سورۃ القیامہ: آیت 1 - لا أقسم بيوم القيامة... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورۃ القیامہ

لَآ أُقْسِمُ بِيَوْمِ ٱلْقِيَٰمَةِ

اردو ترجمہ

نہیں، میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

La oqsimu biyawmi alqiyamati

آیت 1 کی تفسیر

قسم کی طرف اشارہ کرنا اور قسم نہ کھانا زیادہ اثر انگیز ہوتا ہے اور یہی اثر آفرینی یہاں مقصود ہے۔ اور اس انداز سے یہ مقصد اچھی طرح حاصل ہوتا ہے اور یہ انداز قرآن کریم میں بار بار دہرایا جاتا ہے اور اس کے بعد پھر حقیقت قیامت اور ملامت کرنے والے نفس کی حقیقت بیان کی جاتی ہے۔

قیامت کی حقیقت کے بارے میں اس سورت میں مکرر بات کی گئی ہے۔ لیکن نفس لوامہ کیا ہے ؟ اس کے بارے میں تفاسیر ماثورہ میں کئی اقوال مذکور ہیں۔ حضرت حسن بصری سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں : کہ تم جب بھی دیکھو ایک سچا آدمی ہمیشہ اپنے آپ کو ملامت کرے گا کہ میری بات کا کیا مطلب تھا ؟ میرے کھانے کا مقصد کیا ہے ؟ اور میری بات کا فائدہ کیا ہے ؟ رہا فاجر تو اپنی راہ پر آگے ہی بڑھتا ہے اور اپنے آپ کو کسی مرحلے پر بھی ملامت نہیں کرتا۔ اور حضرت حسن سے روایت ہے کہ زمین و آسمان کے باشندوں میں سے کوئی ایسا نہ ہوگا ، جو اپنے آپ کو قیامت کے دن ملامت نہ کرے گا۔ حضرت عکرمہ سے روایت ہے کہ تم خیر اور شر دونوں پر ایک دوسرے کو ملامت کرو گے کہ اے کاش کہ میں ایسا ایسا کرتا۔ اور یہی روایت سعید ابن جبیر سے ہے اور حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اس سے نفس لوم مراد ہے۔ اور ان ہی سے روایت ہے کہ وہ ملامت زدہ نفس جو کسی مذموم بات پر ملامت کیا جائے اور مجاہد سے روایت ہے کہ ہر نفس جو ان امور پر نادم ہو جو فوت ہوگئے ہوں اور اپنے آپ کو ملامت کرے۔ قتادہ کہتے ہیں لوامہ وہ نفس ہے ، جو فجور کا ارتکاب کرے۔ ابن جریر کہتے ہیں یہ سب اقوال قریب المعنی ہیں اور زیادہ قریب یہ مفہوم ہے کہ نفس لوامہ سے وہ نفس مراد ہے جو اپنے آپ کو خیر اور شر پر ملامت کرے اور جو خیر رہ جائے اس پر نادم ہو۔

ہمارے خیال میں حسن بصری کا قول زیادہ بہتر ہے کہ نفس لوامہ وہ ہے جو ملامت کرتا ہے کہ ” خدا کی قسم ایک مومن کو جب بھی تم دیکھو وہ اپنے آپ کو ملامت ہی کرتا ہے کہ میں نے جو بات کی اس کا کیا مقصد ہے ؟ میں نے جو کھایا اس کا کیا مقصد ہے ، اور میں نے جو کچھ سوچا اس کا کیا مقصد ہے۔ اور فاسق وفاجر بس آگے ہی بڑھتا جاتا ہے۔ اپنی کسی بات پر اپنے آپ کو ملامت کرتا “۔

تو نفس لوامہ وہ ہے جو بیدار ہے ، خدا کا خوف رکھنے والا ہے ، ہر وقت محتاط اور اپنا حساب رکھنے والا ، جو اپنے ماحول پر نظر رکھتا ہو ، وہ اپنی خواہشات پر نظر رکھتا ہو اور ہر وقت اس بات سے محتاط ہو کہ کہیں دھوکہ نہ کھاجائے۔ یہ نفس اللہ کے فاجرہ کے بالمقابل ہوتا ہے۔ نفس فاجرہ وہ ہوتا ہے جو آگے بڑھتا رہتا ہے۔ فسق وفجور میں گم ہوتا ہے ، جس کی صفات یہ ہوتی ہیں کہ وہ جھوٹ بولتا ہے ، روگردانی کرتا ہے ، اور نہایت غرور سے اپنے اہالی وموالی کی طرف رجوع کرتا ہے اور اپنا محاسبہ نہیں کرتا۔

لا اقسم ............................ اللوامة (75:1 ۔ 2) ”” میں قسم نہیں کھاتا ہوں قیامت کے دن کی ، اور میں قسم نہیں کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس کی “۔ یعنی وقوع قیامت پر قسم نہیں اٹھاتا ، یہاں اللہ نے قسم اٹھانے کی بھی نفی کی اور اس بات کو بھی حذف کردیا کہ کس بات پر قسم نہیں اٹھائی جارہی لیکن جس بات کی قسم اٹھائی جارہی ہے اس کا ذکر ایک دوسرے انداز میں کردیا گیا۔ گویا یہ نئی بات ہے اور قسم کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں۔

آیت 1{ لَآ اُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ۔ } ”نہیں ! میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی۔“ لَا یہاں پر معترضین کے دلائل کی نفی کے لیے آیا ہے۔ مطلب یہ کہ تمہیں تو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا ناممکن نظرآ رہا ہے اور اس بنیاد پر تم لوگ وقوع قیامت کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہو ‘ مگر مجھے اس کے وقوع کے بارے میں اس قدر یقین ہے کہ میں اس کی قسم کھارہا ہوں۔ موقف کے موکد اور موقر ّہونے کے اعتبار سے یہ آیت سورة التغابن کی اس آیت سے گہری مشابہت رکھتی ہے : { قُلْ بَلٰی وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَـبَّـؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْط } آیت 7 ”اے نبی ﷺ ! آپ کہہ دیجیے : کیوں نہیں ! مجھے میرے رب کی قسم ہے ‘ تم لازماً اٹھائے جائو گے ‘ پھر تمہیں لازماً جتا دیا جائے گا ان اعمال کے بارے میں جو تم نے کیے ہیں“۔ سورة التغابن کی اس آیت کا اسلوب اور انداز بہت پرزور ہے ‘ لیکن دیکھا جائے تو اس میں خارجی دلیل اور منطق کوئی بھی نہیں۔ البتہ ایک شخص اپنے موقف کے حق میں اپنی شخصیت اور اپنے یقین کو دلیل کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ لیکن یہ شخصیت وہ ہے جس کے قول و کردار کی سچائی کو اپنے پرائے سب نے مثالی مانا ہے اور یہی اس قول کے سچا ہونے کی سب سے قوی دلیل ہے۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کے معاملے میں بھی وقوع قیامت کے دعوے کی دلیل محمد رسول اللہ ﷺ کی شخصیت اور آپ ﷺ کی سیرت ہے۔

ہم سب اپنے اعمال کا خود آئینہ ہیں یہ کئی دفعہ بیان ہوچکا ہے کہ جس چیز پر قسم کھائی جائے اگر وہ رد کرنے کی چیز ہو تو قسم سے پہلے لا کا کلمہ نفی کی تائید کے لئے لانا جائز ہوتا ہے یہاں قیامت کے ہونے پر اور جاہلوں کے اس قول کی تردید پر قیامت نہ ہوگی قسم کھائی جا رہی ہے تو فرماتا ہے قسم ہے قیامت کے دن کی اور قسم ہے ملامت کرنے والی جان کی، حضرت حسن تو فرماتے ہیں قیامت کی قسم ہے اور ملامت کرنے والے نفس کی قسم نہیں ہے، حضرت قتادہ فرماتے ہیں دونوں کی قسم ہے، حسن اور اعرج کی قرأت آیت (لَآ اُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ ۙ) 75۔ القیامة :1) ہے اس سے بھی حضرت حسن کے قول کی تائید ہوتی ہے اس لئے کہ ان کے نزدیک پہلے کی قسم ہے اور دوسرے کی نہیں، لیکن صحیح قول یہی ہے کہ دونوں کی قسم کھائی ہے جیسے کہ حضرت قتادہ کا فرمان ہے، ابن عباس اور سعید بن جبیر سے بھی یہی مروی ہے اور امام ابن جریر کا مختار قول بھی یہی ہے۔ یوم قیامت کو تو ہر شخص جانتا ہی ہے، نفس لوامہ کی تفسیر میں حضرت حسن بصری ؒ سے مروی ہے کہ اس سے مراد مومن کا نفس ہے وہ ہر وقت اپنے تئیں ملامت ہی کرتا رہتا ہے کہ یوں کیوں کہہ دیا ؟ یہ کیوں کھالیا ؟ یہ خیال دل میں کیوں آیا ؟ ہاں فاسق فاجر غافل ہوتا ہے اسے کیا پڑی جو اپنے نفس کو روکے، یہ بھی مروی ہے کہ زمین و آسمان کی تمام مخلوق قیامت کے دن اپنے تئیں ملامت کرے گی، خیر والے خیر کی کمی پر اور شر والے شر کے سرزد ہونے پر، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد مذموم نفس ہے جو نافرمان ہو، فوت شدہ پر نادم ہونے والا اور اس پر ملامت کرنے والا، امام ابن جریر فرماتے ہیں یہ سب اقوال قریب قریب ہیں مطلب یہ ہے کہ وہ نفس والا ہے جو نیکی کی کمی پر برائی کے ہوجانے پر اپنے نفس کو ملامت کرتا ہے اور فوت شدہ پر ندامت کرتا ہے۔ پھر فرماتا ہے کیا انسان یہ سوچے ہوئے ہے کہ ہم قیامت کے دن اس کی ہڈیوں کے جمع کرنے پر قادر نہ ہوں گے، یہ تو نہایت غلط خیال ہے ہم اسے متفرق جگہ سے جمع کر کے دوبارہ کھڑا کریں گے اور اس کی بالشت بالشت بنادیں گے۔ ابن عباس وغیرہ فرماتے ہیں یعنی ہم قادر ہیں کہ اسے اونٹ یا گھوڑے کے تلوے کی طرح بنادیں، امام ابن جریر فرماتے ہیں یعنی دنیا میں بھی اگر ہم چاہتے اسے ایسا کردیتے، آیت کے لفظوں سے تو ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ (قادرین) حال ہے (نجمع) سے یعنی کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع نہ کریں گے ہاں ہاں ہم عنقریب جمع کریں گے درآنحالیکہ ہمیں ان کے جمع کرنے کی قدرت ہے بلکہ اگر ہم چاہیں تو جتنا یہ تھا اس سے بھی کچھ زیادہ بنا کر اسے اٹھائیں اس کی انگلیوں کے سرے تک برابر کر کے پیدا کریں۔ ابن قتیبہ اور زجاج کے قول کے یہی معنی ہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ انسان اپنے آگے فسق و فجور کرنا چاہتا ہے یعنی قدم بہ قدم بڑھ رہا ہے، امیدیں باندھے ہوئے ہے، کہتا جاتا ہے کہ گناہ کر تو لوں توبہ بھی ہوجائے گی قیامت کے دن سے جو اس کے آگے ہے کفر کرتا ہے، وہ گویا اپنے سر پر سوار ہو کر آگے بڑھ رہا ہے، ہر وقت یہی پایا جاتا ہے کہ ایک ایک قدم اپنے نفس کو اللہ کی معصیت کی طرف بڑھاتا جاتا ہے مگر جن پر رب کا رحم ہے، اکثر سلف کا قول اس آیت کی تفسیر میں یہی ہے کہ گناہوں میں جلدی کرتا ہے اور توبہ میں تاخیر کرتا ہے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جو یوم حساب کا منکر ہے، ابن زید بھی یہی کہتے ہیں اور یہی زیادہ ظاہر مراد ہے کیونکہ اس کے بعد ہی ہے کہ وہ پوچھتا ہے قیامت کب ہوگی، اس کا یہ سوال بھی بطور انکار کے ہے یہ جانتا ہے کہ قیامت کا آنا محال ہے، جیسے اور جگہ ہے آیت (وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ 48؀) 10۔ یونس :48) ، کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو بتادو کہ قیامت کب آئے گی ؟ ان سے کہہ دے کہ اس کا ایک دن مقرر ہے جس سے نہ تم ایک ساعت آگے بڑھ سکو گے نہ پیچھے ہٹ سکو گے۔ یہاں بھی فرماتا ہے کہ جب آنکھیں پتھرا جائیں گی، جیسے اور جگہ ہے آیت (لَا يَرْتَدُّ اِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ ۚ وَاَفْــِٕدَتُهُمْ هَوَاۗءٌ 43؀ۭ) 14۔ ابراھیم :43) ، یعنی پلکیں جھپکیں گی نہیں بلکہ رعب و دہشت خوف و وحشت کے مارے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ادھر ادھر دیکھتے رہیں گے، برق کی دوسری قرأت برق بھی ہے، معنی قریب قریب ہیں اور چاند کی روشنی بالکل جاتی رہے گی اور سورج چاند جمع کردیئے جائیں گے یعنی دونوں کو بےنور کر کے لپیٹ لیا جائے گا، جیسے فرمایا آیت (اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ ۽) 81۔ التکوير :1) حضرت ابن مسعود کی قرأت میں (وجمیع بین الشمس والقمر) ہے، انسان جب یہ پریشانی شدت ہول گھبراہٹ اور انتظام عالم کی یہ خطرناک حالت دیکھے گا تو بھاگا جائے گا اور کہے گا کہ جائے پناہ یعنی بھاگنے کی جگہ کہاں ہے ؟ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ملے گا کہ کوئی پناہ نہیں رب کے سامنے اور اس کے پاس ٹھہرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں، جیسے اور جگہ ہے آیت (مَا لَكُمْ مِّنْ مَّلْجَاٍ يَّوْمَىِٕذٍ وَّمَا لَكُمْ مِّنْ نَّكِيْرٍ 47؀) 42۔ الشوری :47) یعنی آج نہ تو کوئی جائے پناہ ہے نہ ایسی جگہ کہ وہاں جا کر تم انجان اور بےپہچان بن جاؤ، آج ہر شخص کو اس کے اگلے پچھلے نئے پرانے چھوٹے بڑے اعمال سے مطلع کیا جائے گا، جیسے فرمان ہے آیت (وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا 49؀) 18۔ الكهف :49) جو کیا تھا، موجود پالیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہ کرے گا۔ انسان اپنے آپ کو بخوبی جانتا ہے اپنے اعمال کا خود آئینہ ہے گو انکار کرے اور عذر معذرت پیش کرتا پھرے، جیسے فرمان ہے آیت (اِقْرَاْ كِتٰبَكَ ۭ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيْبًا 14ۭ) 17۔ الإسراء :14) اپنا نامہ اعمال خود پڑھ لے اور اپنے تئیں آپ ہی جانچ لے، اس کے کان آنکھ، پاؤں اور دیگر اعضاء ہی اس پر شہادت دینے کافی ہیں، لیکن افسوس کہ یہ دوسروں کے عیبوں اور نقصانوں کو دیکھتا ہے اور اپنے کیڑے چننے سے غافل ہے، کہا جاتا ہے کہ توراۃ میں لکھا ہوا ہے اے ابن آدم تو دوسروں کی آنکھوں کا تو تنکا دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کا شہتیر بھی تجھے دکھائی نہیں دیتا ؟ قیامت کے دن چاہے انسان فضول بہانے بنائے گا اور جھوٹی دلیلیں دے گا بیکار عذر پیش کرے گا مگر ایک بھی قبول نہ کیا جائے گا۔ اس آیت کے معنی یہ بھی کئے گئے ہیں کہ وہ پردے ڈالے۔ اہل یمن پردے کو عذر کہتے ہیں، لیکن صحیح معنی اوپر والے ہیں جیسے اور جگہ ہے کہ کوئی معقول عذر نہ پا کر اپنے شرک کا سر سے انکار ہی کردیں گے کہ اللہ کی قسم ہم مشرک تھے ہی نہیں اور جگہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے بھی قسمیں کھا کھا کر سچا ہونا چاہیں گے جیسے دنیا میں تمہارے سامنے ان کی حالت ہے لیکن اللہ پر تو ان کا جھوٹ ظاہر ہے چاہے کتنا ہی وہ اپنی تئیں کچھ بھی سمجھتے رہیں، غرض عذر معذرت انہیں قیامت کے دن کچھ کار آمد نہ ہوگا، جیسے اور جگہ فرماتا ہے آیت (يَوْمَ لَا يَنْفَعُ الظّٰلِمِيْنَ مَعْذِرَتُهُمْ وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوْۗءُ الدَّارِ 52؀) 40۔ غافر :52) ظالموں کو ان کی معذرت کچھ کام نہ آئے گی یہ تو اپنے شکر کے ساتھ اپنی تمام بداعمالیوں کا بھی انکار کردیں گے لیکن بےسود ہوگا۔

آیت 1 - سورۃ القیامہ: (لا أقسم بيوم القيامة...) - اردو