اَقْرَبُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ 77؀) 16۔ النحل :77) امر قیامت مثل آنکھ جھپکنے کے ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب، یہاں بھی یہی بیان ہو رہا ہے کہ صرف ایک آواز ہی کی دیر ہے اس دن پروردگار سخت غضبناک ہوگا، یہ آواز بھی غصہ کے ساتھ ہوگی، یہ آخری نفخہ ہے جس کے پھونکے جانے کے بعد ہی تمام لوگ زمین کے اوپر آجائیں گے، حالانکہ اس سے پہلے نیچے تھے، ساھرہ روئے زمین کو کہتے ہیں اور سیدھے صاف میدان کو بھی کہتے ہیں، ثوری کہتے ہیں مراد اس سے شام کی زمین ہے، عثمان بن ابو العالیہ کا قول ہے مراد بیت المقدس کی زمین ہے۔ وہب بن منبہ کہتے ہیں بیت المقدس کے ایک طرف یہ ایک پہاڑ ہے، قتادہ کہتے ہیں جہنم کو بھی ساھرہ کہتے ہیں۔ لیکن یہ اقوال سب کے سب غریب ہیں، ٹھیک قول پہلا ہی ہے یعنی روئے زمین کے سب لوگ زمین پر جمع ہوجائیں گے، جو سفید ہوگی اور بالکل صاف اور خالی ہوگی جیسے میدے کی روٹی ہوتی ہے اور جگہ ہے آیت (يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ 48۔) 14۔ ابراھیم :48) ، یعنی جس دن یہ زمین بدل کر دوسری زمین ہوگی اور آسمان بھی بدل جائیں گا اور سب مخلوق اللہ تعالیٰ واحد وقہار کے روبرو ہوجائے گی اور جگہ ہے لوگ تجھ سے پہاڑوں کے بارے پوچھتے ہیں تو کہہ دے کہ انہیں میرا رب ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا اور زمین بالکل ہموار میدان بن جائے گی جس میں کوئی موڑ توڑ ہوگا، نہ اونچی نیچی جگہ اور جگہ ہے ہم پہاڑوں کو چلنے والا کردیں گے اور زمین صاف ظاہر ہوجائے گی، غرض ایک بالکل نئی زمین ہوگی جس پر نہ کبھی کوئی خطا ہوئی نہ قتل و گناہ۔

آیت 1 - سورہ نازیہ: (والنازعات غرقا...) - اردو