ینبؤ ................ واخر (75:13) ” اس روز انسان کو اس کا سب اگلا پچھلا کیا کرایا بتادیا جائے گا “۔ یعنی وہ اعمال جو اس نے اپنی وفات سے پہلے کہے اور وہ آثار جو اس نے مرنے کے بعد چھوڑے۔ خواہ اچھے آثار ہوں یا برے آثار ہوں کیونکہ انسان کے بعض اعمال ایسے ہوتے ہیں جن کے آثار باقی رہتے ہیں اور وہ اس کے اعمال میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔
پھر وہاں انسان جو عذرات بھی پیش کرے گا ، اس کا کوئی عذر بھی قبول نہ ہوگا کیونکہ وہ اپنے کیے کا ذمہ دار ہوگا۔ نفس انسانی کو اللہ نے خیروشر کی ہدایت کردی ہے۔ اگر نفس انسان کو خیر تک لے جائے تو اچھا انجام ہوگا اور اگر شر تک لے جائے تو اس کا محاسہ ہوگا۔
آیت 13{ یُـنَـبَّـؤُا الْاِنْسَانُ یَوْمَئِذٍم بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ۔ } ”جتلا دیا جائے گا انسان کو اس دن جو کچھ اس نے آگے بھیجا ہوگا اور جو کچھ پیچھے چھوڑا ہوگا۔“ تقدیم و تاخیر کے اس فلسفے کو یوں سمجھیں کہ ہمارے اچھے برے اعمال کے بدلے کا ایک حصہ تو ہماری زندگیوں میں ہی آخرت کے لیے ہمارے اعمال نامے میں جمع credit ہوتا رہتا ہے ‘ جبکہ ان اعمال کا ایک دوسراحصہ اچھے یا برے اثرات کی صورت میں اسی دنیا میں رہ جاتا ہے۔ یہ ”اثرات“ اس دنیا میں جب تک موجود رہتے ہیں ‘ ان کے بدلے میں بھی ثواب یا گناہ متعلقہ شخص کے اعمال نامے میں متواتر شامل ہوتا رہتا ہے۔ اس وضاحت کی روشنی میں اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ قیامت کے دن ہر شخص کو واضح طور پر بتادیا جائے گا کہ تمہاری یہ نیکیاں یا بدیاں تو وہ ہیں جو تم نے براہ راست خود اپنے لیے آگے بھیجی تھیں اور یہ ثواب یا وبال وہ ہے جو تمہارے اعمال کے پیچھے رہ جانے والے اثرات کی وجہ سے تمہارے حساب میں جمع ہوتا رہا۔