سورۃ القیامہ: آیت 2 - ولا أقسم بالنفس اللوامة... - اردو

آیت 2 کی تفسیر, سورۃ القیامہ

وَلَآ أُقْسِمُ بِٱلنَّفْسِ ٱللَّوَّامَةِ

اردو ترجمہ

اور نہیں، میں قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wala oqsimu bialnnafsi allawwamati

آیت 2 کی تفسیر

آیت 2{ وَلَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَۃِ۔ } ”اور نہیں ! میں قسم کھاتا ہوں نفس لوامہ کی۔“ نفس ِلوامہ ّکے لغوی معنی ہیں ملامت کرنے والا نفس۔ اس سے مراد انسان کا وہ نفس ہے جسے ہم عرف عام میں ضمیر conscience کہتے ہیں۔ اس آیت میں نفس لوامہ یا انسانی ضمیر کو قیام قیامت کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ انسانی نفس لوامہ یا ضمیر ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی مسلمان ‘ کافر یا دہریہ انکار نہیں کرسکتا۔ ”میرا ضمیر مجھے ملامت کر رہا ہے“ یا ”My conscience is biting me“ جیسے جملے دنیا بھر کے انسانوں کے ہاں بولے اور سمجھے جاتے ہیں۔ آخر سوچنے کی بات ہے کہ اگر آپ کوئی غلط یا برا کام کریں تو اندر سے کوئی چیز کیوں بار بار آپ کے دل و دماغ میں چبھن پیدا کرتی ہے ؟ اور بعض اوقات اس چبھن کے تسلسل و تکرار کی وجہ سے آپ کی نیند تک کیوں اُڑ جاتی ہے ؟ اگر کوئی نیکی نیکی نہیں اور کوئی برائی برائی نہیں تو برے کام پر آپ کے اندر کی یہ چبھن یا خلش آخر آپ کو کیوں تنگ کرتی ہے ؟ چناچہ نیکی اور بدی کے الگ الگ وجود کا سب سے بڑا اور آفاقی سطح پر مسلمہ ثبوت انسانی نفس کی ملامت یا ضمیر کی خلش ہے۔ اور اگر یہ حقیقت تسلیم کرلی جائے کہ نیکی نیکی ہے اور بدی بدی ہے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ انسانوں کے نیک اور برے اعمال کا حتمی اور قطعی نتیجہ نکلنا بھی ناگزیر ہے۔ دوسری طرف اس حوالے سے زمینی حقائق سب کے سامنے ہیں۔ یعنی دنیا میں ایسا کوئی حتمی اور قطعی نتیجہ نہ تو نکلتا ہے اور نہ ہی ایسا ممکن ہے۔ اس دلیل کی روشنی میں اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ ہر انسان کو اس کے اچھے برے اعمال کی پوری پوری جزا یا سزا دینے کے لیے ایک دوسری دنیا یعنی آخرت کا وجود میں لایا جانا ناگزیر ہے۔ چناچہ قیامت ‘ آخرت یا بعث بعد الموت کی سب سے بڑی دلیل خود انسان کے اندر موجود ہے ‘ اور وہ ہے انسان کا نفس لوامہ یا اس کا ضمیر۔

آیت 2 - سورۃ القیامہ: (ولا أقسم بالنفس اللوامة...) - اردو